پاک افغان تجارتی رخنے
اس میں شک نہیں کہ غیرقانونی طورپر مقیم باشندوں کوپاکستان سے نکالنے کی ضرورت ہے اوراس میں اکثریت افغان باشندوں کی ہے
طورخم بارڈر کامیاب مذاکرات کے بعد کھول دیا گیا ہے، بارڈر کھل جانے سے دونوں اطراف کی مال بردار گاڑیاں روانہ ہوگئیں۔
جب بھی یہ بارڈر بند ہوتا ہے، سیکڑوں گاڑیوں کی لمبی قطار لگ جاتی ہے، پاک افغان تجارت کے کئی روٹس میں اور یہ ہزاروں سال سے زیر استعمال ہیں، برصغیر میں مسلمان حکمرانوں کی آمد کے وقت سے افغانستان کا بیشتر علاقہ دہلی سے بھی کنٹرول کیا جاتا رہا ہے۔
سلطان محمود غزنوی نے تو افغانستان کے شہر غزنی کو اپنا دارالخلافہ بنایا تھا اور وہاں سے برصغیر کے بیشتر علاقوں پر حکمرانی کی۔ اس طرح مغلوں کے دور میں کابل میں دہلی تخت کی طرف سے گورنر مقرر کیے جاتے تھے۔ ظہیرالدین بابر کا آبائی وطن فرغانہ جہاں اسے اقتدار لینے میں کافی مشکلات کا سامنا تھا۔
اس نے پہلے کابل پر حکمرانی حاصل کی پھر یہاں سے فوج لے کر پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر برصغیر پر حکومت کا آغاز کیا۔ ہمایوں کی تخت نشینی کے کچھ ہی عرصے کے بعد شیر شاہ سوری نے ہمایوں سے تخت چھین کر اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں برصغیر کو عظیم تحفہ دیا جسے جرنیلی سڑک، جی ٹی روڈ کہا جاتا ہے۔
جس کا آغاز دریائے کرنافلی کے قریب سے ہوتا ہے یا اختتام ہوتا ہے۔ یہ دریا جوکہ سابقہ مشرقی پاکستان کا معروف ساحلی شہر اور آج کل بنگلہ دیش کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے۔ جی ٹی روڈ یہاں سے شروع ہو کر ڈھاکا پھر وہاں سے کلکتہ یہاں تک کہ کابل تک جاتی ہے۔
چٹاگانگ سے ڈھاکا تک کے اس جرنیلی سڑک کو ڈھاکا ٹرنک روڈ کہا جاتا ہے۔ کلکتہ سے بہار، پھر یوپی کے شہروں سے ہوتی لاہور پنجاب کے مختلف شہروں سے ہوتی ہوئی پشاور سے آگے تک جاتی ہے، لہٰذا اہل پشاور کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ سڑک پشاور سے شروع ہو کر بنگال تک جاتی ہے۔
موجودہ پاکستان کی بیش تر تجارت کا حصہ افغانستان کے ساتھ منسلک ہے۔ چند سال قبل تک ہم اپنی برآمدات کا جائزہ لیں تو ان 20 ممالک کی فہرست میں جن سے پاکستان کی تجارت یعنی ان ملکوں کے لیے پاکستان کی برآمدات اربوں اور کروڑوں ڈالرز میں ہوتی ہیں، ان میں پہلے افغانستان دوسرے نمبر پر براجمان رہا پھر تیسرے چوتھے اور اب ساتویں نمبر پر چلا گیا ہے کسی وقت ہماری کل برآمدات کا 10 فی صد سے زائد حصہ افغانستان کے لیے روانہ ہوتی رہی ہیں اور اب یہ حصہ کم سے کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔
دونوں ممالک صدیوں سے تجارتی رشتے سے منسلک ہیں۔ اسلام کی آمد کے بعد برصغیر میں ہزاروں علمائے کرام، اولیا کرام، مشائخ عظام افغانستان سے ہی برصغیر تشریف لے کر آتے تھے۔ دونوں ممالک کی سرحد کے قرب و جوار کے باشندے آج تک باہمی رشتے داریوں میں منسلک ہیں۔ اس حد تک برادرانہ تعلقات کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان بار بار تجارتی و سیاسی تنازعات کا پیدا ہونا قطعاً نیک شگون نہیں ہے جس کا مستقل حل تلاش کیا جانا ضروری ہے۔
حال ہی میں پاکستان ،افغانستان اور ازبکستان کے درمیان تجارتی آسانیاں پیدا کرنے کی خاطر اسلام آباد میں کامیاب مذاکرات ہوئے۔ اس سے قبل پاکستان ترکی اور افغانستان نے تجارت اور اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کے لیے سہ فریقی مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کر دیے تھے جس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ تینوں ملکوں کے تاجروں کو ضروری سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
