دیوانی آپا
لوگ انھیں گھر بلاتے ان سے باتیں کرتے، ان کے ہاتھ چومتے
اشرف صبوحی اردوکے نامور ادیب تھے، رہنے والے دلی کے تھے۔ بے شمار کتابوں کے اور مضامین کے مصنف رہے۔ 1905 میں دلی میں پیدا ہوئے اور 1990 میں کراچی میں وفات پائی۔ انھوں نے ''دیوانی آپا'' کے نام سے ایک اچھوتا مضمون لکھا ہے جو ان کے نثری مجموعے '' بزم صبوحی '' میں شامل ہے۔ یہ ایک عجیب کردار ہے۔
ان کا حلیہ ملاحظہ ہو۔ '' لال چو چہاتا دوپٹہ ٹھپّا لگا ہوا، لال ہی کرتا کرن لگا ہوا۔ بڑے پائنچوں کا لال ہی پجامہ، پور پور چھلے انگوٹھیاں،کلائیوں میں رنگ برنگی چوڑیاں، ناک میں ایک طرف نتھ دوسری طرف لونگ، بیچ میں بلاق، کانوں میں بیسیوں بالیاں، گلے میں چمپا کلی، گلوبند اور ہار، ماتھے پہ ٹیکا اور ایک طرف جھومر، پاؤں میں جھانجن پازیب انگلیوں میں چھلے، دانتوں میں مسی آنکھوں میں کاجل، اسی حلیے میں گلی گلی ماری ماری پھرتی تھیں۔ ہر ایک کے گھر جاتی تھیں۔ عام طور پر لوگ انھیں مجذوبہ کہتے تھے، بڑی پہنچی ہوئی تھیں۔''
وہ ہمیشہ چوتھی کی دلہن بنی رہتی تھیں، دلی والے انھیں عزت سے گھر بلاتے تھے۔ کہتے ہیں بڑی کرامت والی تھیں، جن گھروں میں جایا کرتی تھیں وہاں کبھی کوئی غیر معمولی واقعہ پیش نہ آیا۔ ان کے گھرانے کا تعلق قلعہ سے تھا، ان کے والد شہزادے اور ماں شہزادی تو نہ تھیں۔ البتہ ان کی والدہ کو سب منجھلی بیگم کہتے تھے۔
ان کی صرف یہی اولاد تھیں، جنھیں نہ جانے کیوں لوگ دیوانی آپا کہنے لگے تھے۔چوڑیاں چھنکاتی برقعہ سر پہ ڈال دوپہر کو نکل جاتی تھیں، کسی دروازے پہ پہنچ کر آواز لگاتیں ''آپا میں آؤں'' گھر والے دکھیا کو جانتے تھے۔
دلی والے ویسے ہی فراخ دل ہوتے ہیں، مروت اور رکھ رکھاؤ ان پر ختم ہے۔ ہر کوئی ان کو بلا لیتا تھا۔ دکھیا کے دکھ سے سبھی واقف تھے، اپنے آپ سے باتیں کرتی تھیں، دماغ الٹ گیا تھا، البتہ کپڑے ہمیشہ لال پہنتی تھیں اور زیورات سے لدی پھندی رہتی تھیں۔
دیوانی آپا نوجوان تھیں، خوبصورت تھیں، ماں کو جوان ہونے پر بیاہ کی فکر ہوئی، شادی کی تیاریاں شروع ہوئیں، قلعے والی تھیں، منجھلی اکلوتی بیٹی کی شادی پر دل کھول کر خرچ کیا ہفتے بھر پہلے نوبت بجنے لگی، والد مر چکے تھے لیکن ماں نے کوئی کمی نہ ہونے دی۔
منجھلی بیگم دل کی بہت سخی تھیں، نوکروں اور خادماؤں کو جی بھر کے انعامات دیے، جوڑے اور تحفے دیے، بیٹی پندرہ دن پہلے سے مایوں بیٹھی تھی، سانچق آچکی تھی، دولہا کے جوڑے بھی جا چکے تھے، اکیس من مٹھائی دولہا والوں کی طرف سے آئی اور اتنی ہی منجھلی بیگم نے بیٹی کی سسرال بھیجی۔ مہمانوں کا تانتا بندھا تھا، ڈولیوں پہ ڈولیاں کہار لا کے رکھ رہے تھے، تانگوں اور موٹروں سے مہمان اتر کر قلعے میں جا رہے تھے۔
