عام انتخابات
لوگ یہ جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ آیندہ انتخابات کے بعد کی صورتحال کیا ہوگی؟
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے۔ آیندہ عام انتخابات کے انعقاد کے بارے میں طرح طرح کی اٹکلیں اور چہ مگوئیاں جاری تھیں۔ کوئی کچھ کہتا تھا اور کوئی کچھ۔ جتنے منہ اُتنی باتیں۔ بڑے بڑے ثقہ سیاستدان قیاسات اور اندازے لگا رہے تھے۔
عوام اِس شش و پنج میں مبتلا تھے کہ اِس ملک کا کیا بنے گا؟ کسی کو یقین نہیں آتا تھا کہ آگے چل کرکیا ہونے والا ہے۔ اِس صورتحال کی وجہ سے ایک غیر یقینی کی کیفیت طاری تھی۔
کاروبار ٹھپ پڑے تھے اور سرمایہ کار سہمے ہوئے تھے۔ معیشت دلدل میں پھنسی ہوئی تھی۔ بے روزگاری بڑھتی جا رہی تھی اور اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ بالآخر مہرِ سکوت ٹوٹی اور سپریم کورٹ کے تاریخ ساز فیصلے نے پورا منظر نامہ تبدیل کر دیا۔
قوم اندھیرے سے اُجالے میں آگئی۔ آیندہ عام انتخابات کی ایک معینہ تاریخ مقرر ہوگئی اور عدلیہ نے اپنا فیصلہ کُن کردار ادا کر کے تنِ مردہ میں جان ڈال دی جس کے لیے اُس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان ہوتے ہی سیاسی ماحول یکسر تبدیل ہوگیا اور سیاسی جماعتیں متحرک ہوگئیں۔
پاکستان الیکشن کمیشن نے آٹھ فروری کو الیکشن کے انعقاد کا اعلان کردیا ہے۔ دسمبر کے پہلے ہفتے میں حلقہ بندیوں کے بعد ای سی پی الیکشن شیڈول کا با قاعدہ اعلان کر دے گا۔
محنت کَش طبقے کے علاوہ عوام کے مختلف طبقات کی جانب سے آیندہ عام انتخابات کے حوالے سے بہت سے سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں۔ لوگ یہ جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ آیندہ انتخابات کے بعد کی صورتحال کیا ہوگی؟ اُن کی تشویش یہ ہے کہ کیا کوئی مثبت تبدیلی آئے گی یا نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہوگا اور ایک مرتبہ پھر جوتیوں میں دال بٹے گی۔ عوام کے یہ خدشات اور اندیشے بے بنیاد نہیں ہیں کیونکہ ماضی کے تجربات اچھے نہیں رہے ہیں۔
سیاسی جماعتوں نے اپنا اعتبار کھویا ہوا ہے۔ الیکشن سے پہلے وہ بڑے بڑے پُرکشش وعدے کرتے ہیں اور پھر رات گئی بات گئی۔
اُن کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ جیسے وہ عوام کے بے لوث خادم ہیں اور انتخابات کے اختتام کے بعد اُن کے تمام وعدوں اور دعوؤں کا تاج محل دھڑام سے ٹوٹ کر پاش پاش ہوجاتا ہے۔ سیاستدانوں کی اِس غلط رَوِش نے عوام کا اعتماد کِرچی کِرچی کردیا ہے۔ اِس صورتحال نے انتخابات کے بارے میں عوام میں مایوسی پھیلا رکھی ہے۔
غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظارکیا
اوّل تو ہمارے سیاستدانوں کا کوئی منشور ہی نہیں ہوتا اور محض زبانی جمع خرچ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا اور اگر برائے نام کوئی منشور ہوتا بھی ہے تو اُس پر عمل درآمد کی توفیق نہیں ہوتی۔انتخابات کے بعد اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اِس کے بارے میں صرف ٹامک ٹیاں مارنے کے علاوہ کچھ بھی کہنا آسان نہیں ہے کیونکہ پرانے شکاریوں کے پاس نئے جال لانے کے سوائے اور کوئی چارہ نہیں ہے۔
فی الحال انتخابات کے بارے میں کوئی پیشن گوئی کرنا قبل از وقت ہے۔ بظاہر پاکستان مسلم لیگ (ن) کا پلہ بھاری نظر آرہا ہے اور ہواؤں کا رخ بھی اُس کے حق میں ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی بھی کافی پُر امید نظر آرہی ہے۔
رہی بات پی ٹی آئی کی تو اُس کی کشتی بظاہر بھنور میں ہے۔ معلوم نہیں کہ وہ انتخابات میں حصہ بھی لے پائے گی یا نہیں؟ یہ بھی یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ ملک میں جو بحران ہے الیکشن کے نتیجے میں وہ ختم بھی ہوگا یا نہیں اور برسرِ اقتدار آنے والی کوئی واحد جماعت حالات پر قابو پاسکے گی یا نہیں اور کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ پھر کوئی مخلوط حکومت قائم ہو اور سانجھے کی ہنڈیا ایک بار پھر چولہے پہ چڑھائی جائے۔
سوال یہ بھی ہے کہ مستقبل کی حکومت آسمان سے باتیں کرتی ہوئی مہنگائی کا کوئی توڑ بھی نکال سکے گی اور حد سے بڑی ہوئی بیروزگاری اور غربت کو بھی ختم کر پائے گی؟ اِن سوالات کے جوابات کے لیے عوام کو ابھی بہت صبر اور انتظار کرنا پڑے گا۔
اِس کے علاوہ ایک سوال یہ بھی ہے کہ آیا الیکشن کمیشن وہ اعتماد بھی حاصل کرسکے گا جس پر عام انتخابات کا دار و مدار ہے؟ اب تک کا تلخ تجربہ اِس بات کی نفی کرتا ہے ۔ اب تک کے ریکارڈ سے ثابت ہے کہ عام انتخابات غیر متنازعہ نہیں ہوسکے اور ہارنے والی ہر پارٹی کو اِس بات کی شکایت ہی رہی ہے کہ اُس کے ساتھ بے ایمانی اور دھاندلی کی گئی ہے۔
یہ سوال بھی اپنی جگہ انتہائی اہم ہے کہ ایسا کون سا طریقہ اختیار کیا جائے کہ انتخابات انتہائی شفاف، آزادانہ منصفانہ اور قطعی غیر جانبدارانہ ہوں۔ایک تجویز یہ ہے کہ اِس معاملہ میں دیگر جمہوری ممالک کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے اور سر جوڑ کر بیٹھ کر ایسا طریقہ کار وضع کیا جائے جس کے ذریعہ انتخابات کے تمام تقاضوں کو پورا کیا جاسکے۔
اِس سلسلہ میں تمام سیاسی جماعتوں سے صلاح مشورہ کیا جائے اور اُن کی تجاویز کو ضبطِ تحریر میں لایا جائے تا کہ کل کلاں کسی کو بھی مُکرنے سے روکا جاسکے۔ مزید ایک تجویز یہ بھی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے مکمل تعاون اور مشورہ سے انتخابات کی نگرانی کے لیے ایک خصوصی پینل تشکیل دیا جائے جس پر کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔
فول پروف انتظامات کے لیے انتخابات کے عمل کو ٹیلیویژن اسکرین پر دکھایا جائے تاکہ نہ صرف پاکستان کے عوام بلکہ عالمی میڈیا اِس عمل کی کوریج کرسکے۔آئیے! ہم سب مل کر یہ دعا اور التجا کریں کہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں آیندہ انتخابات پوری ایمانداری کے ساتھ منعقد ہوں۔