بھارتی جمہوریت کے مثبت اور منفی پہلو
صنعتی کلچر اگرچہ اپنی اصل میں ایک استحصالی کلچر ہی ہے ۔۔۔
جمہوریت کے حوالے سے سب سے بڑے ملک بھارت میں عام انتخابات کا مرحلہ مکمل ہو گیا 543 کے ایوان میں بی جے پی نے 282 نشستیں حاصل کر لیں اور بی جے پی کے نیشنل ڈیموکریٹک اتحاد نے مجموعی طور پر 337 نشستیں حاصل کیں جب کہ حکومت بنانے کے لیے صرف 277 نشستوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس تناظر میں بی جے پی اگرچہ بغیر کسی کی حمایت کے حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے لیکن چونکہ یہ انتخابات این ڈی اے کے پلیٹ فارم سے لڑے ہیں لہٰذا منطقی طور پر نئی حکومت NDA کی حکومت ہو گی جس کے وزیر اعظم نریندر مودی ہوں گے۔
کانگریس کی دس سالہ حکومت بھی مخلوط حکومت تھی اور اگرچہ مخلوط حکومتیں کمزور اور انتشار کا شکار رہتی ہیں لیکن کانگریس نے اس مخلوط حکومت کے ساتھ بھارت پر دس سال یعنی دو ٹرم حکومت کی۔ کانگریس نے اپنے دس سالہ دور حکومت میں عوام کے لیے کیا کیا اس کا اندازہ عوام کے اس فیصلے سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان انتخابات میں کانگریس کو صرف 44 نشستیں حاصل ہو سکیں کانگریس کو بھارت میں عوام نے اسی طرح رد کر دیا جس طرح پاکستان میں عوام نے پیپلز پارٹی کو رد کر دیا تھا۔
بھارت میں جمہوریت کی جڑیں بہت مضبوط کہلاتی ہیں۔ تقسیم کے بعد 66 سال سے بھارت میں ہر پانچ سال بعد بڑی پابندی کے ساتھ الیکشن ہوتے ہیں اور عوام اپنا حق رائے دہی استعمال کر کے کسی ایک پارٹی کو یا کسی اتحاد کو حکومت بنانے کا اعزاز بخشتے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ دنیا کی اس سب سے بڑی اور مستحکم جمہوریت نے عوام کو کچھ نہیں دیا۔
عوام آج بھی اپنے مسائل کے حل کے لیے مختلف جماعتوں کی طرف دیکھ رہے ہیں بلکہ اپنے مسائل کے حل کی خواہش عوام کو ایسے راستے تک لے آئی ہے جہاں مسائل کا حل تو دور کی بات ہے خود بھارت کی سالمیت اور یکجہتی کا مسئلہ درپیش ہو گیا ہے۔ پسماندہ ملکوں میں جمہوریت ڈلیور کیوں نہیں کر پا رہی ہے، یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کی جڑیں پسماندہ ملکوں میں نہیں بلکہ اس نظام میں پائی جاتی ہیں جو ان ملکوں میں رائج ہے۔ مسائل کے حل نہ ہونے میں بلاشبہ حکمرانوں کی کرپشن اور خراب گورننس کا بھی بڑا دخل ہوتا ہے لیکن جو بات نظروں سے اوجھل رہتی ہے وہ ہے ہمارا سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام۔
ہم اس استحصالی طبقاتی نظام کی کرم فرمائیوں کا جائزہ تو بعد میں لیں گے پہلے ہم بھارتی جمہوریت کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر ایک نظر ڈالیں گے۔ پاکستان بھی ایک جمہوری ملک کہلاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں جو نام نہاد جمہوری نظام رائج ہے اسے ہم ماضی کے شاہی نظام کا ایک نیا ایڈیشن کہہ سکتے ہیں۔ پاکستان میں غریب طبقات کے کسی فرد کا وزارت عظمیٰ کے عہدے تک پہنچنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا حتیٰ کہ مڈل اور لوئر مڈل کلاس چند مثالوں کے علاوہ قانون ساز اداروں تک جانے کی سکت بھی نہیں رکھتی اس تناظر میں اگر ہم بھارتی جمہوریت پر نظر ڈالتے ہیں تو اس کے بعض منفی پہلوؤں کے ساتھ کچھ مثبت پہلو بھی سامنے آتے ہیں۔
