میری دنیا کے غریبوں کو جگادو

ہماری مجموعی پیداوار کے تین بڑے سیکٹر ہیں، ایک صنعتی، دوسرا سروس اور تیسرا زراعت ۔۔۔

Jvqazi@gmail.com

ہنوز شرح نمو کا چرچہ ہے بہت۔ بجٹ کا زمانہ ہے، کون سا ہدف پایا، کون سا نہیں پایا، سارے پیمانے، سب منصوبے کھل کے بیاں ہوں گے۔ ماہ جون کی 3 تاریخ کو پھر نئے مالی سال کا بجٹ پیش ہونا ہے۔ رواں مالی سال کے لیے جو مجموعی پیداوار کا شرح نمو جو پچھلے جون کو پیش کیے گئے بجٹ میں تھا، وہ 4.4 فیصد تھا۔ سب نے تعجب کا اظہار کیا، خود آئی ایم ایف نے بھی کہا کہ یہ حقیقت سے بہت دور ہے اور یہ کہ یہ ہدف حاصل نہیں ہوسکتا۔

پچھلے مالی سال مجموعی پیداوار 3.7 فیصد رہی۔ پاکستان کی مجموعی پیداوار کئی برسوں سے چار فیصد سے نہ بڑھ سکی۔ مگر اس حکومت نے رواں مالی سال کے دس مہینوں میں 4.1 فیصد حاصل کرلی۔ یوں کہیے کہ جمود ٹوٹنے کے آثار نمایاں ہوئے۔ اسحاق ڈار صاحب کو پچھلے ہفتے پھر ایوان کو یہ بتانے کی جرأت بھی ہوئی کہ اگلے سے اگلے سال یعنی 2015-2016 کو شرح نمو 7.2 فیصد ہوجائے گی۔ اگر اس طرح ہے تو خدا ان کی حکومت کی عمر دراز کرے۔

ہاں مگر ہم جیسے ممالک کا بھی اپنا المیہ ہے، کرپشن میں ہمارا ثانی شاید کوئی دنیا میں ہو۔ الفاظوں، ہندسوں، تناسبوں، تخمینوں و پیمانوں سے جس طرح ہم کھیلتے ہیں، کوئی اور نہیں کھیل سکتا، ہم وہ ہیں جو دو اور دو پانچ بنادیں۔ مجموعی پیداوار پیمانہ تو ہے کہ کتنے اثاثے ایک سال میں قوم نے محنت و مشقت سے سرمائے سے پیدا کیے، مگر کیا وہ اپنا اثر نچلی سطح تک لاسکا یا پھر یہ کہ غریب، غریب تر ہوئے اور امیر، امیر تر؟ اس سوال کا جواب آپ کو شرح نمو نہیں دے سکتا۔ اس لیے اس حقیقت کو میزان کی آنکھ سے دیکھنے کے لیے 1930 کے بعد جب جان مینارڈکینس نے GDP (مجموعی پیداوار کا Accounting پیمانہ تخلیق دیا تھا، ٹھیک اس کے ساٹھ سال بعد یعنی 1990 میں بین الاقوامی شہرت یافتہ پاکستان کے معیشت دان ڈاکٹر محبوب الحق نے ہندوستان نوبل انعام یافتہ معاشیات دان امرتا سین سے مل کے HDI کا پیمانہ تخلیق دیا۔

(Human Development Indicator) یعنی انسانی ترقی کا پیمانہ۔ ڈاکٹر محبوب الحق و امرتا سین کیا ٹھیک ہے یہ سب شرح نمو و مجموعی آمدنی وغیرہ کا پیمانہ، مگر یہ تصویر کا صرف ایک پہلو بتاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ یہ بھی دیکھیں حکومت کی پالیسی کیا کہتی ہے، کتنی نیک نیتی سے ایسی آمدنی عام آدمی کے معیار زندگی میں تبدیلی لاتی ہے۔ کیا لوگوں کو انصاف و عدالت تک رسائی ہے۔ کیا ان کے بچوں کو تعلیم مل پاتی ہے، ان کو صحت و تعلیم اور شفاف پانی پینے کے لیے ملتا ہے؟ کیا غربت کی لکیر کے نیچے رہتے ہوئے لوگوں کی شرح کم ہوئی؟ کیا دیہی آبادی و شہری آبادی کے معیار زندگی میں تفاوت کم ہوئی؟ اور ایسے بہت سارے سوالوں کے جوابات پر مبنی ہے HDI۔

ہماری مجموعی پیداوار کے تین بڑے سیکٹر ہیں، ایک صنعتی، دوسرا سروس اور تیسرا زراعت۔ کل مزدور طبقے کا 48 فیصد زراعت کے شعبے سے وابستہ ہے۔ مجموعی پیداوار میں مگر یہ شعبہ 22 فیصد ہے۔ پچھلے سال اس شعبے میں شرح نمو 3.8 فیصد رہا۔ مگر رواں مالی سال میں یہ سکڑ کر 2.12 فیصد پر آگیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دیہی مزدور کی زندگی میں مثبت اثر تو کیا بلکہ اور برا اثر پڑا، اس حکومت کے زمانے میں آیا۔

