پیپلز پارٹی کی بے قراری
پی پی سندھ میں اس لیے مضبوط ہے کہ سندھ کے تقریباً الیکٹ ایبل پیپلز پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں
میاں نواز شریف کی چار سال بعد جب سے وطن واپسی ہوئی ہے پیپلز پارٹی کی سیاسی بے قراری اور میاں نواز شریف، (ن) لیگ اور (ن) لیگی رہنماؤں پر تنقید بڑھتی جا رہی ہے اور میاں نواز شریف کے دورہ بلوچستان سے پیپلز پارٹی کی قیادت اپنا غصہ چھپا نہیں پا رہی اور آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کو (ن) لیگ کے رہنماؤں کے بیانات شدت سے یاد آ رہے ہیں کہ ان کے رہنماؤں کی طرف سے جو خصوصی طور پر بلوچستان عوامی پارٹی سے متعلق دیے گئے تھے۔
بلوچستان کی اس پارٹی اور اس کے رہنماؤں کی طرف سے پیپلز پارٹی کو بڑی توقعات تھیں کہ وہ پیپلز پارٹی میں ضم ہو جائے گی یا اس کے طاقتور رہنما پیپلز پارٹی میں شامل ہو جائیں گے مگر ایسا نہیں ہوا اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے بلوچستان کے دورے کے نتیجے میں سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال سمیت 30 سابق وزیروں، ارکان اسمبلی اور متعدد سیاسی رہنماؤں نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرنے کا اعلان کیا جن میں اکثر پہلے بھی مسلم لیگ (ن) میں شامل رہ چکے ہیں۔
سابق صدر آصف زرداری نے اپنے دور میں بلوچستان کے عوام سے ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر معافی مانگی تھی لیکن وہ بے مقصد رہی کیونکہ وہ بلوچستان کے بہت سے بنیادی مسائل حل نہیں کرا سکے تھے جو سالوں سے جاری تھے اور اب بھی جاری ہیں۔
2018ء سے قبل بلوچستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم کرا کر باپ پارٹی بنوائی گئی اور اسی پارٹی کا چیئرمین سینیٹ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کی مدد سے منتخب کرایا گیا تھا جس سے قبل پیپلز پارٹی قیادت نے علانیہ طور پر مسلم لیگ (ن) کی حکومت ختم کرانے کا اعلان ضرور کیا تھا مگر یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ (ن) لیگ کی کون سی حکومت ختم کرائیں گے مگر جب غیر متوقع طور پر بلوچستان کے (ن) لیگی وزیر اعلیٰ ثنااللہ زہری کی حکومت ختم کرائی گئی تو پی پی قیادت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اپنا کہا پورا کر دیا اور سیاست کی ستم ظریفی یہ ہے کہ جس ثنا اللہ زہری کی حکومت پی پی نے ختم کرائی تھی وہی ثنا اللہ زہری بعد میں (ن) لیگ چھوڑ کر پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے تھے جو ایک سردار ہیں اور بلوچستان کی سیاسی صورت حال تبدیل ہوتے دیکھ کر ممکن ہے کہ (ن) لیگ اکٹھے چھوڑ کر جانے والے سابق وزیر اعلیٰ زہری اور سابق گورنر بلوچستان عبدالقادر بلوچ پی پی چھوڑ کر واپس مسلم لیگ (ن) میں آجائیں۔ جام کمال بھی پہلے مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں وزیر مملکت تھے اور انھوں نے بھی بی اے پی کے قیام سے قبل (ن) لیگ چھوڑی تھی۔
