بچے ہمارا مستقبل انہیں فیصلہ سازی میں شامل کرنا ہوگا
چائلڈ پروٹیکشن پالیسی اور کلائمیٹ ایکشن پلان بنا کر آگے بڑھنا ہوگا
اقوام متحدہ کی جانب سے 1954ء میں پہلی مرتبہ بچوں کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا گیا جس کے بعد سے ہر سال 20 نومبر کو دنیا بھر میں 'بچوں کا عالمی دن' منایا جاتا ہے۔
اس دن کا مقصد بچوں کی تعلیم، صحت، ذہنی تربیت، تحفظ سمیت دیگر بنیادی انسانی حقوق یقینی بنانے کیلئے شعور اجاگر کرنا، اپنی کارکردگی کا جائزہ لینا ہے اور اس کی روشنی میں آئندہ کیلئے مزید اقدامات کرنا ہے تاکہ دنیا کا بہتر مستقبل یقینی بنایا جاسکے۔
رواں برس بچوں کے عالمی دن کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، بچوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر شعیب اکبر
(سیکرٹری برائے انسانی حقوق پنجاب )
بچے صرف سٹیک ہولڈر نہیں بلکہ 'رائٹس ہولڈر' ہیں، وہ اپنے حقوق رکھتے ہیں جن کا تحفظ یقینی بنانا ریاست اور معاشرے کی ذمہ داری ہے۔
میرے نزدیک انسانی حقوق میں سب سے اہم بچوں کے حقوق ہیں، وہ انسان بھی ہیں اور انہوں نے معاشرے کا کارآمد شہری بھی بننا ہے لہٰذا ان کیلئے خصوصی حقوق اور خصوصی اقدامات ضروری ہیں۔ اگر تعلیم، صحت اور WASH پر خرچ کیا جائے تو اس کا فائدہ بھی بچوں کو ہوگا۔ موسمیاتی تبدیلی، سیلاب، قدرتی آفات وغیرہ سے بچے بری طرح متاثر ہوتے ہیں، اگر حکومت غیر متحرک رہے تواس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔
1989ء میں اقوام متحدہ کا چارٹر برائے حقوق اطفال آیا تو پاکستان ان ممالک میں شامل تھا جنہوں نے سب سے پہلے اس کی توثیق کی۔ یہ وہ چارٹر ہے جس کی توثیق دنیا بھر میں تیزی سے ہوئی اور کسی کو اس کی افادیت سے انکار نہیں ہے۔
پنجاب میں گزشتہ 10 برسوں میں بچوں کے حوالے سے بہترین قانون سازی ہوئی ہے۔ گھریلو ملازمت، جبری مشقت، بھٹہ مزدوری سمیت بیشتر قوانین بنائے گئے اور بعض میں ترامیم بھی کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ بجٹ بھی خرچ کیا گیا، اس میں اضافہ بھی کیا گیا جس سے خاطر خواہ فائدہ ہوا ہے۔ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو صرف صوبائی ہیڈ کوارٹر میں تھا، اب اس کا دائرہ کار بڑھایا جا رہا ہے، آئندہ 2برسوں میں یہ ہر ضلع میں ہوگا، اس کیلئے کافی بجٹ درکار ہے، اسے بنانے میں بھی وقت لگتا ہے،ا س کی وجہ یہ ہے اس میں بہت ساری سہولیات ایک ساتھ یقینی بنانی ہیں جس پر تیزی سے کام جاری ہے۔
تعلیم اور صحت کا تعلق معاش سے ہے، ہمیں لوگوں کی معاشی حالت بہتر بنانی ہے۔ جنوبی پنجاب کے سکولوں میں بچیو ں کو وظیفہ دیا جاتا ہے، اسی طرح خصوصی بچوں کو بھی وظائف دیے جاتے ہیں۔ ہمیں طلبہ کو انٹرپرینیورشپ کی تعلیم دینی ہے تاکہ وہ اپنا روزگار کما سکیں۔ ہمیں اپنے بچوں کو جدید تقاضوں کے مطابق تیار کرنا ہے، انہیں صرف معیاری تعلیم ہی نہیں دینی بلکہ کریٹیکل تھنکنگ کی طرف راغب کرنا ہے۔
