بیتاب بُستانی کا دورہ پاکستان …
’’تیرا بھی جواب نہیں قدوس ۔ مگر میرے پیارے راج دُلارے یہ تو بتا کہ تیرے دل میں یہ خیال کس طرح آگیا ۔
دیارِغیر سے وطن واپس آنے کی لذت تو اس سے پوچھیے جو طویل عرصہ مغرب کے اجنبی ماحول میں سخت زندگی گزارنے اور بالآخر کامیاب ہوجانے کے بعد وطن کا رُخ کرتا ہے۔ (مستقل رہائش کے لیے نہیں بلکہ صرف چند دنوں کے لیے )۔اب ذرا اُس پاکستانی کی خوشی کا اندازہ لگائیے جو اپنے ملک سے روانگی کے وقت ایک بالکل گمنام شخص تھا لیکن جب وہ وطن واپس آتا ہے تو ایک سیلیبریٹی بن چکا ہوتا ہے اور شہرت کی دیوی اس کے قدم چومتی ہے۔
ہمارا دوست عبدالقدوس گزشتہ پندرہ سال سے امریکا میں مقیم ہے ۔ دوسرے بے شمار ایشیائی لڑکوں کی طرح امریکا میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا ۔ قانون کی گرفت سے کسی نہ کسی طرح بچتا رہا ' ہر قسم کی جاب کرتا رہا ' بیروزگار بھی رہا ، ایک مہربان دوست نے اس کی مدد کی اور امریکا میں کامیابی حاصل کرنے کے کچھ ''گُر '' بتائے بھول بھلیوں سے نکالا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسے جلد ہی گرین کارڈ دلوا دیا ۔ پھر تو اس کے پَر لگ گئے اور قدّوس اونچا ہی اُڑتا رہا ۔ اب کئی سال بعد وہ امریکی شہری اور ایک کامیاب بزنس مین بن چکا تھا ۔ اس کی بزنس ایک لانڈری تھی ( جو صرف کپڑے دھونے تک محدود تھی۔)
پندرہ سال بعد قدّوس کے دماغ میں یہ کونپل پھوٹی کہ ''دیارِ غیر'' میں اتنا طویل عرصہ گذارنے کے بعد کیوں نہ اب 'وطن'' کا دورہ کیا جائے اور ''اپنے لوگوں '' سے ملا جائے ۔ نہایت قابلِ تعریف خیال ! لیکن حیرت کی بات تو یہ رہی کہ قدّوس ایک عام پاکستانی کی طرح واپس نہیں آنا چاہتا تھا جو آتے جاتے ہی رہتے ہیں ۔ مزہ تو اسی میں ہے کہ ایک ''ممتاز و مشہور شخصیت '' یعنی ایک ''سیلیبریٹی'' کے طور پر پاکستان کا دورہ کیا جائے تاکہ ذرا رُعب بھی پڑے اور دل کی کلی کِھل جائے۔
یہ کیوں کر ممکن ہے؟ قدّوس نے بہت سوچا مگر وہ کوئی حل نہ نکال سکا ۔ لہٰذا اس نے اپنے ایک بہت ہوشیار اور پڑھے لکھے دوست رشید کو پکڑا ۔ اور یوں اپنا ''دُکھڑا'' بیان کیا۔ ''رشید تو بڑا قابل بنا پھرتا ہے ذرا میرا مسئلہ تو حل کر''
تفصیل سن کر رشید پہلے تو قدوس کو غور سے دیکھتا رہا پھر ہنسا اور خوب ہنسا۔
''تیرا بھی جواب نہیں قدوس ۔ مگر میرے پیارے راج دُلارے یہ تو بتا کہ تیرے دل میں یہ خیال کس طرح آگیا ۔ کیا سبب ہے کہ پاکستان میں ایک نامور شخصیت ' ایک سیلیبریٹی کی طرح تیرا استقبال ہو۔ تو فلمی ستارہ ہے نہ اسپورٹس ہیرو اور نہ ہی اسٹیج کے بادشاہ مائیکل جیکسن ۔ سوچو قدوس تم توکچھ بھی نہیں ہو۔ تم خاصے خوشحال ضرور ہو مگر ہو تو محض ایک لانڈری مین یعنی دھوبی اور دھوبی تو دھوبی ہوتے ہیں سیلیبریٹی نہیں ہوتے ۔''