بھارت میں ویسے تو ماضی میں بھی مڈل اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے لوگ صدارت اور وزارت عظمیٰ کے عہدوں پر فائز رہے ہیں لیکن 2014ء کے الیکشن میں تو اس حوالے سے کمال ہو گیا ہے۔ نریندر مودی کا تعلق ایک ایسے انتہائی غریب گھرانے سے ہے جو چائے بیچ کر اپنا گزارہ کرتا تھا اور نریندر مودی اس چائے خانے میں ''باہر والے'' کا کام انجام دیتا تھا۔ غربت کے اس پاتال میں اپنی زندگی کا بڑا حصہ گزارنے والے شخص کو بھارتی جمہوریت نے وزارت عظمیٰ کے سنگھاسن تک پہنچا دیا جس کی سب سے بڑی وجہ بھارت کے دور ابتدا کے سیاسی رہنماؤں کی دور بینی تھی کہ انھوں نے زمینی اشرافیہ یعنی جاگیردارانہ نظام کو ختم کر کے سیاست پر اس طبقے کی اجارہ داری ختم کر دی جس کا منطقی نتیجہ صنعتی کلچر کے فروغ کی شکل میں نکلا۔
صنعتی کلچر اگرچہ اپنی اصل میں ایک استحصالی کلچر ہی ہے اور اس کلچر میں معاشی ناانصافیاں تو ناگزیر ہوتی ہیں لیکن سیاسی اجارہ داری کمزور پڑ جاتی ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سرمایہ دار طبقہ کمزور پڑ جاتا ہے بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دار طبقہ عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکامی کا طوق اپنے گلے میں ڈال لینے کے بجائے مڈل کلاس کے گلے میں ڈلوا دیتا ہے اور خود اپنے طبقاتی مفادات کے ساتھ پس منظر میں محفوظ رہتا ہے اور مڈل کلاس کو اپنا روبوٹ بنا کر عوام کے سامنے ذلیل و خوار کرتا ہے۔ایک چائے کی دکان پر باہر والے کا کام انجام دینے والے نے ملک کا وزیر اعظم بن کر اگرچہ سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے لیکن اسے آگے لانے والے اور آیندہ اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے والے وہی لوگ ہیں جن کا ملکی معیشت پر قبضہ ہے۔
منموہن سنگھ کا تعلق بھی کسی بڑے جاگیردار یا سرمایہ دار گھرانے سے نہیں تھا لیکن دس سال تک ملک پر حکومت کرنے کے باوجود عوام کے مسائل حل نہ کر سکا کیونکہ جو طبقات عوام کو مسائل کی بھٹی میں جھونک کر اربوں کھربوں کی قومی دولت لوٹتے ہیں وہ کسی حکمران کو یہ اجازت ہی نہیں دیتے کہ وہ عوام کو بھوک، افلاس، غربت، ناداری، بے کاری، بیماری کے عذابوں سے نجات دلائے۔ کیونکہ ان کی امارت کے محل غربت، بھوک، افلاس، جہل اور بے کاری پر ہی تعمیر ہوتے ہیں اگر معاشی انصاف کی کوئی صورت نکلتی ہے تو ارتکاز زر کے راستے بند ہو جاتے ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کے کرتا دھرتا کسی قیمت پر ارتکاز زر سے دست بردار نہیں ہو سکتے۔
بھارتی جمہوریت کا یہ مثبت پہلو ہے کہ ایک چائے فروش لڑکا آج بھارت کی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر براجمان ہے اور بھارت کے قانون ساز اداروں میں بھی مودی کے طبقاتی بھائی بڑی تعداد میں موجود ہیں لیکن یہ محترم لوگ 66 سال سے عوام کے مسائل حل کرنے یا کم کرنے کے بجائے ان میں اضافہ ہی کرتے جا رہے ہیں اس کی بڑی وجہ بھارت میں نافذ وہ معاشی نظام ہے جو طبقات کو جنم دیتا ہے اور طبقاتی تقسیم کو گہرا کرتا رہتا ہے۔ منموہن سنگھ ہو یا نریندر مودی یہ سب اس استحصالی نظام کے روبوٹ ہیں جن کا کام اس نظام کی جمہوریت کے نام پر حفاظت کرنا ہے۔ نریندر مودی کا وزیر اعظم بننا بھارتی جمہوریت کا ایک مثبت پہلو ہے لیکن مودی کی خارجہ پالیسی وہی ہو گی جو طاقت کا توازن برقرار رکھنے پر مبنی ہوگی۔
سامراجی ملکوں نے پسماندہ ملکوں کی بالواسطہ لوٹ مار کے جو طریقے ایجاد کر رکھے ہیں ان میں ''طاقت کے توازن'' کا فلسفہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے جس پر ان غریب ملکوں کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ دفاع کے نام پر ترقی یافتہ ملکوں سے اسلحے کی خریداری پر صرف ہو جاتا ہے۔سامراجی ملکوں کا بہت بڑا سرمایہ ہتھیاروں کی صنعت میں لگا ہوا ہے جس سے ترقی یافتہ ملک کھربوں روپے کما رہے ہیں اور ہتھیاروں کی فروخت کے لیے جنگوں اور علاقائی تنازعات کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ بھارتی جمہوریت کا منفی پہلو یہ ہے کہ وہی چائے والا جو بھارت کا وزیر اعظم بن گیا ہے وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران پڑوسی ملکوں اور قومی اقلیتوں کے خلاف زہر اگل کر علاقائی تنازعات اور فرقہ پرستی کو ہوا دیتا رہا۔
مذہب و ملت وغیرہ کے نام پر انسانوں کی تقسیم سامراجی ملکوں کی ناگزیر ضرورت ہوتی ہے اور نریندر مودی ان دونوں حوالے سے زہر اگل کر اس تقسیم اور تضاد کو گہرا کرتا رہا۔ بھارت ایک سیکولر ملک رہا اور بھارت کا دانشور طبقہ کہتا ہے کہ 66 سال سے بھارت کی یکجہتی کا سب سے بڑا وسیلہ سیکولرزم ہے۔ نریندر مودی اور اس کی پارٹی کو بھارت کی مذہبی انتہا پسند پارٹی مانا جاتا ہے اور مودی جیسے مسلمانوں کے قتل عام کے مجرم کو بی جے پی نے وزیر اعظم بنا کر بھارت میں مذہبی انتہا پسندی کے کلچر کو پھلنے پھولنے کا جو موقع فراہم کیا ہے وہ داخلی طور پر سیکولرزم کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ بنا ہوا ہے تو خارجی طور پر محاذ آرائی اور جنگوں کے امکانات میں اضافہ کر رہا ہے۔
یہ بھارتی جمہوریت انتہائی خطرناک منفی پہلو ہے۔بعض حلقوں میں یہ خیال پایا جاتاہے کہ حکومت سنبھالنے کے بعد بی جے پی شاید اعتدال کی راہ اختیار کر لے۔ اگر ایسا ہوا بھی تو بی جی پی نے بھارتی عوام کو مذہبی انتہا پسندی کا جو راستہ دکھایا ہے اور اسی حوالے سے عوام کے ووٹ حاصل کیے ہیں یہ نظریاتی نقصان جو نریندر مودی اور اس کی پارٹی نے عوام کو پہنچایا ہے اس کا ازالہ کیسے ہو گا؟ بھارت کی لبرل جماعتوں سے مایوس ہونے والے 55 کروڑ عوام اور لگ بھگ اتنے ہی ان کے لواحقین جس مایوسی کے ساتھ بی جے پی کی پناہ میں آئے ہیں ان کا معاشی اور نظریاتی مستقبل کیا ہو گا؟ بلاشبہ بھارت دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے لیکن جمہوریت کے مثبت پہلوؤں سے منفی پہلو اتنے زیادہ اور اتنے خطرناک ہیں کہ بھارت کا مستقبل روشن کم، تاریک زیادہ نظر آ رہا ہے۔