’’کاروبار‘‘
ایک چٹکلہ ہے کہ ایک مرتبہ ملکہ برطانیہ کو کسی شہزادے نے ایک سطری پرچہ بھیجا کہ مجھے ایک پونڈ کی ضرورت ہے ، ملکہ نے اسی پرچے پر جوابی سطر لکھی کہ بیٹے فضول خرچی مت کرو، کفایت شعاری سیکھو۔ شہزادے نے وہ پرچہ بازار لے جاکر دس پونڈ میں بیچ ڈالا۔بات چھوٹی سی ہے لیکن اکثر چھوٹی سی بات سے بہت بڑی بات نکل آتی ہے اوراکثر بڑی بڑی باتوں کا نتیجہ صفر نکلتا ہے ۔
چلئیے پہلے ذرا ماضی میں جھانکتے ہیں، پرائمری اسکول میں ہمارے استاد محترم مہینے میں ایک بار ایک محفل نعت خوانی یا مقابلہ نعت خوانی منعقدکرواتے تھے ، ایسے ایک مقابلے میں ہم نے نظم سنائی، اب یاد نہیں کس شاعر کی تھی لیکن ہم نے کسی کتاب میں دیکھ کر پسند کی تھی ، تکنیکی طورپر تو یہ نعت نہیں تھی لیکن مذہبی اہمیت رکھتی تھی۔
اس لیے ہمیں استاد کی طرف سے بڑی شاباشی ملی تھی ، شاعر نے اس نظم میں یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ قرآن پاک مسلمانوں کے لیے راہ ہدایت ہے لیکن کئی مسلمانوں نے اسے کاروبار بنا لیا ہے۔ عقائد کو کس کس طرح کس کس انداز اور کس کس طریقے سے بیچا جاتاہے' وہ تو ساری دنیا کو معلوم ہے مثلاً یہ اشتہار پڑھیے۔''سارے مسائل کا حل عامل بابا کے پاس ہے''
محبت میں کامیابی ، پسند کی شادی ، مقدمات میں جیت،روزگار میں کامیابی ، امراض سے شفا، دولت میں اضافہ ، کاروبار میں ترقی، دشمنوں کو شکست، بے اولادی ، اولاد نرینہ، امتحان میں کامیابی، درازی عمر، کام میں برکت ، جادو ٹونہ سے بچاؤ، ہرمسئلے کے حل کے لیے ہم سے رجوع کریں ۔
عامل کامل نجومی پروفیسر الحاج بابا پرتگالی
اب تو یہ رجحان کچھ کم ہوگیاہے لیکن اگلے زمانوں میں جب بچوں کو کوئی بھی بیماری ہوتی تھی تووہ کسی ملا کے پاس جاتے تھے، ملاجی ان کے لیے چائے کی پیالی یاطشتری لکھتے تھے، اس طشتری میں ان کے بقول نوری علم کے الفاظ لکھے جاتے تھے، اورپھر اس میں پانی ڈال کر بچے کو پلایا جاتاتھا ۔
دوفریقوں میں دشمنی ہو یا مقدمہ دونوں کے ہاں ''ختم قرآن'' ہوتے ہیں ، خیبرپختونخوا میں اکثر ایسے گھرانے اب بھی پائے جاتے ہیں جو ''ختم قرآن'' کا دھندہ کرتے ہیں،ان کے پاس پہلے سے تیار ''ختم'' القرآن ہوتے ہیں جو فیس لے کر لوگوں کو بخشے جاتے ہیں۔
ہمارے محلے میں بھی ایسی ایک خاتون بڑی مشہور تھی ، مزے کی بات یہ ہے کہ ایک فریق اس کے پاس آکر مقدمے کی جیت کے لیے ''ختم شریف'' کا آرڈر دیتا۔تو دوسرے دن دوسرا فریق آکر ''ختم'' خرید لیتا اوردونوں کو پہلے سے تیار ختم عطا کردیے جاتے اورجیت کی دعا دی جاتی۔رب جلیل نے مسلمانوںکی رشد و ہدایت کے لیے جو ہدایت نامہ عطافرمایا تھا۔
اس کو جس جس طرح سے بیچاجاتاہے اسے دیکھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ،اس کی مثال یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیفۃ الارض کوجو ہدایت نامہ یا دستور بھیجا ہے ،اسے وہ صبح و شام چومتا ہے نہایت احترام سے غلافوں میں رکھتا ہے اور اسے لوگوں کو دکھا کر وصولیاںکرتاہے، نمائش کرتاہے لیکن اسے کھول کر نہیں پڑھتا کہ اس میں مجھے کیا ہدایت دی گئی ،کن کن کاموں سے منع کیاگیا اورکن کن کاموں کے کرنے کو کہاگیا ہے۔
کیاکیااصول بتائے گئے ہیں، کیاکیا قوانین وضع کیے گئے ہیں ۔اگلے زمانوں میں جب کوئی میت ہوتی تھی تو لواحقین دوسرے کئی لوازمات کے علاوہ قرآن پاک کے نسخے بھی لاتے تھے جو خاص قسم کے لوگوں میں تقسیم کردیے جاتے اور وہ وہیں سے اٹھ کر اس دکاندار کے پاس جاتے جن سے خریدے گئے تھے۔
