حسن عسکری فلمی دنیا کے باصلاحیت ہدایت کار
ان کی خدمات کو ہماری فلم انڈسٹری کبھی فراموش نہیں کر سکتی
تقسیم ہند کے بعد جب لاہور کی اجڑی ہوئی فلم انڈسٹری دوبارہ سے اپنے پیروں پرکھڑی ہوئی تو جن فلم سازوں و ہدایت کاروں نے اس فلم انڈسٹری کو سہارا دیا، ان میں جو قابل ذکر شخصیات رہی ہیں۔
ان میں فلم ساز و ہدایت کار انور کمال پاشا، خلیل قیصر، ریاض شاہد، جعفر شاہ بخاری، حسن طارق، سیف الدین سیف، ایس۔سلیمان، شباب کیرانوی اور نذرالاسلام کا نام شامل رہا ہے اور جنھوں نے لاہور فلم انڈسٹری کے دامن کو مزید مالا مال کیا تھا۔
ان میں ایک ہدایت کار حسن عسکری بھی تھے جو بہت ہی باصلاحیت ہدایت کار تھے جن کا گزشتہ دنوں لاہور میں انتقال ہوگیا، ان کی خدمات کو ہماری فلم انڈسٹری کبھی فراموش نہیں کر سکتی وہ ایک پروگریسیو سوچ کے مالک تھے لیکن ان کو مناسب مواقعے میسر نہ آسکے تھے۔ میری ان سے بہت زیادہ ملاقاتیں تو نہیں ہوئی تھیں مگر میں جب بھی ان سے ملا ان کی گفتگو نے بڑا متاثر کیا تھا، ان کے اندر بہت کچھ کرنے کی لگن تھی۔
اس سے پہلے کہ میں ان کی فلمی زندگی کی طرف آؤں، ان کی ابتدائی زندگی پر روشنی ڈالتا چلوں۔ حسن عسکری نے پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم۔اے کی ڈگری حاصل کی تھی۔ ان کے والدین کی خواہش تھی کہ وہ ایک ڈاکٹر بنیں ان کا گھرانہ بڑا پڑھا لکھا گھرانہ تھا، 1916 میں ان کے دادا لاہورکے ڈپٹی کمشنر بھی رہے تھے اور پھر ان کے والد بھی پولیس کے ایک بڑے افسرکے طور پر اپنی خدمات ادا کرتے رہے تھے۔
اسی لیے ان کے والد چاہتے تھے کہ وہ کسی طرح ڈاکٹر بن کر اپنا کردار ادا کریں، مگر حسن عسکری کو نوعمری ہی سے فلمیں دیکھنے کا شوق تھا اور ڈاکٹرکے بجائے ان میں فلم ڈائریکٹر بننے کی خواہش کی تڑپ موجود تھی وہ فلمی دنیا میں کچھ نیا کرنے کی لگن رکھتے تھے۔
انھوں نے کالج کے زمانے میں کالج میگزین کے ایڈیٹر کی حیثیت سے اپنی سوچ کو آگے بڑھایا تھا اور جب یہ فلمی دنیا کی طرف آئے تو ان کی جن فلم سازوں سے ملاقاتیں رہیں وہ پنجابی فلموں سے وابستہ تھے۔ ان میں فلم ساز و ہدایت کارکیفی بھی شامل تھے ،کیفی کی وجہ ہی سے وہ پنجابی فلموں کی طرف آئے۔
ان کی ابتدائی فلموں میں خون پسینہ اور پھر فلم وحشی جٹ کی ڈائریکشن دی۔ فلم وحشی جٹ وہ پہلی پنجابی فلم تھی، جس میں گنڈاسہ استعمال کیا گیا تھا یہ فلم نامور شاعر احمد ندیم قاسمی کے ایک مشہور افسانہ '' گنڈاسہ'' سے ماخوذ تھی۔ اردو ادب میں بھی احمد ندیم قاسمی کے اس افسانے کو بڑی شہرت ملی تھی، وحشی جٹ اداکار سلطان راہی کی زندگی کی بھی ایک یادگار فلم تھی، اس فلم کے فنکاروں میں سلطان راہی کے علاوہ آسیہ، افضال احمد، علی اعجاز، اقبال حسن اور الیاس کاشمیری کے نام شامل تھے۔
