خود ترغیبی اور کامیابی کا عمل

اس فہرست میں اہم ترین مقاصد کو پہلے درج کریں اور کم اہمیت رکھنے والی چیزوں کو آخر میں۔

waqar.ahmed@express.com.pk

گزشتہ کالم میں ہم نے بتایا کہ کس طرح آپ اپنے مقاصد حیات کو پانے کے لیے فہرست بنا کر رفتہ رفتہ کامیابی کے قریب ہوسکتے ہیں۔ ذہن کل پر بھروسہ اور اپنے عمل کی کامیابی پر یقین کامل ہونا لازمی شرط ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ شروع شروع میں آپ کے اندر یقین کامل نہیں پیدا ہوسکتا۔ ابتدا میں آپ اس بدگمانی میں مبتلا رہیں گے کہ آپ کی کئی خواہشیں پوری ہو ہی نہیں سکتیں۔ مگر آپ ہمت نہ ہاریں اور اپنی فہرست مقاصد کو سچے پکے عزم کے ساتھ تیار کریں۔

اس فہرست میں اہم ترین مقاصد کو پہلے درج کریں اور کم اہمیت رکھنے والی چیزوں کو آخر میں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ آپ ابھی سے سوچنے بیٹھ جائیں کہ آپ کی اندرونی غیبی قوت آپ کو کس طرح امداد دے گی اور آخر کس طرح آپ کی خواہشوں کو عملی جامہ پہنائے گی۔ زمین میں گیہوں کا ایک دانہ ڈالنے سے کچھ عرصے بعد کس طرح ایک ہری بھری کونپل پھوٹ نکلتی ہے اور بعد میں ایک ایسا پودا پروان چڑھتا ہے جس کی جیب میں سیکڑوں دانہ ہائے گندم بھرے ہوئے ہوتے ہیں، اور ہر دانے میں سیکڑوں دانے اگانے کی قوت موجود ہوتی ہے، اگر آپ ان چاروں اصولوں پر پابندی سے عمل کریں گے تو یقین کیجیے کہ حصول مقاصد کے ذرائع غیب سے پیدا ہوں گے اور آپ کی اکثر مرادیں بر تو اس قدر جلد بر آئیں گی کہ آپ خود حیران رہ جائیں گے۔

اس کے ساتھ یہ نکتہ بھی یاد رکھیں کہ اگر نئی خواہشیں ذہن میں پیدا ہوکر فہرست مقاصد کی صف اول میں داخل ہونے کی کوششں کریں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کا ذہن حصول مقاصد کی طرف تیزی سے گامزن ہے، علاوہ بریں جب آپ کی کئی پرانی خواہشیں، نئی امنگوں اور آرزوئوں کے مقابل کم اہم معلوم ہونے لگیں تو سمجھ لیجیے، جان جائیے کہ آپ نمایاں ذہنی ترقی کررہے ہیں۔

انسان کا دل ہمیشہ شکوک و شبہات سے لبریز اور وسوسوں کی آماجگاہ رہتا ہے، آپ پر بھی تشکیک کے دورے بار بار پڑیں گے۔ جب بھی ذہن اوہام میں مبتلا ہو فوراً اپنے مقاصد و مطالبات کی فہرست کا مطالعہ شروع کردیں۔ بہتر یہ ہے کہ تمام مقاصد کو زبانی طور پر یاد کرلیا جائے اور انھیں اس کثرت سے دہرایا جائے کہ وہ آپ کی سوچ کا ایک حصہ بن جائے۔ اس طرح آپ کے تمام شکوک و شبہات پر غالب آجائیں گے۔ آپ یقین رکھیں کہ دنیا کی کوئی طاقت آپ کے مقاصد کے حصول میں سد راہ نہیں ہوسکتی۔

اور اب ہم اس راز سے پردہ اٹھاتے ہیں کہ یہ سب بالآخر ہے کیا؟ اور ہوگا کیسے؟ ہم ان ہی کالموں میں متعدد بار خودترغیبی کا تذکرہ کرتے آئے ہیں۔ تنویم کاری (ہپناٹزم) کی بنیاد ترغیب و تلقین پر ہے۔ جب تنویم کار (ہپناٹسٹ) آپ کو ترغیب دیتا ہے کہ تم پر تنویمی نیند غالب آرہی ہے تو آپ خود اپنے آپ کو لاشعوری طور پر سوجانے کی ترغیب دیتے ہیں، گویا ہپناٹزم کا پورا عمل خود تلقین، خود ترغیبی پر مبنی ہے۔ اگر معمول (جس پر تنویمی نیند طاری کی جارہی ہے) عامل کی ترغیب (سجیشن) پر عمل کرنے سے انکار کردے تو ہپناٹسٹ کی کامیابی ممکن نہیں۔

