تشدد دیرپا امن نہیں لا سکتا
عام معنوں میں عدم تشدد کا مطلب یہ ہے کہ جدوجہد کے لیے اسلحے پر بھروسہ نہیں کیا جائے گا
مارٹن لوتھر کنگ نے امریکا کو تبدیل کرنے میں ایک بنیادی کردار ادا کیا ہے، اسے نوبل انعام سے نوازا گیا۔
نوبل امن انعام دینے والی کمیٹی نے اس کی جدوجہد کا اعتراف ان الفاظ میں کیا تھا۔ '' مارٹن لوتھر کنگ کی نہتی جدوجہد ان کے اپنے ملک میں چلائی گئی ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ صدیوں پرانا روایتی اور بے رحم تنازعہ اب اپنے حل کے قریب آپہنچا ہے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ وہ راستہ جو انھوں نے اور ان کے عوام نے اپنے لیے متعین کیا ہے ، دنیا کے دوسرے علاقوں میں بھی امید کی روشنی پھیلائے، ایسی امید جو نسلوں، قوموں اور سیاسی نظاموں کے درمیان تنازعات کو سلجھا سکتی ہے نہ آگ سے اور نہ تلوار سے، بلکہ ایک سچی اور برادرانہ محبت سے؟ '' لوتھر کنگ اپنے ملک کی سرحدوں سے پرے بھی دیکھتے ہیں وہ کہتے ہیں '' پہلے سے کہیں زیادہ میرے دوست، تمام نسلوں اور قوموں کے آدمی، آج پڑوسی ہوتے ہوئے بھی چیلنج کیے جا رہے ہیں۔
اب ہم زیادہ دیر تک ایک دوسرے سے الگ رہنے کی عیاشی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ایسی غلطی کبھی اخلاقی ناکامی کہلاتی تھی، آج یہ ہمیں آفاقی خود کشی کی طرف لے جائے گی، اگر ہم یہ فرض کرلیتے ہیں کہ بنی نوع انسان کو باقی رہنے کا حق ہے تو ہمیں جنگ اور تباہی کا متبادل راستہ تلاش کرنا ہوگا۔
خلائی جہازوں اور میزائلوں کے ہمارے دور میں دو ہی راستے ہیں، عدم تشدد کا راستہ یا عدم وجود کا راستہ۔ '' وہ مغربی دنیا کے پہلے شخص ہیں جس نے دکھا دیا کہ بغیر تشدد کے بھی جدوجہد کی جاسکتی ہے۔ آج ہم لوتھر کنگ کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں جو نہتی جدوجہد پر اپنے عقیدے سے کسی بھی طرح دست بردار نہیں ہوئے۔
جنھوں نے اپنے عقیدے کی خاطر دکھ جھیلے ہیں، کئی بار قید ہوئے، ان کا گھر بموں کا نشانہ بنا ہے۔ ان کی اپنی اور ان کے خاندان کی زندگی ختم کرنے کی دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔ پھر بھی ان کا عزم لڑکھڑایا نہیں۔
اس تقریب میں مارٹن لوتھرکنگ نے ایک یادگار تقریر کی تھی۔ دنیا کے مختلف حصوں میں آج بھی آگ اور خون کی جو ہولی کھیلی جارہی ہے اس کے تناظر میں مارٹن لوتھر کنگ کی تقریر میں پنہاں پیغام بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
اس نے کہا تھا'' اس شام میں اس تاریخی اور بلند و بالا شہ نشین کو اس تکلیف دہ مسئلے پر بات کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہوں جو آج نبی نوع انسان کو درپیش ہے۔ جدید دور کا انسان اس پوری دنیا کو مستقبل کی پر جلال دہلیز پر لے آیا ہے۔ وہ سائنسی کامیابیوں کی حیرت انگیز نئی بلندیوں پر پہنچ گیا ہے۔
