ہراسانی کا نشانہ بننےوالےاسٹریٹ چلڈرن بڑے ہوکر جرائم کی راہ پرچل پڑتے ہیں ماہرین

ہربچے کی عزت نفس کا خیال رکھنا ضروری ہے اور یہ اس کا بنیادی حق ہے، چاہے وہ بچہ بھیک ہی کیوں نہ مانگتا ہو، سارہ احمد

فوٹو: فائل

ماہرین کا کہنا ہے کہ کم عمری میں باربار ہراسانی کانشانہ بننے والے اسٹریٹ چلڈرن احساس کمتری اور نشے کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ بچے اپنے ساتھ ہونے والے برتاؤ کو معمولی سمجھنے لگتے ہیں اور پھران میں سے اکثر بچے بڑے ہوکر غلط راستے پرچل پڑتے ہیں جو انہیں جرائم کی طرف لے جاتے ہیں۔

لاہورکے چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں مقیم 17 سالہ عائشہ کا آبائی علاقہ تو ملتان ہے لیکن وہ لاہور کے پسماندہ علاقے میں رہتی ہیں۔ چائلڈپروٹیکشن بیورو کی ٹیم نے اس لڑکی کو چند روز قبل بھیک مانگنے والے بچوں کے خلاف آپریشن کے دوران ریسکیو کیا تھا۔

عائشہ نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس کے والد اور والدہ وفات پاچکے ہیں اور اپنے شوہر کے ساتھ رہتی ہے۔ نوعمرعائشہ کے بقول اس کی چارسال قبل شادی ہوئی تھی۔ وہ اپنی ایک سہیلی کے ہمراہ بھیک مانگ رہی تھی کہ چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی ٹیم نے اسے پکڑ لیا اوریہاں لے آئے۔

عائشہ نے بتایا کہ اسے بھیک مانگنا اچھا نہیں لگتا۔ بعض لوگ پیسے یا پھرکھانے پینے کی کوئی چیز دے دیتے ہیں، بعض لوگ گالیاں نکالتے اوربرا بھلاکہتے ہیں جب کہ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں خاص طور پر رکشہ ڈرائیو جو اسے اپنے پاس بٹھالیتے ،اسے کھانا کھلاتے اور اس کے جسم کو ہاتھ لگاتے ہیں۔

عائشہ سے جب یہ پوچھا گیا کہ جب کوئی اس کے جسم کو ہاتھ لگاتا ہے تو کیا اسے برانہیں لگتا تو ا س نے جواب دیا کہ نہیں وہ سب اس کے دوست ہیں۔ وہ اس کا خیال رکھتے ہیں۔

چائلڈپروٹیکشن بیورو میں ہی چند روز قبل بیگم کوٹ کے علاقے سے ریسکیوکرکے لائے گئے 9 سالہ عبدالرحمٰن (فرضی نام) نے بتایا کہ وہ انتہائی غریب ہے، گھر میں دو وقت کی روٹی بھی نہیں ملتی، وہ بتی چوک میں بسکٹ بیچ رہا تھا تو چائلڈپروٹیکشن بیورو کی ٹیم نے پکڑلیا۔

عبدالرحمٰن نے بتایا کہ بعض لڑکے اسے اپنے پاس بٹھاتے اورغلط کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اسے یہ سب بہت برالگتا ہے۔

چائلڈپروٹیکشن بیورو کے حکام کے مطابق عائشہ کی طرح کئی بچے ایسے ہیں جو اپنے ساتھ ہونے والے غلط برتاؤ اورہراسانی کے اس قدرعادی ہوجاتے ہیں کہ انہیں یہ برانہیں لگتا اور پھر زیادہ تر ایسے ہی بچوں کو جنسی اورجسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔


بچوں کے حقوق کے لیےکام کرنے والی غیر منافع بخش تنظیم ' ساحل ' کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں جنوری سے جون 2023 تک 2 ہزار 227 بچوں کو جنسی اورجسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

اس طرح اوسطاً 12 بچے روزانہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنے، ان میں زیادہ تعداد اسٹریٹ چلڈرن کی ہے۔ مجموعی طور پر 31 فیصد واقعات سڑکوں پرپیش آئے جہاں بھیک مانگنے اور کھانے پینے کی اشیا اور کھلونے بیچنے والے بچے تشدد کاشکارہوئے۔

بچوں کے حقوق کی کارکن راشدہ قریشی کا کہنا ہے کہ اسٹریٹ چلڈرن کو زندگی گزارنے کے لیے عام بچوں جیسا ماحول نہیں ملتا۔ خود ان کا مشاہدہ ہے کہ ایسے کاروباری علاقے جہاں رات گئے تک کام ہوتا ہے وہاں اسٹریٹ چلڈرن نظر آتے ہیں۔

یہ بچے احساس کمتری کاشکار ہوتے ہیں۔ان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے اور انہیں ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے ان کی شخصیت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔

کوئی ان بچوں خاص طورپر بچیوں کی مدد کرے یا نہ کرے مگر ان کو ہاتھ لگانا ضروری سمجتھا ہے۔ ایسے بچے جب بڑے ہوتے ہیں تو اپنے ساتھ ہوئی زیادتیوں کا بدلہ لینے کی کوشش کرتے ہیں اور جرائم اورمنشیات کے عادی ہوجاتے ہیں۔

چائلڈپروٹیکشن اینڈویلفیئربیورو کی چیئرپرسن سارہ احمد کہتی ہیں کہ ہربچے کی عزت نفس کا خیال رکھنا ضروری ہے اور یہ اس کا بنیادی حق ہے، چاہے وہ بچہ بھیک ہی کیوں نہ مانگتا ہو۔

سارہ احمد نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ اسٹریٹ چلڈرن کو جس طرح کے برتاؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ایسے بچوں کو نہ صرف بھیک مانگنے سے روکا جائے بلکہ ان کی کونسلنگ کرکے انہیں اچھے اوربرے کی پہچان اور دوسروں کا احترام کرنا سکھایا جائے۔

 
Load Next Story