کئی عشرے قبل پاکستان ترکی اور افغانستان نے سڑک کے ذریعے تجارت کو فروغ دینے پر اتفاق کیا تھا۔ یہ غالباً 2012 کی بات تھی جب ساتواں سہ فریقی اجلاس ترکی کے شہر انقرہ میں منعقد کیا گیا تھا اور اس اجلاس سے قبل 9 دسمبر کو پاکستان افغانستان اور ترکی کے صدور کے درمیان ہاٹ لائن رابطہ قائم کردیا گیا تھا۔
اس اجلاس کے موقع پر پاکستان اور ترکی نے افغانستان میں امن و مفاہمتی عمل کی حمایت اور خطے کو درپیش سیکیورٹی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ملکوں کے درمیان تعاون کو فروغ دینے کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا تھا۔ گزشتہ عشرے کے اوائل کی باتیں ہیں جب افغانستان کے لیے پاکستانی برآمدات میں اضافے کا رجحان پایا جاتا تھا۔
کئی سال ایسے بھی آئے جب برآمدات میں نمایاں اضافہ بھی ہوا کرتا تھا۔ مثلاً 2010-11 میں افغانستان کے لیے پاکستان برآمدات کا حجم 2کھرب روپے کی فیس اگلے سال نمایاں اضافہ ہو کر 2 کھرب سے کہیں زائد ہوگئیں، لیکن اب اس برآمدات کے حجم میں مسلسل کمی ہو رہی ہے اب تو طالبان حکومت کی آمد کے بعد اس میں تیزی سے کمی آنا شروع ہوگئی ہے۔
لہٰذا دونوں ممالک کے درمیان کبھی صوبہ کے پی کے اور کبھی بلوچستان کی تجارتی راہداریوں سے آمد ورفت میں رخنے پیدا کیے جاتے رہے۔ طالبان کی جانب سے کئی مرتبہ فائرنگ بھی کی گئی اور دیگر سرحدی مسائل کے ساتھ اب تجارتی اور راہداری کے مسائل میں روز بہ روز اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیاں بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ غیر قانونی طور پر مقیم باشندوں کو پاکستان سے نکالنے کی ضرورت ہے اور اس میں اکثریت افغان باشندوں کی ہے، لیکن ان کی واپسی عزت و احترام سے ہونی چاہیے۔
جب بھی یہ بارڈر بند ہوتا ہے، سیکڑوں گاڑیوں کی لمبی قطار لگ جاتی ہے، پاک افغان تجارت کے کئی روٹس میں اور یہ ہزاروں سال سے زیر استعمال ہیں، برصغیر میں مسلمان حکمرانوں کی آمد کے وقت سے افغانستان کا بیشتر علاقہ دہلی سے بھی کنٹرول کیا جاتا رہا ہے۔
سلطان محمود غزنوی نے تو افغانستان کے شہر غزنی کو اپنا دارالخلافہ بنایا تھا اور وہاں سے برصغیر کے بیشتر علاقوں پر حکمرانی کی۔ اس طرح مغلوں کے دور میں کابل میں دہلی تخت کی طرف سے گورنر مقرر کیے جاتے تھے۔ ظہیرالدین بابر کا آبائی وطن فرغانہ جہاں اسے اقتدار لینے میں کافی مشکلات کا سامنا تھا۔
اس نے پہلے کابل پر حکمرانی حاصل کی پھر یہاں سے فوج لے کر پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی کو شکست دے کر برصغیر پر حکومت کا آغاز کیا۔ ہمایوں کی تخت نشینی کے کچھ ہی عرصے کے بعد شیر شاہ سوری نے ہمایوں سے تخت چھین کر اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں برصغیر کو عظیم تحفہ دیا جسے جرنیلی سڑک، جی ٹی روڈ کہا جاتا ہے۔
جس کا آغاز دریائے کرنافلی کے قریب سے ہوتا ہے یا اختتام ہوتا ہے۔ یہ دریا جوکہ سابقہ مشرقی پاکستان کا معروف ساحلی شہر اور آج کل بنگلہ دیش کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے۔ جی ٹی روڈ یہاں سے شروع ہو کر ڈھاکا پھر وہاں سے کلکتہ یہاں تک کہ کابل تک جاتی ہے۔
چٹاگانگ سے ڈھاکا تک کے اس جرنیلی سڑک کو ڈھاکا ٹرنک روڈ کہا جاتا ہے۔ کلکتہ سے بہار، پھر یوپی کے شہروں سے ہوتی لاہور پنجاب کے مختلف شہروں سے ہوتی ہوئی پشاور سے آگے تک جاتی ہے، لہٰذا اہل پشاور کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ سڑک پشاور سے شروع ہو کر بنگال تک جاتی ہے۔