اس نے مشینیں بنائی ہیں جو سوچتی ہیں اور ایسے اوزار بنا لیے ہیں جو ستاروں کے درمیان خلاؤں کے ناقابل عبور علاقوں میں جھانک سکتے ہیں۔ اس نے سمندروں کو پار کرنے کے لیے عظیم الجثہ پل اور آسمانوں کو بوسہ دینے کے لیے دیو قامت عمارات تعمیر کرلی ہیں۔ ان کے ہوائی جہازوں اور خلائی جہازوں نے طویل فاصلوں کو کم کردیا ہے۔
وقت کو زنجیر کرلیا ہے اور کرہ ہوائی میں شاہراہیں تعمیر کردی ہیں۔ یہ جدید انسان کی سائنسی اور تکنیکی ترقی کی چندھیا دینے والی تصویر ہے۔ پھر بھی سائنس اور ٹیکنالوجی میں ایسی نظر فریب چھلانگ اور مستقبل میں بہت سی آنے والی غیر محدود چھلانگوں کے باوجود کچھ بنیادی شے ہے جو ابھی ہاتھ نہیں لگی ہے۔
جذبے کا ایک قسم کا افلاس ہے جو ہماری سائنسی اور تکنیکی بہتات کے تاب دار تقابل کے بیچ حائل ہے۔ مادی اعتبار سے ہم جتنے زیادہ متمول ہیں اخلاقی اور روحانی اعتبار سے اتنے ہی زیادہ قلاش ہیں۔ انھوں نے پرندوں کی طرح ہوا میں اڑنا اور مچھلی کی طرح سمندر میں پیرنا سیکھ لیا ہے، مگر ہم بھائیوں کی طرح ایک ساتھ رہنے کا سادہ ترین فن نہیں سیکھ سکے ہیں۔''
ہر آدمی، اندرونی اور بیرونی دو دائروں میں رہتا ہے ہمارا اندرون روحانی دائرے کا آخری سرا ہوتا ہے جس کا اظہار فن، ادب، اخلاقیات اور مذہب میں ہوتا ہے۔
ہمارا بیرون پرزوں، تکنیک، کار زار اور اوزاریات کی پیچیدگی ہے۔ جس کے ذریعے ہم زندہ رہتے ہیں۔ آج ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اندورن کو بیرون میں گم ہوجانے دیا ہے۔ یہی آسیبی مسئلہ ہے جو انسان پر ہمہ وقت سوار رہتا ہے، آج اگر ہمیں اس جال سے نکلنا ہے تو ہمیں اپنی اخلاقی اور روحانی ''کاہلی'' کو نکال باہر کرنا ہوگا۔
اس مرحلے پر پہلے جس مسئلے کا تذکرہ کرناچاہوں گا وہ ہے نسلی ناانصافی، نسلی ناانصافی شیطنیت کو دور کرنے کی جدوجہد ہی ہمارے وقت کی بہت ساری کوششوں میں سے ایک اور سب سے اہم ضرورت ہے۔ پوری دنیا میں ایک بخار کی طرح تاریخ کی سب سے وسیع تحریک آزادی پھیل رہی ہے۔
عوام کی اکثریت نے اپنی نسل اور اپنی زمین کے استحصال کو مٹا دینے کا عہد کر لیا ہے۔ عوام جاگ اٹھے ہیں اور سمندر کی بہا لے جانے والی اونچی لہروں کی طرح اپنے ہدف کی طرف بڑھ رہے ہیں، آپ ہر قریے، ہر گلی، ہر بندرگاہ، ہر مکان میں، طلبہ میں، کلیساؤں میں اور سیاسی اجتماعات میں ان کی غراہٹ کو سن سکتے ہیں۔
عام معنوں میں عدم تشدد کا مطلب یہ ہے کہ جدوجہد کے لیے اسلحے پر بھروسہ نہیں کیا جائے گا۔ اس کا مطلب ان روایات اور قوانین سے عدم تعاون بھی ہے جو تعصب اور غلامی کی حکومت کی پہچان ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ احتجاج میں بھی عوام کی براہ راست شمولیت ہو، بجائے اس کے کہ ان بالواسطہ طریقوں پر انحصار کیا جائے جس میں عوام کی عملی شرکت بالکل ہی نہ ہو۔
