شہباز شریف کو کلین چٹ مل گئی
آپ کہہ سکتے ہیں کہ شہباز شریف اور ان کے بیٹوں کو پاکستان کی عدالتوں سے کلین چٹ مل گئی ہے
احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم میاں شہباز شریف کو آشیانہ کیس سے بری کر دیا ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ اور ان کے صاحبزادے سلمان شہباز اور حمزہ شہباز، عمران خان کے دور میں بنائے گئے متعدد مقدمات سے عدالت سے بری ہو چکے ہیں۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ شہباز شریف اور ان کے بیٹوں کو پاکستان کی عدالتوں سے کلین چٹ مل گئی ہے۔ ان کے خلاف جتنے بھی مقدمات بنائے گئے تھے وہ عدالتوں میں ثابت نہیں ہو سکے ہیں۔ بلکہ تمام مقدمات جھوٹے ثابت ہوئے ہیں۔
آشیانہ کیس بھی عجیب تھا۔ سرکار کی زمین سرکارکے پاس ہے۔ کسی کو سرکاری خزانہ سے کوئی پیسے نہیں دیے گئے۔ سرکاری خزانے کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ نہ کوئی کرپشن نہ کوئی بد عنوانی، پھر بھی کیس۔ ایسے کیس صرف اور صرف شہباز شریف کو جیل میں رکھنے اور ان کا سیاسی راستہ روکنے کے لیے بنائے گئے تھے۔ شاید بنانے والوں کو بھی علم تھا کہ جھوٹے کیس ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے بعد سب سے پہلے شہباز شریف کو ہی گرفتار کروایا تھا۔ وہ شہباز شریف سے شدید خوفزدہ تھے۔ انھیں پہلے دن سے اندازہ تھا کہ ان کے اقتدار کے لیے سب سے بڑا خطرہ شہباز شریف ہیں۔
اس لیے انھوں نے سب سے پہلے شہباز شریف کو گرفتار کروایا۔ بلکہ شہباز شریف کو جب نیب میں پہلی گرفتاری کے کئی ماہ بعد ضمانت مل گئی تو پھر دوبارہ گرفتار کروادیا گیا۔ عمران خان انھیں باہر نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ دوسری دفعہ بھی جب کئی ماہ بعد ان کی ضمانت ہونے لگی تو اسے بھی حکومتی اثر و رسوخ کے ذریعے روکنے کی بہت کوشش کی گئی۔ بنچ توڑے گئے۔ ضمانت روکنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔
تحریک انصاف کے لوگ اکثر یہ پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ جس دن شہباز شریف پر فر د جرم لگنی تھی اس دن وہ وزیر اعظم بن گئے۔کبھی کسی نے تحریک انصاف سے یہ سوال نہیں کیا کہ آپ کی حکومت میں سب سے پہلی گرفتاری شہباز شریف کی ہوئی، وہ دو سال سے زیادہ جیل میں رہے۔
ان کی ضمانت نہیں ہونے دی جاتی تھی۔ ان کے قومی اسمبلی کے اجلاس کے لیے پروڈکشن آرڈر بھی جاری نہیں کیے جاتے تھے۔ پھر پی ٹی آئی کی حکومت کے ساڑھے تین سال فرد جرم کیوں عائد نہیں ہو سکی۔
جب ملزم جیل میں ہو تو ایک پیشی پر فرد جر م عائد ہو جاتی ہے۔ ملزم جب حراست میں ہو تو فرد جرم روکنے کا اس کے پاس کوئی اختیار ہی نہیں ہوتا، پھر کیا کوئی تحریک انصاف سے سوال کر سکتا ہے کہ آپ ساڑھے تین سال فرد جرم کیوں عائد نہیں کر سکے۔ نیب آپ کے پاس، ایف آئی اے آپ کے پاس، اینٹی کرپشن آپ کے پاس، پھر فرد جرم کیوں عائد نہیں ہو سکی۔ کیا اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ مقدمات اس قابل ہی نہیں تھے کہ ان میں فرد جرم بھی عائد ہو سکے۔
بہت شو ر تھا کہ سپریم کورٹ نے نیب ترامیم مسترد کر دی ہیں۔ تمام کیس بحال ہو گئے ہیں۔ اب شہباز شریف بچ نہیں سکیں گے۔ لیکن آپ دیکھیں وہ نیب ترامیم بحال ہونے کے بعد بھی عدالتوں سے بری ہو رہے ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی شہباز شریف کی بریت اس بات کا ثبوت ہے کہ شہباز شریف کے مقدمات نیب ترامیم کے محتاج نہیں تھے۔ وہ پرانے قانون سے بھی بری ہی ہوئے ہیں۔ اس لیے اب تو کسی کو اعتراض کا کوئی حق نہیں۔
شہباز شریف نے چیئرمین پی ٹی آئی کے دور میں صرف پاکستان کی عدالتوں سے کلین چٹ حاصل نہیں کی ہے بلکہ شہباز شریف کے خلاف پی ٹی آئی کی حکومت نے برطانیہ میں بھی مقدمات بنانے کی کوشش کی۔ شہباز شریف اور سلمان شہباز کے خلاف برطانیہ میں بھی نیشنل کرائم ایجنسی کو شکایت کی گئی۔
شہباز شریف اور ان کے بیٹے سلمان شہباز نے برطانیہ کی نیشل کرائم ایجنسی کو رضاکارانہ طو رپر اپنی تلا شی دینے کی اجازت دی۔ انھوں نے اپنے مکمل بینک اکاؤنٹس کی تلاشی دی۔ دو سال تک برطانیہ میں نیشل کرائم ایجنسی نے مکمل تحقیقات کے بعد شہباز شریف اور سلمان شہباز کو مکمل کلین چٹ دے دی۔
میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ نیشنل کرائم ایجنسی سے کلین چٹ کے بعد پاکستان میں بنائے ہوئے مقدمات کی کوئی حیثیت نہیں رہی ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی خود برطانیہ کے نظام انصاف اور وہاں کی تفتیش کی مثالیں دیتے تھے۔ پھر جب شہباز شریف اور ان کے بیٹے نے دنیا کے بہترین نظام انصاف اور تفتیش سے خود کو بے گناہ ثابت کر دیا تو پاکستان کی مقدمات ا ز خود ہی ختم ہو جانے چاہیے تھے۔ ۔
اسی طرح ایک برطانوی صحافی کے ذریعے برطانیہ میں شہباز شریف کے خلاف مبینہ بد عنوانی کی خبر شایع کروائی گئی۔ اس خبر کی ا شاعت کے بعدشہزاد اکبر اور اینڈ کمپنی نے پاکستان میں پراپیگنڈا شروع کر دیا کہ اگر شہباز شریف سچے ہیں تو لندن میں صحافی کے خلاف مقدمہ کریں۔
ان سب کا خیال تھا کہ پاکستان میں مقدمات میں پھنسا شہباز شریف کہاں لندن میں برطانوی صحافی کے خلاف مقدمہ کرے گا۔لیکن شہباز شریف نے لندن میں برطانی صحافی کے خلاف مقدمہ کیا۔ اور پھر سب نے دیکھا کہ برطانوی صحافی کو لندن کی عدالت میں شہباز شریف سے معافی مانگنی پڑی۔ یہ شہباز شریف کو لندن کے نظام انصاف سے دوسری کلین چٹ ملی تھی۔
اس طرح شہباز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ برطانیہ سے بھی کلین چٹ حاصل کی ہے۔ دونوں ممالک کے نظام انصاف نے ان کے خلاف تمام الزامات کو جھوٹ قرار دیا ہے۔ ان کے خلاف دو ممالک میں تحقیقات ہوئی ہیں اور دونوں ممالک میں وہ بے گناہی پائے گئے ہیں۔
ایسا اعزا ز اس سے پہلے کسی کو حاصل نہیں ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف لندن اور بیرون ملک کئی خبریں شایع ہوئی ہیں لیکن انھوں نے کبھی کسی پر مقدمہ دائر نہیں کیا۔ بلکہ توشہ خانہ کے اسکینڈل آنے کے بعد انھوں نے لندن، دبئی اور امریکا میں ایک نجی ٹی وی کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن دائر نہیں کیا۔ شاید انھیں اندازہ ہے کہ وہاں مقدمہ کا فیصلہ میرٹ پر ہو گا۔ اس لیے کہیں فیصلہ خلاف ہی نہ ہو جائے۔
یہ درست ہے کہ شہباز شریف دو ممالک سے کلین چٹ ملنے کے بعد بھی اس کی تشہیر نہیں کرتے۔ انھوں نے اس پر کوئی مہم نہیں بنائی۔