دکاندار آدھی قیمت پر وہ قرآن خرید کر رکھ لیتا کہ اگلی میت والوں کو بیچے جائیں گے ۔ہم نے ایک دن ایسا ہی قرآن کسی سے لے کر دیکھا تو غیرمعیاری کاغذ اور سیاہی کا استعمال کیا گیا تھا' کیوںکہ چھاپنے والوں کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ اسے پڑھے گا کوئی نہیں صرف خریدے گا اوربیچے گا۔
چلئیے پہلے ذرا ماضی میں جھانکتے ہیں، پرائمری اسکول میں ہمارے استاد محترم مہینے میں ایک بار ایک محفل نعت خوانی یا مقابلہ نعت خوانی منعقدکرواتے تھے ، ایسے ایک مقابلے میں ہم نے نظم سنائی، اب یاد نہیں کس شاعر کی تھی لیکن ہم نے کسی کتاب میں دیکھ کر پسند کی تھی ، تکنیکی طورپر تو یہ نعت نہیں تھی لیکن مذہبی اہمیت رکھتی تھی۔
اس لیے ہمیں استاد کی طرف سے بڑی شاباشی ملی تھی ، شاعر نے اس نظم میں یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ قرآن پاک مسلمانوں کے لیے راہ ہدایت ہے لیکن کئی مسلمانوں نے اسے کاروبار بنا لیا ہے۔ عقائد کو کس کس طرح کس کس انداز اور کس کس طریقے سے بیچا جاتاہے' وہ تو ساری دنیا کو معلوم ہے مثلاً یہ اشتہار پڑھیے۔''سارے مسائل کا حل عامل بابا کے پاس ہے''
محبت میں کامیابی ، پسند کی شادی ، مقدمات میں جیت،روزگار میں کامیابی ، امراض سے شفا، دولت میں اضافہ ، کاروبار میں ترقی، دشمنوں کو شکست، بے اولادی ، اولاد نرینہ، امتحان میں کامیابی، درازی عمر، کام میں برکت ، جادو ٹونہ سے بچاؤ، ہرمسئلے کے حل کے لیے ہم سے رجوع کریں ۔
عامل کامل نجومی پروفیسر الحاج بابا پرتگالی
اب تو یہ رجحان کچھ کم ہوگیاہے لیکن اگلے زمانوں میں جب بچوں کو کوئی بھی بیماری ہوتی تھی تووہ کسی ملا کے پاس جاتے تھے، ملاجی ان کے لیے چائے کی پیالی یاطشتری لکھتے تھے، اس طشتری میں ان کے بقول نوری علم کے الفاظ لکھے جاتے تھے، اورپھر اس میں پانی ڈال کر بچے کو پلایا جاتاتھا ۔
دوفریقوں میں دشمنی ہو یا مقدمہ دونوں کے ہاں ''ختم قرآن'' ہوتے ہیں ، خیبرپختونخوا میں اکثر ایسے گھرانے اب بھی پائے جاتے ہیں جو ''ختم قرآن'' کا دھندہ کرتے ہیں،ان کے پاس پہلے سے تیار ''ختم'' القرآن ہوتے ہیں جو فیس لے کر لوگوں کو بخشے جاتے ہیں۔
ہمارے محلے میں بھی ایسی ایک خاتون بڑی مشہور تھی ، مزے کی بات یہ ہے کہ ایک فریق اس کے پاس آکر مقدمے کی جیت کے لیے ''ختم شریف'' کا آرڈر دیتا۔تو دوسرے دن دوسرا فریق آکر ''ختم'' خرید لیتا اوردونوں کو پہلے سے تیار ختم عطا کردیے جاتے اورجیت کی دعا دی جاتی۔رب جلیل نے مسلمانوںکی رشد و ہدایت کے لیے جو ہدایت نامہ عطافرمایا تھا۔
اس کو جس جس طرح سے بیچاجاتاہے اسے دیکھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ،اس کی مثال یوں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیفۃ الارض کوجو ہدایت نامہ یا دستور بھیجا ہے ،اسے وہ صبح و شام چومتا ہے نہایت احترام سے غلافوں میں رکھتا ہے اور اسے لوگوں کو دکھا کر وصولیاںکرتاہے، نمائش کرتاہے لیکن اسے کھول کر نہیں پڑھتا کہ اس میں مجھے کیا ہدایت دی گئی ،کن کن کاموں سے منع کیاگیا اورکن کن کاموں کے کرنے کو کہاگیا ہے۔
کیاکیااصول بتائے گئے ہیں، کیاکیا قوانین وضع کیے گئے ہیں ۔اگلے زمانوں میں جب کوئی میت ہوتی تھی تو لواحقین دوسرے کئی لوازمات کے علاوہ قرآن پاک کے نسخے بھی لاتے تھے جو خاص قسم کے لوگوں میں تقسیم کردیے جاتے اور وہ وہیں سے اٹھ کر اس دکاندار کے پاس جاتے جن سے خریدے گئے تھے۔
دکاندار آدھی قیمت پر وہ قرآن خرید کر رکھ لیتا کہ اگلی میت والوں کو بیچے جائیں گے ۔ہم نے ایک دن ایسا ہی قرآن کسی سے لے کر دیکھا تو غیرمعیاری کاغذ اور سیاہی کا استعمال کیا گیا تھا' کیوںکہ چھاپنے والوں کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ اسے پڑھے گا کوئی نہیں صرف خریدے گا اوربیچے گا۔