ہم نے جس طرح فہرست مقاصد کو دہرانے کا ذکر کیا ہے وہ بھی خودترغیبی کے علاوہ کچھ نہیں۔ تنویمی علاج سے بڑے بڑے امراض میں شفا کس طرح ہوجاتی ہے؟ یہ کس طرح ممکن ہے کہ تنویمی معالج مریض کو ترغیب دیتا ہے کہ میں تمھارے جسم پر عمل جراحی کروں گا اور تمھیں ذرا تکلیف محسوس نہ ہوگی۔ اور ایسا ہی ہوتا ہے، مریض کے جسم پر نشتر چلایا جاتا ہے اور وہ کوئی اذیت، کوئی تکلیف محسوس نہیں کرتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مخفی دماغ (لاشعور) میں یہ ترغیب پیوستہ ہوجاتی ہے کہ آپریشن سے مجھے کوئی زحمت نہ ہوگی۔ یہ روزمرہ کے تجربات ہیں۔ خودترغیبی کا جو طریقہ ہم نے تجویز کیا ہے ہم اپنے کالموں میں بارہا اس کے اثرات و نتائج پر بحث و گفتگو کرچکے ہیں۔

انسانی شعور 'چونکہ، چنانچہ، اگر، مگر' سے ہمیشہ دوچار رہتا ہے، شکوک و شبہات کے بھنور میں پھنسا رہتا ہے لیکن اس کا لاشعور کسی بھی پس و پیش سے آشنا نہیں۔ انسانی لاشعور میں مضبوطی کیساتھ جو تصور جاگزیں ہوجاتا ہے پھر ممکن نہیں کہ کوئی اسے ہلاسکے۔ آپ کا شعور (سطحی اور ظاہری دماغ) ناکام اور اوہام پسند انسانوں کے ضرر رساں خیالات کی لہروں سے متاثر ہوکر ہمیشہ آپ کے لیے مشکلات پیدا کرتا رہتا ہے، البتہ لاشعور کی مخفی قوت بروئے کار لا کر ہی ہم ان اوہام، اندیشوں اور وسوسوں کا ازالہ کرسکتے ہیں۔ آپ کے مقاصد جتنے بلند ہوں گے، آپ کی کامیابی اتنی ہی عظیم الشان ہوگی۔ ؎

ہمت بلند دار کہ پیش خدا و خلق


باشد بقدر ہمت تو اعتبار تو

یعنی ہمت بلند رکھ کہ خدا اور اس کے بندوں کے سامنے تیرا اعتبار اتنا ہی ہوگا جتنی ہمت تیرے اندر موجود ہے۔ بے شک جو لوگ ذہنی الجھنوں میں مبتلا ہوتے ہیں وہ کم ہمتی، کم حوصلہ اور کمزور قوت ارادہ کے مالک ہوتے ہیں۔ لیکن یاد رکھیے کہ ذہنی الجھنیں پیدا ہی اس لیے ہوتی ہیں کہ آپ کے اندر ہمت اور حوصلے کی کمی ہے۔ پست ہمتی سے نفسیاتی کشمکش پیدا ہوتی ہے اور نفسیاتی کشمکش پست ہمتی میں مزید اضافہ کردیتی ہے۔

یہ عجب قسم کا شیطانی چکر ہے جو بے حوصلہ انسانوں کی زندگی کو زہرناک بناتا رہتا ہے۔ اس ابلیسی دائرے کو توڑنے کے لیے ہی ہم آپ کو سانس اور ارتکاز توجہ کی مشقیں تجویز کرتے ہیں۔ ان مشقوں سے اعصابی نظام میں بڑی چستی پیدا ہوجاتی ہے اور ذہنی گرہیں کھلنے لگتی ہیں، انسان کی خوابیدہ قوتیں دھماکے کے ساتھ بیدار ہوجاتی ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عام انسان کے اندر سے ایک انسان برتر طلوع ہورہا ہے۔ عام طور پر لوگ لاشعوری قوت کو غیبی قوت سمجھتے ہیں۔ بلاشبہ ایک طرح سے یہ غیبی قوت ہے بھی، کیونکہ ہم عام طور پر اس قوت کی کارفرمائیوں سے واقف نہیں۔

اس غیبی قوت اور اس کے معجزات انسانی فہم و دماغ کے ادراک سے بالاتر ہیں۔ ہم نہ اس قوت کو دیکھ سکتے ہیں، نہ اس کے سحر انگیز کرشموں کا احاطہ کرسکتے ہیں۔ لاشعور کے دروازے عالم غیب کی طرف وا ہیں اور شعور کے دریچے عالم ظاہر کی طرف۔ ہماری پوری توجہ حواس خمسہ کے عمل کے سبب عالم ظاہر کی طرف مبذول رہتی ہے۔ لیکن مولانا روم کی ہدایت ہے ؎

لب بہ بند و چشم بند و گوش بند

گرنہ بینی نور حق برمن بخند

یعنی ہونٹ، کان اور آنکھیں بند کرلے، اگر نور حقیقت نظر نہ آئے تو میرا مذاق اڑانا۔

(نوٹ: گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں www.facebook.com/shayan.tamseel)
Load Next Story