اپنے لیے مسٹر کلین کا کوئی لقب نہیں بنایا۔ انھوں نے حال ہی میں آشیانہ میں بری ہونے کے بعد ٹویٹ بھی نہیں کیا کہ میں بری ہو گیا ہوں۔ آجکل کا دور میڈیا کا دور ہے۔ جب آپ کو دو ممالک سے کلین چٹ مل گئی ہے تو آپ پاکستان کی عوام کو بتائیں کہ مجھے دو ممالک سے کلین چٹ ملی ہے۔ میں دو ممالک سے سرخرو ہوا ہوں۔ جس کی پاکستان میں کوئی مثال نہیں۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ شہباز شریف اور ان کے بیٹوں کو پاکستان کی عدالتوں سے کلین چٹ مل گئی ہے۔ ان کے خلاف جتنے بھی مقدمات بنائے گئے تھے وہ عدالتوں میں ثابت نہیں ہو سکے ہیں۔ بلکہ تمام مقدمات جھوٹے ثابت ہوئے ہیں۔
آشیانہ کیس بھی عجیب تھا۔ سرکار کی زمین سرکارکے پاس ہے۔ کسی کو سرکاری خزانہ سے کوئی پیسے نہیں دیے گئے۔ سرکاری خزانے کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔ نہ کوئی کرپشن نہ کوئی بد عنوانی، پھر بھی کیس۔ ایسے کیس صرف اور صرف شہباز شریف کو جیل میں رکھنے اور ان کا سیاسی راستہ روکنے کے لیے بنائے گئے تھے۔ شاید بنانے والوں کو بھی علم تھا کہ جھوٹے کیس ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ عمران خان نے وزیر اعظم بننے کے بعد سب سے پہلے شہباز شریف کو ہی گرفتار کروایا تھا۔ وہ شہباز شریف سے شدید خوفزدہ تھے۔ انھیں پہلے دن سے اندازہ تھا کہ ان کے اقتدار کے لیے سب سے بڑا خطرہ شہباز شریف ہیں۔
اس لیے انھوں نے سب سے پہلے شہباز شریف کو گرفتار کروایا۔ بلکہ شہباز شریف کو جب نیب میں پہلی گرفتاری کے کئی ماہ بعد ضمانت مل گئی تو پھر دوبارہ گرفتار کروادیا گیا۔ عمران خان انھیں باہر نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ دوسری دفعہ بھی جب کئی ماہ بعد ان کی ضمانت ہونے لگی تو اسے بھی حکومتی اثر و رسوخ کے ذریعے روکنے کی بہت کوشش کی گئی۔ بنچ توڑے گئے۔ ضمانت روکنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔
تحریک انصاف کے لوگ اکثر یہ پراپیگنڈہ کرتے ہیں کہ جس دن شہباز شریف پر فر د جرم لگنی تھی اس دن وہ وزیر اعظم بن گئے۔کبھی کسی نے تحریک انصاف سے یہ سوال نہیں کیا کہ آپ کی حکومت میں سب سے پہلی گرفتاری شہباز شریف کی ہوئی، وہ دو سال سے زیادہ جیل میں رہے۔
ان کی ضمانت نہیں ہونے دی جاتی تھی۔ ان کے قومی اسمبلی کے اجلاس کے لیے پروڈکشن آرڈر بھی جاری نہیں کیے جاتے تھے۔ پھر پی ٹی آئی کی حکومت کے ساڑھے تین سال فرد جرم کیوں عائد نہیں ہو سکی۔
جب ملزم جیل میں ہو تو ایک پیشی پر فرد جر م عائد ہو جاتی ہے۔ ملزم جب حراست میں ہو تو فرد جرم روکنے کا اس کے پاس کوئی اختیار ہی نہیں ہوتا، پھر کیا کوئی تحریک انصاف سے سوال کر سکتا ہے کہ آپ ساڑھے تین سال فرد جرم کیوں عائد نہیں کر سکے۔ نیب آپ کے پاس، ایف آئی اے آپ کے پاس، اینٹی کرپشن آپ کے پاس، پھر فرد جرم کیوں عائد نہیں ہو سکی۔ کیا اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ مقدمات اس قابل ہی نہیں تھے کہ ان میں فرد جرم بھی عائد ہو سکے۔
بہت شو ر تھا کہ سپریم کورٹ نے نیب ترامیم مسترد کر دی ہیں۔ تمام کیس بحال ہو گئے ہیں۔ اب شہباز شریف بچ نہیں سکیں گے۔ لیکن آپ دیکھیں وہ نیب ترامیم بحال ہونے کے بعد بھی عدالتوں سے بری ہو رہے ہیں۔
اس کا مطلب ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی شہباز شریف کی بریت اس بات کا ثبوت ہے کہ شہباز شریف کے مقدمات نیب ترامیم کے محتاج نہیں تھے۔ وہ پرانے قانون سے بھی بری ہی ہوئے ہیں۔ اس لیے اب تو کسی کو اعتراض کا کوئی حق نہیں۔
