انقلاب اور عوام……
اس ملک کے حکمرانوں کو شاید اس حقیقت کا ادراک نہیں کہ انقلاب کا وقت فطری ہوتا ہے
BAGHDAD:
انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ قدرت مظلوم و محروم عوام کی دادرسی کے لیے ان کے درمیان ہی سے مخلص، انقلابی اور بے لوث قیادت صدیوں میں پیدا کرتی ہے۔ یہ ایک ایسی عظیم قیادت ہوتی ہے جو اپنے خاندان کے فائدے کے بجائے عوام کے اجتماعی مفادات کو مقدم جان کر ان کے چھینے گئے حقوق حاصل کرنے کے لیے سخت محنت اور کڑی جدوجہد کا راستہ پوری ایمانداری اور جاں نثاری سے طے کرنے میں تن من دھن کی بازی لگادیتی ہے۔
ایم کیو ایم کے محبوب قائد الطاف حسین کا شمار بھی پاکستان کے ایک ایسے ہی مخلص اور بے غرض سیاسی و سماجی رہنما میں ہوتا ہے، جس کے چاہنے والے کروڑوں کی تعداد میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ الطاف حسین پاکستان کے غریب و متوسط طبقہ کی تحریک ایم کیو ایم کے قائد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اعلیٰ پائے کے مفکر اور دانشور بھی ہیں۔ کوئی بھی قوم ترقی یافتہ اور روشن خیال قوم کے سانچے میں اسی وقت ڈھلتی ہے جب وہ اپنے ذی فہم افراد کو بہت اہمیت دیتی ہے، کیونکہ ان افراد کی بصیرت اقوام کی صحیح رخ پر رہنمائی کرکے انھیں منزل کا پتہ دیتی ہے۔
اس حقیقت میں دو رائے نہیں کہ دنیا میں جن اقوام کی حکمرانی ہے انھوں نے اپنے دانشوروں اور مفکروں سے رہنمائی حاصل کرکے ان کے بہترین افکار کو عملی سانچے میں ڈھالا، لہٰذا یہ بات تو طے ہے کہ دنیا میں گفتار کے غازیوں اور اندھے مقلدین کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اس ضمن میں اپنے ہی ملک کی مثال لے لیجیے، قائداعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے بعد ایک طویل عرصے تک قوم کو گفتار کے غازیوں کے سوا کوئی ایسا لیڈر میسر نہیں آسکا جس نے قوم کی نیا پار لگانے کے لیے عملاً کوئی کردار ادا کیا ہو۔
لیکن کہتے ہیں خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں، ظلمتوں اور لاقانونیت کی اندھیری نگری میں حق اور سچ کا بول بالا کرنے کے لیے پاکستانی عوام کو بالآخر ایک سچا انقلابی لیڈر میسر آہی گیا۔ قوم کو منزل کا پتہ دینے کے لیے اس نے ایک ایسی انقلابی تحریک کو اپنی ہی بنائی گئی طلبا تنظیم اے پی ایم ایس او کے بطن سے 18 مارچ 1986 کو جنم دیا جس نے قوم کے مائنڈ سیٹ کو بدل کررکھ دیا۔ آج عوام کے ذہنوں میں انقلاب کی سوچ نے سر ابھارا ہے، وہ قائد تحریک الطاف حسین کی دی گئی سوچ اور فکر و فلسفے کی مرہون منت ہے۔الطاف حسین کی سیاسی و سماجی زندگی، ان کی کرشماتی شخصیت، ان کے حقیقت پسندی و عملیت پسندی کے نظریے، ان کی دانش مندانہ فکر اور ان کے فلسفہ محبت کی اگر بات کی جائے تو اس کی دوسری کوئی مثال دینا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوجائے گا۔
آج وہ سیاست، فلسفیت، انسانیت، اخلاقیت، عملیت، خدمت و خلق و روحانیت غرض یہ کہ کونسا شبعہ ایسا ہے جس میں وہ اونچا مقام نہیں رکھتے۔ ان کی ان تمام صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت اس ملک کے مظلوم و محروم عوام سے قائد تحریک کا نظریاتی اور روحانی رشتے کا اٹوٹ ہونا ہے جس کی وجہ سے ہزاروں میل کی دوری بھی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ یہ بے شمار عزت و شہرت اور کامیابی انھیں راتوں رات حاصل نہیں ہوئی بلکہ اس کے پیچھے ان کے عمل و کردار، پائے کا صبر و استقامت اور چٹانوں جیسا عزم و حوصلہ اور قربانیوں کی انگنت رقت آمیز داستانیں لہو رنگ لیے پوشیدہ ہیں۔