حکومت اکیلئے کام نہیں کر سکتی، بچوں کے حقوق و تحفظ یقینی بنانے کیلئے ریاست، ادارے، خاندان، والدین، معاشرہ سمیت ہر فرد کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ قومی اسمبلی میں پہلی مرتبہ پبلک ہیئرنگ ہوئی، اس میں خواتین، خواجہ سراء سمیت دیگر طبقات کے نمائندوں کو بلایا گیا۔چائلڈ پروٹیکشن پالیسی ہو یا کوئی اور اہم قانون سازی، اس میں تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت یقینی بنائی جاتی ہے۔
کوئی بھی قانون جن کے لیے بنایا جاتا ہے، اگر ان کی رائے اس میں شامل نہیں ہوگی تو وہ موثر نہیں ہوگا۔ موسمیاتی تبدیلی ہو یا بچوں کے حقوق، مسائل دور کرنے کیلئے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے آگاہی انتہائی اہم ہے۔ نصاب نظرثانی کمیٹی میں ماہرین و سٹیک ہولڈرز موجود ہیں،ا ن میںاقلیتوں کی نمائندگی بھی ہے، سب کی رائے لی جاتی ہے اور اس کے مطابق نصاب کو اپ گریڈ یا تبدیل کیا جاتا ہے۔ بچوں کے حقوق کے حوالے سے نصاب کو اپ گریڈ کیا جا رہا ہے، اس میں بنیادی انسانی حقوق بھی شامل کیے جا رہے ہیں۔
افتخار مبارک
(نمائندہ سول سوسائٹی)
دنیا بھر میں 20 نومبر کوہر سال بچوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ رواں برس اس عالمی دن کا موضوع ہے 'ہر بچے کیلئے ہر حق'۔ یہ انتہائی اہم موضوع ہے اور میرے نزدیک اس سے کوئی بھی انکاری نہیں ہوگا کہ بچوں کو ان کے تمام حقوق دیے جائیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے 1988ء میں بچوں کے حقوق کا عالمی چارٹر منظور کیا گیا۔
پاکستان کا شمار ان بیس ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے سب سے پہلے اس کی توثیق کی۔ پاکستان نے 1990ء میںاس کی توثیق کرکے دنیا کو یہ ثابت کردیا کہ پاکستان بچوں کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے سنجیدہ ہے اور کام بھی کرنا چاہتا ہے۔
یہ معاہد ہ ریاست اور اقوام متحدہ کے درمیان ہے جس کے تحت ریاست یہ گارنٹی دیتی ہے کہ بچوں کے حقوق یقینی بنانے کیلئے وہ قانونی، مالی، انتظامی سمیت ہر ممکن اقدامات کرے گی۔بچوں کے حقوق کی بات کریں تو پاکستان میں اس معاہدے کے بعد سے بہتری آئی ہے۔ گزشتہ 10 سے 12 برسوں کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں وفاقی و صوبائی سطح پر بہترین قانون سازی ہوئی ہے۔ 2014ء میں مفت اور لازمی تعلیم کا قانون منظور کیا گیا۔
2016 ء میں چائلڈ لیبر کی روک تھام کیلئے دو قوانین بنائے گئے ۔ 2016ء میں بچوں پر جنسی تشدد، پورنو گرافی و دیگر جرائم کے حوالے سے کریمینل قوانین میں ترامیم کی گئیں جبکہ 2019ء میں ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ میں بچوں کی گھریلو ملازمت کی حوصلہ شکنی کی گئی اور سزائیں بھی رکھی گئی۔
