حقیقتِ علم تعبیرالرؤیا
اپنا خواب کسی دوست صالح یا عالم باعمل یا صاحب ذی رائے کے سوا کسی سے بیان نہیں کرنا چاہیے
خواب اﷲ تعالیٰ کے عجائب قدرت میں سے اُس کی قدرت کی ایک عجیب ترین نشانی ہے۔ اور اس کی تعبیر کا فن ایک عظیم الشان اور مبارک علم ہے۔
اِس سے آئندہ زمانے میں پیش آنے والے حالات و واقعات اور حوادثات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''بشارتوں کے علاوہ کوئی چیز باقی نہیں رہی۔'' صحابہؓ نے عرض کیا: ''یا رسول اﷲ ﷺ! بشارتوں سے کیا مراد ہے ؟'' آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''سچا خواب'' (صحیح بخاری)
خواب کیوں نظر آتے ہیں:
امام ابن خلدونؒ نے اِس امر پر تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے کہ حواس کا پردہ نفس انسانی سے خواب میں کیوں کر اُٹھتا ہے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی روح کا وجدان اور اس کے کام روحِ حیوانی کے ذریعہ سے ہو تے ہیں۔ جو ایک قسم کا غیر مرئی امر ہے۔ اور اس کا مرکز و مقام دل کا نچلا حصہ ہے۔ یہی روحِ حیوانی خون کے ساتھ تمام عروق و شریانوں میں پھیلتی اور بدن کو حس و حرکت اور تمام بدنی اعمال و افعال کی قوت دیتی ہے۔
اس بخارِ لطیف کا کچھ حصہ دماغ کی طرف بھی اوپر چڑھتا ہے اور دماغی ٹھنڈک سے معتدل ہوتا ہے۔ اور دماغی قوائے اس کی مدد سے اپنا کام کرتے ہیں۔
گویا نفس ناطقہ بھی اس روحِ بخاری کی مدد سے سوچتا اور سمجھتا ہے اور اس سے متعلق ہے۔ کیوں کہ لطیف کا تعلق لطیف ہی سے ہو سکتا ہے۔ اور یہی حیوانی روح تمام موادِ بدنی میں لطیف تر ہے، اس لیے وہ ہی آپ سے الگ ایک وجود یعنی نفس ناطقہ کے آثار کی جلوہ گاہ بھی ہے اور اسی کی بہ دولت نفسانی علامات بدن پر ظاہر و مرتب ہوتے ہیں۔ (تاریخ ابن خلدون)
خواب کے مزاج کی شناخت:
حکماء نے بیان کیا ہے کہ نیند کا سبب تر بخارات کا وجود ہے جو جسم سے دماغ کی طرف چڑھتے ہیں، جس کے باعث تمام حواس اور قوتیں آرام پاتی ہیں اور غذا ہضم ہوتی ہے اور جسم کی اخلاط پختہ ہوتی ہیں۔
طبیب اس خواب کو طبعی کہتے ہیں اور بعض کے نزدیک خواب دماغ کے افعال میں سے ایک فعل کا نام ہے اور وہ طبیعی فعل ہے، کیوں کہ ِاس سے قوتوں کو آرام پہنچتا ہے، خاص کر قوت تخیل اور قوت فکر کو زیادہ آرام پہنچتا ہے اور یہ قوتیں جن کا ذکر ہُوا ہے روح نفسانی کی حرکات ہیں اور اِن کی جگہ دماغ ہے اور خواب سے آرام ہے تاکہ روحِ نفسانی تسکین پائے۔
خواب کی اقسام:
امام محمد بن سیرینؒ نے فرمایا ہے کہ خواب تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تو حدیث نفس (دلی خیالات کا انعکاس) دوسرے تخویف شیطان۔ اور تیسرے مبشرات خداوندی۔ اس تقسیم سے ظاہر ہے کہ خواب کے تمام اقسام صحیح، قابل تعبیر اور درخور التفات نہیں ہوتے۔ بل کہ تعبیر اور انتہار کے لائق خواب کی وہی قسم ہے جو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بشارت و اعلام ہو۔
