غلطیوں سے سیکھنے کا وقت

پاکستان کے قیام بعد ہماری سیاست، صحافت، معیشت اور صنعت و حرفت زبوں حالی کا شکار رہی ہیں

Warza10@hotmail.com

'' غلطیوں سے سیکھنے کا عمل جاری رہنا چاہیے'' یہ مری میں کارکنوں کے ایک اجتماع سے خطاب کے دوران مسلم لیگ نون کے قائد نوازشریف کے الفاظ ہیں۔

اسی کے ساتھ ان کا کہنا تھا کہ '' انھیں کسی بھی عہدے کی لالچ نہیں مگر قوم کو یہ ضرور جاننا ہوگا کہ وہ کون لوگ ہیں جنھوں نے ملک کو بربادی کی بھینٹ چڑھایا'' نوازشریف کی بین السطور باتوں کی روشنی میں ہمیں غورکرنا پڑے گا کہ آیا اب ہماری سیاسی دانش اور اہلِ صحافت 76 سال کے سفرکے بعد کس نہج پر ہے، ان سب باتوں کا ہمیں کھلے دل ودماغ سے جائزہ لینا چاہیے کیونکہ زندہ معاشرے اور زندہ قومیں یقینا اپنی اغلاط سے ہی خود کی درست سمت پانے یا فراہم کرتی ہیں۔

پاکستان کے قیام بعد ہماری سیاست، صحافت، معیشت اور صنعت و حرفت زبوں حالی کا شکار رہی ہیں جب کہ تین مارشل لا اور ملک کے دولخت ہوجانے کا عمل بھی ہماری تاریخ کا حصہ رہے ہیں۔ اسی دوران منتخب حکومتوں کے نیم جمہوری نظام بھی ہماری سیاسی تاریخ میں کوئی بہتری لانے کا سبب نہیں رہے ہیں۔

ان حقائق کی روشنی میں ہم اپنے ماضی کے دریچوں میں جھانکے بغیرکسی بھی صورت بہتر مستقبل کی پیش بندی نہیں کرسکتے۔ اس حقیقت سے کیسے انکارکیا جاسکتا ہے کہ یہ ملک عوام کی جمہوری اور سیاسی جدوجہدکے نتیجے میں معرضِ وجود میں آیا اور اس حقیقت سے بھی انکار نا ممکن ہے کہ پاکستان کے جمہوری وجود کو ایک خاص تعداد نے تسلیم نہیں کیا۔

اس ریاست کو جمہوری و سیاسی ریاست بنانے کے بجائے اس کو مذہبی چادر میں لپیٹ کر ایک''سیکیورٹی اسٹیٹ'' بنانے کی پہلے دن سے کوششیں جاری رکھیں اور اس سلسلے میں مختلف مذہبی گروہ کے ذریعے عوام کے ذہنوں میںجمہوری سیاست اور عوام کے حقوق کو تہہ تیغ کیا گیا، جس کے نتیجے میں برطانوی تربیت یافتہ گروہ نے ابتدا ہی سے قائد اعظم کے '' سیکیولر ریاست '' کے نکتہ نظر کو ختم کرنے کی کوشش کی، جس کو جناح کے زندہ ہونے کی صورت میں پایہ تکمیل تک پہنچانے میں یہ برطانوی مزاج کا گروہ کامیاب تو نہ ہو سکا البتہ اس گروہ نے اپنی کوشش جاری رکھی۔

لیاقت علی خان نے قائد اعظم کے تمام تر تحفظات جاننے کے باوجود اقتدارکے خواہش مندوں کو غیر ضروری طور سے اہم عہدے سے نوازا، جس نے آگے چل کر اپنے اثر و نفوذ کو نوکر شاہی سے مل کر مضبوط کیا، اور سیاسی اکابرین کی تمام تر کوششوں کے بعد بھی نوکر شاہی نے پاکستان کی ریاست چلانے کی بنیادی دستاویز آئین کو کسی صورت بننے نہیں دیا، بلکہ سیاسی رہنماؤں کی 1956 کے آئین بنانے کی کوششوں کو مراعات یافتہ نوکرشاہی کے ذریعے سبوتاژکروایا اور 1956 کا آئین تمام تر کوششوں کے باوجود نہ بن سکا۔

آئین نہ بنانے کی اس حرکت کو تاریخ کے طالبعلم اقتدارکے خواہش مند گروہ کی 1958 میں مارشل لا نافذ کرنے کی کوششوں میں بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔


اسی ایوبی مارشل لا نے ملک کی سیاسی، تہذیبی، معاشی اور سماجی فیبرک کو تباہ و برباد کیا، جس کا تسلسل آج کے غیر جمہوری و غیر سیاسی سماج میں باآسانی دیکھا جاسکتا ہے، یہاں قائد اعظم کی عمیق نگاہ کا ذکر نہ کرنا تاریخی حقیقت سے انکار ہوگا، جس میں قائد اعظم نے جنرل ایوب کی اقتداری خواہش کے پیش نظر غیر سیاسی سرگرمیوں کی بنا پر ان کے کورٹ مارشل کی سفارش کی تھی جو جناح کے انتقال کے بعد ان ہی کی قبر میں دفنا دی گئی، جس کا خمیازہ آج 76سال بعد بھی قوم بھگت رہی ہے اور ہماری نسل کو ہماری اشرافیائی اہل دانش اور صحافت تلخ حقائق بتانے سے گریزاں ہے۔

ان تاریخی حقائق سے کیسے منہ چرایا جاسکتا ہے کہ ملک کے مشرقی حصے کی اکثریت کو حقوق نہ دینے کے ہر طاقتور حربے کو استعمال کیا گیا اور مشرقی حصے کی جمہوری آزادی اور عوامی رائے کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کچلا گیا۔

مشرقی حصے کے عوام کی اکثریت کو مجبورکیا کہ وہ مغربی حصے سے الگ اپنا ملک بنائیں تاکہ جنرل ایوب کے اقتدار شراکت کے فلسفے کو مغربی پاکستان میں اپنی نرسری میں بنائے گئے سیاستدانوں کی مدد سے نہ صرف قائم رکھا جائے بلکہ اسے من پسند ججز کی مدد سے قانونی قرار دلوایا جائے، اور یہی شراکت اقتدار کا غیر آئینی کھیل تاحال کسی نہ کسی بہانے جاری وساری ہے، جو جمہوری نظام اور آئینی دستاویزکو بری طرح چبا رہا ہے۔

ایک سیاسی تجزیہ کار رضا سید کا خیال ہے کہ '' گزشتہ پچاس برس کے دوران بھی پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں شعبہ ہائے ابلاغ عامہ عمومی طور پر دائیں یا بائیں بازو کے نظریات کے اعلانیہ حامیوں کی نظریاتی تربیت گاہوں کے طور پر چلتے رہے ہیں، صحافت کی تاریخ اور حالات سے واقف احباب بخوبی جانتے ہیں کہ میں کیا کہنے کی کوشش کررہا ہوں۔

قصہ مختصر پاکستان کے معروضی حالات میں یہ سلسلہ مزید پنپتا ہی نظر آتا ہے اور سیاسی نظریات سے مزین بلکہ weaponised صحافت اس ملک کے عوام کے ذہنوں کو کمال مہارت سے اپنے اپنے نظریات کے فروغ کے لیے یوں ہی استعمال کرتے نظر آئیں گے۔

یہ بات دیگر ہے کہ ہم سب ہی اپنے اپنے طور پر آبجیکٹیو جرنل ازم کے نعرے لگا کر اپنے آپ کو سیاسی و سماجی تعصبات سے پاک صحافت کا حامی ضرور کہلوانا پسند کرتے رہیں گے۔ آپس کی بات ہے مجھے لگتا ہے کہ جلد ہی یہ منافقانہ طرز رواداری بھی ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔

تجزیہ نگار کی رائے میں یہ اضافہ ناگزیر ہے کہ اہل صحافت اور عامل صحافیوں نے صحافتی آزادی کے ساتھ عوام کی شہری و جمہوری آزادی کے حصول کی جدوجہد میں ایوبی مارش لاء سے لے کر مشرف کی مارشل لا اور جمہوریت سے بے گانہ سیاسی حکومتوں کا خم ٹھونک کر مقابلہ کیا ہے اور ایوبی سوچ کے '' ہائیبرڈ نظام '' کے تمام ارادوں کی بیخ کنی کی ممکنہ کوشش کی ہے۔

جیسے اندھیرے کے بعد سحرکے طلوع ہونے کو نہیں روکا جاسکتا، اسی طرح نئی نسل میں جمہوری آزادی اور آئینی حقوق لینے کی سوچ کو مٹانا بھی ممکن نہیں ہے، بہتر ہے کہ ماضی میں کی گئی غلطیوں سے طاقتور اشرافیہ سمیت اہل سیاست، اہل صحافت اور اہل دانش کو اپنی سمت درست کرنا پڑے گی۔
Load Next Story