یہاں یہ بات توجہ طلب ہے کہ پنجاب میں قانون سازی کے بعد رولز آف بزنس نہ بنانے کا رجحان فروغ پا گیا ہے جو نہیں ہونا چاہیے۔ اگر قوانین کے رولز بنا کر صحیح معنوں میں عملدرآمد کیا جائے تو اس کا خاطر خواہ فائدہ ہوگیا۔ بچوں کے حوالے سے ایک اور بات قابل تحسین ہے کہ 2017ء میں پہلی مرتبہ وفاقی سطح پر بچوں کے حقوق کا قومی کمیشن قائم کیا گیا جو ظاہر کرتا ہے کہ ریاست بچوں کے حقوق اور تحفظ یقینی بنانے میں سنجیدہ ہے۔
2004ء میں پنجاب میں لاوارث اور نظر انداز بچوں کا ایکٹ بنا مگر 20 برسوں میں اس کے رولز نہیں بن سکے۔ پارلیمانی سٹیک ہولڈرز تو قانون بنا کر اپنا کام کر دیتے ہیں مگر انتظامی عہدیداران کا رولز آف بزنس نہ بنانے کا رویہ بچوں کیلئے مسائل پیدا کر رہا ہے، میری تمام سٹیک ہولڈرز سے اپیل ہے کہ اس معاملے پر سنجیدگی سے کام کریں، محنت ضائع نہ ہونے دیں۔
بچوں کے حقوق میں تعلیم، صحت، تحفظ سمیت بیسیوں معاملات آتے ہیں جنہیں یقینی بنانے کیلئے بجٹ درکار ہوتا ہے۔ پنجاب میں چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو موجود ہے مگر اس کا دائرہ کار محدود ہے۔ بچوں کے حقوق کا تحفظ کسی ایک ادارے کا کام نہیں ہے۔ ا س میں پولیس، میڈیکو لیگل، صحت، عدلیہ، سوشل ویلفیئر، ایجوکیشن سمیت درجنوں اداروں کا کام بنتا ہے لہٰذا اداروں کے درمیان روابط اور انفارمیشن شیئرنگ کومثالی بنانا چاہیے۔
اگر سب مل کر کام کریں گے تو وسائل بھی بچیں گے اور بچوں کو صحیح معنوں میں تحفظ بھی ملے گا۔ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں جینڈر بجٹنگ گائیڈ لائنز موجود ہیں جن سے کافی فائدہ ہوا، اگر اسی طرز پر چائلڈ پروٹیکشن بجٹنگ گائیڈ لائنز، قوانین کے رولز آف بزنس اور عملدرآمد کا میکنزم بنایا جائے تو بہت فائدہ ہوگا۔
بچوں کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے اگر بجٹ نہیں رکھا جائے گا تو ہماری نیک خواہشات اور جذبات پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ گزشتہ دس برسوں میں جدید قانون سازی تو ہوئی لیکن بدقسمتی سے ابھی تک چائلڈ پروٹیکشن پالیسی نہیں بنائی جاسکی۔
ہمیں یہی بتایا جاتا ہے کہ منظوری کیلئے کابینہ کو بھجوائی گئی ہے، مطالبہ ہے کہ اسے جلد از جلد منظور کرکے رولز آف بزنس بنائے جائیں۔ جس طرح قومی ایکشن پلان فار چائلڈ رائٹس بناگیا تھا، اسی طرح صوبائی سطح پر بھی جامع ایکشن پلان بنایا جائے تاکہ بچوں کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔
راشدہ قریشی
(نمائندہ سول سوسائٹی)
ماحولیاتی تبدیلی عالمی مسئلہ ہے جس سے ہمارا مستقبل 'بچے' شدید متاثر ہورہے ہیں۔ گزشتہ برس آنے والے سیلاب نے بھی بچوں کو بری طرح متاثر کیا۔
ہم نے سیلاب کے بعد ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے علاقوں میں کام کیا اور معلوم ہوا کہ وہاں سب سے زیادہ بری حالت بچوں کی تھی، وہ تو خود اپنا خیال نہیں رکھ سکتے، اپنی حفاظت نہیں کر سکتے تھے۔ یہ پانی برف کے پگھلنے سے آیا جو موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔ اب سموگ بچوں کیلئے ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے، بچے بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔
