ہوش کا دامن نہ چھوڑیں
سیاسی جماعتیں مختلف ایشوز پر احتجاج کرتی ہیں‘ لیکن یہ احتجاج آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر کیے جاتے ہیں
پاکستان میں سیاست کا میدان سج چکا ہے ، اقتدار تک پہنچنے کے لیے مرا تھن ریس شروع ہے ۔ سیاست کے طوطے ہفت خواں بیانات کی پھلجڑیاں چھوڑ رہے ہیں، سچی بات ہے ،مجھے تو بڑا مزہ آرہا ہے۔
خصوصاً بلاول صاحب کے طنز میں چھپے ہوئے مشوروں کے تو کیا ہی کہنے ، وہ بوڑھے سیاستدانوں پر شگفتہ انداز میں طنز کرتے ہوئے ، انھیںریٹائر ہونے کا نصیحت نما مشورہ دے رہے ہیں۔اس پر جناب مولانا کہاں چپ رہنے والے تھے' انھوں نے اچھوتے انداز میں جوابی طنز کیا ہے ، بلاول نے شاید اپنے والد صاحب کو سیاست سے ریٹائر ہونے کا مشورہ دیا ہے۔اس پر مجھے غالب کا شعر یاد آرہا ہے ۔
اے ذوق' دیکھ دختر زر کو نہ منہ لگانا
چھٹتی نہیں ہے، منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
پاکستان کی سیاست میں طویل مدت بعد شگفتہ طنز کا تڑکا لگا ہے ورنہ سیاست کے میدان میں نفرت کی جو تلواریں چلی ہیں ' اس کے زخم ابھی تازہ ہیں' نفرت کی تلوار چلانے والے بھی زخمی اور جن پر تلوار چلی انھوں نے تو زخمی ہونا ہی تھا۔
سیاسی لیڈر جلسوں سے خطاب کے دوران مخالفین کو لتاڑتے بھی ہیں لیکن بڑے ہی مہذب الفاظ کا چناؤ کیا جاتا تھا۔ نوابزادہ نصراللہ مرحوم سیاسی جلسوں میں امیر مینائی اور میر تقی میر کے اشعار سنایا کرتے تھے ' مرحوم شاہ احمد نورانی کا انداز بیاں عالمانہ بھی ہوتا تھا 'استعارے اور کنائے کا استعمال بھی خوب ہوتا تھا۔
بھٹو صاحب کی تقریریں جوشیلی ہوتی تھیں'مخالفین پر طنز بھی کاٹ دار ہوتا تھا۔کبھی کبھی وہ خود پر بھی طنز کر لیا کرتے تھے' محترمہ بینظیر بھٹو بھی نپی تلی تقریر کیا کرتی تھیں۔انھوں نے سیاست میں انتہائی پاپولر اور شائستہ نعرے اور استعارے استعمال کیے۔
مثلاً غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی پہلی حکومت برخاست کی اور اس وقت کے چیف جسٹس جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے اسے بحال کر دیا تو محترمہ بینظیر نے اسے ''چمک'' کا کرشمہ قرار دیا، محترمہ بینظیر بھٹو نے صدر اسحاق خان کے خلاف قومی اسمبلی میں احتجاج کیا اور وہاں ''گو بابا گو''کا نعرہ لگایا 'ارکان اسمبلی کی وفاداریاں تبدیل کرنے کے عمل کو انھوں نے ہارس ٹریڈنگ کا نام دیا 'کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اعلیٰ پائے کا سیاستدان وہ ہوتا ہے جو سب کچھ کہہ دے لیکن تہذیب کے دائرے کے اندر رہ کر الفاظ کا چناؤ کرے ۔
برصغیر پاک و ہند میں بڑے عالم فاضل 'ذہین اور پڑھے لکھے سیاستدان پیدا ہوئے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح کی کوئی ایک تقریر بھی ایسی دکھا دیں جس میں انھوں نے گاندھی 'نہرو ' سردار پٹیل یا مولانا آزاد پر غیرمہذب انداز میں تنقیدکی ہو 'قائداعظم نے تہذیب و شرافت کا دامن کبھی نہیں چھوڑا ۔مولانا آزاد کس پائے کے عالم دین اور سیاسی مدبر تھے اس کا ثبوت ان کی لکھی ہوئی کتابیں ہیں۔