بڑی گہما گہمی تھی، منجھلی بیگم انتظامات میں مصروف تھیں، دلہن جھومر ٹیکا لگائے زیورات پہنے زرق برق لباس میں گھونگھٹ نکالے شرمائی بیٹھی تھی۔
دولہا کا جلوس، اللہ اکبر اتنا شان دارکہ قلعے والوں نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا، بھڑکتی شمع کی آخری لو تھی یہ شادی۔ منجھلی بیگم نے سارے ارمان نکالے۔ ڈیوڑھی پر روشن چوکی والے آ بیٹھے۔ نکاح ہو چکا تھا، دولہا محل سرا میں چلے۔
نیگ لینے والی سالیاں ساتھ ساتھ تھیں، دولہا کا چہرہ پھولوں کے سہرے سے ڈھکا ہوا تھا، اچانک دولہا کو پاؤں پر کوئی چیز رینگتی ہوئی محسوس ہوئی، انھوں نے سلیم شاہی پیر سے جھٹک دی لیکن اتنی دیر میں موا سانپ اپنا کام کر گیا، دلی کے پرانے گھروں میں قلعے میں کونوں کھدروں میں سانپ دم دبائے بیٹھے رہتے ہیں، دولہا نے سانپ کو پیرکی جوتی سے کچلنا چاہا، لیکن اتنی دیر میں سانپ نے پلٹ کر چٹک لیا۔
چٹکنا تھا کہ دولہا کے چہرے پر زردی چھا گئی، بس زبان سے اتنا نکلا کہ ''سانپ نے کاٹ کھایا'' پھر ہوش نہ رہا۔ مردوں کو خبر ہوئی تو وہ دوڑے ہوئے آئے، ملا سیانے پڑھنت پڑھنے والے بیسیوں لوگوں نے اپنی اپنی کاریگری دکھائی لیکن دولہا کو ہوش نہیں آیا۔
شام ہوتے ہوتے خاتمہ ہو گیا، دلہن سہاگ کے جوڑے میں بیوہ ہوگئی، دولہا میاں قبرکے چھپرکٹ میں جا سوئے، سہرے کی کلیاں قبر پہ ڈال دی گئیں۔
دولہا والوں کے ہاں ایسا کہرام مچا کہ ہر آنکھ اشک بار تھی، دلہن والوں کے گھر میں قیامت کا سماں تھا، دلہن دو دن تو کمرے میں چپکی پڑی رہی، منجھلی بیگم جو کوٹھری میں گھسیں تو دو دن بعد ان کا جنازہ ہی نکلا۔ ماں کی میت کے وقت دلہن کمرے سے نکلی۔ بس دماغ الٹ گیا، اسی حلیے میں گھر سے نکل کھڑی ہوئیں، نہ زیور اتارا نہ کپڑے بدلے۔ وہ دن اور آج کا دن انھیں یہ خبر نہیں کہ وہ کون ہیں۔
جیتے جی دلہن بننے کی رٹ اور دولہا کا ارمان لگا رہا۔ دن بھر پھرتی تھیں اور رات کو کسی کے بھی گھر سو جاتی تھیں، پھر ایک جاننے والے خاندان نے انھیں اپنے گھر رکھ لیا۔ وہ صبح برقعہ سر پہ ڈالے نکل جاتیں اور رات کو واپس آجاتی تھیں۔
لوگ کہتے تھے کہ دیوانی آپا جس کے بھی گھر جاتی ہیں وہاں کبھی کوئی حادثہ نہ ہوتا، کوئی بیمار نہ ہوتا، اگر بیمار ہوتا تو دیوانی آپا کے جاتے ہی بیمار بھلا چنگا ہو جاتا، لیکن انھیں خود کچھ خبر نہیں تھی کہ وہ کہاں جاتی ہیں، بہکی بہکی باتیں کرتیں اور اپنے ناراض دولہا کو ڈھونڈتی رہتیں۔
