ڈاکٹر توصیف تبسمؔ کی یاد میں

ڈاکٹر توصیف تبسمؔ مجموعہ اوصاف کے حامل اور اپنے تخلص کے حوالے سے اسم بامسمیٰ تھے


Shakeel Farooqi November 21, 2023
[email protected]

بجھتے جا رہے ہیں محبتوں کے چراغ

رفتہ رفتہ بچھڑ رہے ہیں لوگ

ڈاکٹر توصیف تبسمؔ بھی اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اُن کے انتقال پُرملال کی اطلاع اسلام آباد سے ہمارے عزیز دوست ریاض الاسلام عرشؔ ہاشمی نے دی جو سینئر ریٹائرڈ بیوروکریٹ اور محفل نعت اسلام آباد کے بانی، جنرل سیکریٹری، روح رواں اور عالمی شہرت کے حامل شاعر اور نعت گو ہیں۔

ڈاکٹر توصیف تبسمؔ مجموعہ اوصاف کے حامل اور اپنے تخلص کے حوالے سے اسم بامسمیٰ تھے۔ اس سے پہلے کہ مرحوم کے بارے میں کچھ اور تحریر کیا جائے اس بات کا ذکر کرنا نہایت ضروری ہے کہ موصوف کا تعلق بدایوں بھارت سے تھا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں کی خاک سے سلطان المشائخ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء اور مشہور و معروف مورخ عبدالقادر بدایونی نے جنم لیا۔ امیر خسرو نے بدایوں کی خاک کو آنکھوں میں سرمہ لگانے پر ترجیح دی ہے۔

توصیف تبسمؔ صاحب سے ہمارا غائبانہ تعارف کراچی میں ہوا تھا اور بالمشافہ تعارف تب ہوا جب ہمارا تبادلہ ریڈیو پاکستان کراچی سے اسلام آباد ہوا۔ جملہ اوصاف کے علاوہ ڈاکٹر صاحب کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ایک نہایت سادہ اور مرنجاں مرنج انسان تھے۔ غالبؔ کے بقول:

بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

نرم خو اور شگفتہ مزاج ڈاکٹر توصیف سے مل کر جی نہیں چاہتا تھا کہ اُن سے رخصت طلب کی جائے۔

ایسا لگتا ہے کہ سرورؔ بارہ بنکوی نے یہ شعر اُن جیسے لوگوں کے لیے ہی کہا تھا:

جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ

آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں

توصیف صاحب کو نہ صرف شاعری پر عبور حاصل تھا بلکہ اُن کی نثر نگاری بھی بے مثل تھی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک ایک لفظ نگینہ کی طرح جَڑا ہوا ہو۔ انداز بیاں ایسا کہ پڑھنے والا مبہوت ہو جائے۔

ڈاکٹر توصیف تبسمؔ اردو دنیا میں شاعری، تنقید اور تحقیق کے حوالے سے ایک معتبر نام ہے۔ اُن کی اہم تصانیف میں شعری مجموعے، کلیات،''آسماں تہ آب''، ''خودنوشت سوانح''، ''بند گلی میں شام'' اور اردو شعریات پر کتاب ''یہی آخر کو ٹھہرا فن ہمارا'' شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جنگ آزادی کے مجاہد شاعر منیر شکوہ آبادی پر اُن کا ڈاکٹریٹ کا مکالمہ بے حد اہمیت کا حامل ہے۔

اُن کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں اکادمی ادبیات پاکستان نے ''پاکستانی ادب کے معمار'' سیریز کی کتاب ''ڈاکٹر توصیف تبسمؔ: شخصیت اور فن'' از ڈاکٹر شیر علی 2022 میں شایع کی۔ ڈاکٹر توصیف تبسمؔ نے بچوں کے حوالے سے بھی لکھا جس میں ''کہاوت کہانی'' اور ''آؤ کھیلیں آؤ گائیں'' قابل ذکر ہیں۔

ڈاکٹر توصیف تبسمؔ نے قیام پاکستان کے وقت دہلی میں ہونے والے جن فرقہ وارانہ فساد کا تذکرہ کیا ہے اُسے ہم ڈاکٹر صاحب اور اپنے درمیان ایک مشترکہ داستان سمجھتے ہیں۔ ان فسادات کی یاد ایک بھیانک خواب کی طرح ہمیں کبھی کبھی آن کر بہت ستاتی ہے۔

جب یہ فسادات شروع ہوئے اُس وقت ڈاکٹر صاحب کا قیام دہلی میں تھا۔ عجب اتفاق ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے جن تلخ یادوں کا ذکر کیا ہے اُس میں ہم بھی شریک داستان ہیں کیونکہ اتفاق سے ہم بھی اُس خوں ریزی کے دوران اپنے خاندان کے ساتھ دہلی میں رہتے تھے۔ڈاکٹر صاحب نے دہلی کے علاقوں قرول باغ، سبزی منڈی اور دیگر مسلم علاقوں میں ہندو اور سکھ بلوائیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام کا منظر پیش کیا ہے۔

دوسرا عجب اتفاق یہ تھا کہ دہلی کے پرانے قلعہ میں پاکستان جانے والے جن مہاجرین کا کیمپ لگا ہوا تھا اُسی کیمپ میں ہم بھی اپنے خاندان کے ساتھ پناہ لیے ہوئے تھے اور لاہور جانے والی ٹرین کی روانگی کے منتظر تھے۔ پھر ہوا یہ کہ رات بھر کی موسلا دھار بارش سے تنگ آ کر ہم نے اگلی صبح اپنے گھر واپسی کا رخ کیا۔

اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ہم وہ ٹرین نہ پکڑ سکے جس میں سوار ہو کر ڈاکٹر صاحب نے پاکستان جانے کے لیے سفر کیا۔ یوں ہم مشرقی پنجاب میں ہندو سکھ بلوائیوں کے ہاتھوں ہونے والے قتل عام سے بچ گئے۔اکادمی ادبیات پاکستان نے ڈاکٹر صاحب کی یاد میں ایک تعزیتی ریفرنس ''بیاد ڈاکٹر توصیف تبسمؔ'' کا انعقاد کیا۔ اس موقعے پر ابتدائی کلمات ڈاکٹر نجیبہ عارف صدر نشین، اکادمی نے ادا کیے۔

نظامت منظر نقوی نے کی، ڈاکٹر احسان اکبر، جلیل عالی، محمد اظہار الحق، اقبال آفاقی، ڈاکٹر وحید احمد، محمد حمید شاہد، محبوب ظفر، ڈاکٹر شیر علی، قاضی عارف حسین، عائشہ مسعود اور توصیف تبسمؔ مرحوم کے صاحبزادے ڈاکٹر آصف اور صاحبزادیوں نیّر توصیف اور تنویر توصیف نے خطاب کیا۔عرشؔ ہاشمی نے ڈاکٹر توصیف تبسمؔ مرحوم کی مغفرت کے لیے اجتماعی دُعا کی۔ اس موقعے پر افتخار عارف نے کہا کہ توصیف تبسمؔ ہمارے زمانہ کے بڑے شاعر اور تہذیبی شخصیت تھے۔ اُن کا لفظ اور شعر سے تادم مرگ گہرا تعلق رہا، انھوں نے منیر شکوہ آبادی کے حوالے سے بڑا وقیع کام کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ توصیف تبسمؔ نے جدید موضوعات کو کلاسیکی اسلوب میں خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ کشور ناہید نے کہا کہ توصیف تبسمؔ انتہائی محبت کرنے والے انسان تھے، ہم نے کئی مشاعرے اکٹھے پڑھے، وہ شعر و گفتار میں فرشتہ صفت انسان تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان نے اپنے ابتدائی کلمات میں کہا کہ ڈاکٹر توصیف تبسمؔ نے 95 برس ثمر بار اور قوت تخلیق سے مملو زندگی گزاری گویا:

یہ ایک صدی کا قصہ ہے

دو چار برس کی بات نہیں

وہ پوری صدی میں رونما ہونے والے حالات کے گواہ رہے۔ ڈاکٹر احسان اکبر نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے توصیف تبسمؔ کو منفرد اور خوبصورت شعر کہنے کی توفیق دی تھی۔ وہ ہمارے لیے استاد کا درجہ رکھتے تھے اور ہم اُن سے سیکھتے تھے۔

جلیل عالی نے کہا کہ توصیف تبسمؔ کلاسیکی شعرا کے تمام تر فنی شعریات کا پورا شعور رکھنے والے جدید شاعر تھے۔ وہ عصری حیثیت سے جڑے ہوئے تھے۔ڈاکٹر اقبال آفاقی کا کہنا تھا کہ توصیف تبسمؔ نہایت وضع دار اور درخشندہ انسان تھے۔ ڈاکٹر وحید احمد نے کہا کہ توصیف تبسمؔ محبتیں اور خیر بانٹنے والے انسان تھے۔ وہ اپنی زندگی میں نوحوں کی کتاب چھاپنا چاہتے تھے مگر موت نے انھیں مہلت نہیں دی، اب اُن کی نوحوں کی کتاب منظر عام پر آنی چاہیے۔

محمد حمید شاہد نے کہا کہ توصیف تبسمؔ نے اپنی خوبصورت شخصیت اور اپنے کام سے ہمیں گرویدہ بنا لیا۔ اختر عثمان نے کہا کہ توصیف تبسمؔ آخری بڑے کلاسیکی شاعر تھے۔ محمود ظفر نے کہا کہ توصیف نے کئی نسلوں کی پرورش کی بلاشبہ اُن کا تخلیقی کام باقی رہنے والا ہے۔

قاضی عارف حسین نے کہا کہ توصیف تبسمؔ معاشرے میں تبسم بکھیرنے والے خود پروردہ انسان تھے۔ اُن کی رحلت سے بہت دکھ ہوا۔اظہار الحق نے کہا کہ توصیف تبسمؔ نثر اور شاعری دونوں میں اعلیٰ پائے کے تخلیق کار، حرف، لفظ اور شعر کو سمجھنے والے انسان تھے۔اللہ تعالیٰ مرحوم کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