جو ان کے علم کی گواہی دیتی ہیں۔نہرو بھی مطالعے کے شوقین تھے اور انھوں نے بھی کتابیں لکھیں 'کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سیاست کرنا پڑھے لکھے اور ذہین لوگوں کا کام ہوا کرتا ہے 'آپ امریکا کی سیاست کا ہی مطالعہ کر لیں ' جارج واشنگٹن ' ابراہم لنکن 'فرینکلن بنجمن سے لے کر جمی کارٹر 'بل کلنٹن اور باراک اوبامہ تک کا جائزہ لیں ' یہ تمام لوگ علم و دانش کی دولت سے مالا مال تھے۔
عوامی جمہوریہ چین میں چیئرمین ماؤ 'چواین لائی اور ڈنگ ژیاؤپنگ جیسے بڑے لوگوں نے سیاست کی۔ ایران میں ڈاکٹر مصدق اور مہدی بازرگان جیسے مدبر حکومت کے سربراہ رہے ۔
پاکستان میں ایوب خان کے آمرانہ دور میں سیاست میں اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے کا آغاز ہوا 'محترمہ فاطمہ جناح کی کردار کشی کی مہم چلائی گئی ' اس کے بعد چل سو چل ۔نہ بندہ رہا نہ بندہ نواز ۔
سیاست کے بارے میں محاورہ بن گیا ہے کہ جس کو اپنی ذات 'برادری یا قوم کا پتہ نہیں ہے تو وہ سیاست میں آ جائے 'اس کے مخالفین پاتال سے بھی اس کا کچا چٹھا نکال لیں گے۔ضیاء الحق اور اس کے ساتھیوں نے سیاست کوکاروبار بنانے کی ابتدا کی۔
بلیک اکانومی کو فروغ دیا گیا اور اس کے بل بوتے پر امیر ہونے والے طبقے کی سرپرستی کی گئی۔ یوں سیاست میں دھونس دھاندلی اور گالی کا کلچر فروغ پانے لگا اور پھر پی ٹی آئی نے اس کلچر کو بام عروج تک پہنچا دیا۔
رنگ پیرہن کا' خوشبو زلف لہرانے کا نام
موسم گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام
ساری تمہید باندھنے کا مقصد صرف یہ عرض کرنا ہے کہ سیاسی قیادت تھوڑا بہت مطالعے کی عادت بھی ڈالیں'اقبال اور جالب کے علاوہ بھی بڑے اچھے شاعروں کا کلام موجود ہے 'ان میں سے حسب حال اشعار پڑھ لینے سے سیاسی مقبولیت میں کمی نہیں آئے گی۔سیاست کاروبار یا کھیل نہیں ہے 'یہ امور مملکت اور رموز مملکت سمجھنے اور سمجھانے کا کام ہے۔
سیاستدان سے بڑھ کر سسٹم کا عالم کوئی نہیں ہو سکتا۔ اگر سیاسی قیادت عصری علوم سے ہم آہنگ ہوں' انھیں ریاستی نظام کی پیچیدگیوںاور ابہام کا علم اور شعور ہو تو ملک کو ٹھیک کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔
شریف الدین پیر زادہ نے آئین کے اندر کس طرح ابہام پیدا کرائے '18ویں ترمیم تیار کرنے والے قانون دانوں نے کہاں کہاں سقم چھوڑے' آج کی سیاسی قیادت کو اس کا شاید ہی علم ہو 'کریمینل جسٹس سسٹم کیا ہوتا ہے 'کس طرح کام کرتا ہے 'کسی سیاستدان کو علم نہیں ہو گا ۔سیاسی کارکن بھی بے لگام کے گھوڑے ہیں 'جدھر ہانکا بلا سوچے سمجھے دوڑ لگا دیتے ہیں۔
اگر سیاسی قیادت میں سسٹم کا شعور ہوتا 'وہ اپنے کارکنوں کو یہ شعور دیتے اور ان کی تربیت کرتے تو 9مئی کے واقعات کبھی نہ ہوتے۔سیاسی جماعتیں مختلف ایشوز پر احتجاج کرتی ہیں' لیکن یہ احتجاج آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر کیے جاتے ہیں۔
سیاسی قیادت کو پتہ ہوتا ہے کہ ریاست کا سسٹم کیا ہے 'سیاسی قیادت اور کارکنوں کو شعور ہوتا ہے کہ اگر وہ احتجاج کر رہے ہیں تو اس کی بنیادکیا ہے۔سسٹم پر چڑھ دوڑنے کا نتیجہ وہی ہوتا ہے ' جو نکلا ہے ۔
