دھند زدہ اندھی صبح
اس ڈھاکہ یونیورسٹی میں اندرا کے جنریلوں نے جس طرح بارود کی فراوانی جاری رکھی وہ ایک الگ داستان ہے
www.facebook.com/draffanqaiser
اندرا گاندھی اور اس کے حواریوں نے سقوطِ ڈھاکہ کے پردے میں جو ظلم پاکستان کے ساتھ کیا اس کی تفصیلات جانیں گے تو ہم تقسیم پاکستان،1984ء کے ہندو سکھ فسادات اور مودی کے گجرات فسادات کی تاریخ بھول جائیں گے۔ڈھاکہ میں اپنوں کو ہی اپنوں کے سامنے لاکھڑا کر دیا گیا اور اس سارے عمل میں جہاں اپنے ملک کے چند آمروں اور سیاست دانوں کی انا اور اغلاط نے اپنا کردار نبھایا ، وہیں شیخ مجیب الرحمان جیسے غیر ملکی ایجنٹ نما لوگوں نے بھی قیامت ڈھانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
یہ وہ دور تھا جب پاکستان میڈیا میں آج کے میڈیا جیسی آزادی نہیں تھی۔مارچ 1971ء کے پہلے ہفتے عوامی لیگ نے ریاست کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا اور اس کے ساتھ ہی سابق مشرقی پاکستان میں لوٹ مار، تشدد، قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوگیا۔ان ہی دنوں خبر رساں اداروں کو باغیوں کے ہاتھوں غیر بنگالیوں یعنی محب وطن پاکستانیوں اور مغربی پاکستانیوں کے خلاف مظالم کی خبروں کو عوام تک پہنچانے سے روک دیا گیا۔
مارچ1971 ء کے تیسرے ہفتے پانچ ہزار کے قریب غیر بنگالی پاکستانی بحری جہازوں پر عوامی لیگ کے عسکری دہشت گردوں سے بچ کر چاٹگام سے کراچی پہنچے۔ان کی حالت کسی طور بھی ان بے حال اور تشدد زدہ مسلمانوں سے کم نہ تھی جو 1947ء میں ہجرت کرکے ہندوستان سے پاکستان پہنچا کرتے تھے۔اس سارے منظر میں بین الاقوامی میڈیا ایک بہت بڑی سازش کا حصہ تھا اور کراچی ائیر پورٹ پر پہنچنے والی لاشوں تک کی بھی کوئی خبر باہر کے میڈیا کی جانب سے شائع نہیں کی جارہی تھی۔
اپنے ملک کا میڈیا آزاد نہ تھا ، اور جو کچھ سرکار کے قبضے میں تھا وہ کچھ خوف اور کچھ سازشی عناصر کے ہاتھوں میں تھا، یوں لوگوں کو کچھ پتہ نہ تھا کہ غیر بنگالی بھائیوں کے ساتھ ہوکیا رہا ہے۔ایسے میں بھارتی اور بنگالی خبررساں ادارے اس قدر منافقت سے کام لے رہے تھے کہ جب ایک برطانوی اخبار نویس نے ڈھاکہ سے نئی دہلی میں مقیم اپنے اخبار کے نامہ نگار سے طویل دورانیہ کی کال پر جیسے ہی غیر بنگالیوں پر کیے مظالم کی تفصیل بیان کرنے کی کوشش کی تو بنگالی فون آپریٹر نے کال کاٹ دی۔ایسے میں غیر ملکی میڈیا اور بھارت نے تمام توپوں کے رخ ان مخلص دفاعی اداروں کی طرف کردیا جو حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ، اپنے ملک کو ٹوٹنے سے بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔
بھارتی پروپیگنڈا مشینری نے جرمن نازی فورسز کی روش اختیار کرتے ہوئے مکتی باہنیوں اور عوامی لیگ کے دہشت گردوں کی طرف سے ڈھائے گئے مظالم کا سارا الزام ،اس دفاع پر لگانا شروع کردیا جو ملک کو بچا رہا تھا۔ایسے میں کئی بنگالی خواتین کی تصاویر بھارتی اور غیر ملی خبر رساں اداروں کی طرف سے شائع کی جاتی رہیں جنھیں عصمت دری کے بعد بے دردی سے قتل کیا گیا تھا۔یوں بنگال کے عوام اور بین الاقوامی دنیا بنگالیوں کی آزادی پر اندرا ،اس کے حواریوں اور شیخ مجیب الرحمان کے ساتھ مل گئی۔ایسے میں ہٹلر کا ایک قول یاد آتا کہ اگر تم کسی قوم پر فتح چاہتے ہو تو اس قوم کو ان ہی کے خلاف بھڑکا دو جو انھیں بچانا چاہ رہے ہوں۔