عدم تشدد کا یہ مطلب بھی رہا ہے کہ ہمارے عوام نے حالیہ برسوں میں جدوجہد میں شمولیت کے دوران خود زخم سہے ہیں، بجائے اس کے دوسروں پر زخم لگائے جاتے۔ اس کا مطلب، جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں یہ بھی ہے کہ نہ ہم اب خوف زدہ ہیں اور نہ دبنے والے ہیں۔
تشدد کے ذریعے نسلی انصاف کا حصول ناقابل عمل بھی ہے اور غیر اخلاقی بھی۔ اس حقیقت سے بے بہرہ نہیں کہ تشدد اکثر عارضی نتائج فراہم کرتا ہے۔ قوموں نے اکثر جنگ کے ذریعے ہی آزادی حاصل کی ہے، مگر وقتی فتوحات کے باوجود تشدد کبھی پائیدار امن نہیں لاسکتا۔ یہ سماجی مسائل کا حل نہیں۔ یہ صرف نئے اور پیچیدہ مسائل پیدا کرتا ہے۔
میں نے اب تک جو کچھ کہا اس کا نچوڑ یہ ہے کہ نبی نوع انسان کی بقا ، نسلی ناانصافی، افلاس اور جنگ کے مسائل کو حل کرنے کی انسانی صلاحیت پر مبنی ہے۔ ان مسائل کا حل اس نکتے پر ہے کہ انسان اپنی اخلاقی ترقی کو سائنسی ترقی کے برابر رکھے اور ہم آہنگی سے زندہ رہنے کا عملی فن سیکھے۔ کچھ برس قبل ایک مشہور ناول نگارکا انتقال ہوا تھا۔ اس کے کاغذات میں مستقبل میں لکھی جانے والی کہانیوں کے پلاٹ کی ایک فہرست ملی تھی۔
جس میں سرفہرست یہ جملہ لکھا ہوا تھا '' ایک بکھرے ہوئے خاندان کو وراثت میں ایک مکان ملتا ہے جس میں سب کو اکٹھا رہنا ہوگا۔'' بنی نوع انسان کا یہی سب سے بڑا نیا مسئلہ ہے۔ ہم کو بھی وراثت میں ایک بڑا مکان ملا ہے۔ ایک عظیم '' عالمی گھر'' جس میں ہم سب کو اکٹھے رہنا ہے۔ کالا ہو یا گورا، مشرقی ہو یا مغربی، بت پرست ہو یا یہودی، کیتھولک ہو یا پروٹسٹنٹ، مسلمان ہو یا ہندو، ایک خاندان ہے جو بلاوجہ بکھرا ہوا ہے۔
اپنے خیالات، تہذیب اور مفادات کے باعث اور چونکہ ہم اب ایک دوسرے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے ہمیں بہرحال اس بڑی ساری دنیا میں ایک ساتھ رہنے کے طریقے سیکھنے ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہماری وفاداریاں، فرقوں پر نہیں مذہبی اتحاد کے ساتھ ہونی چاہئیں۔ ہمیں اب اپنی بالا ترین وفاداری من حیث الکل بنی نوع انسان کے ساتھ رکھنی چاہیے، تاکہ ہم بنیادی سوسائٹیوں میں بہترین کا تحفظ کرسکیں۔
میں آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ استحصال اور جبرکا قدیم نظام ہچکیاں لے رہا ہے اور ناپائیدار دنیا کی کوکھ سے انصاف اور مساوات کے نئے نظام جنم لے رہے ہیں۔
سماج کی سب سے نچلی سطح والوں کے لیے مواقع کے دروازے بتدریج کھولے جا رہے ہیں۔ قمیصوں اور جوتوں سے محروم آبادی کے لیے تجہیم نو کا ایک نیا احساس پنپ رہا ہے۔ مایوسیوں کے تاریک پہاڑوں کی بنیادوں میں سے امید کی ایک سرنگ نکالی جارہی ہے۔''