ایم کیو ایم کے قائد کی سیاسی سماجی اور اخلاقی زندگی کا اگر غیر جانبدارنہ جائزہ لیا جائے تو اس حقیقت کی سچائی سے فرار ممکن نہیں کہ انھیں میدانِ سیاست، میدان خدمت انسانی، مقام انسانیت کے اعلیٰ منصب تک پہنچنے کے لیے کس طرح اپنی ذات کی ضرورتوں اور خواہشات کی نفی کرنا پڑی۔ اپنی زندگی کے سکھ چین اور خوشیوں کو پس پشت ڈال کر تحریک کے سفر کو کامیابی سے آگے بڑھانے کے لیے انھوں نے تمام درد و الم، کڑی آزمائشوں اور مصائب و مشکلات کی آندھیوں کو خندہ پیشانی سے جھیلا، ان کے ماتھے پر ناامیدی کی شکن تک نہ آئی۔
تحریک کے کاز کو آگے بڑھانے کے لیے الطاف حسین کو کن کن دشوار گزار راستوں، جان لیوا مراحل اور سازشوں سے گزرنا پڑا اس کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ جس لیڈر کو اپنے ہی ملک میں تعصب، بغض و عناد کا سامنا کرنا پڑے، حق بات کہنے پر اس کا میڈیا ٹرائل کیا جائے یہاں تک کہ ان کی جان کو لاحق خطرات کے سبب اس کے کارکنوں کو مجبوراً اسے جلاوطنی کا عذاب سہنے پر مجبور کرنا پڑے، اس کے صبر و برداشت کا کیا کہنا۔ جب ہی تو الطاف حسین کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ روایتی سیاست دان نہیں بلکہ ایسے رہبر و رہنما اور مصلح قوم ہیں جن کی تربیت قدرت اپنے ذمے لے لیتی ہے۔
آج اس حقیقت کو ان کے مخالفین بھی کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا انداز خطابت، اسلوبِ زبان کا ہنر اور دلوں کو چھوتی شعلہ بیانی جو نہ صرف سچائی اور مستقبل کے تمام اسرار و رموز سے قوم کو انتہائی دلیری اور بے باکی سے قدم قدم پرآگاہ کرتی ہے بلکہ حق پرستی، عملیت، انسانیت، اخلاقیات اور خدمت خلق کے تمام حقوق و فرائض ادا کرتی نظر آتی ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں جہاں انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہے اس کے خلاف سب سے اونچی آواز الطاف حسین کی ہی ہوتی ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر جس طرح الطاف حسین آواز اٹھانے میں ذرا برابر بھی دیر نہیں کرتے ویسے ہی خدمت حلق کا بیڑہ اٹھانے کے لیے وہ ہمہ وقت اپنے کارکنوں اور ذمے داروں کی اخلاقی تربیت کرتے نظر آتے ہیں ۔ ملک میں خواتین کو دوسرے اور تیسرے درجے کا شہری قرار دینے کے بجائے وہ مساوات انسانی قائم کرکے خواتین کو وہ عزت و احترام اور مقام عطا کرنا چاہتے ہیں جو خود اﷲ رب العزت نے اور اس کے آخری بنیؐ نے معاشرے میں انھیں عطا کیا ہے۔ وہ ملک کی 65 فیصد نوجوان نسل کو قلم کے موثر ہتھیار سے جہالت، غربت، مہنگائی، فرقہ واریت، مذہبی انتہا پسندی، لاقانونیت، ظلم و زیادتی اور دہشت گردی جیسے انسانیت کو نقصان پہنچانے والے عوامل سے لڑنے کا سنہرا سبق دے کر حضرت علیؓ کے اس قول پر عمل کرنا چاہتے ہیں کہ ''علم زندگی ہے اور جہالت موت''۔
عوام کی فلاح و بہبود اور ملک کی ترقی اور سلامتی کے لیے کی جانے والی ان کی خدمات تاریخ میں سنہرے حرفوں سے لکھی جائیں گی۔ سن چیریٹی انٹرنیشنل کے زیر اہتمام پہلے ناصر حسین لائبریری اور سن اکیڈمی اسکول کا قیام اور آج نذیر حسین یونیورسٹی کا آغاز ایک ایسے معاشرے میں تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہے، جہاں غریب و متوسط طبقہ میں اعلیٰ تعلیم شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ نذیر حسین یونیورسٹی کا تاریخی سنگ میل قائد تحریک کی ذاتی کوششوں اور تعلیم کے فروغ میں ان کی دلچسپی کا اعلیٰ مظہر ہے جب کہ خدمت خلق فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام کراچی و حیدرآباد میں نذیر حسین اسپتال کا قیام ان کی شخصیت میں بسی انسان دوستی اور خدا ترسی کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔
الطاف حسین کی شہرت اور ان کی تحریک کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو سبوتاژ کرنے کے لیے آج ایک بار پھر ملکی اور غیر ملکی سازش زور پکڑ رہی ہیں۔ پاکستانی ہونے کے باوجود ان کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جیسے حق کو حاصل کرنے کے لیے مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ لیکن وہ وقت دور نہیں جب پاکستانی عوام اپنے ہر دلعزیز قائد کو اپنے درمیان پائیں گے اور ان کے درمیان فاصلے سمٹ کر انقلاب کی نوید بن جائیں گے۔
ایک ایسے وقت میں جب ریاستی جبر قائد تحریک کو ان کا پاکستانی شہری ہونے کا حق دینے میں حیل و حجت تراش رہا ہے دوسری جانب قائد تحریک الطاف حسین کے نظریے، ان کے فکر و فلسفے ان کے پیغام حق پرستی اور ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایم کیو ایم کا ہر ذمے دار، ہر کارکن اور ہر ہمدرد ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے احتجاج بھی کررہا ہے، مظاہرے بھی کررہا ہے اور دنیا کو یہ پیغام بھی دے رہا ہے کہ جسے رب العزت نے کسی خاص مقصد کے لیے چنا ہے، اس کو مٹانے کی آرزو، اس کی صداقت کو جھٹلانے کی آرزو اور اسے ریاستی ہتھکنڈے استعمال کرکے ستانے کی آرزو انشاء اﷲ تعالیٰ کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گی۔
اس ملک کے حکمرانوں کو شاید اس حقیقت کا ادراک نہیں کہ انقلاب کا وقت فطری ہوتا ہے اور اب وہ فطری وقت الطاف حسین کی انقلابی قیادت میں ملک کے در و دیوار پر تیزی سے دستک دے رہا ہے لیکن ملک کے ارباب اختیار، جاگیردار، وڈیرے اور سرمایہ دار اس دستک کو سن کر بھی سنی ان سنی کررہے ہیں۔
انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ قدرت مظلوم و محروم عوام کی دادرسی کے لیے ان کے درمیان ہی سے مخلص، انقلابی اور بے لوث قیادت صدیوں میں پیدا کرتی ہے۔ یہ ایک ایسی عظیم قیادت ہوتی ہے جو اپنے خاندان کے فائدے کے بجائے عوام کے اجتماعی مفادات کو مقدم جان کر ان کے چھینے گئے حقوق حاصل کرنے کے لیے سخت محنت اور کڑی جدوجہد کا راستہ پوری ایمانداری اور جاں نثاری سے طے کرنے میں تن من دھن کی بازی لگادیتی ہے۔
ایم کیو ایم کے محبوب قائد الطاف حسین کا شمار بھی پاکستان کے ایک ایسے ہی مخلص اور بے غرض سیاسی و سماجی رہنما میں ہوتا ہے، جس کے چاہنے والے کروڑوں کی تعداد میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ الطاف حسین پاکستان کے غریب و متوسط طبقہ کی تحریک ایم کیو ایم کے قائد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اعلیٰ پائے کے مفکر اور دانشور بھی ہیں۔ کوئی بھی قوم ترقی یافتہ اور روشن خیال قوم کے سانچے میں اسی وقت ڈھلتی ہے جب وہ اپنے ذی فہم افراد کو بہت اہمیت دیتی ہے، کیونکہ ان افراد کی بصیرت اقوام کی صحیح رخ پر رہنمائی کرکے انھیں منزل کا پتہ دیتی ہے۔
اس حقیقت میں دو رائے نہیں کہ دنیا میں جن اقوام کی حکمرانی ہے انھوں نے اپنے دانشوروں اور مفکروں سے رہنمائی حاصل کرکے ان کے بہترین افکار کو عملی سانچے میں ڈھالا، لہٰذا یہ بات تو طے ہے کہ دنیا میں گفتار کے غازیوں اور اندھے مقلدین کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اس ضمن میں اپنے ہی ملک کی مثال لے لیجیے، قائداعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے بعد ایک طویل عرصے تک قوم کو گفتار کے غازیوں کے سوا کوئی ایسا لیڈر میسر نہیں آسکا جس نے قوم کی نیا پار لگانے کے لیے عملاً کوئی کردار ادا کیا ہو۔