حدیث نفس کی مثال یہ ہے کہ کوئی شخص ایک کام یا حرفہ کرتا ہے، وہ خواب میں بھی عموماً وہی چیز میں دیکھے گا، جن میں دن بھر منہمک رہتا ہے یا کوئی عاشق محروم الوصال جو ہر وقت اپنے محبوب کی یاد اور خیال میں مستغرق رہتا ہے، وہ خواب میں بھی عموماً اس کو دیکھتا ہے۔ سچا خواب اس لیے دکھایا جا تا ہے کہ بندہ محظوظ ہو اور طالب حق محبت الٰہی میں اور زیادہ سرگرم کار ہو۔ ایسا خواب قابل تعبیر ہے اور اسی پر بڑے اہم نتائج مرتب ہوتے ہیں۔
اچھا اور بُرا خواب:
خواب کی پیدائش و رؤیت دونوں اُمور من جانب اﷲ سرزد ہوتے ہیں، تاہم علماء نے لکھا ہے کہ اچھا خواب اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہوتی ہے، تاکہ بندہ اپنے مولیٰ کریم کے ساتھ حسن ظن میں راسخ الاعتقاد ہو جائے اور یہ بشارت مزید شکر و امتنان کا باعث ہو۔ پس جب کوئی شخص اچھا خواب دیکھے تو اسے صرف اس شخص سے بیان کرے جس سے محبت و اعتقاد ہے۔
اچھا خواب نظر آئے تو تین کام کرنے چاہییں، اس خواب پر اﷲ تعالیٰ کی تعریف کرے۔ اس خواب سے خوش ہو۔ یہ خواب دوسروں سے بیان کرے، مگر ایسے شخص سے بیان کرے جو خواب دیکھنے والے سے محبت رکھتا ہو۔ اور جو اس شخص کو ناپسند کرتا ہے اس سے اپنا خواب ہرگز بیان نہ کرے۔
مکروہ خواب کے بعد کروٹ بدلنا:
جب کوئی شخص بُرا خواب دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ چھے کام کرے: اس خواب کی بُرائی سے اﷲ کی پناہ مانگے۔ شیطان کے شر سے اﷲ کی پناہ مانگے۔ جب نیند سے بیدار ہو بائیں طرف تین بار تھتکار دے۔ اس خواب کا تذکرہ کسی سے نہ کرے۔ کم از کم دو رکعت نماز نفل ادا کرے۔ کروٹ بدل کر سوجائے۔ کیوں کہ اِس کا تغیر حال میں بہت بڑا اثر اور دخل ہے۔
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جب کوئی شخص مکر وہ خواب دیکھے تو تین مرتبہ بائیں طرف تھتکار کے شیطان سے اﷲ کی پناہ چاہے اور اُس کروٹ کو بدل ڈالے جس پر خواب دیکھنے کے وقت پڑا تھا۔'' (مسلم) علماء نے لکھا ہے کہ بُرا خواب کسی سے بیان نہ کرے کہ ایسا کرنے سے وہ خواب اسے کوئی ضرر نہ دے گا۔ ضرر نہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے افعالِ مذکورہ کو رنج و غم سے محفوظ رہنے کا سبب گردانا ہے، جیسا کہ صدقہ کو تحفظ مالی اور دفع بلیات کا ذریعہ بنایا ہے۔ (تعبیرالرؤیا)
خواب پر صدق مقال کا اثر:
اکل حلال اور صدق مقال کو سچے خواب میں بڑا دخل ہے۔ اس لیے جو حضرات متوحش قسم کے خواب دیکھنے کے عادی ہوں، انہیں اپنی اخلاقی حالت کا جائزہ لینا چاہیے، خصوصاً حرام یا مشتبہ غذا، غیبت اور کذب بیانی سے قطعاً اجتناب لازم ہے۔
اس معنی میں ایک مرفوع حدیث بھی مروی ہے کہ جو شخص سب سے زیادہ راست گو ہوگا، اس کا خواب بھی سب سے زیادہ سچا ہوگا۔ چناں چہ علماء نے لکھا ہے کہ جس طرح عملیات میں صدقِ مقال اور اکل حلال کا بڑا دخل ہے اسی طرح خوابوں کے سچا ہونے میں بھی ان دونوں باتوں کا بڑا دخل ہے۔ جو شخص حلال و طیب چیزیں کھاتا ہے اور ہمیشہ سچ بولتا ہے اس کے خواب زیادہ تر سچے ہوتے ہیں۔ (تحفۃ الالمعی شرح سنن ترمذی)
