یہ ہے آج کا پاکستان
معاشرے میں فکری تقسیم اوربیشتر صورتوں میں فکری سوچ میں تفاوت اس قدربڑھ گیاہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اب مکالمہ مشکل ہوگیا
''نیا پاکستان'' اور ''پرانا پاکستان'' کے سیاسی بحث مباحثے گزشتہ کئی سالوں کے دوران اس قدر سنے کہ اس شور شرابے میں '' آج کا پاکستان'' شاید ہی کبھی توجہ پا سکا۔
معاشرے میں فکری تقسیم اور بیشتر صورتوں میں فکری سوچ میں تفاوت اس قدر بڑھ گیا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اب مکالمہ مشکل ہو گیا ہے، دلیل، تحمل، برداشت اور ٹھہراؤ کی پہلے بھی بہتات نہ تھی مگر اب تو یہ خصائص نایاب سے ہو گئے ہیں۔ شاد عظیم آبادی کا شعر بہت حد تک اس پر منطبق ہے کہ
ڈھونڈو گیا گر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب نہیں
دور کیا جانا، سب کے حافظے میں وہ بحثیں تازہ ہیں کہ نئے پاکستان کی ضرورت ہے، پرانا پاکستان اشرافیہ نے اپنے مقاصد کے لیے یرغمال بنا رکھا ہے۔
اشرافیہ نے اپنی تجوریاں بھریں ، سات دہائیوں سے جاری اس تماشے کو اب ختم ہونا چاہیے ، نیا دور ہے دنیا بدل رہی ہے، آبادی میں نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اب اس صورتحال کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں، لہٰذا پرانا پاکستان نہیں ہر صورت نیا پاکستان ہی ہمارے مسائل کا واحد آپشن ہے۔
نیا پاکستان بننے کا میدان سجا مگر اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ بھی سب کے حافظے میں محفوظ ہے۔ سیاسی طور پر کوئی حامی تھا یا مخالف دونوں صورتوں میں سیاسی تقسیم مزید بڑھ گئی ہے۔
پی ٹی آئی کے حامی آج بھی اس دلیل پر قائم ہیں کہ انھیں کام کرنے کا مناسب موقع اور اکثریت فراہم نہ ہو سکی۔ مزید یہ کہ جب عوام سے نئے مینڈیٹ کی باری آئی تو محلاتی سازشوں نے ان کی حکومت کو وقت سے پہلے ہی نکال باہر کیا۔
اس کے بعد الیکشن سے گریز بلکہ فرار نے محاذ آرائی اور سیاسی منافرت کو ایک نئے مقام تک پہنچا دیا۔ سیاسی اعتبار سے ایک دوسرے کو راستہ دینے کے بجائے ایک دوسرے کا راستہ کاٹنے پر اصرار نے ملک کو باہم تقسیم اور محاذ آرائی کے ایک نئے جنگل میں دھکیل دیا۔
روایتی سیاستدانوں کی سنیں تو ان کے ہاں روایتی بیان بازی اور سیاسی موقع پرستی کا وہی عالم ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری بھٹو بار بار اس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں کہ اس ملک کو ان کی نوجوان قیادت اور وزارت عظمی کی شدید حاجت ہے۔
70 سال سے زائد عمر کے سیاست دانوں کو وہ بار بار مشورہ دے رہے ہیں کہ اب سیاست ان کے بس کا روگ نہیں، ان کا وقت گزر چکا اب ان کا سیاست کرنے کا وقت نہیں گھر اور مسجد میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے کا ہے۔ مخالفین اور ناقدین نے اس بیان کو ان کے والد کے حوالے سے بھی خوب تنقید کا نشانہ بنایا۔