وہ کہتیں ''میرے دولہا ناراض ہوگئے ہیں، دیکھنا ایک دن میں انھیں منا لوں گی۔'' نام تو پتا نہیں کیا تھا لیکن محلے میں دیوانی آپا کے نام سے مشہور تھیں۔ وہ ایک مجذوبہ تھیں، جو زبان سے نکل جاتا وہ پورا ہو جاتا تھا، ایک بار دلی میں بڑی سخت گرمی پڑی، بارش کا نام نہیں، لوگ نمازیں پڑھ پڑھ کر تھک گئے لیکن ایک بوند نہ پڑی، کسی کو خیال آیا کہ دیوانی آپا کو بلاؤ۔
وہ آئیں تو ان سے کہا گیا کہ '' آپا! بارش نہیں ہو رہی، تم ہی کچھ کرو، اللہ سے دعا مانگو۔'' انھوں نے اپنے بال کھولے اور بولیں '' مہر راج برسا دو، کتنے دنوں سے میرا چونڈہ نہیں دھلا، تم کو کیا اچھا معلوم ہوتا ہے کہ میرے بدن سے بو آنے لگے، اپنی دلہن سے اس طرح آنکھیں نہ پھیرو، مہر راج۔۔۔۔برسا دو، برسا دو، برسا دو'' خدا کی شان پہلے پھوار پڑی پھر جو کالی گھٹا برسی تو جل تھل ایک ہوگئے۔ تین مہینے کی کسر چار دن میں نکل گئی۔
ایک دفعہ بڑے زور کی بارش ہوئی، سیکڑوں مکان گر گئے، پندرہ دن تک پانی برستا رہا، اسی اثنا میں دیوانی آپا کہیں سے بھٹکتی بھٹکاتی آ نکلیں، عورتوں نے ان سے کہا کہ وہ اس بارش میں کہاں ماری ماری پھر رہی ہیں۔
وہ بولیں ''اپنے دولہا کو ڈھونڈ رہی ہوں، کئی دن سے ان کی کوئی خبر نہیں ملی۔'' خاتون خانہ نے دیوانی آپا سے کہا '' آپا! پہلے مینہ کو روک دو پھر دولہا کو ڈھونڈنا۔'' وہ بولیں ''روک دوں'' سب نے کہا ''ہاں آپا! مینہ کو روک دو۔'' وہ صحن میں جا کر کھڑی ہوگئیں، آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر بولیں '' میرا سہاگ اجاڑنے کا ارادہ ہے تو خوب برسو، آنکھوں کا کاجل دھو ڈالو، ہونٹوں کی مسی چھڑا دو، جوڑا تو سارا بھگو دیا، ایک ہی دفعہ رانڈ کیوں نہیں کردیتے۔'' یہ فقرے شاید دوسری مرتبہ ان کے منہ سے نکلے ہوں گے کہ یکایک بادل گرج کر پھٹے اور تھوڑی دیر میں دھوپ نکل آئی۔
اب تو دیوانی آپا کی دلی بھر میں خوب شہرت ہوگئی، لوگ انھیں گھر بلاتے ان سے باتیں کرتے، ان کے ہاتھ چومتے۔ لیکن انھیں کچھ خبر نہ تھی کہ لوگ کیا کہتے ہیں، اکثر اتفاق سے محلے کے کسی ایسے گھر میں ضرور جاتیں جہاں کوئی بیمار ہوتا، ماتھے پہ ہاتھ رکھتیں اللہ سے دعا کرتیں اور مریض صحت یاب ہو جاتا۔ لوگ انھیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے جس گھر میں چلی جاتیں وہاں دھوم مچ جاتی کہ دیوانی آپا آئی ہیں۔
بڑی برکتوں والی تھیں، بس ہر جگہ اپنے دولہا کو ڈھونڈتی تھیں، ہر وقت لال جوڑا اور زیور سے لدی رہتی تھیں، اچھا زمانہ تھا لوگ عزت کرتے تھے، چوری چکاری کا ڈر نہ تھا، لوگ کواڑ کھول کر سو جاتے تھے، پتا نہیں اس بد نصیب دلہن کا کیا نام تھا جسے سب دیوانی آپا کہتے تھے۔