غلط خواب بیان کرنے کی ممانعت:
حضرت ابراہیم کرمانیؒ فرماتے ہیں کہ خواب دیکھنے والے کو چاہیے کہ اس نے جس طرح خواب دیکھا ہو بعینہٖ اسی طرح معبر کے سامنے بیان کر دے ۔
اس میں کمی بیشی ہرگز نہ کرے اور نہ ہی اس میں جھوٹ بولے اور نہ ہی جھوٹ موٹ خواب بنا کر پیش کرے۔ کیوں کہ جیل خانے میں حضرت یوسفؑ نے وہاں کے دو قیدی سائلوں کو ان کے بیان کردہ خوابوں کی تعبیر بتا کر صاف کہہ دیا تھا، مفہوم: ''جس جس بات کی تم دونوں نے مجھ سے تعبیر دریافت کی ہے وہ میری تعبیر کے مطابق ہی بہ حکم خداوندی واقع ہو جائے گی۔
خواب کس سے بیان کیا جائے؟
تعبیر کے لیے اپنا خواب کسی دوست صالح یا عالم باعمل یا صاحب ذی رائے کے سوا کسی سے بیان نہیں کرنا چاہیے، کیوں کہ یہ لوگ خواب کو حتی الامکان نیکی پر محمول کر کے اس کی اچھی تعبیر دیں گے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے، مفہوم: ''اپنا خواب کسی دوست یا عالم کے سوا کسی سے نہ کہو۔'' (جامع ترمذی) دوسری جگہ فرمایا: ''اپنا خواب کسی دوست یا ذی رائے کے سوا کسی سے نہ کہو۔'' (سنن ابی داؤد)
خواب کے اوقات کی اہمیت:
ماہرین تعبیر کی رائے ہے کہ صبح کے وقت کا خواب نہایت ہی سچا اور صحیح ہوتا ہے۔ اور قربِ قیامت میں ایمان والوں کے اکثر خواب سچے اور صحیح ہُوا کریں گے۔ حدیث شریف میں آتا ہے رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''جب (قربِ قیامت کا) زمانہ قریب آئے گا تو مؤمن کا خواب قریب نہیں کہ جھوٹا ہو۔'' (جامع ترمذی) یعنی اس زمانے کے اکثر و بیشتر خواب صحیح اور سچے ہُوا کریں گے۔
علم تعبیر کی فضیلت:
علم تعبیر نہایت ہی عظیم الشان اور مبارک علم ہے۔ سب سے پہلے اﷲ تعالیٰ نے یہ علم حضرت یوسفؑ کو عنایت فرمایا تھا۔ چناں چہ قرآن مجید میں اﷲ تعالی ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم: ''اور ہم نے اسی طرح زمین پر یوسف کو عزت بخشی اور خوابوں کی تعبیر سکھائی۔'' حدیث شریف میں اس طرح آیا ہے کہ یہ علم حضرت یوسف علیہ السلام کا معجزہ تھا اور جو علم پیغمبرؑ کا معجزہ ہو وہ یقیناً بزرگ اور شریف علم ہوتا ہے۔ اور انبیاء علیہم السلام جو پیغمبر مرسل نہ تھے اُن کے خواب کرامت ہوتے تھے۔
(تعبیر الرؤیا)
علم تعبیر کا موجد:
ہر چیز کا موجد درحقیقت حق تعالیٰ ہے لیکن عرف عام میں ہر علم کا موجد اس شخص کو کہتے ہیں، جس نے سب سے پہلے اس علم کو دنیا میں رواج دیا ہو۔ علم تعبیر کے موجد اور واضع حضرت یوسفؑ ہیں۔ جن کو سب سے پہلے یہ علم خدا تعالی کی طرف سے عطا ہوا۔ انہوں نے اس کو دنیا میں مروج کیا۔ ارشاد باری کا مفہوم: ''اے یوسف! اسی طرح تیرا رب تجھے برگزیدہ بنا لے گا اور مجھے علم تعبیر خواب عطا فرمائے گا۔'' (سورۃ یوسف)
کن لوگوں سے خواب کی تعبیر پوچھنا منع ہے:
