8 فروری کی انتخابی تاریخ سے صدر و الیکشن کمیشن کی آئین کی خلاف ورزی بے نقاب ہوگئی جسٹس اطہر
صدر، گورنرز، الیکشن کمیشن، وفاقی حکومت نے آئین سے انحراف کیا، آئینی خلاف ورزی سنگین غداری ہے، جسٹس اطہر کا اضافی نوٹ
عام انتخابات کیس کے فیصلے میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر کا اضافی نوٹ سامنے آگیا جس میں کہا گیا ہے کہ 90 روز میں انتخابات کی تاریخ نہ دے کر صدر اور الیکشن کمیشن نے آئین کی خلاف ورزی کی، ووٹرز کو انتخابی عمل سے باہر رکھنا بنیادی حقوق کے منافی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے عام انتخابات کیس کے حوالے سے 41 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ جاری کردیا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ پاکستانی ووٹرز کو انتخابی عمل سے باہر رکھنا بنیادی حقوق کے منافی ہے، آئین اور قانون کے بر خلاف نگران حکومتوں کے ذریعے امور چلائے جا رہے ہیں، مقررہ وقت میں انتخابات آئینی تقاضا ہے اور انتخابات نہ کروا کر عوام کے حقوق کی خلاف ورزی ثابت ہو چکی۔
اضافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ 12 کروڑ 56 لاکھ 26 ہزار 390 رجسٹرڈ ووٹرز کو ان کے حق رائے دہی سے محروم رکھا گیا، انتخابات میں تاخیر کو روکنے کے لیے مستقبل میں ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے، ہر عوامی عہدہ رکھنے والا آئین کے تحفظ کا حلف اٹھاتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کے اضافی نوٹ میں دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل سے لے کر انتخابات از خود نوٹس تک کا حوالہ دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس عدالت کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ انتخابات کی تاریخ کا تعین کرے، 90 روز میں انتخابات میں کروانا صدر مملکت، گورنرز اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری تھی، 8 فروری کو ملک بھر میں انتخابات کی تاریخ کا تعین صدر مملکت نے کیا، تاریخ الیکشن کمیشن نے دی، 8 فروری کو تاریخ دینے سے صدر اور الیکشن کمیشن نے خود کو بے نقاب کیا ہے کہ انہوں نے آئین کی خلاف ورزی کی۔
اضافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 224 (2) اور عوام کے حقوق کی خلاف ورزی سنگین عمل ہے، جس کا ازالہ ممکن نہیں، 90 روز کے اندر انتخابات کی تاریخ دینا صدر مملکت کا اختیار تھا، ہر عوامی عہدہ رکھنے والا آئین کے تحفظ کا حلف اٹھاتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ سیاسی جماعت بنانا ، سیاسی جماعت کا رکن ہونا اور انتخابات لڑنا آئینی حق ہے، گورنر خیبر پختونخوا نے 90 روز میں انتخابات کے انعقاد کی تاریخ نہ دی کر آئینی خلاف ورزی کی، کے پی اور پنجاب کے دونوں گورنرز نے آئینی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں، اس معاملے پر نہ الیکشن کمیشن متحرک ہوا نہ ہی صدر مملکت نے مؤثر انداز میں اپنی ذمہ داری ادا کی، صدر، گورنرز اور الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہے۔
اضافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ اپنے فیصلے پر عمل درآمد کیلئے کارروائی چلا رہی تھی لیکن سپریم کورٹ نے کیس خود چلانا شروع کردیا، صدر مملکت نے 2 فروری 2023ء کو پنجاب میں انتخابات کی تاریخ دی جس سے لاہور ہائی کورٹ کی کارروائی متاثر ہوئی، اس عمل سے عیاں ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن اور گورنر بامعنی انداز میں صدر سے مشاورت نہیں کی، چار ججوں نے متفقہ نوٹ میں سپریم کورٹ کا انتخاب سے متعلق از خود نوٹس مسترد کردیا۔
اضافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد صدر مملکت نے تاریخ دینے کے بجائے خط لکھ دیا، سپریم کورٹ میں عام انتخابات کے انعقاد کیلئے درخواست آئی لیکن سماعت کیلئے مقرر ہی نہیں ہوئی، بروقت درخواست سماعت کیلئے مقرر نہ ہونے سے آئینی تقاضے کی خلاف ورزی ہوئی اور اس کے سبب تاخیر ہوئی۔
اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ بادی النظر میں وفاقی حکومت بھی عدالتی احکامات کو نظر انداز کرتی رہی، صدر مملکت، گورنرز، الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت نے آئین سے انحراف کیا، آئینی خلاف ورزی سنگین غداری کے زمرے میں آتی ہے، عوامی اختیار کے غلط استعمال سے زیر حراست افراد پر تشدد، صحافیوں، سیاسی کارکنان پر تشدد، اظہار رائے پر پابندیاں روایت بن چکی ایسے اقدامات سے پورا معاشرہ نشانہ بنتا ہے۔