ایک جمعرات کو بڑی خاموشی سے قبر میں جا سوئیں، اپنے دولہا کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے، خاک میں مل گئیں۔ اشرف صبوحی صاحب نے دیوانی آپا کا قصہ ایسا لکھا ہے کہ دل رو پڑتا ہے۔
ان کا حلیہ ملاحظہ ہو۔ '' لال چو چہاتا دوپٹہ ٹھپّا لگا ہوا، لال ہی کرتا کرن لگا ہوا۔ بڑے پائنچوں کا لال ہی پجامہ، پور پور چھلے انگوٹھیاں،کلائیوں میں رنگ برنگی چوڑیاں، ناک میں ایک طرف نتھ دوسری طرف لونگ، بیچ میں بلاق، کانوں میں بیسیوں بالیاں، گلے میں چمپا کلی، گلوبند اور ہار، ماتھے پہ ٹیکا اور ایک طرف جھومر، پاؤں میں جھانجن پازیب انگلیوں میں چھلے، دانتوں میں مسی آنکھوں میں کاجل، اسی حلیے میں گلی گلی ماری ماری پھرتی تھیں۔ ہر ایک کے گھر جاتی تھیں۔ عام طور پر لوگ انھیں مجذوبہ کہتے تھے، بڑی پہنچی ہوئی تھیں۔''
وہ ہمیشہ چوتھی کی دلہن بنی رہتی تھیں، دلی والے انھیں عزت سے گھر بلاتے تھے۔ کہتے ہیں بڑی کرامت والی تھیں، جن گھروں میں جایا کرتی تھیں وہاں کبھی کوئی غیر معمولی واقعہ پیش نہ آیا۔ ان کے گھرانے کا تعلق قلعہ سے تھا، ان کے والد شہزادے اور ماں شہزادی تو نہ تھیں۔ البتہ ان کی والدہ کو سب منجھلی بیگم کہتے تھے۔
ان کی صرف یہی اولاد تھیں، جنھیں نہ جانے کیوں لوگ دیوانی آپا کہنے لگے تھے۔چوڑیاں چھنکاتی برقعہ سر پہ ڈال دوپہر کو نکل جاتی تھیں، کسی دروازے پہ پہنچ کر آواز لگاتیں ''آپا میں آؤں'' گھر والے دکھیا کو جانتے تھے۔
دلی والے ویسے ہی فراخ دل ہوتے ہیں، مروت اور رکھ رکھاؤ ان پر ختم ہے۔ ہر کوئی ان کو بلا لیتا تھا۔ دکھیا کے دکھ سے سبھی واقف تھے، اپنے آپ سے باتیں کرتی تھیں، دماغ الٹ گیا تھا، البتہ کپڑے ہمیشہ لال پہنتی تھیں اور زیورات سے لدی پھندی رہتی تھیں۔
دیوانی آپا نوجوان تھیں، خوبصورت تھیں، ماں کو جوان ہونے پر بیاہ کی فکر ہوئی، شادی کی تیاریاں شروع ہوئیں، قلعے والی تھیں، منجھلی اکلوتی بیٹی کی شادی پر دل کھول کر خرچ کیا ہفتے بھر پہلے نوبت بجنے لگی، والد مر چکے تھے لیکن ماں نے کوئی کمی نہ ہونے دی۔
منجھلی بیگم دل کی بہت سخی تھیں، نوکروں اور خادماؤں کو جی بھر کے انعامات دیے، جوڑے اور تحفے دیے، بیٹی پندرہ دن پہلے سے مایوں بیٹھی تھی، سانچق آچکی تھی، دولہا کے جوڑے بھی جا چکے تھے، اکیس من مٹھائی دولہا والوں کی طرف سے آئی اور اتنی ہی منجھلی بیگم نے بیٹی کی سسرال بھیجی۔ مہمانوں کا تانتا بندھا تھا، ڈولیوں پہ ڈولیاں کہار لا کے رکھ رہے تھے، تانگوں اور موٹروں سے مہمان اتر کر قلعے میں جا رہے تھے۔
بڑی گہما گہمی تھی، منجھلی بیگم انتظامات میں مصروف تھیں، دلہن جھومر ٹیکا لگائے زیورات پہنے زرق برق لباس میں گھونگھٹ نکالے شرمائی بیٹھی تھی۔