امام جعفر صادقؓ فرماتے ہیں کہ چار قسم کے لوگوں سے خواب کی تعبیر پوچھنا جائز نہیں:
بے دین لوگوں سے جو شریعت کے پابند نہ ہوں۔ عورتوں سے۔ جاہلوں سے۔ دُشمنوں سے۔
تعبیر بتانے والے کے لئے آداب و شرائط:
امام ابن سیرینؒ فرماتے ہیں کہ خواب کی تعبیر بتانے والے شخص کے لیے عالم دین ہونے کے ساتھ ضروری ہے کہ وہ لوگوں کے طور طریقوں، اُن کی خصائل و عادات اور اُن کے احوال کو خوب اچھی طرح جاننے والا ہو۔ تعبیر دینے والا شخص اﷲ تعالیٰ سے یہ توفیق مانگے کہ وہ اُس کی زبان پر اچھی اور ثواب کی بات جاری کر ے۔ اور وہ گناہوں سے بچتا رہے اور حرام لقمہ کھانے اور بیہودہ باتیں کہنے اور سننے سے دور رہے تاکہ اس کا شمار اُن علماء میں ہونے لگے جنہیں انبیاء کا وارث کہا گیا ہے۔ (تعبیر الرؤیا)
خواب کی تعبیر کے اوقات:
خواب کی تعبیر دینے کا سب سے اچھا اور بہترین وقت صبح کی نماز کے بعد سے لے کر طلوعِ شمس سے پہلے تک کا ہے۔ بعض علماء نے طلوعِ شمس سے پہلے تعبیر دینے کو نامناسب کہا ہے، لیکن اُن کا یہ قول صحیح نہیں ، کیوں کہ خود حضورِ اقدس ﷺ اسی وقت صحابہ کرامؓ کے خواب سماعت فرما کر اُن کی تعبیر ارشاد فرمایا کرتے تھے۔
ہاں! البتہ خاص طلوعِ آفتاب کے وقت ، زوال کے وقت اور غروب کے وقت خواب کی تعبیر نہیں کرنا چاہیے کہ ان اوقات میں علمائے تعبیر نے خواب کی تعبیر دینے سے منع کیا ہے۔ اسی طرح سہ شنبہ (منگل کے دن) اور چہار شنبہ (بدھ کے دن) بھی خواب کی تعبیر دینے کو مکروہ کہا ہے۔ البتہ رات کے وقت خواب کی تعبیر دینے میں کوئی حرج نہیں۔
(فتح الباری و عمدۃ القاری)
اِس سے آئندہ زمانے میں پیش آنے والے حالات و واقعات اور حوادثات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''بشارتوں کے علاوہ کوئی چیز باقی نہیں رہی۔'' صحابہؓ نے عرض کیا: ''یا رسول اﷲ ﷺ! بشارتوں سے کیا مراد ہے ؟'' آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''سچا خواب'' (صحیح بخاری)
خواب کیوں نظر آتے ہیں:
امام ابن خلدونؒ نے اِس امر پر تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے کہ حواس کا پردہ نفس انسانی سے خواب میں کیوں کر اُٹھتا ہے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی روح کا وجدان اور اس کے کام روحِ حیوانی کے ذریعہ سے ہو تے ہیں۔ جو ایک قسم کا غیر مرئی امر ہے۔ اور اس کا مرکز و مقام دل کا نچلا حصہ ہے۔ یہی روحِ حیوانی خون کے ساتھ تمام عروق و شریانوں میں پھیلتی اور بدن کو حس و حرکت اور تمام بدنی اعمال و افعال کی قوت دیتی ہے۔
اس بخارِ لطیف کا کچھ حصہ دماغ کی طرف بھی اوپر چڑھتا ہے اور دماغی ٹھنڈک سے معتدل ہوتا ہے۔ اور دماغی قوائے اس کی مدد سے اپنا کام کرتے ہیں۔
گویا نفس ناطقہ بھی اس روحِ بخاری کی مدد سے سوچتا اور سمجھتا ہے اور اس سے متعلق ہے۔ کیوں کہ لطیف کا تعلق لطیف ہی سے ہو سکتا ہے۔ اور یہی حیوانی روح تمام موادِ بدنی میں لطیف تر ہے، اس لیے وہ ہی آپ سے الگ ایک وجود یعنی نفس ناطقہ کے آثار کی جلوہ گاہ بھی ہے اور اسی کی بہ دولت نفسانی علامات بدن پر ظاہر و مرتب ہوتے ہیں۔ (تاریخ ابن خلدون)
