بات کچھ ادھرِ ادھرُ کی موبائل فون ضرورت یا مجبوری

سچ تو یہ ہے کہ موبائل فون کو جتنا انسانوں کیلئے رحمت ہونا چاہیے تھا اتنا ہی اکثر صورتوں میں ایک عذاب بھی بن چکا ہے۔


سچ تو یہ ہے کہ موبائل فون کو جتنا انسانوں کیلئے رحمت ہونا چاہیے تھا اتنا ہی اکثر صورتوں میں ایک عذاب بھی بن چکا ہے۔ فوٹو اے ایف پی

بحث یہ ہے کہ کس عمر کے بچوں کو موبائل فون استعمال کرنے کی سہولت ملنی چاہیے، بیشتر والدین کا کہنا یہ ہے کہ اسکول جانے والے بچوں کے پاس موبائل فون کا ہونا ضروری ہے اس طرح اُنہیں اِس بات کی خبر رہتی ہے کہ وہ کہاں ہیں اور کیا کررہے ہیں۔ لیکن اِس کے برعکس اسکول انتظامیہ کا موقف یکسر مختلف ہے اور اُن کا کہنا ہے کہ بچوں کے پاس موبائل فون ہونے سے نہ صرف ان کی توجہ بٹی رہتی ہے،بلکہ اس سے کلاس روم کا ماحول بھی خراب ہوتا ہے۔

لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس کارآمد ایجاد کو جتنا انسانوں کیلئے رحمت ہونا چاہیے تھا اتنا ہی اکثر صورتوں میں ایک عذاب بھی بن چکا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اب ماں باپ ،اساتذہ اور بزرگوں کا وہ مقام ،وہ کردار نہیں رہا جو ہونا چاہیے تھا۔ اور یہاں یہ بھی سوال اُٹھنا چاہیے کہ آخر موبائل کے استعمال سے بزرگوں کا وہ مقام کیوں نہیں رہا جو ہونا چاہیے تھا۔ میں اس کیلئے نئی نسل کو مورد الزام نہیں ٹھرائو گا کیونکہ یہ مرتبہ والدین اور بزرگوں نے خود گنوایا ہے او ر وہ بھی صرف اس شوق کے لیے کہ لوگوں کو پتا چلے کہ ہم اپنی اولاد کو کتنی سہولتیں دے سکتے ہیں۔

کچھ دنوں پہلے کی بات ہے کہ صبح ہی صبح گھر سے باہر گیٹ کے سامنے کھڑا تھا،دیکھتا ہوں کہ ایک کمر عمر لڑکا اپنی گاڑی خود چلا کر آ رہا تھا ،میں اس بچے کو گاڑی چلاتے دیکھ کر بہت حیران ہوا،گاڑی جیسے ہی میرےسامنے سے گزری دیکھتا ہوں کہ بڑی سی گاڑی میں (جِس کے کلچ اور بریک تک جانے کیلئے بچے کو تقریبا کھڑا ہونا پڑرہا تھا) بچے کی ماں اس کے ساتھ سامنے کی سیٹ پر موجود تھی ا ور بیٹے کے اس کارنامے پر خوشی سے بے حال تھی اور مجھے باہر کھڑےویری گڈ بیٹا ویری گڈکی آوازیں سنائی دئے رہی تھیں۔بجائے خوشی کے افسوس ہوا کہ یہ کیسی ذہنیت ہےاوروالدین اِس طرح کی حرکتوں سےاپنے بچوں کو کیا سبق دینا چاہ رہے ہیں۔ یہ واقعہ تو بس اپنا موقف سمجھانے کے لیے بیان کیا ہے کیونکہ کچھ یہی حال موبائل فون کے ساتھ بھی ہے۔ پہلےاسٹیٹس صرف اِس بات کو سمجھا جاتا کہ بچے کے ہاتھ میں موبائل ہو لیکن حالات اب تبدیل ہوگئے ہیں اور معیار اِس بات کو سمجھا جاتا ہے کہ کس کے پاس کتنا مہنگا موبائل ہے ۔ بس والدین کے اِس رویے اور سوچ کی تبدیلی کے بعد بیچارہ استاد کس کھیت کی مُولی ہے وہ کس طرح بچوں پرسختی کرسکتا ہے۔و رنہ یہ تو سیدھی سی بات ہے کہ جو بچہ بھی کلاس میں موبائل فون استعمال کرئے اور احکامات کے بعد سوئچ آف نہ کرئے اس کا موبائل ضبط کر لیا جائے۔تاکہ آئندہ کوئی بھی کلاس میں موبائل استعال کرتے ہوئے دس بار سوچے۔ باقی رہی استعمال کی عمر تو وہ ہم نے اب تین سال کے بچوں کو بھی اس کا عادی بنا دیا ہے۔ یہ معاملہ اب صرف موبائل تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹس پر بھی آٹھ نو سال کے بچے مزئے سے لاگ اِن ہوجاتے ہیں۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ کمپیوٹر کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ کم عمر بچوں سے استعمال سے روکے لیکن والدین تو یہ کام کرسکتے ہیں نہ مگر وہ بھی جان بوجھ کر اپنی آنکھیں بند رکھے ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ موبائل فون کی فروانی سے کرائم میں مسلسل اضافہ ہو رہا۔جس میں خاص طور پر اغوا برائے تاوان،رہزنی کی وارداتیں جبکہ خود موبائل چھینے جانے کے واقعات اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ جن کی تعداد گنتی میں نہیں ہے۔ کچھ عرصہ قبل کراچی جانا ہوا ،ویگن کے انتظار میں سڑک کنارے کھڑا تھا پاس میں کچھ اور مسافر بھی موجود تھے جن میں ایک نوجوان لڑکی بھی شامل تھی۔ اچانک دو لڑکے آئیے جو موٹرسائیکل پر سوار تھے ،کھڑے ہوتے ہی ایک نے تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے لڑکی کے منہ پر زور دار تھپڑ مارا،اس کے ہاتھ سے موبائل فون چھینا اور نصیحت کرتے ہوئے روانہ ہوگیا۔ مجھ سمیت وہاں کھڑا ہر شخص یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ لڑکے اُس لڑکی کے بھائی ہونگے لیکن اُس وقت ہم سب حیران ہوگئے جب لڑکی نے روتے ہوئے بتایا کہ وہ اُن لڑکوں کو جانتی تک نہیں اور وہ بہانے سے اُسکا موبائل لے گئے۔

اِس پوری بات کا کرنے کا صرف ایک مقصد ہے کہ والدین اپنی ذمہ داریوں سے بھاگنے کے بجائے اِسے احسن طریقے سے ادا کرنے کی کوشش کریں۔ وہ اپنے بچوں کو موبائل فون دینے سے پہلے اس بات کا ضرور خیال رکھیں کہ آیا کہ ان کے بچوں کو واقعی موبائل فون کی ضرورت ہے،موبائل فون دینے کے بعد ان کے پاس اس چیز کا ریکارڈ بھی موجود رہے گا کہ ان کے بچےکس سے بات کر رہے ہیں؟ کیا بات کر رہے ہیں؟آیا ان کے موبائل پر انہیں کوئی پریشان تو نہیں کر رہا۔بعض اوقات ایسی کالز بھی موصول ہوتی ہیں جس کی وجہ سے وہ کم عمر یا حساس طبیعت رکھنے والا آپ کا عزیز ذہنی دبائو کا شکار ہو جاتا ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں