سندھ میں پیپلزپارٹی کی گرفت

اندرون سندھ کے لوگ بھٹو خاندان کی وجہ سے پیپلز پارٹی سے ہمدردی رکھتے ہیں

m_saeedarain@hotmail.com

سندھ میں حال ہی میں بلدیات کے خالی حلقوں کے ضمنی الیکشن میں جو کامیابی ملی ہے وہ تو پہلے سے ہی یقینی تھی کیونکہ اگست میں اپنے اقتدار کے خاتمے سے قبل ہی پیپلز پارٹی نے اس سلسلے میں انتظامات کر لیے تھے اور اپنے منصوبے کے تحت پیپلز پارٹی نے اپنے مکمل حمایتی علاقوں سے امیدواروں کا انتخاب کر لیا تھا جس کے تحت اس نے کراچی کے میئر اور ڈپٹی میئر کو اپنے علاقوں سے بلا مقابلہ یوسیز کے مضبوط حلقوں سے منتخب کرا لیا ہے ورنہ میئر مرتضیٰ وہاب کراچی کے جس علاقے پی ای سی ایچ ایس میں پلے بڑھے انھیں یوسی چیئرمین کا الیکشن لڑنا وہیں سے چاہیے تھا مگر پی پی نے انھیں ابراہیم حیدری سے الیکشن میں کھڑا کیا جہاں انھیں کوئی نہیں جانتا بلکہ لوگ پیپلز پارٹی اور اس کے انتخابی نشان تیر کو ووٹ دیتے آئے ہیں۔

پیپلز پارٹی کراچی کے دیہی علاقوں اور اندرون سندھ میں ہونے والے ضمنی بلدیاتی الیکشن کو اپنی جو مقبولیت قرار دے رہی ہے وہ کافی حد تک درست بھی ہے کیونکہ پی پی نے اپنی حکومت کے 15 سالوں میں کراچی میں بلاامتیاز ترقیاتی کام نہیں کرائے جس سے کراچی کے شہری علاقوں میں تعمیری کام ہی نظر آتے کیونکہ یہ علاقے پی پی کا ووٹ بینک تھے ہی نہیں اسی لیے پی پی حکومت نے اپنا امتیازی رویہ برقرار رکھا اور ترقیاتی و تعمیری کاموں میں ان ہی علاقوں کو ترجیح دی جہاں سے اسے ووٹ ملتا رہا ہے۔

پی پی ووٹ بینک کے وہ علاقے کراچی کے ان شہری علاقوں سے بہت بہتر ہیں کیونکہ پی پی حکومت نے انھیں اپنا سمجھا اور جہاں اس کا ووٹ بینک نہیں تھا۔

ان علاقوں کو ماضی کی طرح نظرانداز کیا جس کا اندازہ ان علاقوں میں ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، نکاسی و فراہمی آب کی بدتر صورتحال اور غیر منصفانہ تعمیری کاموں، ان علاقوں میں طبی و تعلیمی سہولتوں کے فقدان سے لگایا جاسکتا ہے اور اسی وجہ سے پیپلز پارٹی ان ٹاؤنز میں اپنے چیئرمین منتخب نہیں کرا سکی تھی اور شہری علاقوں کے 9 ٹاؤنز میں جماعت اسلامی اور باقی میں پی ٹی آئی کامیاب ہوئی تھی۔

یہ بات سو فی صد درست ہے کہ اندرون سندھ کے تمام الیکٹ ایبلز جن میں زمیندار اور پیر شامل ہیں وہ سب پیپلز پارٹی میں واپس آ چکے ہیں یا شامل رہے ہیں۔ حال ہی میں شکارپور ضلع سے تعلق رکھنے والے غوث بخش مہر جو جی ڈی اے میں تھے واپس پیپلز پارٹی میں لوٹ آئے ہیں اور وہ پی پی دور میں سندھ اسمبلی کے اسپیکر بھی رہ چکے ہیں۔

آصف زرداری کے قریبی دوست ڈاکٹر ذوالفقار مرزا جب سے ناراض ہوئے واپس نہیں آئے، باقی واپس آ رہے ہیں کیونکہ انھوں نے پی پی کے ٹکٹ پر الیکشن ضرور لڑنا ہے کیونکہ ان کے علاقوں میں پی پی کا ٹکٹ کامیابی کی ضمانت ہے اور وہاں ان کے مدمقابل کوئی مضبوط امیدوار بھی نہیں ہے اور وہاں پی پی کا ووٹ بینک بھی محفوظ ہے۔

