سیاست نظریہ اور طاقت ور انتخابی طبقہ
پاکستان کا مجموعی سیاسی اور انتخابی نظام ان ہی بڑے بڑے سیاسی خاندانوں تک محدود یا بالادست نظر آتا ہے
مجموعی طور پر جب سیاست اور جمہوریت کا عمل کسی سیاسی ، اخلاقی یا نظریاتی سوچ کے مقابلے میں محض''اقتدار کی سیاسی لڑائی یا طاقت کا حصول '' بن کر رہ جائے تو اس کے نتیجے میں استحکام کی سیاست دور چلی جاتی ہے۔
بدقسمتی سے جہاں بھی سیاسی جماعتوں کی بطور ادارہ کمزوری کے پہلو نمایاں ہوں گے وہاں ہمیں سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں افراد، برادری ، گروہ یا سیاسی اجارہ داریوں پر مبنی خاندانوں کی اکثریت کا پہلو اور بالادستی نمایاں نظر آئے گی۔
یہ ہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی کمزوری کے عمل نے اس ملک میں سیاست اور جمہوریت کے مستقبل پر بھی کئی طرح کے سوالیہ نشانات کھڑے کیے ہوئے ہیں۔
بنیادی بات یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادتیں جماعتوں کے مقابلے میں اپنی خاندانی سیاسی اجارہ داری کو ہی مضبوط اور برقرار رکھنا چاہتی ہیں ۔ کیونکہ ان کو ڈر ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی مضبوطی کی بنیاد پر ان کی سیاسی اجارہ داری کمزور ہوگی اور سیاسی جماعتیں ہمارے مقابلے میں ادارہ جاتی شکل اختیار کریں گی ۔
پاکستان کا مجموعی سیاسی اور انتخابی نظام ان ہی بڑے بڑے سیاسی خاندانوں تک محدود یا بالادست نظر آتا ہے۔ ان بڑے خاندانوں کے سیاسی اصول ، نظریات یا سوچ کافی حد تک واضح اور شفاف ہوتی ہے کہ ہمیں ''طاقت کی حکمرانی '' کے ساتھ کھڑا ہونا ہے۔
یہ طاقت ور خاندانی افراد جن کا بڑا تعلق دیہی یا چھوٹے شہروں کی سیاست سے ہوتا ہے اور ان کی بالادستی کا بنیادی نقطہ '' برادری کی سیاست یا دھڑے بندی '' ہوتی ہے۔سیاسی جماعتوں کی یہ مجبوری ہوتی ہے کہ اگر انھوں نے بھی طاقت کی حکمرانی کے ساتھ کھڑا ہونا ہے تو ان ہی بڑے سیاسی خاندانوں کے ساتھ سمجھوتے کی بنیاد پر اپنے سیاسی اقتدار کا فیصلہ کریں ۔
پچھلی دو سے تین دہائیوں کی مجموعی سیاست میں یہ ہی بڑے بڑے خاندان ہمیں نمایاں نظر آرہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے اپنے داخلی تضادات اس حد تک نمایاں ہیں کہ ایک وقت میں ان ہی خاندانوں پر تنقید کرنے والے دوسرے وقت میں ان کے گلے میں ہار ڈالنے والوں میں ہوتے ہیں۔ یہ کھیل محض برادری کے انفرادی افراد تک محدود نہیں بلکہ ان ہی کی بنیاد پر '' پس پردہ طاقتیں اپنی مرضی کی سیاسی جماعتیں '' بھی تشکیل دے کر سیاسی لنگوٹ پہنا کر سیاسی میدان میں اتارتی ہیں ۔
ایسے میں بڑی سیاسی جماعتیں یہ دعوی کرتی ہیں کہ مستقبل میں ان سیاسی جماعتوں یا ان افراد کے ساتھ کسی بھی سطح پر سمجھوتہ یا ان کی قبولیت نہیں کی جائے گی۔لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد یہ ہی بڑی سیاسی جماعتیں اپنے لفظوں کا خود مذاق اڑاتی ہیں اور ان لوگوں کو قبول کرکے سیاسی اقتدار کا راستہ ہموار کرتی ہیں۔
ان بڑے خاندانوں کے بقول سیاسی جماعتوں کو جو مینڈیٹ ملتا ہے اس کا بڑا مجموعی حصہ سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں ہمارے خاندانوں کے مینڈیٹ پر مبنی ہوتا ہے ۔ اسی بنیاد پر وہ بڑی سیاسی جماعتوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ ہی سیاسی سمجھوتہ کرکے آگے بڑھ سکتے ہیں ۔
ایک منطق یہ دی جاتی ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں یا سیاسی قیادت پاپولر سیاست کا حصہ بنتی ہیں تو برادری کی سیاست کمزور ہوتی ہے ۔یہ منطق ایک حد تک درست ہے۔لیکن ہم دیہی یا چھوٹے شہروں کی مجموعی سیاست میں دیکھیں تو بڑی مقبول قیادتوں کو بھی سیاسی محاذ پر ان ہی بڑے سیاسی خاندانوں کی سیاست کے سامنے سمجھوتوں کی سیاست کرنا پڑی۔