افسوس ہے کہ بڑوں کے کرموں کی سزا بچے بھگت رہے ہیں لہٰذا ہمیں کلائمیٹ ایکشن کی طرف جانا چاہیے اور مستقبل محفوظ بنانا چاہیے وگرنہ ہماری آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔افسوس ہے کہ ملک میں کلائیمیٹ ایکشن پالیسی موجود نہیں، ریاست کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔
ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے اور اس کے نقصانات سے بچنے کیلئے معاشرے میں آگاہی کی ضرورت ہے۔بچوں کو نیچر کی حفاظت، پانی کی قدر، ری سائیکلنگ جیسے رویوں کی تربیت کی جائے گی، اس سے معاشرے میں مثبت رویوں کو فروغ ملے گا اور سب کو فائدہ ہوگا۔
سید حسن علی شاہ
(بچوں کا نمائندہ)
میں گورنمنٹ سکول کا طالب علم اور ساتویں جماعت میں پڑھتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے فورمز میں ہماری شرکت ایک اہم موقع ہے کہ اپنی آواز ارباب اختیار تک پہنچا سکیں۔ بچوں کے حقوق کے عالمی چارٹرکا آرٹیکل 12 بچوں کو اظہار رائے کی مکمل آزادی دیتا ہے اور فریقین کو پابند کرتا ہے کہ ان کی عمر اور دماغی پختگی کے حساب سے ان کی رائے کو لازمی اہمیت دی جائے۔
میرے نزدیک اگر بچوں سے متعلق معاملات میں ان سے رائے لی جائے تو ان میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے، جو ان کے مستقبل کے لیے بہترین ہے لہٰذا والدین اور اساتذہ کو اس طرف توجہ دینی چاہیے، بچوں کو اپنی رائے کا اظہار کرنے دیں۔
ان میں اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے کے رویے کو فروغ دیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومتی سطح پر بھی بچوں سے متعلق پالیسی یا قانون سازی میں ان کی رائے کو لازمی شامل کیا جائے۔
اداروں کو پابند بنایا جائے کہ وہ نہ صرف بچوں کی شمولیت یقینی بنائیں بلکہ ان کی رائے کا احترام بھی کیا جائے۔ میرے گھر میں بچوں سے رائے لی جاتی ہے، میں اپنے دوستوں میں بھی اس رویے کو فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہوں کہ وہ اپنے حق کیلئے بات کریں، بات کرنا برا نہیں ہے، اس میں تضحیک یا بدتمیزی کا پہلو نہیں ہونا چاہیے۔
عبیہہ بتول
(بچوں کی نمائندہ )
کم عمر بچوں سے گھریلو ملازمت کروائی جا رہی ہے۔ شاپنگ مالز، ریسٹورنٹ، پارکس وغیرہ میں خاندان کے ساتھ لازمی طور پر ملازم بچے ہوتے ہیں۔
یہ بچے معصوم ہیں، ان پر بدترین تشدد کیا جاتا ہے، تشدد سے اموات کے بیسیوں کیسز بھی سامنے آئے ہیں جو افسوسناک ہے۔ ہمیں بچوں کو ان کا حق دینے کیلئے گھریلو بچہ مزدوری کی حوصلہ شکنی کرنی جائے، یہ ناانصافی ہے لہٰذا ہمیں اس ظلم کے خلاف بھرپور آواز اٹھانی ہے اور ایکشن بھی لینا ہے۔ اس کیلئے سب سے اہم یہ ہے کہ بچوں سے متعلق قوانین میں موجود سقم کو دور کیا جائے، رولز بنائے جائیں اور ان پر صحیح معنوں میں عملدرآمد کیا جائے۔ معاشرے کو بھی چاہیے کہ اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کریں، جہاں بھی بچوں پر تشدد دیکھیں، گھریلو ملازمت ہو یا کوئی اور کام، فوری طور پر چائلڈ پروٹیکشن ہیلپ لائن 1121پر اطلاع کریں۔