خواب کے مزاج کی شناخت:
حکماء نے بیان کیا ہے کہ نیند کا سبب تر بخارات کا وجود ہے جو جسم سے دماغ کی طرف چڑھتے ہیں، جس کے باعث تمام حواس اور قوتیں آرام پاتی ہیں اور غذا ہضم ہوتی ہے اور جسم کی اخلاط پختہ ہوتی ہیں۔
طبیب اس خواب کو طبعی کہتے ہیں اور بعض کے نزدیک خواب دماغ کے افعال میں سے ایک فعل کا نام ہے اور وہ طبیعی فعل ہے، کیوں کہ ِاس سے قوتوں کو آرام پہنچتا ہے، خاص کر قوت تخیل اور قوت فکر کو زیادہ آرام پہنچتا ہے اور یہ قوتیں جن کا ذکر ہُوا ہے روح نفسانی کی حرکات ہیں اور اِن کی جگہ دماغ ہے اور خواب سے آرام ہے تاکہ روحِ نفسانی تسکین پائے۔
خواب کی اقسام:
امام محمد بن سیرینؒ نے فرمایا ہے کہ خواب تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تو حدیث نفس (دلی خیالات کا انعکاس) دوسرے تخویف شیطان۔ اور تیسرے مبشرات خداوندی۔ اس تقسیم سے ظاہر ہے کہ خواب کے تمام اقسام صحیح، قابل تعبیر اور درخور التفات نہیں ہوتے۔ بل کہ تعبیر اور انتہار کے لائق خواب کی وہی قسم ہے جو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بشارت و اعلام ہو۔
حدیث نفس کی مثال یہ ہے کہ کوئی شخص ایک کام یا حرفہ کرتا ہے، وہ خواب میں بھی عموماً وہی چیز میں دیکھے گا، جن میں دن بھر منہمک رہتا ہے یا کوئی عاشق محروم الوصال جو ہر وقت اپنے محبوب کی یاد اور خیال میں مستغرق رہتا ہے، وہ خواب میں بھی عموماً اس کو دیکھتا ہے۔ سچا خواب اس لیے دکھایا جا تا ہے کہ بندہ محظوظ ہو اور طالب حق محبت الٰہی میں اور زیادہ سرگرم کار ہو۔ ایسا خواب قابل تعبیر ہے اور اسی پر بڑے اہم نتائج مرتب ہوتے ہیں۔
اچھا اور بُرا خواب:
خواب کی پیدائش و رؤیت دونوں اُمور من جانب اﷲ سرزد ہوتے ہیں، تاہم علماء نے لکھا ہے کہ اچھا خواب اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہوتی ہے، تاکہ بندہ اپنے مولیٰ کریم کے ساتھ حسن ظن میں راسخ الاعتقاد ہو جائے اور یہ بشارت مزید شکر و امتنان کا باعث ہو۔ پس جب کوئی شخص اچھا خواب دیکھے تو اسے صرف اس شخص سے بیان کرے جس سے محبت و اعتقاد ہے۔
اچھا خواب نظر آئے تو تین کام کرنے چاہییں، اس خواب پر اﷲ تعالیٰ کی تعریف کرے۔ اس خواب سے خوش ہو۔ یہ خواب دوسروں سے بیان کرے، مگر ایسے شخص سے بیان کرے جو خواب دیکھنے والے سے محبت رکھتا ہو۔ اور جو اس شخص کو ناپسند کرتا ہے اس سے اپنا خواب ہرگز بیان نہ کرے۔
مکروہ خواب کے بعد کروٹ بدلنا:
جب کوئی شخص بُرا خواب دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ چھے کام کرے: اس خواب کی بُرائی سے اﷲ کی پناہ مانگے۔ شیطان کے شر سے اﷲ کی پناہ مانگے۔ جب نیند سے بیدار ہو بائیں طرف تین بار تھتکار دے۔ اس خواب کا تذکرہ کسی سے نہ کرے۔ کم از کم دو رکعت نماز نفل ادا کرے۔ کروٹ بدل کر سوجائے۔ کیوں کہ اِس کا تغیر حال میں بہت بڑا اثر اور دخل ہے۔
