میر جعفر اور میر صادق
ہندو اس پروپیگنڈے سے ذرا متاثر نظر نہیں آ رہے ہیں اور برابر ہر سال ٹیپو سلطان کا یوم شہادت مناتے ہیں
میر جعفر یا میر صادق کسی کو کہہ دینا تو آسان ہے مگر جسے یہ کہا جا رہا ہے وہ ان بدنام زمانہ غداروں سے خود کو وابستہ کرنے پر یقینا سیخ پا ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔
دراصل یہ دونوں ہماری تاریخ کے گھناؤنے ترین کردار کے مالک ایسے اشخاص ہیں جنھیں نہ ہماری تاریخ کبھی معاف کر سکتی ہے اور نہ ان کے کردار کو ہماری قوم ہی معاف کر سکتی ہے۔ ہمارے عوام آج بھی ان سے حد درجہ نفرت کرتے ہیں مگر اسے کیا کہا جائے کہ اسی قابل نفرت میر جعفر کا پڑپوتا ہمارے ملک کا صدر بھی رہ چکا ہے۔
اسکندر مرزا کو کون نہیں جانتا یہ وہی شخص ہے جو ہمارے ملک میں پہلی مرتبہ مارشل لا لگانے کا محرک بنا تھا اور پھر اس کے بعد تو مارشل لاؤں کی جیسے لائن ہی لگ گئی تھی۔ اب تک بدقسمتی سے ملک میں چار بار جمہوریت پر شب خون مار کر آمرانہ حکومتیں قائم ہو چکی ہیں۔
افسوس اس بات پر ہے کہ ہمارے ملک کے کئی جمہوری رہنما ان حکومتوں کے ہمنوا بنتے رہے ہیں۔ انھوں نے ان حکومتوں کو سہارا دے کر بڑے عہدے بھی حاصل کیے اور اپنے کاروبار کو بھی خوب وسعت دی۔ شاید انھی عنایات کی وجہ سے وہ آمرانہ حکومتوں کا ساتھ دینے پر خود کو قابل فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔
جہاں تک تاریخ کا معاملہ ہے تو میر جعفر نے بنگال کے نواب سراج الدولہ کے ساتھ غداری کی اور انگریزوں کے ساتھ ساز باز کرکے بنگال پر انگریزوں کی حکومت قائم کرا دی جو پورے برصغیر کو غلامی میں جکڑنے کا سبب بنی۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ میر جعفر نے برصغیر کو غلامی کی دلدل میں پھنسانے کا دروازہ کھولا تو اس کے پڑپوتے نے پاکستان میں آمریت کا در کھولنے میں پہل کی۔
ہماری تاریخ میں پلاسی کی جنگ بہت اہمیت رکھتی ہے دراصل اسی جنگ میں فتح نے انگریزوں کو ہندوستان پر اپنے پنجے گاڑنے یا پیر جمانے میں کامیابی بخشی۔ جہاں تک میر صادق کا تعلق ہے اس کا جنوبی ہند سے تعلق تھا وہ ٹیپو سلطان کا وزیر تھا۔ اس نے اپنے آقا یعنی ٹیپو سلطان سے غداری کی۔ وہ صرف زمین جائیداد اور دولت کے لیے انگریزوں کا آلہ کار بن گیا تھا اس نے ٹیپو سلطان کے اہم خفیہ راز انگریزوں کو پہنچائے اور میدان جنگ میں فوجوں کو انگریزوں سے نہ لڑنے کی ترغیب دی مگر فوج نے اپنے آقا ٹیپو سلطان سے وفا داری نبھائی اور اپنے وطن کی آزادی کے لیے بہادری سے لڑتے ہوئے ٹیپو سلطان کی طرح جام شہادت نوش کیا۔ اس طرح انھوں نے اپنے آقا کے اس قول کو سچ کر دکھایا کہ'' شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔''
ہمارے ملک میں میر جعفر اور میر صادق کی اصطلاح چند سال قبل ہی زندہ کی گئی ہے اور اسے زندہ کرنے والے کوئی اور نہیں ہماری سیاست سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی ہیں۔ وہ عوام کے سامنے یہ اصطلاح ضرور استعمال کرتے رہے جس سے وہ اپنے محسنوں کا شاید احسان چکاتے رہے مگر احسان کا بدلہ تو احسان ہی ہوتا ہے جسے نہ جانے کیوں بھلا کر وہ کچھ کہا گیا جس سے سراسر اپنے ساتھی محسنوں کے خلاف عوام کو بھڑکانے کی کوشش کی گئی۔