آج فلسطین میں تشدد اور ظلم و بربریت کا بازار گرم ہے ۔ ایسے میں دنیا بالخصوص مغرب کو ایک اور مارٹن لوتھر کنگ کی تلاش ہے۔
نوبل امن انعام دینے والی کمیٹی نے اس کی جدوجہد کا اعتراف ان الفاظ میں کیا تھا۔ '' مارٹن لوتھر کنگ کی نہتی جدوجہد ان کے اپنے ملک میں چلائی گئی ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ صدیوں پرانا روایتی اور بے رحم تنازعہ اب اپنے حل کے قریب آپہنچا ہے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ وہ راستہ جو انھوں نے اور ان کے عوام نے اپنے لیے متعین کیا ہے ، دنیا کے دوسرے علاقوں میں بھی امید کی روشنی پھیلائے، ایسی امید جو نسلوں، قوموں اور سیاسی نظاموں کے درمیان تنازعات کو سلجھا سکتی ہے نہ آگ سے اور نہ تلوار سے، بلکہ ایک سچی اور برادرانہ محبت سے؟ '' لوتھر کنگ اپنے ملک کی سرحدوں سے پرے بھی دیکھتے ہیں وہ کہتے ہیں '' پہلے سے کہیں زیادہ میرے دوست، تمام نسلوں اور قوموں کے آدمی، آج پڑوسی ہوتے ہوئے بھی چیلنج کیے جا رہے ہیں۔
اب ہم زیادہ دیر تک ایک دوسرے سے الگ رہنے کی عیاشی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ ایسی غلطی کبھی اخلاقی ناکامی کہلاتی تھی، آج یہ ہمیں آفاقی خود کشی کی طرف لے جائے گی، اگر ہم یہ فرض کرلیتے ہیں کہ بنی نوع انسان کو باقی رہنے کا حق ہے تو ہمیں جنگ اور تباہی کا متبادل راستہ تلاش کرنا ہوگا۔
خلائی جہازوں اور میزائلوں کے ہمارے دور میں دو ہی راستے ہیں، عدم تشدد کا راستہ یا عدم وجود کا راستہ۔ '' وہ مغربی دنیا کے پہلے شخص ہیں جس نے دکھا دیا کہ بغیر تشدد کے بھی جدوجہد کی جاسکتی ہے۔ آج ہم لوتھر کنگ کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہیں جو نہتی جدوجہد پر اپنے عقیدے سے کسی بھی طرح دست بردار نہیں ہوئے۔
جنھوں نے اپنے عقیدے کی خاطر دکھ جھیلے ہیں، کئی بار قید ہوئے، ان کا گھر بموں کا نشانہ بنا ہے۔ ان کی اپنی اور ان کے خاندان کی زندگی ختم کرنے کی دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔ پھر بھی ان کا عزم لڑکھڑایا نہیں۔
اس تقریب میں مارٹن لوتھرکنگ نے ایک یادگار تقریر کی تھی۔ دنیا کے مختلف حصوں میں آج بھی آگ اور خون کی جو ہولی کھیلی جارہی ہے اس کے تناظر میں مارٹن لوتھر کنگ کی تقریر میں پنہاں پیغام بڑی اہمیت رکھتا ہے۔
اس نے کہا تھا'' اس شام میں اس تاریخی اور بلند و بالا شہ نشین کو اس تکلیف دہ مسئلے پر بات کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہوں جو آج نبی نوع انسان کو درپیش ہے۔ جدید دور کا انسان اس پوری دنیا کو مستقبل کی پر جلال دہلیز پر لے آیا ہے۔ وہ سائنسی کامیابیوں کی حیرت انگیز نئی بلندیوں پر پہنچ گیا ہے۔