موجودہ پاکستان کی بیش تر تجارت کا حصہ افغانستان کے ساتھ منسلک ہے۔ چند سال قبل تک ہم اپنی برآمدات کا جائزہ لیں تو ان 20 ممالک کی فہرست میں جن سے پاکستان کی تجارت یعنی ان ملکوں کے لیے پاکستان کی برآمدات اربوں اور کروڑوں ڈالرز میں ہوتی ہیں، ان میں پہلے افغانستان دوسرے نمبر پر براجمان رہا پھر تیسرے چوتھے اور اب ساتویں نمبر پر چلا گیا ہے کسی وقت ہماری کل برآمدات کا 10 فی صد سے زائد حصہ افغانستان کے لیے روانہ ہوتی رہی ہیں اور اب یہ حصہ کم سے کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔
دونوں ممالک صدیوں سے تجارتی رشتے سے منسلک ہیں۔ اسلام کی آمد کے بعد برصغیر میں ہزاروں علمائے کرام، اولیا کرام، مشائخ عظام افغانستان سے ہی برصغیر تشریف لے کر آتے تھے۔ دونوں ممالک کی سرحد کے قرب و جوار کے باشندے آج تک باہمی رشتے داریوں میں منسلک ہیں۔ اس حد تک برادرانہ تعلقات کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان بار بار تجارتی و سیاسی تنازعات کا پیدا ہونا قطعاً نیک شگون نہیں ہے جس کا مستقل حل تلاش کیا جانا ضروری ہے۔
حال ہی میں پاکستان ،افغانستان اور ازبکستان کے درمیان تجارتی آسانیاں پیدا کرنے کی خاطر اسلام آباد میں کامیاب مذاکرات ہوئے۔ اس سے قبل پاکستان ترکی اور افغانستان نے تجارت اور اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کے لیے سہ فریقی مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کر دیے تھے جس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ تینوں ملکوں کے تاجروں کو ضروری سہولیات فراہم کی جائیں گی۔
کئی عشرے قبل پاکستان ترکی اور افغانستان نے سڑک کے ذریعے تجارت کو فروغ دینے پر اتفاق کیا تھا۔ یہ غالباً 2012 کی بات تھی جب ساتواں سہ فریقی اجلاس ترکی کے شہر انقرہ میں منعقد کیا گیا تھا اور اس اجلاس سے قبل 9 دسمبر کو پاکستان افغانستان اور ترکی کے صدور کے درمیان ہاٹ لائن رابطہ قائم کردیا گیا تھا۔
اس اجلاس کے موقع پر پاکستان اور ترکی نے افغانستان میں امن و مفاہمتی عمل کی حمایت اور خطے کو درپیش سیکیورٹی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ملکوں کے درمیان تعاون کو فروغ دینے کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا تھا۔ گزشتہ عشرے کے اوائل کی باتیں ہیں جب افغانستان کے لیے پاکستانی برآمدات میں اضافے کا رجحان پایا جاتا تھا۔
کئی سال ایسے بھی آئے جب برآمدات میں نمایاں اضافہ بھی ہوا کرتا تھا۔ مثلاً 2010-11 میں افغانستان کے لیے پاکستان برآمدات کا حجم 2کھرب روپے کی فیس اگلے سال نمایاں اضافہ ہو کر 2 کھرب سے کہیں زائد ہوگئیں، لیکن اب اس برآمدات کے حجم میں مسلسل کمی ہو رہی ہے اب تو طالبان حکومت کی آمد کے بعد اس میں تیزی سے کمی آنا شروع ہوگئی ہے۔
لہٰذا دونوں ممالک کے درمیان کبھی صوبہ کے پی کے اور کبھی بلوچستان کی تجارتی راہداریوں سے آمد ورفت میں رخنے پیدا کیے جاتے رہے۔ طالبان کی جانب سے کئی مرتبہ فائرنگ بھی کی گئی اور دیگر سرحدی مسائل کے ساتھ اب تجارتی اور راہداری کے مسائل میں روز بہ روز اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان غلط فہمیاں بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ غیر قانونی طور پر مقیم باشندوں کو پاکستان سے نکالنے کی ضرورت ہے اور اس میں اکثریت افغان باشندوں کی ہے، لیکن ان کی واپسی عزت و احترام سے ہونی چاہیے۔