وہ عوام کے سامنے تو میر جعفر اور میر صادق کی اصطلاح استعمال کرتے رہے مگر تنہائی میں ان سے ملتے تو ان سے معافیاں بھی مانگتے اور پھر سے اپنی وفاداری نبھانے کا وعدہ بھی کرتے رہے یہ سب کھیل کھیلا جاتا رہا مگر عوام کو انھوں نے شاید نادان سمجھا کہ وہ ان باتوں کو نہیں سمجھ سکیں گے۔ نہیں، نہیں عوام بہت ہوشیار ہوتے ہیں وہ ہر چیز کو خوب سمجھتے بوجھتے ہیں انھیں کوئی بے وقوف نہیں بنا سکتا اور جو انھیں بے وقوف سمجھتا ہے وہ دراصل خود ہی بہت بے وقوف ہوتا ہے۔
دراصل جو کھیل کھیلا جاتا رہا وہ ہماری سیاست کے تازہ المیے ہیں اب فیصلہ کیجیے کہ کسے رہنما بنایا جائے اور کسے اپنا ہمدرد سمجھا جائے۔ ایک دوسرے کو غدار قرار دینے کا معاملہ بہت سنگین ہے۔محب وطن شخص تو اپنے ملک کے خلاف کسی کی کہی گئی بات کو بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ پھر ہمارے فوجیوں سے بڑھ کر کون محب وطن ہو سکتا ہے جو ان سے بازی لے جائے یعنی ان کے جذبہ حب الوطنی کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔
ہمارے فوجیوں نے 1948 سے لے کر 1965 اور 1971 کی جنگوں میں وطن عزیز کا دفاع کرتے ہوئے جو جانیں دی ہیں ان کی ان قربانیوں کو ہماری قوم کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتی۔ ہمارے فوجی آج بھی ملک سے دہشت گردی کی لعنت کو مٹانے کے لیے نبرد آزما ہیں۔ ان کے روز ہی دہشت گردوں سے مڈبھیڑ کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں وہ خود جام شہادت نوش کر لیتے ہیں مگر دہشت گردوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچا دیتے ہیں، گوکہ اس وقت ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے جیسے ہمارے دشمن نے ہمارے کشمیر سے دست بردار نہ ہونے کی ہمیں سزا دینے کے طور پر ملک میں پھیلا رکھی ہے مگر فوج کا یہ پکا عزم ہے کہ وہ ملک سے ایک ایک دہشت گرد کا خاتمہ کرکے رہے گی اور کشمیر کو بھارت کے چنگل سے آزاد کرائے بغیر چین سے نہیں بیٹھے گی چاہے اسے اس کی کتنی ہی قیمت کیوں نہ ادا کرنا پڑے۔ گزشتہ دنوں ٹیپو سلطان شہید کی پیدائش کی سالگرہ منائی گئی۔
افسوس کہ پاکستان میں اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ ہم نے بلاشبہ اس مرد مجاہد کی بہادری سے متاثر ہو کر اپنے ایک بحری جنگی جہاز کا نام ''ٹیپو'' رکھا ہے اور ہماری کئی قومی نظموں میں بھی اس بہادر سپوت کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ اس شخص کی بہادری کے آج بھی انگریز قائل ہیں۔
ٹیپو سلطان سے غداری کرنے والوں میں گوکہ میر صادق کا نام ایک ضرب المثال بن گیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ٹیپو سلطان سے غداری کرنے والوں میں ان کا ایک اہم وزیر جس کا نام پورنیا تھا بھی شامل تھا اس کے علاوہ سراج الدولہ سے غداری کرنے والوں میں اس کے سسر میر جعفر کے کردار کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