ایسا ہی بنگال میں بھی کیا جا رہا تھا۔ڈھاکہ کے نواح میں صنعتی قصبے نارائن گنج میں عوامی لیگ کے غنڈوں نے رائفل کلب کا اسلحہ لوٹ لیا اور ڈھاکہ یونیورسٹی کے دو بلاکس، اقبال ہال اور جگن ناتھ ہال کو دہشت گردی کے مراکز میں تبدیل کردیا گیا۔یوں ڈھاکہ یونیورسٹی عوامی لیگ کی دہشت گردی اور مکتی باہنیوں کے مظالم کا گڑھ بن گئی۔پورے ملک سے اسلحہ لوٹ لوٹ کر یہاں لایا جاتا رہا۔اسی یونیورسٹی کے کے ہاسٹلز کے کئی کمروں کو ٹارچر سیلز میں تبدیل کیا گیا اور کئی محب وطن غیر بنگالیوں کو اذیت ناک شہادت دی جاتی رہی۔ایسے میں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کے ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن پر بھی قبضہ کرلیا اور وہاں پاکستان کے قومی ترانوں کی بجائے بنگالی قومی ترانے بجائے جانے لگے۔اب مجیب الرحمان نے کھلی بغاوت کا اعلان کردیا۔
غیر ملکی میڈیا،بھارتی میڈیا اور خود مشرقی پاکستان کا میڈیا، عوام کو ان کے بچانے والوں کے خلاف مغلظات بک کر اکسا رہا تھا۔ڈھاکہ یونیورسٹی مکتی باہنیوں اور عوامی لیگ کے غنڈوں کی دہشت گردی کے ہیڈ کوارٹر میں تبدیل ہوچکی تھی اور مغربی پاکستان کے رہنما کنفیوژن کا شکار تھے۔یہی وہ حالات تھے جب کسی ملک کو توڑنا مشکل نہیں تھا۔ایسے میں ایسٹ پاکستان اسٹوڈنٹ لیگ بھی مکتی باہنیوں اور عوامی لیگ کے غنڈوں کے ساتھ مل گئی، ڈھاکہ یونیورسٹی کے سائنس اور پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ سے دھماکا خیز مواد چرا کر بم بنائے جانے لگے اور برٹش کونسل کے دفاتر تک پر حملہ کردیا گیا۔
اس ڈھاکہ یونیورسٹی میں اندرا کے جنریلوں نے جس طرح بارود کی فراوانی جاری رکھی وہ ایک الگ داستان ہے۔7 مارچ 1971ء کو رمنا گرائونڈ میں باقاعدہ مجیب الرحمان نے بنگال کی آزادی تحریک کا اعلان کردیا،ہرے رنگ کے اوپر سرخ دھبا لگا کر دنیا کے نقشے پر سب سے مضبوط اسلامی ریاست کو توڑنے کی داغ بیل ڈال دی گئی۔جب حالات سازگار ہوگئے تو بھارت بیچ میں کودا اور ایک جنگ کے ذریعے ملک توڑ دیا گیا۔
برطانیہ کے ایک معروف صحافی رش بروک کی کتاب ' دی ایسٹ پاکستان ٹریجڈی' اور میجر جنرل فضل مقیم کی کتاب ' لیڈر شپ ان کرائسز' نے ان تمام باتوں کا ذکر کیاکہ جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کو توڑنے میں اندرونی غدار ایجنٹوں،بھارتی سرکار اور غیر ملکی طاقتوں نے بہت منفی کردار ادا کیا۔دوسری طرف بھارتی میجر جنرل ڈی کے پالٹ کی کتاب ' دی لائیٹنگ کمپین' اور اولگا اولسن کی کتاب ' ڈوکٹور' ہے کہ جس میں وہ سب مغلظات اور جھوٹ بیان کیا گیا ہے جس کی بنیاد پر بنگالی عوام اپنوں ہی کے خلاف ہوگئے تھے۔
آج ایک طرف بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی ہی شیخ حسینہ کی کرپٹ حکومت ہے۔وہی شیخ حسینہ جو پاکستانی غدار شیخ مجیب الرحمان کی بیٹی ہے اور پاکستان کے خلاف اس کی نفرت باپ کے خون کے ساتھ اس کی رگوں میں دوڑتی ہے جس کا وہ ہر موقع پر مظاہرہ بھی کرتی ہے۔حال ہی میں پاکستانی کرکٹ میچ کے دوران بنگالی شائقین نے جب پاکستانی ٹیم کو سپورٹ کیا تو اس نے جس طرح جاہلانہ اقدامات اٹھائے ،وہ یہ بتانے کو کافی ہیں کہ شیخ حسینہ ، اپنے بدصورت ماضی کی طرح کس قدر پاکستان دشمن سوچ کی مالک ہے۔