اس دن کا مقصد بچوں کی تعلیم، صحت، ذہنی تربیت، تحفظ سمیت دیگر بنیادی انسانی حقوق یقینی بنانے کیلئے شعور اجاگر کرنا، اپنی کارکردگی کا جائزہ لینا ہے اور اس کی روشنی میں آئندہ کیلئے مزید اقدامات کرنا ہے تاکہ دنیا کا بہتر مستقبل یقینی بنایا جاسکے۔
رواں برس بچوں کے عالمی دن کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، بچوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر شعیب اکبر
(سیکرٹری برائے انسانی حقوق پنجاب )
بچے صرف سٹیک ہولڈر نہیں بلکہ 'رائٹس ہولڈر' ہیں، وہ اپنے حقوق رکھتے ہیں جن کا تحفظ یقینی بنانا ریاست اور معاشرے کی ذمہ داری ہے۔
میرے نزدیک انسانی حقوق میں سب سے اہم بچوں کے حقوق ہیں، وہ انسان بھی ہیں اور انہوں نے معاشرے کا کارآمد شہری بھی بننا ہے لہٰذا ان کیلئے خصوصی حقوق اور خصوصی اقدامات ضروری ہیں۔ اگر تعلیم، صحت اور WASH پر خرچ کیا جائے تو اس کا فائدہ بھی بچوں کو ہوگا۔ موسمیاتی تبدیلی، سیلاب، قدرتی آفات وغیرہ سے بچے بری طرح متاثر ہوتے ہیں، اگر حکومت غیر متحرک رہے تواس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔
1989ء میں اقوام متحدہ کا چارٹر برائے حقوق اطفال آیا تو پاکستان ان ممالک میں شامل تھا جنہوں نے سب سے پہلے اس کی توثیق کی۔ یہ وہ چارٹر ہے جس کی توثیق دنیا بھر میں تیزی سے ہوئی اور کسی کو اس کی افادیت سے انکار نہیں ہے۔
پنجاب میں گزشتہ 10 برسوں میں بچوں کے حوالے سے بہترین قانون سازی ہوئی ہے۔ گھریلو ملازمت، جبری مشقت، بھٹہ مزدوری سمیت بیشتر قوانین بنائے گئے اور بعض میں ترامیم بھی کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ بجٹ بھی خرچ کیا گیا، اس میں اضافہ بھی کیا گیا جس سے خاطر خواہ فائدہ ہوا ہے۔ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو صرف صوبائی ہیڈ کوارٹر میں تھا، اب اس کا دائرہ کار بڑھایا جا رہا ہے، آئندہ 2برسوں میں یہ ہر ضلع میں ہوگا، اس کیلئے کافی بجٹ درکار ہے، اسے بنانے میں بھی وقت لگتا ہے،ا س کی وجہ یہ ہے اس میں بہت ساری سہولیات ایک ساتھ یقینی بنانی ہیں جس پر تیزی سے کام جاری ہے۔
تعلیم اور صحت کا تعلق معاش سے ہے، ہمیں لوگوں کی معاشی حالت بہتر بنانی ہے۔ جنوبی پنجاب کے سکولوں میں بچیو ں کو وظیفہ دیا جاتا ہے، اسی طرح خصوصی بچوں کو بھی وظائف دیے جاتے ہیں۔ ہمیں طلبہ کو انٹرپرینیورشپ کی تعلیم دینی ہے تاکہ وہ اپنا روزگار کما سکیں۔ ہمیں اپنے بچوں کو جدید تقاضوں کے مطابق تیار کرنا ہے، انہیں صرف معیاری تعلیم ہی نہیں دینی بلکہ کریٹیکل تھنکنگ کی طرف راغب کرنا ہے۔