بھارت میں ٹیپو سلطان پر ایک طویل سیریل ایک ٹی وی چینل پر دکھائی جاتی رہی ہے۔ یہ بہت کامیاب رہی اس میں ٹیپو سلطان کا کردار سنجے خان نے ادا کیا تھا اور وہی اس سیریل کے خالق اور فنانسر بھی تھے۔ اس سیریل میں ٹیپو سلطان کی ہی نہیں ان کے بزرگوں کے بارے میں تفصیل سے روشنی ڈالی گئی تھی۔
ٹیپو سلطان نے اپنی رعایا کے لیے جس فراخ دلی کا مظاہرہ کیا تھا اس کی مثال بہت کم ہی نظر آتی ہے۔ ٹیپو کا اپنی ہندو رعایا کے ساتھ مثالی کردار رہا انھیں مسلمانوں کے برابر کے حقوق حاصل تھے انھیں کبھی کسی شکایت کا موقع نہیں دیا گیا۔ ہندو بھی ٹیپو سلطان سے اس قدر خوش تھے کہ وہ انگریزوں کے خلاف ٹیپو کی جنگ میں برابر کے شریک تھے مگر صرف غداروں کی وجہ سے میسور کی ٹیپو کی سلطنت انگریزوں کے قبضے میں چلی گئی اور پھر اس کے بعد انگریزوں کو سوائے جھانسی کی رانی کے کسی سے بھی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
ٹیپو سلطان کے ہندو نواز رویے کو تاریخ میں تفصیل سے جگہ دی گئی ہے۔ جنوبی ہند کے ہندو اور مسلمان سب ٹیپو سلطان کے معتقد ہیں وہ ہر سال ان کا دن مناتے ہیں اس دن میسور میں ایک بہت بڑا جلوس نکالا جاتا ہے جس میں ہندو مسلمان جوق در جوق شرکت کرتے ہیں اور ٹیپو سلطان کی بڑی بڑی تصاویر لے کر جلوس کے ساتھ چلتے ہیں۔
بدقسمتی سے جب سے بی جے پی کی حکومتیں جنوبی ریاستوں میں بنی ہیں انھوں نے اس جلوس کے نکالنے پر کافی رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں چونکہ وہ ہندو مسلم اتحاد کے خلاف ہیں۔ وہ ٹیپو سلطان کو ہندوؤں کا دشمن ہونے کا پروپیگنڈا کر رہی ہے مگر وہاں کے ہندو اس پروپیگنڈے سے ذرا متاثر نظر نہیں آ رہے ہیں اور برابر ہر سال ٹیپو سلطان کا یوم شہادت مناتے ہیں اور جلسے جلوس کا اہتمام کرتے ہیں۔
دراصل یہ دونوں ہماری تاریخ کے گھناؤنے ترین کردار کے مالک ایسے اشخاص ہیں جنھیں نہ ہماری تاریخ کبھی معاف کر سکتی ہے اور نہ ان کے کردار کو ہماری قوم ہی معاف کر سکتی ہے۔ ہمارے عوام آج بھی ان سے حد درجہ نفرت کرتے ہیں مگر اسے کیا کہا جائے کہ اسی قابل نفرت میر جعفر کا پڑپوتا ہمارے ملک کا صدر بھی رہ چکا ہے۔
اسکندر مرزا کو کون نہیں جانتا یہ وہی شخص ہے جو ہمارے ملک میں پہلی مرتبہ مارشل لا لگانے کا محرک بنا تھا اور پھر اس کے بعد تو مارشل لاؤں کی جیسے لائن ہی لگ گئی تھی۔ اب تک بدقسمتی سے ملک میں چار بار جمہوریت پر شب خون مار کر آمرانہ حکومتیں قائم ہو چکی ہیں۔
افسوس اس بات پر ہے کہ ہمارے ملک کے کئی جمہوری رہنما ان حکومتوں کے ہمنوا بنتے رہے ہیں۔ انھوں نے ان حکومتوں کو سہارا دے کر بڑے عہدے بھی حاصل کیے اور اپنے کاروبار کو بھی خوب وسعت دی۔ شاید انھی عنایات کی وجہ سے وہ آمرانہ حکومتوں کا ساتھ دینے پر خود کو قابل فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔
جہاں تک تاریخ کا معاملہ ہے تو میر جعفر نے بنگال کے نواب سراج الدولہ کے ساتھ غداری کی اور انگریزوں کے ساتھ ساز باز کرکے بنگال پر انگریزوں کی حکومت قائم کرا دی جو پورے برصغیر کو غلامی میں جکڑنے کا سبب بنی۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ میر جعفر نے برصغیر کو غلامی کی دلدل میں پھنسانے کا دروازہ کھولا تو اس کے پڑپوتے نے پاکستان میں آمریت کا در کھولنے میں پہل کی۔