ASER کی رپورٹ بتاتی ہے کہ خرچہ تو قائم علی شاہ کی حکومت تعلیم کے شعبے پر 130 ارب کرتی ہے مگر ایک لاکھ سے زائد اساتذہ سے لدے اس شعبے کے 80 ہزار اساتذہ جسمانی طور پر اسکولوں میں نہیں پائے جاتے اور جو باقی پائے جاتے ہیں جسمانی طور پر وہ روحانی طور پر اسکولوں میں نہیں ہوتے۔ ایسے حالات صحت کے شعبے میں بھی ہیں جس کی وجہ سے تھر میں بچوں کی اموات ہوتی ہیں۔ ٹھٹھہ کے بچوں میں خسرہ کی بیماری سے آج کل امواتیں ہو رہی ہیں۔

ایسی کئی باتیں HDI رقم کرتی ہے تو پتا چلا ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی (UNDP)، 2013 میں جو HDI کے حوالے سے پیمانہ ترتیب دیا تو پاکستان پچھلے سال 2012 سے بھی اور بدتر ہوتے ہوئے 0.515 کے انڈیکس اسکیل پر آگیا، یا دوسرے الفاظ میں پاکستان کا شمار دنیا کے بدترین ملکوں کی فہرست میں HDI کے پیمانے کی نسبت سے ہوتا ہے۔ یعنی 187 ممالک میں ہم 146 نمبر پر آتے ہیں۔ ہندوستان ہماری فہرست میں نہیں مگر بنگلہ دیش ہمارے ساتھ ہے تو افریقا کے کئی ممالک جن میں انگولا بھی ہے، ہمارا مقابلہ پسماندگی میں اب ان کے ساتھ ہے۔ بجٹ کے بعد 2014 کی رپورٹ بھی پاکستان کے لیے HDI کے نسبت سے UNDP پیش کرے گی، ذرا اس کے لیے بھی تیار رہیے گا۔


جس طرح حکمرانی کا معیار گرا ہے، قحط و وبائیں پھیلی ہیں، مہنگائی اب کی بار بڑھی ہے، میں دعویٰ کرتا ہوں کہ HDI اور بدتر ہوا ہوگا، دیہی و شہری دونوں جگہ، خواہ کتنی بھی مجموعی پیداوار بڑھی ہو۔

وہ لوگ جو یومیہ ایک ڈالر کماتے ہیں وہ غربت کی لکیر کے نیچے رہنے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی پاکستان کی کل آبادی کے 37 فیصد سال 2007 میں رقم کی گئی۔ سال 2012 میں یہ شرح بڑھ کر 40 فیصد ہوگئی یہ تو خیر خود اسحاق ڈار بھی مانتے ہیں کہ سال 2014 میں یہ شرح بڑھ کر 54 فیصد ہوگئی ہے۔ پاکستان کی کل آبادی کا دس فیصد جو کہ امیر طبقے میں آتا ہے، ان کو کل مجموعی پیداوار کے 27.6 فیصد ملتا ہے۔ اور جو نیچے سے آبادی کا دس فیصد ہے جوکہ غریب تر ہے۔ ان کو سال کی مجموعی پیداوار کا 4 فیصد ملتا ہے۔ یہ HDI کا انڈیکیٹر ہی پکڑ سکتا ہے۔

نومولود بچوں کی امواتوں کی شرح میں پوری دنیا میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔ ایک ہزار بچوں میں 88 بچے پیدا ہوتے ہی مر جاتے ہیں، وہ اس لیے کہ ان کو وہ سہولت نہیں ملتی جوکہ ان کا بنیادی حق ہے۔

اسی سال فروری 2014 ، SDPI نے ایک رپورٹ شائع کی اور یہ ثابت کیا کہ آمدنی میں جو ناہمواری ہے یعنی 54 جو غربت کی لکیر کے نیچے رہتے ہیں، اس کا 66 فیصد دیہی آبادی پر مبنی ہے اور اگر یہ پیمانہ لگادیا جائے کہ یومیہ دو ڈالر کمانے والا غربت کی لکیر کے نیچے والے گروپ میں آتا ہے تو پاکستان کی آبادی کا 60 فیصد طبقہ غریب تر ہے اور اس طرح کا عدم توازن صوبوں کے حساب سے بھی پنجاب دوسرے صوبوں سے پھر بھی قدرے بہتر تصور کیا جاتا ہے اور بلوچستان بدتر۔ اور اس میں سندھ کا دیہی علاقہ بھی آتا ہے۔

ان حقائق کے ہوتے ہوئے یہ بات پھر بھی سراہی جائے گی کہ مجموعی پیداوار میں تو جمود ٹوٹا۔ لیکن ضرورت جہاں مجموعی پیداوار بڑھانے کی ہے تو یہ بھی یقینی بنایا جائے کہ اس کا اثر نچلی سطح تک جائے۔

ورنہ پھر علامہ کے اس بات کو Validity مل جائے گی:

جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی

اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو
Load Next Story