بالآخر آصف علی زرداری کا جوابی بیانیہ بھی سامنے آگیا کہ آج کی نئی پود کا یہ خیال ہے ''بابا آپ کو کچھ نہیں آتا'' لیکن ٹکٹ تو میں نے ہی جاری کرنے ہیں، بلاول کو بھی اور باقی لوگوں کو بھی۔ سیاست میں مجھ سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں مگر اگلے الیکشن میں پیپلز پارٹی کو سرپرائز دیتے ہوئے دیکھ رہا ہوں،کوئی ایک بھی پارٹی سادہ اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے. اگلی حکومت کی سربراہی نواز شریف کے ہاتھوں نہیں دیکھ رہا۔
مسلم لیگ نون کے سینیئر لیڈرز بلاول زرداری بھٹو کے بار بار سیاسی حملوں کے جواب میں ہاتھ ہلکا رکھنے پر مجبور ہیں۔ دوسری طرف نواز شریف کے بیانات اور گفتگو کا لب لباب یہ ہے کہ ان کے دور میں معیشت مستحکم تھی، روپے ڈالر کی شرح مکمل کنٹرول میں تھی، ملک میں دھڑا دھڑ نئے پروجیکٹس لگ رہے تھے لیکن پھر ان کی حکومت کو چلتا کرنے کی سازش کی گئی جس کے نتیجے میں خوشحالی کا پہیہ رک گیا۔
ان کا عزم ہے کہ خوشحالی کا سفر وہیں سے شروع ہوگا جہاں روکا گیا تھا۔ ان کے پاس معاشی پلان کیا ہے؟ اسحاق ڈار صاحب کی ان کے ساتھ ہمہ وقت موجودگی اور ان پر مکمل انحصار ظاہر کرتا ہے کہ معاشی نظامت کے خدو خال وہی ہوں گے جو ماضی میں تھے۔
سی پیک میں نئی روح کی کوشش، دوست ممالک کی حکومتوں سے قرض اور لمبی سرمایہ کاری کی کوششیں، روپے ڈالر کی شرح مبادلہ کو قابو میں رکھنا، کاروبار اور انڈسٹری میں سرمایہ کاری کے لیے ایک بار پھر مکمل ایمنسٹی ان کے معاشی پلان میں نمایاں ترین ہیں۔اس اعتبار سے اگر مسلم لیگ نون کو حکومت بنانے کا موقع ملتا ہے تو پھر سے پرانا پاکستان اور پرانا معاشی نظام ہی اس کا نعرہ اور وعدہ ہے۔
سیاسی قوتوں کی سوچ اپنی جگہ مگر آج کا پاکستان کہاں ہے اور کیا سوچ رہا ہے؟ عام پاکستانی کی سوچ کا خلاصہ اسی ہفتے جاری ہونے والے ایک سروے میں سامنے آیا ہے۔ اپسوس IPSOS ایک عالمی تحقیقاتی ادارہ ہے جو مختلف موضوعات پر ریسرچ کرتا ہے۔
پاکستان میں اپسوس ہر سہ ماہی کنزیومر کانفیڈنس کے نام سے ایک سروے کرتا ہے۔ رواں سال کی چوتھی سہ ماہی کے لیے اس سروے کے جاری کردہ نتائج عام پاکستانی کے ذہن پر سوار سوچوں اور پریشانیوں کا اظہار ہیں۔
اس سروے کے مطابق عام پاکستانی کے ذہن میں پاکستانی معیشت کے بارے میں خدشات بہت گہرے ہیں۔ ہر 10 میں سے نو پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کی معاشی سمت درست نہیں ہے۔عام پاکستانی کے ذہنوں پر مہنگائی، بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی غربت جیسے مسائل سوار ہیں۔ سروے میں یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ علاقائی معیشتوں کے مقابلے میں پاکستان گلوبل کنزیومر کنفیڈنس انڈیکس پر سب سے کم ہے۔
عالمی اعتماد کے انڈیکس پر پاکستان کا اسکور 31 تھا جب کہ بھارت کا اسکور 64.1 ہے۔ کنزیومر کانفیڈنس کا یہ سروے ظاہر کرتا ہے پاکستان بالخصوص نوجوان اور خواتین ملکی حالات کو درست سمت پر نہیں دیکھتے۔ مگر کیا کیجیے کہ اشرافیہ نے اپنی دنیا سے باہر کبھی جھانکا ہے جو اب جھانکیں گے۔ ان کے لیے عوام اگلی حکومتی باری کی مجبوری ہیں اور بس...