تاحال سیاستدان اچھے انداز میں اپنے سیاسی مدمقابل پر تنقید کر رہے ہیں تاہم بار بار ایک ہی بات کو دہرانا'طنز کا اثر زائل کردیتا ہے'سیانے کہتے ہیں کہ جوش خطابت میںغلط بات منہ سے نکلنے کا ہمیشہ خطرہ رہتا ہے۔ میاں صاحب ہوں 'بلاول ہوں 'زرداری ہوں یا حضرت مولانا 'سیاست میں ہوش کا دامن نہ چھوڑیں۔
خصوصاً بلاول صاحب کے طنز میں چھپے ہوئے مشوروں کے تو کیا ہی کہنے ، وہ بوڑھے سیاستدانوں پر شگفتہ انداز میں طنز کرتے ہوئے ، انھیںریٹائر ہونے کا نصیحت نما مشورہ دے رہے ہیں۔اس پر جناب مولانا کہاں چپ رہنے والے تھے' انھوں نے اچھوتے انداز میں جوابی طنز کیا ہے ، بلاول نے شاید اپنے والد صاحب کو سیاست سے ریٹائر ہونے کا مشورہ دیا ہے۔اس پر مجھے غالب کا شعر یاد آرہا ہے ۔
اے ذوق' دیکھ دختر زر کو نہ منہ لگانا
چھٹتی نہیں ہے، منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
پاکستان کی سیاست میں طویل مدت بعد شگفتہ طنز کا تڑکا لگا ہے ورنہ سیاست کے میدان میں نفرت کی جو تلواریں چلی ہیں ' اس کے زخم ابھی تازہ ہیں' نفرت کی تلوار چلانے والے بھی زخمی اور جن پر تلوار چلی انھوں نے تو زخمی ہونا ہی تھا۔
سیاسی لیڈر جلسوں سے خطاب کے دوران مخالفین کو لتاڑتے بھی ہیں لیکن بڑے ہی مہذب الفاظ کا چناؤ کیا جاتا تھا۔ نوابزادہ نصراللہ مرحوم سیاسی جلسوں میں امیر مینائی اور میر تقی میر کے اشعار سنایا کرتے تھے ' مرحوم شاہ احمد نورانی کا انداز بیاں عالمانہ بھی ہوتا تھا 'استعارے اور کنائے کا استعمال بھی خوب ہوتا تھا۔
بھٹو صاحب کی تقریریں جوشیلی ہوتی تھیں'مخالفین پر طنز بھی کاٹ دار ہوتا تھا۔کبھی کبھی وہ خود پر بھی طنز کر لیا کرتے تھے' محترمہ بینظیر بھٹو بھی نپی تلی تقریر کیا کرتی تھیں۔انھوں نے سیاست میں انتہائی پاپولر اور شائستہ نعرے اور استعارے استعمال کیے۔
مثلاً غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی پہلی حکومت برخاست کی اور اس وقت کے چیف جسٹس جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے اسے بحال کر دیا تو محترمہ بینظیر نے اسے ''چمک'' کا کرشمہ قرار دیا، محترمہ بینظیر بھٹو نے صدر اسحاق خان کے خلاف قومی اسمبلی میں احتجاج کیا اور وہاں ''گو بابا گو''کا نعرہ لگایا 'ارکان اسمبلی کی وفاداریاں تبدیل کرنے کے عمل کو انھوں نے ہارس ٹریڈنگ کا نام دیا 'کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اعلیٰ پائے کا سیاستدان وہ ہوتا ہے جو سب کچھ کہہ دے لیکن تہذیب کے دائرے کے اندر رہ کر الفاظ کا چناؤ کرے ۔
برصغیر پاک و ہند میں بڑے عالم فاضل 'ذہین اور پڑھے لکھے سیاستدان پیدا ہوئے ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح کی کوئی ایک تقریر بھی ایسی دکھا دیں جس میں انھوں نے گاندھی 'نہرو ' سردار پٹیل یا مولانا آزاد پر غیرمہذب انداز میں تنقیدکی ہو 'قائداعظم نے تہذیب و شرافت کا دامن کبھی نہیں چھوڑا ۔مولانا آزاد کس پائے کے عالم دین اور سیاسی مدبر تھے اس کا ثبوت ان کی لکھی ہوئی کتابیں ہیں۔
جو ان کے علم کی گواہی دیتی ہیں۔نہرو بھی مطالعے کے شوقین تھے اور انھوں نے بھی کتابیں لکھیں 'کہنے کا مطلب یہ ہے کہ سیاست کرنا پڑھے لکھے اور ذہین لوگوں کا کام ہوا کرتا ہے 'آپ امریکا کی سیاست کا ہی مطالعہ کر لیں ' جارج واشنگٹن ' ابراہم لنکن 'فرینکلن بنجمن سے لے کر جمی کارٹر 'بل کلنٹن اور باراک اوبامہ تک کا جائزہ لیں ' یہ تمام لوگ علم و دانش کی دولت سے مالا مال تھے۔
