کھیل تعصب پسندی کا
ورلڈ کپ کی ناکامی کے دھوئیں کو اب مودی سرکار بھارت میں حلال فوڈز کی پابندی سے منانے پر جتی ہے
آسٹریلیا ورلڈ کپ جیت گیا، یہ ایک صاف واضح شہادت ہے کہ لوگ دنیاوی تکبر میں مبتلا ہوکر نہ جانے کن کن سازشوں کو ترتیب دیتے ہیں، الجھاتے ہیں۔ درحقیقت یہ مکڑی کے جالے سے بھی کمزور ثابت ہوتا ہے۔
بھارت نے بہت اچھا کھیلا، بھارت نے اپنی کھیلی ہوئی پچ پرکھلایا، بھارت نے پاکستان کو نمبر سے گرانے کی شاطرانہ چال چلی۔ اس طرح کی بہت سی باتیں ابھرتی رہیں لیکن ورلڈ کپ کی میزبانی اور ڈھیروں ڈھیر آمدنی حاصل کرنے کے خواہاں بھارت کی نظریں خزانے کے ساتھ اس کی چابی پر مرکوز تھیں لیکن یہ کسے خبر تھی کہ جس اسٹیڈیم کا نام سردار پٹیل اسٹیڈیم سے بدل کر نریندرا مودی اسٹیڈیم احمد آباد رکھ دیا گیا تھا، گویا مودی جی کی پکی کامیابی کی امید تھی اور پھر اس بڑی امید کے پرخچے ہی اڑ گئے۔
آسٹریلیا نے دنیا کے اس سب سے بڑے اسٹیڈیم پر اپنی جیت کا مزہ چکھا بلکہ لوٹ ہی لیا، سوا لاکھ سے زائد تماشائیوں کے چہروں پر خوشیوں کا رنگ، نریندر مودی کی شطرنج کی بازی کی طرح سجی جیت کی ترنگ اور بے چارے ان منتظمین کی خواہشات کا رنگ بھی جو انھوں نے بڑی محنتوں سے پچزکی پیوند کاری، پچ کاری، استر کاری وغیرہ پر صرف کی تھی۔ نہ جانے کتنی تحقیقات اس مٹی پر کی گئی تھیں جن پر ان کی ناپسندیدہ ٹیموں کو میچ کھیلنا تھا۔
جب اسٹیڈیم کا نام بدلا گیا تھا، تب ہی ناقدین نے اس پر سخت تنقید کی تھی کیوں کہ بھارت کی بکھری ریاستوں کو بساط کی چال پر سجانے کی انتھک کوششیں انھی سردار جی کی مرہون منت تھا۔ یہ وہی سردار پٹیل ہیں جنھوں نے بڑی مسلم آبادی والی ریاست حیدرآباد کو بھی ہندوستانی حکومت کے زیر اثر لینے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا تھا اور والی حیدر آباد کے انکار پر زبردستی ہندوستانی فوج کی چڑھائی کی گئی تھی۔
مودی جی جو اس دور کے سب سے بڑے شاطر پہلوان سمجھے جاتے ہیں لیکن یہ بھول بیٹھے تھے کہ ایک بھائی کو دوسرے بھائی سے لڑوانا ان کے دلوں میں فتنے فساد کے بیج اگانا ہی نہیں بلکہ انھیں پروان چڑھانے کے لیے پہلے سے بھی خوب پیسہ خرچ کرنا صرف شیطانی چالوں کا حصہ ہی ہوتی ہیں، اور جو چال قدرت کی جانب سے چلتی ہے اس کے نتائج کے بارے میں ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔
اسٹیڈیم کا نام 2021 میں بدل دیا گیا تھا گویا یہ طے تھا اسی سن میں کہ ورلڈ کپ بھارت کو جیتنا ہے یہ ان کا اپنا خیال تھا اور جیت کی خوشی جسے دنیا بھر میں دیکھا جانا تھا دراصل نریندرا مودی کی الیکشن میں مفت کمپین کا حصہ ہی بن جانا تھا۔ کون جیتتا ہے کون ہارتا ہے لیکن جب قوم اپنے محسنوں کو بھول جاتی ہے تو اسے خسارہ ہی ملتا ہے اور ایسا ہی فی الحال مودی جی کے ساتھ ہوا کیوں کہ انھوں نے اور ان کے حواریوں نے ورلڈ کپ کرکٹ کے اس ٹورنامنٹ میں جس زہر آلود مکھن کا استعمال کیا تھا اس سے کون کون شکار ہوا۔
ہم اس تمام صورتحال میں ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ پاکستان کی کارکردگی تسلی بخش رہی تھی۔ پاکستان میں آپ جو چاہیں کر سکتے ہیں لیکن ملک سے باہر آپ اس ملک کے سفیر بن کر جاتے ہیں، خاص کر سرکاری حیثیت میں تو یہ ذمے داری کچھ اور بھی بڑھ جاتی ہے مگر معذرت کے ساتھ ہمارے کھلاڑیوں نے جس غیر ذمے دارنہ رویے کا مظاہرہ کیا، جیسے ورلڈ کپ کی وہ ساری عیاشیاں جو انھیں عزت سمیت بھارت میں مل رہی تھیں گویا اس کے بعد تو جیسے دنیا ہی ختم تھی لیکن بقول قمر جمیل کہ:
آگئے ہیں جیسے خنجر خونیں کے ساتھ گل
ہر آستیں میں سانپ شریک ہمارے
اس میں ان ذمے داران کا بھی عمل دخل ہے جنھوں نے کھلاڑیوں کی نفسیاتی تربیت پر توجہ نہ دی۔ یہ لڑکے اپنے گھروں سے دن رات کا سکون رد کر کے اپنے کھیل کے جنون میں نکلے تھے، بلاشبہ ان کی صلاحیتوں سے انکار نہیں ہے لیکن ان کی تربیت جیسے ایک ٹیچر اپنے بگڑے بچے کی کرتی ہے۔
اشد ضروری تھی لیکن شاید اس پر توجہ ہی نہ دی گئی۔ ابھی اس میں تعصب، اقربا پروری اور کرپشن کے پہلو کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے کہ وہ ایک طویل اور توجہ طلب باب ہے جسے سالوں سے زور لگا کر بند ہی کیا جا رہا ہے۔ورلڈ کپ کے فائنل میں بھارت کی ناکامی دراصل نریندر مودی کی ناکامی ہی تھی جس پر انھوں نے کسی چھوٹے بگڑے بچے کی مانند ورلڈ کپ کی اختتامی تقریب میں ردعمل دکھایا، اسے پوری دنیا نے دیکھا۔
یہاں تک کہ آسٹریلیا کے سابق کپتان رکی پونٹنگ نے بھی کہہ دیا کہ بھارت اپنے بچھائے جال میں پھنس گیا، بھارت نے فائنل کے لیے جو وکٹ تیار کی تھی اس پر ہی الٹی پڑگئی۔کچھ اسی طرح کی وکٹ اسرائیل نے فلسطین کے لیے تیار تو کی تھی لیکن ابھی تک بڑے بڑے ہاتھیوں کے ساتھ کے باوجود دنیا بھر میں ان کو چلو بھر پانی میں ڈوبنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اس غم کی داستان پھر سہی پر دعائیں ہیں کہ کم نہیں ہوتیں۔
ابھی بھارت کی بات ہو رہی ہے تو دیکھا گیا کہ ورلڈ کپ کی ناکامی کے دھوئیں کو اب مودی سرکار بھارت میں حلال فوڈز کی پابندی سے منانے پر جتی ہے۔ یہ حلال فوڈز جو خالصتاً مسلمان استعمال کرتے ہیں بھارت سے (ایکسپورٹ) درآمد تو ہو سکتی ہیں پر ان کی فروخت پر اچانک ہی پابندی عائد کردی گئی۔ بڑے بڑے اسٹورز اس پابندی کی نذر ہوگئے ہیں۔ ایک ایک شیلف کی سخت چیکنگ کی جا رہی ہے، گویا بھارت میں مسلمانوں کے لیے حلال اشیا کی فروخت کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے۔