معاشرے میں فکری تقسیم اور بیشتر صورتوں میں فکری سوچ میں تفاوت اس قدر بڑھ گیا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اب مکالمہ مشکل ہو گیا ہے، دلیل، تحمل، برداشت اور ٹھہراؤ کی پہلے بھی بہتات نہ تھی مگر اب تو یہ خصائص نایاب سے ہو گئے ہیں۔ شاد عظیم آبادی کا شعر بہت حد تک اس پر منطبق ہے کہ
ڈھونڈو گیا گر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب نہیں
دور کیا جانا، سب کے حافظے میں وہ بحثیں تازہ ہیں کہ نئے پاکستان کی ضرورت ہے، پرانا پاکستان اشرافیہ نے اپنے مقاصد کے لیے یرغمال بنا رکھا ہے۔
اشرافیہ نے اپنی تجوریاں بھریں ، سات دہائیوں سے جاری اس تماشے کو اب ختم ہونا چاہیے ، نیا دور ہے دنیا بدل رہی ہے، آبادی میں نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اب اس صورتحال کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں، لہٰذا پرانا پاکستان نہیں ہر صورت نیا پاکستان ہی ہمارے مسائل کا واحد آپشن ہے۔
نیا پاکستان بننے کا میدان سجا مگر اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ بھی سب کے حافظے میں محفوظ ہے۔ سیاسی طور پر کوئی حامی تھا یا مخالف دونوں صورتوں میں سیاسی تقسیم مزید بڑھ گئی ہے۔
پی ٹی آئی کے حامی آج بھی اس دلیل پر قائم ہیں کہ انھیں کام کرنے کا مناسب موقع اور اکثریت فراہم نہ ہو سکی۔ مزید یہ کہ جب عوام سے نئے مینڈیٹ کی باری آئی تو محلاتی سازشوں نے ان کی حکومت کو وقت سے پہلے ہی نکال باہر کیا۔
اس کے بعد الیکشن سے گریز بلکہ فرار نے محاذ آرائی اور سیاسی منافرت کو ایک نئے مقام تک پہنچا دیا۔ سیاسی اعتبار سے ایک دوسرے کو راستہ دینے کے بجائے ایک دوسرے کا راستہ کاٹنے پر اصرار نے ملک کو باہم تقسیم اور محاذ آرائی کے ایک نئے جنگل میں دھکیل دیا۔
روایتی سیاستدانوں کی سنیں تو ان کے ہاں روایتی بیان بازی اور سیاسی موقع پرستی کا وہی عالم ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری بھٹو بار بار اس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں کہ اس ملک کو ان کی نوجوان قیادت اور وزارت عظمی کی شدید حاجت ہے۔
70 سال سے زائد عمر کے سیاست دانوں کو وہ بار بار مشورہ دے رہے ہیں کہ اب سیاست ان کے بس کا روگ نہیں، ان کا وقت گزر چکا اب ان کا سیاست کرنے کا وقت نہیں گھر اور مسجد میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے کا ہے۔ مخالفین اور ناقدین نے اس بیان کو ان کے والد کے حوالے سے بھی خوب تنقید کا نشانہ بنایا۔
بالآخر آصف علی زرداری کا جوابی بیانیہ بھی سامنے آگیا کہ آج کی نئی پود کا یہ خیال ہے ''بابا آپ کو کچھ نہیں آتا'' لیکن ٹکٹ تو میں نے ہی جاری کرنے ہیں، بلاول کو بھی اور باقی لوگوں کو بھی۔ سیاست میں مجھ سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں مگر اگلے الیکشن میں پیپلز پارٹی کو سرپرائز دیتے ہوئے دیکھ رہا ہوں،کوئی ایک بھی پارٹی سادہ اکثریت حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے. اگلی حکومت کی سربراہی نواز شریف کے ہاتھوں نہیں دیکھ رہا۔