اس فلم کی کامیابی نے پھر مولاجٹ جیسی ہٹ فلم کی راہ دکھائی تھی۔ ہدایت کار حسن عسکری نے بہ طور اسسٹنٹ ڈائریکٹر فلم ساز و اداکار کیفی کی پروڈکشن سے آغاز کیا تھا اور جن فلموں میں یہ ہدایت کاری کے شعبے سے وابستہ رہے۔
ان فلموں میں چن مکھناں اور سجن پیارا یہ دو ایسی فلمیں تھیں جو باکس آفس پر سپرہٹ فلمیں تھیں بہ حیثیت ہدایت کار حسن عسکری نے اپنی فنی صلاحیتوں کا لوہا ان پنجابی فلموں سے تو منوا لیا تھا مگر انھیں اردو فلموں کی طرف آنے کا موقعہ نہیں مل رہا تھا انھی دنوں ایک بار یہ لاہور کے انارکلی کے علاقے میں پیدل جا رہے تھے انھیں ایک فٹ پاتھ پر بے شمار کتابوں کا ڈھیر نظر آیا۔
یہ کتابوں کے شوقین تو پہلے ہی سے تھے انھوں نے یہ سوچ کر کہ یہاں شاید ان کتابوں کے ڈھیر میں کوئی کام کی کتاب بھی مل جائے انھوں نے چند کتابیں اٹھا کے دیکھیں انھی کتابوں میں ایک انگلش ناول ان کے ہاتھ میں آگیا یہ مشہور انگلش رائٹر وکٹر ہیوگو کا ناول تھا پھر انھی کتابوں میں ان کو اس ناول کا اردو ترجمہ بھی مل گیا، یہ اردو ترجمہ بدنصیب کے نام سے کیا گیا تھا جو نامور شاعر فیض احمد فیض نے کیا تھا کوڑے کباڑ کے ڈھیر میں یہاں کتابوں کی صورت میں چمک دار ہیرے بھی پڑے ہوئے تھے۔
(جاری ہے)
ان میں فلم ساز و ہدایت کار انور کمال پاشا، خلیل قیصر، ریاض شاہد، جعفر شاہ بخاری، حسن طارق، سیف الدین سیف، ایس۔سلیمان، شباب کیرانوی اور نذرالاسلام کا نام شامل رہا ہے اور جنھوں نے لاہور فلم انڈسٹری کے دامن کو مزید مالا مال کیا تھا۔
ان میں ایک ہدایت کار حسن عسکری بھی تھے جو بہت ہی باصلاحیت ہدایت کار تھے جن کا گزشتہ دنوں لاہور میں انتقال ہوگیا، ان کی خدمات کو ہماری فلم انڈسٹری کبھی فراموش نہیں کر سکتی وہ ایک پروگریسیو سوچ کے مالک تھے لیکن ان کو مناسب مواقعے میسر نہ آسکے تھے۔ میری ان سے بہت زیادہ ملاقاتیں تو نہیں ہوئی تھیں مگر میں جب بھی ان سے ملا ان کی گفتگو نے بڑا متاثر کیا تھا، ان کے اندر بہت کچھ کرنے کی لگن تھی۔
اس سے پہلے کہ میں ان کی فلمی زندگی کی طرف آؤں، ان کی ابتدائی زندگی پر روشنی ڈالتا چلوں۔ حسن عسکری نے پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم۔اے کی ڈگری حاصل کی تھی۔ ان کے والدین کی خواہش تھی کہ وہ ایک ڈاکٹر بنیں ان کا گھرانہ بڑا پڑھا لکھا گھرانہ تھا، 1916 میں ان کے دادا لاہورکے ڈپٹی کمشنر بھی رہے تھے اور پھر ان کے والد بھی پولیس کے ایک بڑے افسرکے طور پر اپنی خدمات ادا کرتے رہے تھے۔