اندرون سندھ کے لوگ بھٹو خاندان کی وجہ سے پیپلز پارٹی سے ہمدردی رکھتے ہیں اور پیپلز پارٹی کو اپنی پارٹی سمجھتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ سندھی بولنے والے پڑھے لکھے نوجوانوں کو پیپلز پارٹی نے ہر ادارے میں ضرورت سے زیادہ آسامیاں پیدا کر کے ملازمتیں دی ہیں جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔


مبینہ طور پر کراچی سے اسلام آباد تک کسی میرٹ اور محکموں میں جگہیں نہ ہونے پر بھی نوکریاں فراہم کیں جس کی شکایات پر عدالتی مقدمات بھی زیر سماعت ہیں۔

میرٹ اور قابلیت پر ہر کسی کو ہر جگہ ملازمت کا حق ضرور ہے مگر پی پی کے بانی نے ساٹھ اور چالیس فی صد کا جو کوٹہ مقرر کرایا تھا اس پر عمل نہیں کیا گیا جس کی شکایات متحدہ کو بھی ہیں اور متحدہ قومی موومنٹ پر بھی یہ الزام ہے کہ اس نے بھی اپنے دور میں اپنے کارکنوں کو غیر قانونی بھرتی کرایا مگر ایم کیو ایم کا موقف ہے کہ اس نے پی پی حکومت کی طرح ملازمتیں فروخت نہیں کیں۔

سیاسی حلقوں میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی نے 2008کے بعد جس طرح پی پی کارکنوں کو ملازمتیں دلائیں اور بڑے بڑے رہنماؤں کو نوازا جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی اور اسی وجہ سے سندھ میں پی پی نے جتنی زیادہ نشستیں جیتیں اتنی پی پی کو بھٹو اور بے نظیر بھٹو دور میں نہیں ملی تھیں۔

جس طرح نواز شریف اپنی جگہ اپنی بیٹی کو دلانا چاہتے ہیں اسی طرح آصف زرداری نے بھی بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اپنے اکلوتے صاحبزادے بلاول زرداری کو بلاول بھٹو کا نام دے کر انھیں وزیر اعظم بنانے کی تیاریاں کر رکھی ہیں جس کی عملی کوشش انھوں نے پی ڈی ایم حکومت میں بلاول بھٹو کو وزیر خارجہ مقرر کرا کر کر لیا تھا جن کے نانا بھی ایوب حکومت میں وزیر خارجہ تھے جن کی قابلیت دنیا تسلیم کرتی ہے مگر بے نظیر بھٹو کا بیٹا ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ بلاول وزیر اعظم بننے کے لیے اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو جیسی صلاحیت کے حامل ہیں۔

آصف زرداری نے بلاول بھٹو کی تربیت قابل لوگوں کے ذریعے ضرورکرائی ہے مگر ابھی وہ اپنے نانا جیسی صلاحیت کے حامل نہیں ہیں مگر آصف زرداری کے مقابلے میں بلاول بھٹو کو سننے زیادہ لوگ آتے ہیں کیونکہ وہ اپنی والدہ کے جانشیں بنائے گئے تھے۔

سندھ میں بلاول بھٹو کی مقبولیت دیگر صوبوں سے زیادہ ہے اور اندرون سندھ میں بھٹو خاندان کو جیسا احترام دیا جاتا ہے اور سندھ میں شاید یہ خواہش بھی ہے کہ وہ مستقبل میں وزیر اعظم بنیں مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ پنجاب پیپلز پارٹی کے پاس واپس آئے مگر اب تک کامیابی نہیں مل سکی اور اب سندھ میں پیپلز پارٹی کی بہ ظاہر مضبوط گرفت اب کمزور ہوتی نظر آرہی ہے کیونکہ سندھ میں پی پی کے خلاف ایک مضبوط سیاسی اتحاد بننے جا رہا ہے اور سوشل میڈیا پر 15 سالہ سندھ حکومت میں ہونے والی کرپشن کی کہانیاں منظر عام پر آ رہی ہیں۔

سندھ حکومت کی 15 سالہ مبینہ کرپشن پر پردہ پڑا رہا مگر پی پی مخالفین اندرون سندھ ترقیاتی کاموں کی جگہ ہر ضلع میں کرپشن، تباہ حالی و بربادی کے الزامات لگا رہے ہیں مگر کوئی پی پی حکومت میں دی جانے والی ملازمتوں کا ذکر نہیں کرتا۔ پی پی مخالف پارٹیوں کا سندھ میں ہونے والا اتحاد اگر کامیاب ہوتا ہے تو یہ سندھ میں پی پی کی گرفت کمزور ہونے کا ثبوت ہوگا مگر اصل حقیقت 8فروری کے انتخابی نتائج سے سامنے آ سکے گی۔
Load Next Story