اس نے مشینیں بنائی ہیں جو سوچتی ہیں اور ایسے اوزار بنا لیے ہیں جو ستاروں کے درمیان خلاؤں کے ناقابل عبور علاقوں میں جھانک سکتے ہیں۔ اس نے سمندروں کو پار کرنے کے لیے عظیم الجثہ پل اور آسمانوں کو بوسہ دینے کے لیے دیو قامت عمارات تعمیر کرلی ہیں۔ ان کے ہوائی جہازوں اور خلائی جہازوں نے طویل فاصلوں کو کم کردیا ہے۔
وقت کو زنجیر کرلیا ہے اور کرہ ہوائی میں شاہراہیں تعمیر کردی ہیں۔ یہ جدید انسان کی سائنسی اور تکنیکی ترقی کی چندھیا دینے والی تصویر ہے۔ پھر بھی سائنس اور ٹیکنالوجی میں ایسی نظر فریب چھلانگ اور مستقبل میں بہت سی آنے والی غیر محدود چھلانگوں کے باوجود کچھ بنیادی شے ہے جو ابھی ہاتھ نہیں لگی ہے۔
جذبے کا ایک قسم کا افلاس ہے جو ہماری سائنسی اور تکنیکی بہتات کے تاب دار تقابل کے بیچ حائل ہے۔ مادی اعتبار سے ہم جتنے زیادہ متمول ہیں اخلاقی اور روحانی اعتبار سے اتنے ہی زیادہ قلاش ہیں۔ انھوں نے پرندوں کی طرح ہوا میں اڑنا اور مچھلی کی طرح سمندر میں پیرنا سیکھ لیا ہے، مگر ہم بھائیوں کی طرح ایک ساتھ رہنے کا سادہ ترین فن نہیں سیکھ سکے ہیں۔''
ہر آدمی، اندرونی اور بیرونی دو دائروں میں رہتا ہے ہمارا اندرون روحانی دائرے کا آخری سرا ہوتا ہے جس کا اظہار فن، ادب، اخلاقیات اور مذہب میں ہوتا ہے۔
ہمارا بیرون پرزوں، تکنیک، کار زار اور اوزاریات کی پیچیدگی ہے۔ جس کے ذریعے ہم زندہ رہتے ہیں۔ آج ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے اندورن کو بیرون میں گم ہوجانے دیا ہے۔ یہی آسیبی مسئلہ ہے جو انسان پر ہمہ وقت سوار رہتا ہے، آج اگر ہمیں اس جال سے نکلنا ہے تو ہمیں اپنی اخلاقی اور روحانی ''کاہلی'' کو نکال باہر کرنا ہوگا۔
اس مرحلے پر پہلے جس مسئلے کا تذکرہ کرناچاہوں گا وہ ہے نسلی ناانصافی، نسلی ناانصافی شیطنیت کو دور کرنے کی جدوجہد ہی ہمارے وقت کی بہت ساری کوششوں میں سے ایک اور سب سے اہم ضرورت ہے۔ پوری دنیا میں ایک بخار کی طرح تاریخ کی سب سے وسیع تحریک آزادی پھیل رہی ہے۔
عوام کی اکثریت نے اپنی نسل اور اپنی زمین کے استحصال کو مٹا دینے کا عہد کر لیا ہے۔ عوام جاگ اٹھے ہیں اور سمندر کی بہا لے جانے والی اونچی لہروں کی طرح اپنے ہدف کی طرف بڑھ رہے ہیں، آپ ہر قریے، ہر گلی، ہر بندرگاہ، ہر مکان میں، طلبہ میں، کلیساؤں میں اور سیاسی اجتماعات میں ان کی غراہٹ کو سن سکتے ہیں۔
عام معنوں میں عدم تشدد کا مطلب یہ ہے کہ جدوجہد کے لیے اسلحے پر بھروسہ نہیں کیا جائے گا۔ اس کا مطلب ان روایات اور قوانین سے عدم تعاون بھی ہے جو تعصب اور غلامی کی حکومت کی پہچان ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ احتجاج میں بھی عوام کی براہ راست شمولیت ہو، بجائے اس کے کہ ان بالواسطہ طریقوں پر انحصار کیا جائے جس میں عوام کی عملی شرکت بالکل ہی نہ ہو۔