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جب کوئی شخص مکر وہ خواب دیکھے تو تین مرتبہ بائیں طرف تھتکار کے شیطان سے اﷲ کی پناہ چاہے اور اُس کروٹ کو بدل ڈالے جس پر خواب دیکھنے کے وقت پڑا تھا۔'' (مسلم) علماء نے لکھا ہے کہ بُرا خواب کسی سے بیان نہ کرے کہ ایسا کرنے سے وہ خواب اسے کوئی ضرر نہ دے گا۔ ضرر نہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے افعالِ مذکورہ کو رنج و غم سے محفوظ رہنے کا سبب گردانا ہے، جیسا کہ صدقہ کو تحفظ مالی اور دفع بلیات کا ذریعہ بنایا ہے۔ (تعبیرالرؤیا)
خواب پر صدق مقال کا اثر:
اکل حلال اور صدق مقال کو سچے خواب میں بڑا دخل ہے۔ اس لیے جو حضرات متوحش قسم کے خواب دیکھنے کے عادی ہوں، انہیں اپنی اخلاقی حالت کا جائزہ لینا چاہیے، خصوصاً حرام یا مشتبہ غذا، غیبت اور کذب بیانی سے قطعاً اجتناب لازم ہے۔
اس معنی میں ایک مرفوع حدیث بھی مروی ہے کہ جو شخص سب سے زیادہ راست گو ہوگا، اس کا خواب بھی سب سے زیادہ سچا ہوگا۔ چناں چہ علماء نے لکھا ہے کہ جس طرح عملیات میں صدقِ مقال اور اکل حلال کا بڑا دخل ہے اسی طرح خوابوں کے سچا ہونے میں بھی ان دونوں باتوں کا بڑا دخل ہے۔ جو شخص حلال و طیب چیزیں کھاتا ہے اور ہمیشہ سچ بولتا ہے اس کے خواب زیادہ تر سچے ہوتے ہیں۔ (تحفۃ الالمعی شرح سنن ترمذی)
غلط خواب بیان کرنے کی ممانعت:
حضرت ابراہیم کرمانیؒ فرماتے ہیں کہ خواب دیکھنے والے کو چاہیے کہ اس نے جس طرح خواب دیکھا ہو بعینہٖ اسی طرح معبر کے سامنے بیان کر دے ۔
اس میں کمی بیشی ہرگز نہ کرے اور نہ ہی اس میں جھوٹ بولے اور نہ ہی جھوٹ موٹ خواب بنا کر پیش کرے۔ کیوں کہ جیل خانے میں حضرت یوسفؑ نے وہاں کے دو قیدی سائلوں کو ان کے بیان کردہ خوابوں کی تعبیر بتا کر صاف کہہ دیا تھا، مفہوم: ''جس جس بات کی تم دونوں نے مجھ سے تعبیر دریافت کی ہے وہ میری تعبیر کے مطابق ہی بہ حکم خداوندی واقع ہو جائے گی۔
خواب کس سے بیان کیا جائے؟
تعبیر کے لیے اپنا خواب کسی دوست صالح یا عالم باعمل یا صاحب ذی رائے کے سوا کسی سے بیان نہیں کرنا چاہیے، کیوں کہ یہ لوگ خواب کو حتی الامکان نیکی پر محمول کر کے اس کی اچھی تعبیر دیں گے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے، مفہوم: ''اپنا خواب کسی دوست یا عالم کے سوا کسی سے نہ کہو۔'' (جامع ترمذی) دوسری جگہ فرمایا: ''اپنا خواب کسی دوست یا ذی رائے کے سوا کسی سے نہ کہو۔'' (سنن ابی داؤد)
خواب کے اوقات کی اہمیت:
ماہرین تعبیر کی رائے ہے کہ صبح کے وقت کا خواب نہایت ہی سچا اور صحیح ہوتا ہے۔ اور قربِ قیامت میں ایمان والوں کے اکثر خواب سچے اور صحیح ہُوا کریں گے۔ حدیث شریف میں آتا ہے رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''جب (قربِ قیامت کا) زمانہ قریب آئے گا تو مؤمن کا خواب قریب نہیں کہ جھوٹا ہو۔'' (جامع ترمذی) یعنی اس زمانے کے اکثر و بیشتر خواب صحیح اور سچے ہُوا کریں گے۔