بھارت نے بہت اچھا کھیلا، بھارت نے اپنی کھیلی ہوئی پچ پرکھلایا، بھارت نے پاکستان کو نمبر سے گرانے کی شاطرانہ چال چلی۔ اس طرح کی بہت سی باتیں ابھرتی رہیں لیکن ورلڈ کپ کی میزبانی اور ڈھیروں ڈھیر آمدنی حاصل کرنے کے خواہاں بھارت کی نظریں خزانے کے ساتھ اس کی چابی پر مرکوز تھیں لیکن یہ کسے خبر تھی کہ جس اسٹیڈیم کا نام سردار پٹیل اسٹیڈیم سے بدل کر نریندرا مودی اسٹیڈیم احمد آباد رکھ دیا گیا تھا، گویا مودی جی کی پکی کامیابی کی امید تھی اور پھر اس بڑی امید کے پرخچے ہی اڑ گئے۔
آسٹریلیا نے دنیا کے اس سب سے بڑے اسٹیڈیم پر اپنی جیت کا مزہ چکھا بلکہ لوٹ ہی لیا، سوا لاکھ سے زائد تماشائیوں کے چہروں پر خوشیوں کا رنگ، نریندر مودی کی شطرنج کی بازی کی طرح سجی جیت کی ترنگ اور بے چارے ان منتظمین کی خواہشات کا رنگ بھی جو انھوں نے بڑی محنتوں سے پچزکی پیوند کاری، پچ کاری، استر کاری وغیرہ پر صرف کی تھی۔ نہ جانے کتنی تحقیقات اس مٹی پر کی گئی تھیں جن پر ان کی ناپسندیدہ ٹیموں کو میچ کھیلنا تھا۔
جب اسٹیڈیم کا نام بدلا گیا تھا، تب ہی ناقدین نے اس پر سخت تنقید کی تھی کیوں کہ بھارت کی بکھری ریاستوں کو بساط کی چال پر سجانے کی انتھک کوششیں انھی سردار جی کی مرہون منت تھا۔ یہ وہی سردار پٹیل ہیں جنھوں نے بڑی مسلم آبادی والی ریاست حیدرآباد کو بھی ہندوستانی حکومت کے زیر اثر لینے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا تھا اور والی حیدر آباد کے انکار پر زبردستی ہندوستانی فوج کی چڑھائی کی گئی تھی۔
مودی جی جو اس دور کے سب سے بڑے شاطر پہلوان سمجھے جاتے ہیں لیکن یہ بھول بیٹھے تھے کہ ایک بھائی کو دوسرے بھائی سے لڑوانا ان کے دلوں میں فتنے فساد کے بیج اگانا ہی نہیں بلکہ انھیں پروان چڑھانے کے لیے پہلے سے بھی خوب پیسہ خرچ کرنا صرف شیطانی چالوں کا حصہ ہی ہوتی ہیں، اور جو چال قدرت کی جانب سے چلتی ہے اس کے نتائج کے بارے میں ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔
اسٹیڈیم کا نام 2021 میں بدل دیا گیا تھا گویا یہ طے تھا اسی سن میں کہ ورلڈ کپ بھارت کو جیتنا ہے یہ ان کا اپنا خیال تھا اور جیت کی خوشی جسے دنیا بھر میں دیکھا جانا تھا دراصل نریندرا مودی کی الیکشن میں مفت کمپین کا حصہ ہی بن جانا تھا۔ کون جیتتا ہے کون ہارتا ہے لیکن جب قوم اپنے محسنوں کو بھول جاتی ہے تو اسے خسارہ ہی ملتا ہے اور ایسا ہی فی الحال مودی جی کے ساتھ ہوا کیوں کہ انھوں نے اور ان کے حواریوں نے ورلڈ کپ کرکٹ کے اس ٹورنامنٹ میں جس زہر آلود مکھن کا استعمال کیا تھا اس سے کون کون شکار ہوا۔