لیکن کہتے ہیں خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں، ظلمتوں اور لاقانونیت کی اندھیری نگری میں حق اور سچ کا بول بالا کرنے کے لیے پاکستانی عوام کو بالآخر ایک سچا انقلابی لیڈر میسر آہی گیا۔ قوم کو منزل کا پتہ دینے کے لیے اس نے ایک ایسی انقلابی تحریک کو اپنی ہی بنائی گئی طلبا تنظیم اے پی ایم ایس او کے بطن سے 18 مارچ 1986 کو جنم دیا جس نے قوم کے مائنڈ سیٹ کو بدل کررکھ دیا۔ آج عوام کے ذہنوں میں انقلاب کی سوچ نے سر ابھارا ہے، وہ قائد تحریک الطاف حسین کی دی گئی سوچ اور فکر و فلسفے کی مرہون منت ہے۔الطاف حسین کی سیاسی و سماجی زندگی، ان کی کرشماتی شخصیت، ان کے حقیقت پسندی و عملیت پسندی کے نظریے، ان کی دانش مندانہ فکر اور ان کے فلسفہ محبت کی اگر بات کی جائے تو اس کی دوسری کوئی مثال دینا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوجائے گا۔
آج وہ سیاست، فلسفیت، انسانیت، اخلاقیت، عملیت، خدمت و خلق و روحانیت غرض یہ کہ کونسا شبعہ ایسا ہے جس میں وہ اونچا مقام نہیں رکھتے۔ ان کی ان تمام صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت اس ملک کے مظلوم و محروم عوام سے قائد تحریک کا نظریاتی اور روحانی رشتے کا اٹوٹ ہونا ہے جس کی وجہ سے ہزاروں میل کی دوری بھی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ یہ بے شمار عزت و شہرت اور کامیابی انھیں راتوں رات حاصل نہیں ہوئی بلکہ اس کے پیچھے ان کے عمل و کردار، پائے کا صبر و استقامت اور چٹانوں جیسا عزم و حوصلہ اور قربانیوں کی انگنت رقت آمیز داستانیں لہو رنگ لیے پوشیدہ ہیں۔
ایم کیو ایم کے قائد کی سیاسی سماجی اور اخلاقی زندگی کا اگر غیر جانبدارنہ جائزہ لیا جائے تو اس حقیقت کی سچائی سے فرار ممکن نہیں کہ انھیں میدانِ سیاست، میدان خدمت انسانی، مقام انسانیت کے اعلیٰ منصب تک پہنچنے کے لیے کس طرح اپنی ذات کی ضرورتوں اور خواہشات کی نفی کرنا پڑی۔ اپنی زندگی کے سکھ چین اور خوشیوں کو پس پشت ڈال کر تحریک کے سفر کو کامیابی سے آگے بڑھانے کے لیے انھوں نے تمام درد و الم، کڑی آزمائشوں اور مصائب و مشکلات کی آندھیوں کو خندہ پیشانی سے جھیلا، ان کے ماتھے پر ناامیدی کی شکن تک نہ آئی۔
تحریک کے کاز کو آگے بڑھانے کے لیے الطاف حسین کو کن کن دشوار گزار راستوں، جان لیوا مراحل اور سازشوں سے گزرنا پڑا اس کا اندازہ بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ جس لیڈر کو اپنے ہی ملک میں تعصب، بغض و عناد کا سامنا کرنا پڑے، حق بات کہنے پر اس کا میڈیا ٹرائل کیا جائے یہاں تک کہ ان کی جان کو لاحق خطرات کے سبب اس کے کارکنوں کو مجبوراً اسے جلاوطنی کا عذاب سہنے پر مجبور کرنا پڑے، اس کے صبر و برداشت کا کیا کہنا۔ جب ہی تو الطاف حسین کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ روایتی سیاست دان نہیں بلکہ ایسے رہبر و رہنما اور مصلح قوم ہیں جن کی تربیت قدرت اپنے ذمے لے لیتی ہے۔