عوامی جمہوریہ چین میں چیئرمین ماؤ 'چواین لائی اور ڈنگ ژیاؤپنگ جیسے بڑے لوگوں نے سیاست کی۔ ایران میں ڈاکٹر مصدق اور مہدی بازرگان جیسے مدبر حکومت کے سربراہ رہے ۔
پاکستان میں ایوب خان کے آمرانہ دور میں سیاست میں اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے کا آغاز ہوا 'محترمہ فاطمہ جناح کی کردار کشی کی مہم چلائی گئی ' اس کے بعد چل سو چل ۔نہ بندہ رہا نہ بندہ نواز ۔
سیاست کے بارے میں محاورہ بن گیا ہے کہ جس کو اپنی ذات 'برادری یا قوم کا پتہ نہیں ہے تو وہ سیاست میں آ جائے 'اس کے مخالفین پاتال سے بھی اس کا کچا چٹھا نکال لیں گے۔ضیاء الحق اور اس کے ساتھیوں نے سیاست کوکاروبار بنانے کی ابتدا کی۔
بلیک اکانومی کو فروغ دیا گیا اور اس کے بل بوتے پر امیر ہونے والے طبقے کی سرپرستی کی گئی۔ یوں سیاست میں دھونس دھاندلی اور گالی کا کلچر فروغ پانے لگا اور پھر پی ٹی آئی نے اس کلچر کو بام عروج تک پہنچا دیا۔
رنگ پیرہن کا' خوشبو زلف لہرانے کا نام
موسم گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام
ساری تمہید باندھنے کا مقصد صرف یہ عرض کرنا ہے کہ سیاسی قیادت تھوڑا بہت مطالعے کی عادت بھی ڈالیں'اقبال اور جالب کے علاوہ بھی بڑے اچھے شاعروں کا کلام موجود ہے 'ان میں سے حسب حال اشعار پڑھ لینے سے سیاسی مقبولیت میں کمی نہیں آئے گی۔سیاست کاروبار یا کھیل نہیں ہے 'یہ امور مملکت اور رموز مملکت سمجھنے اور سمجھانے کا کام ہے۔
سیاستدان سے بڑھ کر سسٹم کا عالم کوئی نہیں ہو سکتا۔ اگر سیاسی قیادت عصری علوم سے ہم آہنگ ہوں' انھیں ریاستی نظام کی پیچیدگیوںاور ابہام کا علم اور شعور ہو تو ملک کو ٹھیک کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔
شریف الدین پیر زادہ نے آئین کے اندر کس طرح ابہام پیدا کرائے '18ویں ترمیم تیار کرنے والے قانون دانوں نے کہاں کہاں سقم چھوڑے' آج کی سیاسی قیادت کو اس کا شاید ہی علم ہو 'کریمینل جسٹس سسٹم کیا ہوتا ہے 'کس طرح کام کرتا ہے 'کسی سیاستدان کو علم نہیں ہو گا ۔سیاسی کارکن بھی بے لگام کے گھوڑے ہیں 'جدھر ہانکا بلا سوچے سمجھے دوڑ لگا دیتے ہیں۔
اگر سیاسی قیادت میں سسٹم کا شعور ہوتا 'وہ اپنے کارکنوں کو یہ شعور دیتے اور ان کی تربیت کرتے تو 9مئی کے واقعات کبھی نہ ہوتے۔سیاسی جماعتیں مختلف ایشوز پر احتجاج کرتی ہیں' لیکن یہ احتجاج آئین اور قانون کے دائرے میں رہ کر کیے جاتے ہیں۔
سیاسی قیادت کو پتہ ہوتا ہے کہ ریاست کا سسٹم کیا ہے 'سیاسی قیادت اور کارکنوں کو شعور ہوتا ہے کہ اگر وہ احتجاج کر رہے ہیں تو اس کی بنیادکیا ہے۔سسٹم پر چڑھ دوڑنے کا نتیجہ وہی ہوتا ہے ' جو نکلا ہے ۔
تاحال سیاستدان اچھے انداز میں اپنے سیاسی مدمقابل پر تنقید کر رہے ہیں تاہم بار بار ایک ہی بات کو دہرانا'طنز کا اثر زائل کردیتا ہے'سیانے کہتے ہیں کہ جوش خطابت میںغلط بات منہ سے نکلنے کا ہمیشہ خطرہ رہتا ہے۔ میاں صاحب ہوں 'بلاول ہوں 'زرداری ہوں یا حضرت مولانا 'سیاست میں ہوش کا دامن نہ چھوڑیں۔