'' یہ تو غلط ہے رشید '' قدوس کو غصہ آگیا ۔'' میں لانڈری مین نہیں ہوں۔ میں Laundromatمشینیں کرائے پر دیتا ہوں جنھیں میرے گاہک خود استعمال کرتے ہیں ۔ میں تو لاٹ صاحب کی طرح بیٹھا رہتا ہوں ۔لیکن میر ے فلسفی دوست مجھے میری خامیوں کی لانڈری لسٹ نہ تھما '' قدوس کی آواز بھّرا گئی ۔
'' پریشان نہ ہو میری جان ۔'' رشید نے دوست کو گلے لگایا '' میں بھی کم نہیں ہوں ۔ بڑے بڑے مسئلے حل کیے ہیں میں نے ۔ میرے دماغ میں ایک کونپل پھوٹی ہے۔ فکر نہ کر ۔ میں ایک ہفتے کے بعد تیرے پاس آئوں گا ۔ اپنے ویلیٹ سے کچھ موٹے موٹے نوٹ نکالنے کے لیے تیار رہ۔''
"No Sweat"قدّوس بولا ۔ اب اس کے لبوں پر مسکراہٹ تھی اور آنکھوں میں چمک ۔
ایک ہفتہ قدوس نے بے چینی سے گذارا ۔ '' یہ بھڑ بھڑیا رشید کچھ کر بھی پائے گا یا نہیں ؟''
قدوس سوچتا رہا۔
ایک ہفتے بعد رشید واپس آیا تو وہ ہنستے ہوئے قدوس سے بغل گیر ہوگیا۔
'' مسئلہ حل ہوگیا '' وہ کھلکھلاکر بولا '' مبارک ہو بیتابؔ بُستانی صاحب !''
'' کیا تم سیدھے پاگل خانے سے آرہے ہو '' قدوس حیرت سے بولا۔
''حیران و پریشان نہ ہو '' رشید مسکراکر بولا '' قدّوس تم لانگ فیلو برج سے چارلس ریور مین کود کر ڈوبنے کے لیے تیارتھے لہذا بوسٹن کے برہمن مہاکوی لانگ فیلو نے تم پر ترس کھایا ہے ۔ اب تم پاکستان جائو گے تو عظیم شاعر بیتاب ؔ بُستانی کے طور پر ۔ تخلص بیتابؔ تمہاری بیتابی ظاہر کرتا ہے اور بُستانی تمہاری بوسٹن سے نسبت کا اشارہ ہے ۔ سمجھے !''
'' لیکن رشید شاعری سے مجھے کیا سروکار '' قدوس گھبرا کر بولا۔
'' بہت سے شاعروں کو بھی شاعری سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ' یہ مجھ پر چھوڑ دو ۔ تم تین ماہ بعد پاکستان جانے کا سوچ رہے ہو ۔ کافی وقت ہے ۔ اس عرصے میں تم قدّوس دھوبی سے شاعر بیتاب ؔ بُستانی بن جائو گے ' امریکا اور کینیڈا کا مقبول ونامور شاعر بیتابؔ بُستانی۔''
'' میں کبھی کینیڈا نہیں گیا ہوں۔''
''تو کیا فرق پڑتا ہے ۔ تیار ہوجائو اس شاندار تبدیلی کے لیے ۔میں سارا انتظام کردوں گا ۔ تمہارے لیے پانچ غزلیں تیار لکھوائوں گا اور میرا ایک شاعر دوست تمہیں عروض سے واقف کرائے گا ۔ تمہیں بتائے گا کہ شاعر کس طرح محفلوں میں آتے ہیں ' اور مشاعروں میں اپنا کلام سناتے ہیں ۔ پریکٹس کی خاطر تمہیں یہاں دو تین مشاعروں میں شریک کرایا جائے گا ۔ اور چند مختصر تقریریں بھی تمہارے لیے تیار کی جائیں گی۔''
''... لیکن ابھی میں مطمئن نہیں ہوں۔''