شہباز شریف نے چیئرمین پی ٹی آئی کے دور میں صرف پاکستان کی عدالتوں سے کلین چٹ حاصل نہیں کی ہے بلکہ شہباز شریف کے خلاف پی ٹی آئی کی حکومت نے برطانیہ میں بھی مقدمات بنانے کی کوشش کی۔ شہباز شریف اور سلمان شہباز کے خلاف برطانیہ میں بھی نیشنل کرائم ایجنسی کو شکایت کی گئی۔
شہباز شریف اور ان کے بیٹے سلمان شہباز نے برطانیہ کی نیشل کرائم ایجنسی کو رضاکارانہ طو رپر اپنی تلا شی دینے کی اجازت دی۔ انھوں نے اپنے مکمل بینک اکاؤنٹس کی تلاشی دی۔ دو سال تک برطانیہ میں نیشل کرائم ایجنسی نے مکمل تحقیقات کے بعد شہباز شریف اور سلمان شہباز کو مکمل کلین چٹ دے دی۔
میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ نیشنل کرائم ایجنسی سے کلین چٹ کے بعد پاکستان میں بنائے ہوئے مقدمات کی کوئی حیثیت نہیں رہی ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی خود برطانیہ کے نظام انصاف اور وہاں کی تفتیش کی مثالیں دیتے تھے۔ پھر جب شہباز شریف اور ان کے بیٹے نے دنیا کے بہترین نظام انصاف اور تفتیش سے خود کو بے گناہ ثابت کر دیا تو پاکستان کی مقدمات ا ز خود ہی ختم ہو جانے چاہیے تھے۔ ۔
اسی طرح ایک برطانوی صحافی کے ذریعے برطانیہ میں شہباز شریف کے خلاف مبینہ بد عنوانی کی خبر شایع کروائی گئی۔ اس خبر کی ا شاعت کے بعدشہزاد اکبر اور اینڈ کمپنی نے پاکستان میں پراپیگنڈا شروع کر دیا کہ اگر شہباز شریف سچے ہیں تو لندن میں صحافی کے خلاف مقدمہ کریں۔
ان سب کا خیال تھا کہ پاکستان میں مقدمات میں پھنسا شہباز شریف کہاں لندن میں برطانوی صحافی کے خلاف مقدمہ کرے گا۔لیکن شہباز شریف نے لندن میں برطانی صحافی کے خلاف مقدمہ کیا۔ اور پھر سب نے دیکھا کہ برطانوی صحافی کو لندن کی عدالت میں شہباز شریف سے معافی مانگنی پڑی۔ یہ شہباز شریف کو لندن کے نظام انصاف سے دوسری کلین چٹ ملی تھی۔
اس طرح شہباز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ برطانیہ سے بھی کلین چٹ حاصل کی ہے۔ دونوں ممالک کے نظام انصاف نے ان کے خلاف تمام الزامات کو جھوٹ قرار دیا ہے۔ ان کے خلاف دو ممالک میں تحقیقات ہوئی ہیں اور دونوں ممالک میں وہ بے گناہی پائے گئے ہیں۔
ایسا اعزا ز اس سے پہلے کسی کو حاصل نہیں ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف لندن اور بیرون ملک کئی خبریں شایع ہوئی ہیں لیکن انھوں نے کبھی کسی پر مقدمہ دائر نہیں کیا۔ بلکہ توشہ خانہ کے اسکینڈل آنے کے بعد انھوں نے لندن، دبئی اور امریکا میں ایک نجی ٹی وی کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن دائر نہیں کیا۔ شاید انھیں اندازہ ہے کہ وہاں مقدمہ کا فیصلہ میرٹ پر ہو گا۔ اس لیے کہیں فیصلہ خلاف ہی نہ ہو جائے۔
یہ درست ہے کہ شہباز شریف دو ممالک سے کلین چٹ ملنے کے بعد بھی اس کی تشہیر نہیں کرتے۔ انھوں نے اس پر کوئی مہم نہیں بنائی۔
اپنے لیے مسٹر کلین کا کوئی لقب نہیں بنایا۔ انھوں نے حال ہی میں آشیانہ میں بری ہونے کے بعد ٹویٹ بھی نہیں کیا کہ میں بری ہو گیا ہوں۔ آجکل کا دور میڈیا کا دور ہے۔ جب آپ کو دو ممالک سے کلین چٹ مل گئی ہے تو آپ پاکستان کی عوام کو بتائیں کہ مجھے دو ممالک سے کلین چٹ ملی ہے۔ میں دو ممالک سے سرخرو ہوا ہوں۔ جس کی پاکستان میں کوئی مثال نہیں۔