حکومت اکیلئے کام نہیں کر سکتی، بچوں کے حقوق و تحفظ یقینی بنانے کیلئے ریاست، ادارے، خاندان، والدین، معاشرہ سمیت ہر فرد کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ قومی اسمبلی میں پہلی مرتبہ پبلک ہیئرنگ ہوئی، اس میں خواتین، خواجہ سراء سمیت دیگر طبقات کے نمائندوں کو بلایا گیا۔چائلڈ پروٹیکشن پالیسی ہو یا کوئی اور اہم قانون سازی، اس میں تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت یقینی بنائی جاتی ہے۔
کوئی بھی قانون جن کے لیے بنایا جاتا ہے، اگر ان کی رائے اس میں شامل نہیں ہوگی تو وہ موثر نہیں ہوگا۔ موسمیاتی تبدیلی ہو یا بچوں کے حقوق، مسائل دور کرنے کیلئے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ اس حوالے سے آگاہی انتہائی اہم ہے۔ نصاب نظرثانی کمیٹی میں ماہرین و سٹیک ہولڈرز موجود ہیں،ا ن میںاقلیتوں کی نمائندگی بھی ہے، سب کی رائے لی جاتی ہے اور اس کے مطابق نصاب کو اپ گریڈ یا تبدیل کیا جاتا ہے۔ بچوں کے حقوق کے حوالے سے نصاب کو اپ گریڈ کیا جا رہا ہے، اس میں بنیادی انسانی حقوق بھی شامل کیے جا رہے ہیں۔
افتخار مبارک
(نمائندہ سول سوسائٹی)
دنیا بھر میں 20 نومبر کوہر سال بچوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ رواں برس اس عالمی دن کا موضوع ہے 'ہر بچے کیلئے ہر حق'۔ یہ انتہائی اہم موضوع ہے اور میرے نزدیک اس سے کوئی بھی انکاری نہیں ہوگا کہ بچوں کو ان کے تمام حقوق دیے جائیں۔ اقوام متحدہ کی جانب سے 1988ء میں بچوں کے حقوق کا عالمی چارٹر منظور کیا گیا۔
پاکستان کا شمار ان بیس ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے سب سے پہلے اس کی توثیق کی۔ پاکستان نے 1990ء میںاس کی توثیق کرکے دنیا کو یہ ثابت کردیا کہ پاکستان بچوں کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے سنجیدہ ہے اور کام بھی کرنا چاہتا ہے۔
یہ معاہد ہ ریاست اور اقوام متحدہ کے درمیان ہے جس کے تحت ریاست یہ گارنٹی دیتی ہے کہ بچوں کے حقوق یقینی بنانے کیلئے وہ قانونی، مالی، انتظامی سمیت ہر ممکن اقدامات کرے گی۔بچوں کے حقوق کی بات کریں تو پاکستان میں اس معاہدے کے بعد سے بہتری آئی ہے۔ گزشتہ 10 سے 12 برسوں کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان میں وفاقی و صوبائی سطح پر بہترین قانون سازی ہوئی ہے۔ 2014ء میں مفت اور لازمی تعلیم کا قانون منظور کیا گیا۔
2016 ء میں چائلڈ لیبر کی روک تھام کیلئے دو قوانین بنائے گئے ۔ 2016ء میں بچوں پر جنسی تشدد، پورنو گرافی و دیگر جرائم کے حوالے سے کریمینل قوانین میں ترامیم کی گئیں جبکہ 2019ء میں ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ میں بچوں کی گھریلو ملازمت کی حوصلہ شکنی کی گئی اور سزائیں بھی رکھی گئی۔
یہاں یہ بات توجہ طلب ہے کہ پنجاب میں قانون سازی کے بعد رولز آف بزنس نہ بنانے کا رجحان فروغ پا گیا ہے جو نہیں ہونا چاہیے۔ اگر قوانین کے رولز بنا کر صحیح معنوں میں عملدرآمد کیا جائے تو اس کا خاطر خواہ فائدہ ہوگیا۔ بچوں کے حوالے سے ایک اور بات قابل تحسین ہے کہ 2017ء میں پہلی مرتبہ وفاقی سطح پر بچوں کے حقوق کا قومی کمیشن قائم کیا گیا جو ظاہر کرتا ہے کہ ریاست بچوں کے حقوق اور تحفظ یقینی بنانے میں سنجیدہ ہے۔