'' اور قدّوس'' رشید بولتا رہا'' جب تم پاکستان جائو تو وہاں کے شاعروں کو یہ بتانا ہرگز نہ بھولنا کہ تم امریکا اور کینیڈا میں مشاعرے بھی منعقد کراتے ہو ۔ پھر دیکھنا کہ شاعر لوگ کس طرح تم پر ٹوٹ کر گرتے ہیں۔ اخباروں میں تمہاری آمد کا ذکر ہوگا ' تمہارے فوٹو چھپیں گے ۔ ٹی وی انٹرویو ہوں گے اور تم ایک حقیقی سیلیبریٹی کی طرح دعوتوں میں مدعو کیے جائو گے ' سمجھے ۔''
'' یار تیرا دماغ ہے کہ آتش بازی کا انار ۔'' قدّوس کی آنکھوں میں چمک آگئی تھی '' تو نے جو تصویر کھینچی ہے اس نے تو مجھے ششدر کردیا ہے ۔ مگر کیا یہ سب ممکن ہے ۔ میرے خیال میں دشواریاں تو بہت ہیں۔''
'' سب دشواریاں روئی کے گالوں کی طرح ہوا میں اڑ جائیں گی ۔ تو ہمت تو کرلے ۔ میرے پیارے ۔ شاعر بننے کی اس مہم کو بھی ایک دوسرا گرین کارڈ سمجھ اور جُٹ جا ۔''
'' یہ کہہ کر تُو نے میرے اندر بجلیاں بھر دی ہیں ۔ اب میں بالکل تیار ہوں ۔ ایک دو شیروانیاں تیار کرالوں؟''
''شیروانیاں ماضی میں لد گئیں ۔ اب تو سوٹڈ بوٹڈ شاعر ہوتے ہیں ۔ انگلش میں گٹ پٹ کرتے ہوئے ۔ تو وہاں شاندر ایگزیکٹو سوٹس میں جلوہ گر ہوگا اور انگلش بولے گا۔ شکر ہے کہ امریکا میں تو نے پڑھا لکھا تو کچھ نہیں لیکن امریکی ایکسنٹ سیکھ لی ہے جس پر پاکستانی مرتے ہیں۔ پاکستانیوں کومرعوب کرنے کا بہترین ذریعہ ۔ امریکی لہجہ ۔ اردو تو صرف اُس وقت استعمال کرے گا جب تو غزل سنا رہا ہو ۔''
قصّہ مختصر دھوبی قدّوس ایک فرماں برباد شا گرد کی طرح ان تمام مراحل سے گذرا ۔ اوربالآخر بیتابؔ بُستانی بن ہی گیا ۔ پاکستان کا دورہ بہت کامیاب رہا ۔ پھر تو اس کے منہ کو خون لگ گیا ۔ وہ اس میدان میں آگے ہی بڑھتا رہا اور اس نے اچھا خاصا ترنم بھی سیکھ لیا۔
حضرت بیتاب ؔ بُستانی صاحب نے اپنی ''لانڈری'' صاحبزادے کے سپرد کردی ہے ۔ اب وہ ''کل وقتی'' شاعر ہیں۔ اور ایک سیلیبریٹی کی طرح شمالی امریکا ' برطانیہ' برصغیر اور خلیجی ریاستوں کے دوروں پر رہتے ہیں۔
اُن کے تازہ ترین دورہ پاکستان پر کراچی کی سب سے بڑی ادبی محفل میں بیتابؔ بُستانی صاحب کے اعزاز میں ایک نشست منعقد ہوئی جس کی صدارت ملک کے مشہور شاعر اور نقاد پروفیسر شہرؔ سنساری صاحب نے کی جو ادبی محفلوں کے ''مقبول'' صدر ہیں۔ نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے رقّاص ؔ قائمی صاحب نے شاندار الفاظ میں بیتابؔ بُستانی کا تعارف کرایا ۔ صاحب صدر شہرؔ سنساری نے اپنے خطبہ میں فرمایا ''مبارکباد کے مستحق ہیں ہمارے بیتابؔ بُستانی کہ وہ مغرب کی اجنبی سرزمین میں اردو شاعری کی دلاویزیوں کو برقرار رکھے ہوئے ہیں اور اپنے منفرد اسلوبِ بیان اور تخیل کی اڑان کے ذریعے خود کو مستند شعرا کی صف میں شامل کراچکے ہیں۔''