مسلم لیگ نون کے سینیئر لیڈرز بلاول زرداری بھٹو کے بار بار سیاسی حملوں کے جواب میں ہاتھ ہلکا رکھنے پر مجبور ہیں۔ دوسری طرف نواز شریف کے بیانات اور گفتگو کا لب لباب یہ ہے کہ ان کے دور میں معیشت مستحکم تھی، روپے ڈالر کی شرح مکمل کنٹرول میں تھی، ملک میں دھڑا دھڑ نئے پروجیکٹس لگ رہے تھے لیکن پھر ان کی حکومت کو چلتا کرنے کی سازش کی گئی جس کے نتیجے میں خوشحالی کا پہیہ رک گیا۔
ان کا عزم ہے کہ خوشحالی کا سفر وہیں سے شروع ہوگا جہاں روکا گیا تھا۔ ان کے پاس معاشی پلان کیا ہے؟ اسحاق ڈار صاحب کی ان کے ساتھ ہمہ وقت موجودگی اور ان پر مکمل انحصار ظاہر کرتا ہے کہ معاشی نظامت کے خدو خال وہی ہوں گے جو ماضی میں تھے۔
سی پیک میں نئی روح کی کوشش، دوست ممالک کی حکومتوں سے قرض اور لمبی سرمایہ کاری کی کوششیں، روپے ڈالر کی شرح مبادلہ کو قابو میں رکھنا، کاروبار اور انڈسٹری میں سرمایہ کاری کے لیے ایک بار پھر مکمل ایمنسٹی ان کے معاشی پلان میں نمایاں ترین ہیں۔اس اعتبار سے اگر مسلم لیگ نون کو حکومت بنانے کا موقع ملتا ہے تو پھر سے پرانا پاکستان اور پرانا معاشی نظام ہی اس کا نعرہ اور وعدہ ہے۔
سیاسی قوتوں کی سوچ اپنی جگہ مگر آج کا پاکستان کہاں ہے اور کیا سوچ رہا ہے؟ عام پاکستانی کی سوچ کا خلاصہ اسی ہفتے جاری ہونے والے ایک سروے میں سامنے آیا ہے۔ اپسوس IPSOS ایک عالمی تحقیقاتی ادارہ ہے جو مختلف موضوعات پر ریسرچ کرتا ہے۔
پاکستان میں اپسوس ہر سہ ماہی کنزیومر کانفیڈنس کے نام سے ایک سروے کرتا ہے۔ رواں سال کی چوتھی سہ ماہی کے لیے اس سروے کے جاری کردہ نتائج عام پاکستانی کے ذہن پر سوار سوچوں اور پریشانیوں کا اظہار ہیں۔
اس سروے کے مطابق عام پاکستانی کے ذہن میں پاکستانی معیشت کے بارے میں خدشات بہت گہرے ہیں۔ ہر 10 میں سے نو پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ ملک کی معاشی سمت درست نہیں ہے۔عام پاکستانی کے ذہنوں پر مہنگائی، بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی غربت جیسے مسائل سوار ہیں۔ سروے میں یہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ علاقائی معیشتوں کے مقابلے میں پاکستان گلوبل کنزیومر کنفیڈنس انڈیکس پر سب سے کم ہے۔
عالمی اعتماد کے انڈیکس پر پاکستان کا اسکور 31 تھا جب کہ بھارت کا اسکور 64.1 ہے۔ کنزیومر کانفیڈنس کا یہ سروے ظاہر کرتا ہے پاکستان بالخصوص نوجوان اور خواتین ملکی حالات کو درست سمت پر نہیں دیکھتے۔ مگر کیا کیجیے کہ اشرافیہ نے اپنی دنیا سے باہر کبھی جھانکا ہے جو اب جھانکیں گے۔ ان کے لیے عوام اگلی حکومتی باری کی مجبوری ہیں اور بس...