اسی لیے ان کے والد چاہتے تھے کہ وہ کسی طرح ڈاکٹر بن کر اپنا کردار ادا کریں، مگر حسن عسکری کو نوعمری ہی سے فلمیں دیکھنے کا شوق تھا اور ڈاکٹرکے بجائے ان میں فلم ڈائریکٹر بننے کی خواہش کی تڑپ موجود تھی وہ فلمی دنیا میں کچھ نیا کرنے کی لگن رکھتے تھے۔
انھوں نے کالج کے زمانے میں کالج میگزین کے ایڈیٹر کی حیثیت سے اپنی سوچ کو آگے بڑھایا تھا اور جب یہ فلمی دنیا کی طرف آئے تو ان کی جن فلم سازوں سے ملاقاتیں رہیں وہ پنجابی فلموں سے وابستہ تھے۔ ان میں فلم ساز و ہدایت کارکیفی بھی شامل تھے ،کیفی کی وجہ ہی سے وہ پنجابی فلموں کی طرف آئے۔
ان کی ابتدائی فلموں میں خون پسینہ اور پھر فلم وحشی جٹ کی ڈائریکشن دی۔ فلم وحشی جٹ وہ پہلی پنجابی فلم تھی، جس میں گنڈاسہ استعمال کیا گیا تھا یہ فلم نامور شاعر احمد ندیم قاسمی کے ایک مشہور افسانہ '' گنڈاسہ'' سے ماخوذ تھی۔ اردو ادب میں بھی احمد ندیم قاسمی کے اس افسانے کو بڑی شہرت ملی تھی، وحشی جٹ اداکار سلطان راہی کی زندگی کی بھی ایک یادگار فلم تھی، اس فلم کے فنکاروں میں سلطان راہی کے علاوہ آسیہ، افضال احمد، علی اعجاز، اقبال حسن اور الیاس کاشمیری کے نام شامل تھے۔
اس فلم کی کامیابی نے پھر مولاجٹ جیسی ہٹ فلم کی راہ دکھائی تھی۔ ہدایت کار حسن عسکری نے بہ طور اسسٹنٹ ڈائریکٹر فلم ساز و اداکار کیفی کی پروڈکشن سے آغاز کیا تھا اور جن فلموں میں یہ ہدایت کاری کے شعبے سے وابستہ رہے۔
ان فلموں میں چن مکھناں اور سجن پیارا یہ دو ایسی فلمیں تھیں جو باکس آفس پر سپرہٹ فلمیں تھیں بہ حیثیت ہدایت کار حسن عسکری نے اپنی فنی صلاحیتوں کا لوہا ان پنجابی فلموں سے تو منوا لیا تھا مگر انھیں اردو فلموں کی طرف آنے کا موقعہ نہیں مل رہا تھا انھی دنوں ایک بار یہ لاہور کے انارکلی کے علاقے میں پیدل جا رہے تھے انھیں ایک فٹ پاتھ پر بے شمار کتابوں کا ڈھیر نظر آیا۔
یہ کتابوں کے شوقین تو پہلے ہی سے تھے انھوں نے یہ سوچ کر کہ یہاں شاید ان کتابوں کے ڈھیر میں کوئی کام کی کتاب بھی مل جائے انھوں نے چند کتابیں اٹھا کے دیکھیں انھی کتابوں میں ایک انگلش ناول ان کے ہاتھ میں آگیا یہ مشہور انگلش رائٹر وکٹر ہیوگو کا ناول تھا پھر انھی کتابوں میں ان کو اس ناول کا اردو ترجمہ بھی مل گیا، یہ اردو ترجمہ بدنصیب کے نام سے کیا گیا تھا جو نامور شاعر فیض احمد فیض نے کیا تھا کوڑے کباڑ کے ڈھیر میں یہاں کتابوں کی صورت میں چمک دار ہیرے بھی پڑے ہوئے تھے۔
(جاری ہے)