میاں صاحب کا دورۂ بلوچستان

tauceeph@gmail.com

مسلم لیگ کے مرد آہن میاں نواز شریف 4سال بعد وطن واپسی میں پہلے لاہور آئے اور مینارِ پاکستان پر عظیم الشان جلسہ سے خطاب کیا اور پہلا دورہ کوئٹہ کا کیا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کے خاتمے میں کردار ادا کرنے والی عوامی پارٹی کے رہنماؤں کو آشیرباد دی۔

ان کے اس دورہ میں 30 کے قریب الیکٹیبل نے مسلم لیگ ن میں شمولیت کا اعلان کیا۔ میاں صاحب نے عوامی پارٹی کے علاوہ اپنے ماضی کی اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور مسلم لیگ ن کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو مہنگے بجلی کے بلوں سے آزاد کرنے کی باتیں کرنے والوں نے کچھ نہیں دیا۔ نفرت سے معاشرہ گندہ کیا ۔

انھوں نے کہا کہ بچوں کو بہترین تعلیم دینا چاہتے ہیں اور کوئٹہ کو ڈیرہ اسماعیل خان کے ذریعے اسلام آباد سے ملا رہے ہیں۔ مریم نواز نے اپنے خطاب میں اپنے والد کی بات کو دہرایا کہ اب پنجاب کے بعد بلوچستان پر توجہ دیں گے۔

یوں میاں صاحب بلوچستان کا کامیاب دورہ کر کے لاہور چلے گئے، مگر میاں نواز شریف ، مریم نواز شریف اور شہباز شریف کی تقاریر میں بلوچستان کے حقیقی مسائل اور ان کے حل کے بارے میں مکمل خاموشی اختیار کی گئی۔

جب متحدہ ہندوستان کی تقسیم کا مسئلہ ہوا تو بلوچ رہنما میر غوث بخش بزنجو نے ریاست قلات کے دیوان سے خطاب کرتے ہوئے یہ تجویز دی تھی کہ بلوچستان کی خود مختاری برقرار رکھی جائے مگر ان کی تجویز پر توجہ نہ دی گئی۔ بلوچستان مسلسل سیاسی بدامنی کا شکار رہا۔

50ء کی دہائی میں شہزادہ عبد الکریم نے بلوچوں کے حقوق کے لیے ایک تحریک منظم کی اور افغانستان چلے گئے۔ پچاس کی دہائی کے آخری عشرہ میں بائیں بازو کی سیاسی جماعت نیشنل عوامی پارٹی قائم ہوئی۔

بلوچ رہنما میر غوث بخش بزنجو، عطاء اﷲ مینگل اور خیر بخش مری وغیرہ اس جماعت میں شامل ہوئے، یوں بلوچستان کے حقوق کی آوازیں بلند ہوئیں تو پھر اس وقت کے صدر اسکندر مرزا نے ریاست قلات میں لشکر کشی کی۔

کنگ آف جھلوان نواب نوروز خان اپنے ساتھیوں کے ساتھ پہاڑوں پر چلے گئے تو انھیں ہتھیار ڈالنے پر تیار کیا گیا۔ جب نوروز خان واپس آئے تو بوڑھے سردار، ان کے بیٹوں اور بھتیجوں کو سزائے موت دیدی گئی۔ نوروز خان کی پھانسی کے فیصلے پر ان کی ضعیفی کی بناء پر عمل نہ ہوا، مگر یہ بوڑھا سردار حیدرآباد جیل میں انتقال کر گیا۔

جنرل ایوب خان کی حکومت نے تمام بلوچ رہنماؤں کو طویل عرصے تک قید رکھا۔ جنرل یحییٰ خان نے 1970 میں عام انتخابات کرائے تو نیشنل عوامی پارٹی بلوچستان کی اکثریتی پارٹی کی حیثیت سے ابھری۔ صدر ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں بلوچستان میں نیپ کی حکومت قائم ہوئی۔ میر غوث بخش بزنجو بلوچستان کے گورنر بنے۔

بلوچستان کی صوبائی اسمبلی نے سردار عطاء اﷲ مینگل کو وزیر اعلیٰ منتخب کیا۔ بھٹو حکومت نے 9ماہ بعد نیپ کی حکومت کو برطرف کیا اور نیپ پر پابندی عائد کردی گئی اور نیپ رہنماؤں کے خلاف حیدرآباد سازش کیس کے سلسلہ میں خصوصی ٹریبونل میں مقدمہ چلایا گیا۔ بلوچستان میں ایک آپریشن ہوا جو 5 سال تک جاری رہا۔ جنرل ضیاء الحق نے نیپ کے رہنماؤں کو رہا کیا اور یہ مقدمہ ختم ہوا مگر عوام کے احساس محرومی کے بارے میں کچھ نہ ہوا۔