علم تعبیر کی فضیلت:
علم تعبیر نہایت ہی عظیم الشان اور مبارک علم ہے۔ سب سے پہلے اﷲ تعالیٰ نے یہ علم حضرت یوسفؑ کو عنایت فرمایا تھا۔ چناں چہ قرآن مجید میں اﷲ تعالی ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم: ''اور ہم نے اسی طرح زمین پر یوسف کو عزت بخشی اور خوابوں کی تعبیر سکھائی۔'' حدیث شریف میں اس طرح آیا ہے کہ یہ علم حضرت یوسف علیہ السلام کا معجزہ تھا اور جو علم پیغمبرؑ کا معجزہ ہو وہ یقیناً بزرگ اور شریف علم ہوتا ہے۔ اور انبیاء علیہم السلام جو پیغمبر مرسل نہ تھے اُن کے خواب کرامت ہوتے تھے۔
(تعبیر الرؤیا)
علم تعبیر کا موجد:
ہر چیز کا موجد درحقیقت حق تعالیٰ ہے لیکن عرف عام میں ہر علم کا موجد اس شخص کو کہتے ہیں، جس نے سب سے پہلے اس علم کو دنیا میں رواج دیا ہو۔ علم تعبیر کے موجد اور واضع حضرت یوسفؑ ہیں۔ جن کو سب سے پہلے یہ علم خدا تعالی کی طرف سے عطا ہوا۔ انہوں نے اس کو دنیا میں مروج کیا۔ ارشاد باری کا مفہوم: ''اے یوسف! اسی طرح تیرا رب تجھے برگزیدہ بنا لے گا اور مجھے علم تعبیر خواب عطا فرمائے گا۔'' (سورۃ یوسف)
کن لوگوں سے خواب کی تعبیر پوچھنا منع ہے:
امام جعفر صادقؓ فرماتے ہیں کہ چار قسم کے لوگوں سے خواب کی تعبیر پوچھنا جائز نہیں:
بے دین لوگوں سے جو شریعت کے پابند نہ ہوں۔ عورتوں سے۔ جاہلوں سے۔ دُشمنوں سے۔
تعبیر بتانے والے کے لئے آداب و شرائط:
امام ابن سیرینؒ فرماتے ہیں کہ خواب کی تعبیر بتانے والے شخص کے لیے عالم دین ہونے کے ساتھ ضروری ہے کہ وہ لوگوں کے طور طریقوں، اُن کی خصائل و عادات اور اُن کے احوال کو خوب اچھی طرح جاننے والا ہو۔ تعبیر دینے والا شخص اﷲ تعالیٰ سے یہ توفیق مانگے کہ وہ اُس کی زبان پر اچھی اور ثواب کی بات جاری کر ے۔ اور وہ گناہوں سے بچتا رہے اور حرام لقمہ کھانے اور بیہودہ باتیں کہنے اور سننے سے دور رہے تاکہ اس کا شمار اُن علماء میں ہونے لگے جنہیں انبیاء کا وارث کہا گیا ہے۔ (تعبیر الرؤیا)
خواب کی تعبیر کے اوقات:
خواب کی تعبیر دینے کا سب سے اچھا اور بہترین وقت صبح کی نماز کے بعد سے لے کر طلوعِ شمس سے پہلے تک کا ہے۔ بعض علماء نے طلوعِ شمس سے پہلے تعبیر دینے کو نامناسب کہا ہے، لیکن اُن کا یہ قول صحیح نہیں ، کیوں کہ خود حضورِ اقدس ﷺ اسی وقت صحابہ کرامؓ کے خواب سماعت فرما کر اُن کی تعبیر ارشاد فرمایا کرتے تھے۔
ہاں! البتہ خاص طلوعِ آفتاب کے وقت ، زوال کے وقت اور غروب کے وقت خواب کی تعبیر نہیں کرنا چاہیے کہ ان اوقات میں علمائے تعبیر نے خواب کی تعبیر دینے سے منع کیا ہے۔ اسی طرح سہ شنبہ (منگل کے دن) اور چہار شنبہ (بدھ کے دن) بھی خواب کی تعبیر دینے کو مکروہ کہا ہے۔ البتہ رات کے وقت خواب کی تعبیر دینے میں کوئی حرج نہیں۔
(فتح الباری و عمدۃ القاری)