یمن کے حوثیوں نے اسرائیلی بحری جہاز اغوا کرکے عملے کو یرغمال بنالیا

اسرائیل صرف "طاقت کی زبان" سمجھتا ہے، حوثی ترجمان محمد عبدالسلام


ویب ڈیسک November 20, 2023
اسرائیل صرف "طاقت کی زبان" سمجھتا ہے، حوثی ترجمان محمد عبدالسلام (فوٹو: فائل)

یمن کے حوثی جنگجوؤں نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل نے غزہ پر بمباری بند نہ کی تو سمندروں سے گزرنے والے اسرائیل کے ہر بحری جہاز کو ہائی جیک کرلیں گے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق حوثی باغیوں کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب بحیرہ احمر میں سفر کرنے والے اسرائیل کے ایک مال بردار بحری جہاز کو اغوا کر لیا گیا جس میں عملے کے 25 ارکان موجود تھے۔

حوثی جنگجوؤں کے ترجمان محمد عبدالسلام نے کہا کہ اسرائیل صرف "طاقت کی زبان" سمجھتا ہے۔ اس لیے اسرائیلی جہاز کو اغوا کرکے اس میں موجود 25 افراد کو یرغمال بنالیا اور اگر غزہ پر بمباری نہ رکی تو اسرائیلی بحری جہازوں کو نشانہ بناتے رہیں گے۔

حوثی ترجمان نے یہ نہیں بتایا کہ بحری جہاز اسرائیل کی حکومت کی ملکیت ہے یا کسی اسرائیلی کارگو کمپنی کا ہے اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ یرغمال بنائے گئے جہاز کے عملے کے ارکان کا تعلق کس ملک سے ہے۔

اغوا ہونے والے جہاز کے جاپانی آپریٹر NYK نے بتایا کہ عملے کے ارکان کا تعلق فلپائن، بلغاریہ، رومانیہ، یوکرین اور میکسیکو سے ہے اور ہائی جیک ہونے کے وقت جہاز میں کوئی سامان نہیں تھا۔

جاپان کے چیف کیبنٹ سیکرٹری ہیروکازو ماتسونو نے جہاز اغوا ہونے کی مذمت کرتے ہوئے بتایا کہ عملے کی بحفاظت رہائی کے لیے حوثی باغیوں کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں جس کے لیے سعودی عرب، عمان اور ایران کی حکومتیں تعاون کر رہی ہیں۔

دوسری جانب اسرائیل کا کہنا ہے کہ اغوا ہونے والا بحری جہاز برطانوی ملکیت ہے جسے جاپان آپریٹر چلاتے ہیں تاہم عوامی شپنگ ڈیٹا بیس میں جہاز کی ملکیت اسرائیل کے امیر ترین تاجر کی ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے کہا کہ ہائی جیک کیے گئے بہاماس کے جھنڈے والے جہاز پر عملے کے 25 ارکان سوار تھے جن میں بلغاریائی، فلپائنی، میکسیکن اور یوکرینی باشندے شامل تھے لیکن کوئی اسرائیلی نہیں تھا۔

واضح رہے کہ اسرائیل کی 7 اکتوبر سے جاری غزہ پر بمباری میں 13 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور 25 ہزار سے زائد زخمی ہوگئے جب کہ حماس کے حملوں میں مارے جانے والے اسرائیلیوں کی تعداد 1400 سے تجاوز کرگئی۔

 

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں