ناسا کا لیزر کے ذریعے پیغام رسانی کا کامیاب تجربہ

اسپیس کرافٹ سے لیزر کی مدد سے بھیجا گیا پیغام خلائی مواصلات کو بدلںے کی صلاحیت رکھتا ہے

امریکی خلائی ادارے ناسا نے 1 کروڑ 60 لاکھ کلومیٹر فاصلے پر موجود اسپیس کرافٹ سے لیزر سگنل سے پیغاموصول کرنے کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔

امریکی خلائی ادارے نے ایک بیان میں کہا کہ لاکھوں کلومیٹر فاصلے پر موجود اسپیس کرافٹ سے لیزر کی مدد سے بھیجا گیا پیغام خلائی مواصلات کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

پیغام کا موصول کیا جانا ناسا کے ڈیپ اسپیس آپٹیکل کمیونیکیشنز (ڈی ایس او سی) تجربے کی کامیابی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ چاند سے 40 گُنا زیادہ فاصلے پر موجود اسپیس کرافٹ سے کامیابی کے ساتھ لیزر سے ڈیٹا منتقل کیا گیا ہو۔

اس وقت خلاء میں موجود تمام اسپیس کرافٹس کے ساتھ رابطہ ریڈیو سگنلز کی مدد سے کیا جاتا ہے جبکہ دنیا میں نصب بڑے بڑے اینٹینا سے سگنل بھیجے اور موصول کیے جاتے ہیں۔ اگرچہ پیغام رسانی کا یہ ذریعہ معتبر ثابت ہوا ہے لیکن ان کا بینڈوتھ محدود ہوتا ہے جس کا مطلب ہے کہ اس کی رفتار سست ہے اور اس سے ایچ ڈی تصاویر اور ویڈیو جیسی بڑی فائلیں بھیجنا ناممکن ہے۔


خلائی ادارے کے مطابق ناسا کے ڈی ایس او سی پر کام کرنے کا مقصد لیزر کے ذریعے آپٹیکل کمیونیکیشن کو استعمال کرنا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی ڈیٹا کی شرح میں 100 گُنا تک بہتری لاسکتی ہے۔

چاند سے زیادہ فاصلے پر اس ٹیکنالوجی کی آزمائش کی پہلی کوشش کو ناسا کے سائیکی مشن کے طور پر کی گئی۔ گزشتہ ماہ بھیجے جانے والے اس مشن کا مقصد خلاء میں زمین سے کافی فاصلے پر موجود ایک سیارچے کا مطالعہ کرنا تھا۔

اسپیس کرافٹ میں ایک لیزر ٹرانسیور نصب ہے جو نیئر انفراریڈ لیزر سگنل موصول بھی کر سکتا ہے اور بھیج بھی سکتا ہے۔

ناسا کا کہنا ہے کہ 'فرسٹ لائٹ' کامیابی متعدد تجربوں کا ایک حصہ جس سے وہ پُر امید ہوتے ہیں کہ لیزر ٹیکنالوجی کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔
Load Next Story