بلوچستان میں کبھی کسی سیاسی پارٹی نے حکومت بنانے کی پوزیشن حاصل نہیں کی۔ وہاں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، بی اے پی، بی این پی مینگل اور بی این پی عوامی سمیت جمہوری وطن پارٹی کے سردار اکبر بگٹی، جام غلام قادر، جام یوسف اور جام کمال بھی اتحادی حکومتیں بنا چکے ہیں اور بلوچستان کی قبائلی سیاست دیگر صوبوں سے مختلف ہے۔ وہاں تمام ارکان اسمبلی بلوچستان ایک بار حکومت میں شامل تھے اور صرف ایک رکن سردار یار محمد رند اپوزیشن میں تھے۔
سابق صدر آصف زرداری بلوچ ہیں اور انھیں قوی امید تھی کہ باپ پارٹی والے پی پی میں شامل ہو جائیں گے یا باپ پارٹی پی پی میں ضم ہو جائے گی اور پی پی بلوچستان میں نہ صرف اپنی حکومت بنا لے گی بلکہ وہاں پی پی کے کچھ ارکان قومی اسمبلی بھی منتخب ہو جائیں گے۔
پی پی سندھ میں اس لیے مضبوط ہے کہ سندھ کے تقریباً الیکٹ ایبل پیپلز پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں اور پی پی سندھ میں اپنی چوتھی حکومت بنانے کی بھی پوزیشن میں ہے جہاں سے وہ واضح اکثریت لینے کے لیے پرامید ہے۔ جنوبی پنجاب سے بھی پیپلز پارٹی کو واضح کامیابی کی امید ہے اور کے پی سے بھی پیپلز پارٹی کچھ نشستیں حاصل کرکے اس پوزیشن میں آنا چاہتی ہے کہ سندھ و بلوچستان کے ساتھ وفاق میں بلاول بھٹو کو وزیر اعظم بنانے کے لیے دوسروں سے مل کر حکومت بنا سکے۔
میاں نواز شریف کی الیکشن سے قبل واپسی تو یقینی تھی اور پی پی ان سے واپسی کا مطالبہ کرتی بھی رہی مگر جب نواز شریف واپس آئے تو پیپلز پارٹی کی توقعات پر پانی پھر گیا اور پی پی کو اقتدار میں آنا اب ممکن نظر نہیں آ رہا ہے جسے امید تھی کہ پنجاب اور کے پی میں (ن) لیگ مخالف ووٹ اسے لاہور کے ضمنی الیکشن کی طرح مل جائے گا مگر پنجاب میں جہانگیر ترین اور علیم خان کی آئی پی پی اور کے پی میں پرویز خٹک کی پی ٹی آئی پیٹریاٹ نے پی پی کی توقعات پوری نہیں ہونے دیں جس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) پر پی پی کی تنقید بڑھتی جا رہی ہے اور اسے پی ٹی آئی سے بھی ہمدردی ہوگئی ہے اور چیئرمین پی ٹی آئی کا ماضی کا کردار بھلا کر وہ ایسے بیانات دے رہی ہے کہ پی ٹی آئی کا ووٹ اسے مل سکے کیونکہ لاہور کے شائستہ پرویز کے الیکشن کے موقعے پر پی ٹی آئی کے امیدوار الیکشن سے باہر ہوجانے پر پی پی کے امیدوار کو توقع کے برعکس ووٹ ملے تھے اور مسلم لیگ (ن) کی مخالفت میں پی ٹی آئی کا ووٹ انھیں پڑا تھا۔
یہ بھی درست ہے کہ پی ڈی ایم کی حالیہ اتحادی حکومت کی کارکردگی کے باعث اب لاہور میں بھی (ن) لیگ کو سخت مقابلہ کرنا پڑے گا۔ نواز شریف کی وطن واپسی پر ملک بھر سے کارکن لاہور بلوا کر لاہور مسلم لیگ (ن) کا دوبارہ گڑھ نہیں بن گیا۔
پنجاب سے پیپلز پارٹی کی توقعات اب عملی نہیں زبانی حد تک ہیں اس لیے وہ اب تک لاہور میں کوئی جلسہ کر سکی ہے نہ الیکٹ ایبلز پیپلز پارٹی کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی (ن) لیگ پر کڑی تنقید اپنے خاص مقصد کے لیے کر رہی ہے اور وہ پی ٹی آئی کے قریب اس لیے جا رہی ہے کہ اگر کسی وجہ سے پی ٹی آئی الیکشن کا بائیکاٹ کرتی ہے تو (ن) لیگ مخالف ووٹ اسے مل سکے۔
اگر پی ٹی آئی بائیکاٹ نہیں کرتی تو پی پی اس سے انتخابی اتحاد کھلے عام نہیں اندرونی طور پر کرنے میں کوئی بھی ہچکچاہٹ نہیں دکھائے گی یہ دونوں پہلے بھی صادق سنجرانی کو ووٹ دے چکی ہیں اس لیے آصف زرداری نے کہا ہے کہ میں رائیونڈ والے کو وزیر اعظم نہیں بننے دوں گا۔