دلچسپ بات یہ ہی ہے یہ کہ ان ہی بڑے خاندانوں کی بنیاد پر اقتدار کا راستہ ہموار کرنے والی سیاسی جماعتوں پر جب زوال یا ان کے اقتدار کے خاتمے کا فیصلہ ہوتا ہے تو یہ ہی بڑے بڑے خاندان پہلی صف میں کھڑے ہوکر ان ہی کے اقتدار کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں جن کے ساتھ یہ کھڑے رہنے کی قسمیں کھاتے ہیں ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنی سیاست ، جمہوریت اور پارلیمان کی بالادستی یا عوامی مفادات پر مبنی سیاست کے نام پر ان بڑے بڑے سیاسی خاندانوں کے مقابلے میں اپنے سیاسی نظام اور سیاسی جماعتوں کو مضبوط بنا سکیں گے ؟ کیا یہاں سیاسی جماعتیں واقعی ووٹرز کی نظر میں اہمیت اختیار کرسکتی ہیں اور ووٹرز کی اپنی تعلیم و تربیت اس انداز میں ہو کہ وہ برادری یا بڑے خاندانوں کے مقابلے میں سیاسی جماعتوں کے منشور یا ان کی کارکردگی کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں کے حق میں ووٹ ڈال سکے ۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ایک طرف رونا سیاسی جماعتوں کی کمزوری کا ہے تو دوسری طرف بڑے سیاسی خاندانوں کی سیاسی اجارہ داری کا ہے اور تیسرا ہمارے ووٹرز کے رجحانات میں بھی جمہوریت کے مقابلے میں ہی افراد، خاندان ، مذہب ، فرقہ پرستی اور برادری کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہے۔ ایسے میں مجموعی طور پر انتخابی تعلیم ، ووٹرز اور امیدوار سمیت سیاسی جماعتوں کے معاملات میں کیسے درستگی ہوگی ۔
ان ہی بڑے خاندانوں کی اجارہ داری میں جہاں ان کی برادری کا عمل دخل زیادہ نظر آتا ہے وہیں ہمیں پیسے کی طاقت اور دولت کے کھیل کی نمایاں جھلک بھی سیاسی معاملات میں خرابیوں کو پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے ۔اگر آپ سیاسی جماعتوں کی انتخابی امیدواروں کی فہرستیں یا ان کے چناؤ کا طریقہ کار دیکھیںتو اس میں آپ کو ہونے والے فیصلوں میں وہ تمام پہلوؤں کی عکاسی نظر آتی ہے جو سیاست اور جمہوری عمل کو کمزور کرنے کا سبب بنتے ہیں ۔یہ کمزوری کسی ایک جماعت تک محدود نہیں بلکہ تمام بڑ ی چھوٹی سیاسی جماعتوں میں نمایاں طور پر موجود ہے۔
کیا پاکستان کا نوجوان ووٹرز اس روایتی سیاست کو کسی بڑی ناکامی سے دوچار کرسکتا ہے ۔کیونکہ جو سیاسی نظام یہاں چل رہا ہے یا جن بڑے خاندانوں کی بنیاد پر اسے چلایا جارہا ہے اس سے لوگوں میں سیاست اور جمہوریت کے بارے میں بیزاری پیدا ہو رہی اور ان کو لگتا ہے کہ یہ نظام یا خاندانوں کی سیاست ہمارے مفاد میں نہیں ۔ وفاقی ، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے نظام عملی طور پر ان ہی بڑے خاندانوں کے گرد ہی گھومتے ہیں۔
اگر اب کوئی سیاسی امید ہے تو وہ پاکستان کا نوجوان طبقہ ہے جو اس روایتی کھیل کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے ۔ اسی نوجوان طبقہ کو بنیاد بنا کر اس سوچ کو مضبوط بنانا ہوگا کہ وہ خاندانوں کے مقابلے میں سیاسی نظام اور سیاسی جماعتوں کو اہمیت دیں لیکن یہ کھیل بھی اسی صورت میں جمہوری کامیابی سے ہمکنار ہوسکتا ہے جب خود سیاسی جماعتیں جمہوری رجحانات کو اپنے داخلی و خارجی معاملات میں ترجیح دیں۔
سیاسی جماعتیں جب عوامی مفادات کے ساتھ کھڑی ہونگی تو لوگ بھی ان کا ساتھ دیں گے ۔لیکن کیا سیاسی جماعتیں اس عمل میں خود کو تبدیل کرسکیں گی یہ ہی اہم اور ترجیحی سوال زیر بحث آنا چاہیے ۔