ہماری تاریخ میں پلاسی کی جنگ بہت اہمیت رکھتی ہے دراصل اسی جنگ میں فتح نے انگریزوں کو ہندوستان پر اپنے پنجے گاڑنے یا پیر جمانے میں کامیابی بخشی۔ جہاں تک میر صادق کا تعلق ہے اس کا جنوبی ہند سے تعلق تھا وہ ٹیپو سلطان کا وزیر تھا۔ اس نے اپنے آقا یعنی ٹیپو سلطان سے غداری کی۔ وہ صرف زمین جائیداد اور دولت کے لیے انگریزوں کا آلہ کار بن گیا تھا اس نے ٹیپو سلطان کے اہم خفیہ راز انگریزوں کو پہنچائے اور میدان جنگ میں فوجوں کو انگریزوں سے نہ لڑنے کی ترغیب دی مگر فوج نے اپنے آقا ٹیپو سلطان سے وفا داری نبھائی اور اپنے وطن کی آزادی کے لیے بہادری سے لڑتے ہوئے ٹیپو سلطان کی طرح جام شہادت نوش کیا۔ اس طرح انھوں نے اپنے آقا کے اس قول کو سچ کر دکھایا کہ'' شیر کی ایک دن کی زندگی، گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔''
ہمارے ملک میں میر جعفر اور میر صادق کی اصطلاح چند سال قبل ہی زندہ کی گئی ہے اور اسے زندہ کرنے والے کوئی اور نہیں ہماری سیاست سے تعلق رکھنے والے لوگ ہی ہیں۔ وہ عوام کے سامنے یہ اصطلاح ضرور استعمال کرتے رہے جس سے وہ اپنے محسنوں کا شاید احسان چکاتے رہے مگر احسان کا بدلہ تو احسان ہی ہوتا ہے جسے نہ جانے کیوں بھلا کر وہ کچھ کہا گیا جس سے سراسر اپنے ساتھی محسنوں کے خلاف عوام کو بھڑکانے کی کوشش کی گئی۔
وہ عوام کے سامنے تو میر جعفر اور میر صادق کی اصطلاح استعمال کرتے رہے مگر تنہائی میں ان سے ملتے تو ان سے معافیاں بھی مانگتے اور پھر سے اپنی وفاداری نبھانے کا وعدہ بھی کرتے رہے یہ سب کھیل کھیلا جاتا رہا مگر عوام کو انھوں نے شاید نادان سمجھا کہ وہ ان باتوں کو نہیں سمجھ سکیں گے۔ نہیں، نہیں عوام بہت ہوشیار ہوتے ہیں وہ ہر چیز کو خوب سمجھتے بوجھتے ہیں انھیں کوئی بے وقوف نہیں بنا سکتا اور جو انھیں بے وقوف سمجھتا ہے وہ دراصل خود ہی بہت بے وقوف ہوتا ہے۔
دراصل جو کھیل کھیلا جاتا رہا وہ ہماری سیاست کے تازہ المیے ہیں اب فیصلہ کیجیے کہ کسے رہنما بنایا جائے اور کسے اپنا ہمدرد سمجھا جائے۔ ایک دوسرے کو غدار قرار دینے کا معاملہ بہت سنگین ہے۔محب وطن شخص تو اپنے ملک کے خلاف کسی کی کہی گئی بات کو بھی برداشت نہیں کر سکتا۔ پھر ہمارے فوجیوں سے بڑھ کر کون محب وطن ہو سکتا ہے جو ان سے بازی لے جائے یعنی ان کے جذبہ حب الوطنی کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔
ہمارے فوجیوں نے 1948 سے لے کر 1965 اور 1971 کی جنگوں میں وطن عزیز کا دفاع کرتے ہوئے جو جانیں دی ہیں ان کی ان قربانیوں کو ہماری قوم کبھی بھی فراموش نہیں کرسکتی۔ ہمارے فوجی آج بھی ملک سے دہشت گردی کی لعنت کو مٹانے کے لیے نبرد آزما ہیں۔ ان کے روز ہی دہشت گردوں سے مڈبھیڑ کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں وہ خود جام شہادت نوش کر لیتے ہیں مگر دہشت گردوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچا دیتے ہیں، گوکہ اس وقت ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے جیسے ہمارے دشمن نے ہمارے کشمیر سے دست بردار نہ ہونے کی ہمیں سزا دینے کے طور پر ملک میں پھیلا رکھی ہے مگر فوج کا یہ پکا عزم ہے کہ وہ ملک سے ایک ایک دہشت گرد کا خاتمہ کرکے رہے گی اور کشمیر کو بھارت کے چنگل سے آزاد کرائے بغیر چین سے نہیں بیٹھے گی چاہے اسے اس کی کتنی ہی قیمت کیوں نہ ادا کرنا پڑے۔ گزشتہ دنوں ٹیپو سلطان شہید کی پیدائش کی سالگرہ منائی گئی۔
افسوس کہ پاکستان میں اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ ہم نے بلاشبہ اس مرد مجاہد کی بہادری سے متاثر ہو کر اپنے ایک بحری جنگی جہاز کا نام ''ٹیپو'' رکھا ہے اور ہماری کئی قومی نظموں میں بھی اس بہادر سپوت کو خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ اس شخص کی بہادری کے آج بھی انگریز قائل ہیں۔
ٹیپو سلطان سے غداری کرنے والوں میں گوکہ میر صادق کا نام ایک ضرب المثال بن گیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ٹیپو سلطان سے غداری کرنے والوں میں ان کا ایک اہم وزیر جس کا نام پورنیا تھا بھی شامل تھا اس کے علاوہ سراج الدولہ سے غداری کرنے والوں میں اس کے سسر میر جعفر کے کردار کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
بھارت میں ٹیپو سلطان پر ایک طویل سیریل ایک ٹی وی چینل پر دکھائی جاتی رہی ہے۔ یہ بہت کامیاب رہی اس میں ٹیپو سلطان کا کردار سنجے خان نے ادا کیا تھا اور وہی اس سیریل کے خالق اور فنانسر بھی تھے۔ اس سیریل میں ٹیپو سلطان کی ہی نہیں ان کے بزرگوں کے بارے میں تفصیل سے روشنی ڈالی گئی تھی۔
ٹیپو سلطان نے اپنی رعایا کے لیے جس فراخ دلی کا مظاہرہ کیا تھا اس کی مثال بہت کم ہی نظر آتی ہے۔ ٹیپو کا اپنی ہندو رعایا کے ساتھ مثالی کردار رہا انھیں مسلمانوں کے برابر کے حقوق حاصل تھے انھیں کبھی کسی شکایت کا موقع نہیں دیا گیا۔ ہندو بھی ٹیپو سلطان سے اس قدر خوش تھے کہ وہ انگریزوں کے خلاف ٹیپو کی جنگ میں برابر کے شریک تھے مگر صرف غداروں کی وجہ سے میسور کی ٹیپو کی سلطنت انگریزوں کے قبضے میں چلی گئی اور پھر اس کے بعد انگریزوں کو سوائے جھانسی کی رانی کے کسی سے بھی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
ٹیپو سلطان کے ہندو نواز رویے کو تاریخ میں تفصیل سے جگہ دی گئی ہے۔ جنوبی ہند کے ہندو اور مسلمان سب ٹیپو سلطان کے معتقد ہیں وہ ہر سال ان کا دن مناتے ہیں اس دن میسور میں ایک بہت بڑا جلوس نکالا جاتا ہے جس میں ہندو مسلمان جوق در جوق شرکت کرتے ہیں اور ٹیپو سلطان کی بڑی بڑی تصاویر لے کر جلوس کے ساتھ چلتے ہیں۔
بدقسمتی سے جب سے بی جے پی کی حکومتیں جنوبی ریاستوں میں بنی ہیں انھوں نے اس جلوس کے نکالنے پر کافی رکاوٹیں کھڑی کردی ہیں چونکہ وہ ہندو مسلم اتحاد کے خلاف ہیں۔ وہ ٹیپو سلطان کو ہندوؤں کا دشمن ہونے کا پروپیگنڈا کر رہی ہے مگر وہاں کے ہندو اس پروپیگنڈے سے ذرا متاثر نظر نہیں آ رہے ہیں اور برابر ہر سال ٹیپو سلطان کا یوم شہادت مناتے ہیں اور جلسے جلوس کا اہتمام کرتے ہیں۔