جسٹس اطہر نے اضافی نوٹ میں مزید لکھا کہ سپریم کورٹ نے پہلی بار مولوی تمیز الدین کیس میں نظریہ ضرورت کو زندہ کیا، مولوی تمیز الدین کیس میں نظریہ ضرورت زندہ کرنے سے آنے والوں کیلئے سپریم کورٹ نے راہ ہموار کی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے عام انتخابات کیس کے حوالے سے 41 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ جاری کردیا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ پاکستانی ووٹرز کو انتخابی عمل سے باہر رکھنا بنیادی حقوق کے منافی ہے، آئین اور قانون کے بر خلاف نگران حکومتوں کے ذریعے امور چلائے جا رہے ہیں، مقررہ وقت میں انتخابات آئینی تقاضا ہے اور انتخابات نہ کروا کر عوام کے حقوق کی خلاف ورزی ثابت ہو چکی۔
اضافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ 12 کروڑ 56 لاکھ 26 ہزار 390 رجسٹرڈ ووٹرز کو ان کے حق رائے دہی سے محروم رکھا گیا، انتخابات میں تاخیر کو روکنے کے لیے مستقبل میں ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے، ہر عوامی عہدہ رکھنے والا آئین کے تحفظ کا حلف اٹھاتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کے اضافی نوٹ میں دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل سے لے کر انتخابات از خود نوٹس تک کا حوالہ دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس عدالت کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ انتخابات کی تاریخ کا تعین کرے، 90 روز میں انتخابات میں کروانا صدر مملکت، گورنرز اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری تھی، 8 فروری کو ملک بھر میں انتخابات کی تاریخ کا تعین صدر مملکت نے کیا، تاریخ الیکشن کمیشن نے دی، 8 فروری کو تاریخ دینے سے صدر اور الیکشن کمیشن نے خود کو بے نقاب کیا ہے کہ انہوں نے آئین کی خلاف ورزی کی۔
اضافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 224 (2) اور عوام کے حقوق کی خلاف ورزی سنگین عمل ہے، جس کا ازالہ ممکن نہیں، 90 روز کے اندر انتخابات کی تاریخ دینا صدر مملکت کا اختیار تھا، ہر عوامی عہدہ رکھنے والا آئین کے تحفظ کا حلف اٹھاتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ سیاسی جماعت بنانا ، سیاسی جماعت کا رکن ہونا اور انتخابات لڑنا آئینی حق ہے، گورنر خیبر پختونخوا نے 90 روز میں انتخابات کے انعقاد کی تاریخ نہ دی کر آئینی خلاف ورزی کی، کے پی اور پنجاب کے دونوں گورنرز نے آئینی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں، اس معاملے پر نہ الیکشن کمیشن متحرک ہوا نہ ہی صدر مملکت نے مؤثر انداز میں اپنی ذمہ داری ادا کی، صدر، گورنرز اور الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہے۔
اضافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ اپنے فیصلے پر عمل درآمد کیلئے کارروائی چلا رہی تھی لیکن سپریم کورٹ نے کیس خود چلانا شروع کردیا، صدر مملکت نے 2 فروری 2023ء کو پنجاب میں انتخابات کی تاریخ دی جس سے لاہور ہائی کورٹ کی کارروائی متاثر ہوئی، اس عمل سے عیاں ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن اور گورنر بامعنی انداز میں صدر سے مشاورت نہیں کی، چار ججوں نے متفقہ نوٹ میں سپریم کورٹ کا انتخاب سے متعلق از خود نوٹس مسترد کردیا۔
اضافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے بعد صدر مملکت نے تاریخ دینے کے بجائے خط لکھ دیا، سپریم کورٹ میں عام انتخابات کے انعقاد کیلئے درخواست آئی لیکن سماعت کیلئے مقرر ہی نہیں ہوئی، بروقت درخواست سماعت کیلئے مقرر نہ ہونے سے آئینی تقاضے کی خلاف ورزی ہوئی اور اس کے سبب تاخیر ہوئی۔
اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ بادی النظر میں وفاقی حکومت بھی عدالتی احکامات کو نظر انداز کرتی رہی، صدر مملکت، گورنرز، الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت نے آئین سے انحراف کیا، آئینی خلاف ورزی سنگین غداری کے زمرے میں آتی ہے، عوامی اختیار کے غلط استعمال سے زیر حراست افراد پر تشدد، صحافیوں، سیاسی کارکنان پر تشدد، اظہار رائے پر پابندیاں روایت بن چکی ایسے اقدامات سے پورا معاشرہ نشانہ بنتا ہے۔
جسٹس اطہر نے اضافی نوٹ میں مزید لکھا کہ سپریم کورٹ نے پہلی بار مولوی تمیز الدین کیس میں نظریہ ضرورت کو زندہ کیا، مولوی تمیز الدین کیس میں نظریہ ضرورت زندہ کرنے سے آنے والوں کیلئے سپریم کورٹ نے راہ ہموار کی۔