نئی صدی کے آغاز سے بلوچستان شدید بے چینی کا شکار ہوا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بے چینی بڑھتی چلی گئی۔ اس صدی کے آغاز کے کچھ عرصہ بعد مری قبیلہ کی ایک شاخ کلپڑ سے تعلق رکھنے والے جسٹس مری کو نامعلوم افراد نے قتل کیا مگر کوئٹہ کی انتظامیہ نے معروف سیاست دان اور مارکسی سردار، سردار خیر بخش مری کو گرفتارکیا۔

اگرچہ سردار خیر بخش مر ی کی اگلے ہی ہفتہ ضمانت ہوگئی لیکن بلوچستان میں اضطراب اور بے چینی بڑھنے لگی۔ پاکستان کے واحد حامی سردار نواب اکبر بگٹی کے گاؤں پر مسلسل گولہ باری کی گئی، جب اکبر بگٹی نے پہاڑی علاقے میں ایک غار میں پناہ لی تو ایک آپریشن میں اکبر بگٹی ہلاک ہو گئے۔ نواب اکبر بگٹی کی ہلاکت سے پورے صوبے میں احتجاج ہوا۔

بلوچستان میں دیگر صوبوں سے آئے ہوئے اساتذہ، خواتین سرکاری افسران اور ڈاکٹرز کی ٹارگٹ کلنگ شروع ہوئی' سیاسی کارکنوں کی مسخ شدہ لاشیں ملنے لگیں۔ ہزارہ برادری پر خودکش حملوں اور اچانک فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔

سی پیک شروع ہوا، تو ساحلی شہرگوادر کی ناکہ بندی کردی گئی۔ مقامی ماہی گیروں کو سمندر میں جانے سے روک دیا گیا۔ یہ بات عام ہوئی کہ سی پیک میں بلوچستان کے لیے صرف جدید سڑکیں تعمیر ہونی ہیں۔ بلوچستان کی مرکزی شاہراہ جو چمن سے کراچی تک جاتی ہے ۔ اس سڑک پر افغانستان اور ایران سے آنے والا سارا ٹریفک ہوتا ہے مگر اس سڑک کو دو طرفہ کرنے کا کوئی منصوبہ زیرِ غور نہیں ہے۔

میاں نواز شریف جب 2013 میں وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے تو متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیر اعلیٰ بنے۔ انھوں نے بلوچستان میں خانہ جنگی کی صورتحال کو ختم کرنے کے لیے بنیادی اقدامات کیے۔

فرقہ وارانہ قتل و غارت میں ملوث خونی لشکروں کا خاتمہ کیا گیا۔ ڈاکٹر مالک نے اکبر بگٹی کی ہلاکت کے سلسلہ میں بلوچوں کے گرینڈ جرگہ کے انعقاد کے بعد یورپ جانے والے جلاوطن رہنماؤں سے مذاکرات شروع کیے۔ مگر ڈاکٹر مالک کی حکومت کو ڈھائی سال بعد ختم کردیا گیا، یوں بلوچستان میں مصالحت کا عمل رک گیا۔

گوادر کے ماہی گیروں کو روزگار کے حق سے محروم کیا گیا اور لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہ ہوسکا۔ جماعت اسلامی کے رہنما مولانا ہدایت الرحمن کی قیادت میں ماہی گیروں کے روزگار بچانے کی تحریک کی پوری دنیا میں تشہیر ہوئی۔

تین سال قبل جب مریم نواز پی ڈی ایم کے جلسے میں شرکت کے لیے کوئٹہ آئی تھیں تو وہ لاپتہ افراد کے لواحقین کے کیمپ میں گئی تھیں اور ان لواحقین سے یکجہتی کا اظہار کیا تھا۔ لاپتہ افراد کا معاملہ بلوچستان، سندھ ہائی کورٹ ، اسلام آباد ہائی کورٹ ، پنجاب ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں زیرِ التواء رہا مگر ان تمام کوششوں کے باوجود صورتحال تبدیل نہیں ہوئی۔ جماعت اسلامی کے رہنما مولانا ہدایت الرحمن نے بھی احتجاجی آواز بلند کی۔

ترقیات کے تمام ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے کوئی بحث و مباحثہ نہیں ہورہا ہے۔

اس تناظر میں بلوچستان کا بحران ختم نہیں ہوگا۔ یہ امید کی جاتی تھی کہ میاں نواز شریف دوبارہ سیاست میں متحرک ہونگے تو بلوچستان میں احساس محرومی کے خاتمے کے لیے ضرور اقدامات کریں گے۔ امید ہے کہ میاں نواز شریف اقتدار میں آئے تو بلوچستان میں خوشحالی لائیں گے اور دیگر صوبوں کی طرح یہ بھی ترقی کی دوڑ میں شامل ہو گا۔
Load Next Story