2004ء میں پنجاب میں لاوارث اور نظر انداز بچوں کا ایکٹ بنا مگر 20 برسوں میں اس کے رولز نہیں بن سکے۔ پارلیمانی سٹیک ہولڈرز تو قانون بنا کر اپنا کام کر دیتے ہیں مگر انتظامی عہدیداران کا رولز آف بزنس نہ بنانے کا رویہ بچوں کیلئے مسائل پیدا کر رہا ہے، میری تمام سٹیک ہولڈرز سے اپیل ہے کہ اس معاملے پر سنجیدگی سے کام کریں، محنت ضائع نہ ہونے دیں۔
بچوں کے حقوق میں تعلیم، صحت، تحفظ سمیت بیسیوں معاملات آتے ہیں جنہیں یقینی بنانے کیلئے بجٹ درکار ہوتا ہے۔ پنجاب میں چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو موجود ہے مگر اس کا دائرہ کار محدود ہے۔ بچوں کے حقوق کا تحفظ کسی ایک ادارے کا کام نہیں ہے۔ ا س میں پولیس، میڈیکو لیگل، صحت، عدلیہ، سوشل ویلفیئر، ایجوکیشن سمیت درجنوں اداروں کا کام بنتا ہے لہٰذا اداروں کے درمیان روابط اور انفارمیشن شیئرنگ کومثالی بنانا چاہیے۔
اگر سب مل کر کام کریں گے تو وسائل بھی بچیں گے اور بچوں کو صحیح معنوں میں تحفظ بھی ملے گا۔ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں جینڈر بجٹنگ گائیڈ لائنز موجود ہیں جن سے کافی فائدہ ہوا، اگر اسی طرز پر چائلڈ پروٹیکشن بجٹنگ گائیڈ لائنز، قوانین کے رولز آف بزنس اور عملدرآمد کا میکنزم بنایا جائے تو بہت فائدہ ہوگا۔
بچوں کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے اگر بجٹ نہیں رکھا جائے گا تو ہماری نیک خواہشات اور جذبات پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ گزشتہ دس برسوں میں جدید قانون سازی تو ہوئی لیکن بدقسمتی سے ابھی تک چائلڈ پروٹیکشن پالیسی نہیں بنائی جاسکی۔
ہمیں یہی بتایا جاتا ہے کہ منظوری کیلئے کابینہ کو بھجوائی گئی ہے، مطالبہ ہے کہ اسے جلد از جلد منظور کرکے رولز آف بزنس بنائے جائیں۔ جس طرح قومی ایکشن پلان فار چائلڈ رائٹس بناگیا تھا، اسی طرح صوبائی سطح پر بھی جامع ایکشن پلان بنایا جائے تاکہ بچوں کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔
راشدہ قریشی
(نمائندہ سول سوسائٹی)
ماحولیاتی تبدیلی عالمی مسئلہ ہے جس سے ہمارا مستقبل 'بچے' شدید متاثر ہورہے ہیں۔ گزشتہ برس آنے والے سیلاب نے بھی بچوں کو بری طرح متاثر کیا۔
ہم نے سیلاب کے بعد ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے علاقوں میں کام کیا اور معلوم ہوا کہ وہاں سب سے زیادہ بری حالت بچوں کی تھی، وہ تو خود اپنا خیال نہیں رکھ سکتے، اپنی حفاظت نہیں کر سکتے تھے۔ یہ پانی برف کے پگھلنے سے آیا جو موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ ہے۔ اب سموگ بچوں کیلئے ایک بڑا خطرہ بن چکی ہے، بچے بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔
افسوس ہے کہ بڑوں کے کرموں کی سزا بچے بھگت رہے ہیں لہٰذا ہمیں کلائمیٹ ایکشن کی طرف جانا چاہیے اور مستقبل محفوظ بنانا چاہیے وگرنہ ہماری آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی۔افسوس ہے کہ ملک میں کلائیمیٹ ایکشن پالیسی موجود نہیں، ریاست کو اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔
ماحولیاتی تبدیلی کو روکنے اور اس کے نقصانات سے بچنے کیلئے معاشرے میں آگاہی کی ضرورت ہے۔بچوں کو نیچر کی حفاظت، پانی کی قدر، ری سائیکلنگ جیسے رویوں کی تربیت کی جائے گی، اس سے معاشرے میں مثبت رویوں کو فروغ ملے گا اور سب کو فائدہ ہوگا۔
سید حسن علی شاہ
(بچوں کا نمائندہ)
میں گورنمنٹ سکول کا طالب علم اور ساتویں جماعت میں پڑھتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے فورمز میں ہماری شرکت ایک اہم موقع ہے کہ اپنی آواز ارباب اختیار تک پہنچا سکیں۔ بچوں کے حقوق کے عالمی چارٹرکا آرٹیکل 12 بچوں کو اظہار رائے کی مکمل آزادی دیتا ہے اور فریقین کو پابند کرتا ہے کہ ان کی عمر اور دماغی پختگی کے حساب سے ان کی رائے کو لازمی اہمیت دی جائے۔
میرے نزدیک اگر بچوں سے متعلق معاملات میں ان سے رائے لی جائے تو ان میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے، جو ان کے مستقبل کے لیے بہترین ہے لہٰذا والدین اور اساتذہ کو اس طرف توجہ دینی چاہیے، بچوں کو اپنی رائے کا اظہار کرنے دیں۔
ان میں اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے کے رویے کو فروغ دیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومتی سطح پر بھی بچوں سے متعلق پالیسی یا قانون سازی میں ان کی رائے کو لازمی شامل کیا جائے۔
اداروں کو پابند بنایا جائے کہ وہ نہ صرف بچوں کی شمولیت یقینی بنائیں بلکہ ان کی رائے کا احترام بھی کیا جائے۔ میرے گھر میں بچوں سے رائے لی جاتی ہے، میں اپنے دوستوں میں بھی اس رویے کو فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہوں کہ وہ اپنے حق کیلئے بات کریں، بات کرنا برا نہیں ہے، اس میں تضحیک یا بدتمیزی کا پہلو نہیں ہونا چاہیے۔
عبیہہ بتول
(بچوں کی نمائندہ )
کم عمر بچوں سے گھریلو ملازمت کروائی جا رہی ہے۔ شاپنگ مالز، ریسٹورنٹ، پارکس وغیرہ میں خاندان کے ساتھ لازمی طور پر ملازم بچے ہوتے ہیں۔
یہ بچے معصوم ہیں، ان پر بدترین تشدد کیا جاتا ہے، تشدد سے اموات کے بیسیوں کیسز بھی سامنے آئے ہیں جو افسوسناک ہے۔ ہمیں بچوں کو ان کا حق دینے کیلئے گھریلو بچہ مزدوری کی حوصلہ شکنی کرنی جائے، یہ ناانصافی ہے لہٰذا ہمیں اس ظلم کے خلاف بھرپور آواز اٹھانی ہے اور ایکشن بھی لینا ہے۔ اس کیلئے سب سے اہم یہ ہے کہ بچوں سے متعلق قوانین میں موجود سقم کو دور کیا جائے، رولز بنائے جائیں اور ان پر صحیح معنوں میں عملدرآمد کیا جائے۔ معاشرے کو بھی چاہیے کہ اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کریں، جہاں بھی بچوں پر تشدد دیکھیں، گھریلو ملازمت ہو یا کوئی اور کام، فوری طور پر چائلڈ پروٹیکشن ہیلپ لائن 1121پر اطلاع کریں۔