عدم تشدد کا یہ مطلب بھی رہا ہے کہ ہمارے عوام نے حالیہ برسوں میں جدوجہد میں شمولیت کے دوران خود زخم سہے ہیں، بجائے اس کے دوسروں پر زخم لگائے جاتے۔ اس کا مطلب، جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں یہ بھی ہے کہ نہ ہم اب خوف زدہ ہیں اور نہ دبنے والے ہیں۔
تشدد کے ذریعے نسلی انصاف کا حصول ناقابل عمل بھی ہے اور غیر اخلاقی بھی۔ اس حقیقت سے بے بہرہ نہیں کہ تشدد اکثر عارضی نتائج فراہم کرتا ہے۔ قوموں نے اکثر جنگ کے ذریعے ہی آزادی حاصل کی ہے، مگر وقتی فتوحات کے باوجود تشدد کبھی پائیدار امن نہیں لاسکتا۔ یہ سماجی مسائل کا حل نہیں۔ یہ صرف نئے اور پیچیدہ مسائل پیدا کرتا ہے۔
میں نے اب تک جو کچھ کہا اس کا نچوڑ یہ ہے کہ نبی نوع انسان کی بقا ، نسلی ناانصافی، افلاس اور جنگ کے مسائل کو حل کرنے کی انسانی صلاحیت پر مبنی ہے۔ ان مسائل کا حل اس نکتے پر ہے کہ انسان اپنی اخلاقی ترقی کو سائنسی ترقی کے برابر رکھے اور ہم آہنگی سے زندہ رہنے کا عملی فن سیکھے۔ کچھ برس قبل ایک مشہور ناول نگارکا انتقال ہوا تھا۔ اس کے کاغذات میں مستقبل میں لکھی جانے والی کہانیوں کے پلاٹ کی ایک فہرست ملی تھی۔
جس میں سرفہرست یہ جملہ لکھا ہوا تھا '' ایک بکھرے ہوئے خاندان کو وراثت میں ایک مکان ملتا ہے جس میں سب کو اکٹھا رہنا ہوگا۔'' بنی نوع انسان کا یہی سب سے بڑا نیا مسئلہ ہے۔ ہم کو بھی وراثت میں ایک بڑا مکان ملا ہے۔ ایک عظیم '' عالمی گھر'' جس میں ہم سب کو اکٹھے رہنا ہے۔ کالا ہو یا گورا، مشرقی ہو یا مغربی، بت پرست ہو یا یہودی، کیتھولک ہو یا پروٹسٹنٹ، مسلمان ہو یا ہندو، ایک خاندان ہے جو بلاوجہ بکھرا ہوا ہے۔
اپنے خیالات، تہذیب اور مفادات کے باعث اور چونکہ ہم اب ایک دوسرے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے ہمیں بہرحال اس بڑی ساری دنیا میں ایک ساتھ رہنے کے طریقے سیکھنے ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہماری وفاداریاں، فرقوں پر نہیں مذہبی اتحاد کے ساتھ ہونی چاہئیں۔ ہمیں اب اپنی بالا ترین وفاداری من حیث الکل بنی نوع انسان کے ساتھ رکھنی چاہیے، تاکہ ہم بنیادی سوسائٹیوں میں بہترین کا تحفظ کرسکیں۔
میں آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ استحصال اور جبرکا قدیم نظام ہچکیاں لے رہا ہے اور ناپائیدار دنیا کی کوکھ سے انصاف اور مساوات کے نئے نظام جنم لے رہے ہیں۔
سماج کی سب سے نچلی سطح والوں کے لیے مواقع کے دروازے بتدریج کھولے جا رہے ہیں۔ قمیصوں اور جوتوں سے محروم آبادی کے لیے تجہیم نو کا ایک نیا احساس پنپ رہا ہے۔ مایوسیوں کے تاریک پہاڑوں کی بنیادوں میں سے امید کی ایک سرنگ نکالی جارہی ہے۔''
آج فلسطین میں تشدد اور ظلم و بربریت کا بازار گرم ہے ۔ ایسے میں دنیا بالخصوص مغرب کو ایک اور مارٹن لوتھر کنگ کی تلاش ہے۔