دولہا کا جلوس، اللہ اکبر اتنا شان دارکہ قلعے والوں نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا، بھڑکتی شمع کی آخری لو تھی یہ شادی۔ منجھلی بیگم نے سارے ارمان نکالے۔ ڈیوڑھی پر روشن چوکی والے آ بیٹھے۔ نکاح ہو چکا تھا، دولہا محل سرا میں چلے۔
نیگ لینے والی سالیاں ساتھ ساتھ تھیں، دولہا کا چہرہ پھولوں کے سہرے سے ڈھکا ہوا تھا، اچانک دولہا کو پاؤں پر کوئی چیز رینگتی ہوئی محسوس ہوئی، انھوں نے سلیم شاہی پیر سے جھٹک دی لیکن اتنی دیر میں موا سانپ اپنا کام کر گیا، دلی کے پرانے گھروں میں قلعے میں کونوں کھدروں میں سانپ دم دبائے بیٹھے رہتے ہیں، دولہا نے سانپ کو پیرکی جوتی سے کچلنا چاہا، لیکن اتنی دیر میں سانپ نے پلٹ کر چٹک لیا۔
چٹکنا تھا کہ دولہا کے چہرے پر زردی چھا گئی، بس زبان سے اتنا نکلا کہ ''سانپ نے کاٹ کھایا'' پھر ہوش نہ رہا۔ مردوں کو خبر ہوئی تو وہ دوڑے ہوئے آئے، ملا سیانے پڑھنت پڑھنے والے بیسیوں لوگوں نے اپنی اپنی کاریگری دکھائی لیکن دولہا کو ہوش نہیں آیا۔
شام ہوتے ہوتے خاتمہ ہو گیا، دلہن سہاگ کے جوڑے میں بیوہ ہوگئی، دولہا میاں قبرکے چھپرکٹ میں جا سوئے، سہرے کی کلیاں قبر پہ ڈال دی گئیں۔
دولہا والوں کے ہاں ایسا کہرام مچا کہ ہر آنکھ اشک بار تھی، دلہن والوں کے گھر میں قیامت کا سماں تھا، دلہن دو دن تو کمرے میں چپکی پڑی رہی، منجھلی بیگم جو کوٹھری میں گھسیں تو دو دن بعد ان کا جنازہ ہی نکلا۔ ماں کی میت کے وقت دلہن کمرے سے نکلی۔ بس دماغ الٹ گیا، اسی حلیے میں گھر سے نکل کھڑی ہوئیں، نہ زیور اتارا نہ کپڑے بدلے۔ وہ دن اور آج کا دن انھیں یہ خبر نہیں کہ وہ کون ہیں۔
جیتے جی دلہن بننے کی رٹ اور دولہا کا ارمان لگا رہا۔ دن بھر پھرتی تھیں اور رات کو کسی کے بھی گھر سو جاتی تھیں، پھر ایک جاننے والے خاندان نے انھیں اپنے گھر رکھ لیا۔ وہ صبح برقعہ سر پہ ڈالے نکل جاتیں اور رات کو واپس آجاتی تھیں۔
لوگ کہتے تھے کہ دیوانی آپا جس کے بھی گھر جاتی ہیں وہاں کبھی کوئی حادثہ نہ ہوتا، کوئی بیمار نہ ہوتا، اگر بیمار ہوتا تو دیوانی آپا کے جاتے ہی بیمار بھلا چنگا ہو جاتا، لیکن انھیں خود کچھ خبر نہیں تھی کہ وہ کہاں جاتی ہیں، بہکی بہکی باتیں کرتیں اور اپنے ناراض دولہا کو ڈھونڈتی رہتیں۔
وہ کہتیں ''میرے دولہا ناراض ہوگئے ہیں، دیکھنا ایک دن میں انھیں منا لوں گی۔'' نام تو پتا نہیں کیا تھا لیکن محلے میں دیوانی آپا کے نام سے مشہور تھیں۔ وہ ایک مجذوبہ تھیں، جو زبان سے نکل جاتا وہ پورا ہو جاتا تھا، ایک بار دلی میں بڑی سخت گرمی پڑی، بارش کا نام نہیں، لوگ نمازیں پڑھ پڑھ کر تھک گئے لیکن ایک بوند نہ پڑی، کسی کو خیال آیا کہ دیوانی آپا کو بلاؤ۔