آج اس حقیقت کو ان کے مخالفین بھی کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا انداز خطابت، اسلوبِ زبان کا ہنر اور دلوں کو چھوتی شعلہ بیانی جو نہ صرف سچائی اور مستقبل کے تمام اسرار و رموز سے قوم کو انتہائی دلیری اور بے باکی سے قدم قدم پرآگاہ کرتی ہے بلکہ حق پرستی، عملیت، انسانیت، اخلاقیات اور خدمت خلق کے تمام حقوق و فرائض ادا کرتی نظر آتی ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں جہاں جہاں انسانی حقوق کی پامالی ہوتی ہے اس کے خلاف سب سے اونچی آواز الطاف حسین کی ہی ہوتی ہے۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر جس طرح الطاف حسین آواز اٹھانے میں ذرا برابر بھی دیر نہیں کرتے ویسے ہی خدمت حلق کا بیڑہ اٹھانے کے لیے وہ ہمہ وقت اپنے کارکنوں اور ذمے داروں کی اخلاقی تربیت کرتے نظر آتے ہیں ۔ ملک میں خواتین کو دوسرے اور تیسرے درجے کا شہری قرار دینے کے بجائے وہ مساوات انسانی قائم کرکے خواتین کو وہ عزت و احترام اور مقام عطا کرنا چاہتے ہیں جو خود اﷲ رب العزت نے اور اس کے آخری بنیؐ نے معاشرے میں انھیں عطا کیا ہے۔ وہ ملک کی 65 فیصد نوجوان نسل کو قلم کے موثر ہتھیار سے جہالت، غربت، مہنگائی، فرقہ واریت، مذہبی انتہا پسندی، لاقانونیت، ظلم و زیادتی اور دہشت گردی جیسے انسانیت کو نقصان پہنچانے والے عوامل سے لڑنے کا سنہرا سبق دے کر حضرت علیؓ کے اس قول پر عمل کرنا چاہتے ہیں کہ ''علم زندگی ہے اور جہالت موت''۔
عوام کی فلاح و بہبود اور ملک کی ترقی اور سلامتی کے لیے کی جانے والی ان کی خدمات تاریخ میں سنہرے حرفوں سے لکھی جائیں گی۔ سن چیریٹی انٹرنیشنل کے زیر اہتمام پہلے ناصر حسین لائبریری اور سن اکیڈمی اسکول کا قیام اور آج نذیر حسین یونیورسٹی کا آغاز ایک ایسے معاشرے میں تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ہے، جہاں غریب و متوسط طبقہ میں اعلیٰ تعلیم شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ نذیر حسین یونیورسٹی کا تاریخی سنگ میل قائد تحریک کی ذاتی کوششوں اور تعلیم کے فروغ میں ان کی دلچسپی کا اعلیٰ مظہر ہے جب کہ خدمت خلق فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام کراچی و حیدرآباد میں نذیر حسین اسپتال کا قیام ان کی شخصیت میں بسی انسان دوستی اور خدا ترسی کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔
الطاف حسین کی شہرت اور ان کی تحریک کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو سبوتاژ کرنے کے لیے آج ایک بار پھر ملکی اور غیر ملکی سازش زور پکڑ رہی ہیں۔ پاکستانی ہونے کے باوجود ان کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جیسے حق کو حاصل کرنے کے لیے مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ لیکن وہ وقت دور نہیں جب پاکستانی عوام اپنے ہر دلعزیز قائد کو اپنے درمیان پائیں گے اور ان کے درمیان فاصلے سمٹ کر انقلاب کی نوید بن جائیں گے۔
ایک ایسے وقت میں جب ریاستی جبر قائد تحریک کو ان کا پاکستانی شہری ہونے کا حق دینے میں حیل و حجت تراش رہا ہے دوسری جانب قائد تحریک الطاف حسین کے نظریے، ان کے فکر و فلسفے ان کے پیغام حق پرستی اور ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایم کیو ایم کا ہر ذمے دار، ہر کارکن اور ہر ہمدرد ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے احتجاج بھی کررہا ہے، مظاہرے بھی کررہا ہے اور دنیا کو یہ پیغام بھی دے رہا ہے کہ جسے رب العزت نے کسی خاص مقصد کے لیے چنا ہے، اس کو مٹانے کی آرزو، اس کی صداقت کو جھٹلانے کی آرزو اور اسے ریاستی ہتھکنڈے استعمال کرکے ستانے کی آرزو انشاء اﷲ تعالیٰ کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گی۔
اس ملک کے حکمرانوں کو شاید اس حقیقت کا ادراک نہیں کہ انقلاب کا وقت فطری ہوتا ہے اور اب وہ فطری وقت الطاف حسین کی انقلابی قیادت میں ملک کے در و دیوار پر تیزی سے دستک دے رہا ہے لیکن ملک کے ارباب اختیار، جاگیردار، وڈیرے اور سرمایہ دار اس دستک کو سن کر بھی سنی ان سنی کررہے ہیں۔