وہ آئیں تو ان سے کہا گیا کہ '' آپا! بارش نہیں ہو رہی، تم ہی کچھ کرو، اللہ سے دعا مانگو۔'' انھوں نے اپنے بال کھولے اور بولیں '' مہر راج برسا دو، کتنے دنوں سے میرا چونڈہ نہیں دھلا، تم کو کیا اچھا معلوم ہوتا ہے کہ میرے بدن سے بو آنے لگے، اپنی دلہن سے اس طرح آنکھیں نہ پھیرو، مہر راج۔۔۔۔برسا دو، برسا دو، برسا دو'' خدا کی شان پہلے پھوار پڑی پھر جو کالی گھٹا برسی تو جل تھل ایک ہوگئے۔ تین مہینے کی کسر چار دن میں نکل گئی۔
ایک دفعہ بڑے زور کی بارش ہوئی، سیکڑوں مکان گر گئے، پندرہ دن تک پانی برستا رہا، اسی اثنا میں دیوانی آپا کہیں سے بھٹکتی بھٹکاتی آ نکلیں، عورتوں نے ان سے کہا کہ وہ اس بارش میں کہاں ماری ماری پھر رہی ہیں۔
وہ بولیں ''اپنے دولہا کو ڈھونڈ رہی ہوں، کئی دن سے ان کی کوئی خبر نہیں ملی۔'' خاتون خانہ نے دیوانی آپا سے کہا '' آپا! پہلے مینہ کو روک دو پھر دولہا کو ڈھونڈنا۔'' وہ بولیں ''روک دوں'' سب نے کہا ''ہاں آپا! مینہ کو روک دو۔'' وہ صحن میں جا کر کھڑی ہوگئیں، آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر بولیں '' میرا سہاگ اجاڑنے کا ارادہ ہے تو خوب برسو، آنکھوں کا کاجل دھو ڈالو، ہونٹوں کی مسی چھڑا دو، جوڑا تو سارا بھگو دیا، ایک ہی دفعہ رانڈ کیوں نہیں کردیتے۔'' یہ فقرے شاید دوسری مرتبہ ان کے منہ سے نکلے ہوں گے کہ یکایک بادل گرج کر پھٹے اور تھوڑی دیر میں دھوپ نکل آئی۔
اب تو دیوانی آپا کی دلی بھر میں خوب شہرت ہوگئی، لوگ انھیں گھر بلاتے ان سے باتیں کرتے، ان کے ہاتھ چومتے۔ لیکن انھیں کچھ خبر نہ تھی کہ لوگ کیا کہتے ہیں، اکثر اتفاق سے محلے کے کسی ایسے گھر میں ضرور جاتیں جہاں کوئی بیمار ہوتا، ماتھے پہ ہاتھ رکھتیں اللہ سے دعا کرتیں اور مریض صحت یاب ہو جاتا۔ لوگ انھیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر لاتے جس گھر میں چلی جاتیں وہاں دھوم مچ جاتی کہ دیوانی آپا آئی ہیں۔
بڑی برکتوں والی تھیں، بس ہر جگہ اپنے دولہا کو ڈھونڈتی تھیں، ہر وقت لال جوڑا اور زیور سے لدی رہتی تھیں، اچھا زمانہ تھا لوگ عزت کرتے تھے، چوری چکاری کا ڈر نہ تھا، لوگ کواڑ کھول کر سو جاتے تھے، پتا نہیں اس بد نصیب دلہن کا کیا نام تھا جسے سب دیوانی آپا کہتے تھے۔
ایک جمعرات کو بڑی خاموشی سے قبر میں جا سوئیں، اپنے دولہا کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے، خاک میں مل گئیں۔ اشرف صبوحی صاحب نے دیوانی آپا کا قصہ ایسا لکھا ہے کہ دل رو پڑتا ہے۔