ہم اس تمام صورتحال میں ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ پاکستان کی کارکردگی تسلی بخش رہی تھی۔ پاکستان میں آپ جو چاہیں کر سکتے ہیں لیکن ملک سے باہر آپ اس ملک کے سفیر بن کر جاتے ہیں، خاص کر سرکاری حیثیت میں تو یہ ذمے داری کچھ اور بھی بڑھ جاتی ہے مگر معذرت کے ساتھ ہمارے کھلاڑیوں نے جس غیر ذمے دارنہ رویے کا مظاہرہ کیا، جیسے ورلڈ کپ کی وہ ساری عیاشیاں جو انھیں عزت سمیت بھارت میں مل رہی تھیں گویا اس کے بعد تو جیسے دنیا ہی ختم تھی لیکن بقول قمر جمیل کہ:
آگئے ہیں جیسے خنجر خونیں کے ساتھ گل
ہر آستیں میں سانپ شریک ہمارے
اس میں ان ذمے داران کا بھی عمل دخل ہے جنھوں نے کھلاڑیوں کی نفسیاتی تربیت پر توجہ نہ دی۔ یہ لڑکے اپنے گھروں سے دن رات کا سکون رد کر کے اپنے کھیل کے جنون میں نکلے تھے، بلاشبہ ان کی صلاحیتوں سے انکار نہیں ہے لیکن ان کی تربیت جیسے ایک ٹیچر اپنے بگڑے بچے کی کرتی ہے۔
اشد ضروری تھی لیکن شاید اس پر توجہ ہی نہ دی گئی۔ ابھی اس میں تعصب، اقربا پروری اور کرپشن کے پہلو کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے کہ وہ ایک طویل اور توجہ طلب باب ہے جسے سالوں سے زور لگا کر بند ہی کیا جا رہا ہے۔ورلڈ کپ کے فائنل میں بھارت کی ناکامی دراصل نریندر مودی کی ناکامی ہی تھی جس پر انھوں نے کسی چھوٹے بگڑے بچے کی مانند ورلڈ کپ کی اختتامی تقریب میں ردعمل دکھایا، اسے پوری دنیا نے دیکھا۔
یہاں تک کہ آسٹریلیا کے سابق کپتان رکی پونٹنگ نے بھی کہہ دیا کہ بھارت اپنے بچھائے جال میں پھنس گیا، بھارت نے فائنل کے لیے جو وکٹ تیار کی تھی اس پر ہی الٹی پڑگئی۔کچھ اسی طرح کی وکٹ اسرائیل نے فلسطین کے لیے تیار تو کی تھی لیکن ابھی تک بڑے بڑے ہاتھیوں کے ساتھ کے باوجود دنیا بھر میں ان کو چلو بھر پانی میں ڈوبنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اس غم کی داستان پھر سہی پر دعائیں ہیں کہ کم نہیں ہوتیں۔
ابھی بھارت کی بات ہو رہی ہے تو دیکھا گیا کہ ورلڈ کپ کی ناکامی کے دھوئیں کو اب مودی سرکار بھارت میں حلال فوڈز کی پابندی سے منانے پر جتی ہے۔ یہ حلال فوڈز جو خالصتاً مسلمان استعمال کرتے ہیں بھارت سے (ایکسپورٹ) درآمد تو ہو سکتی ہیں پر ان کی فروخت پر اچانک ہی پابندی عائد کردی گئی۔ بڑے بڑے اسٹورز اس پابندی کی نذر ہوگئے ہیں۔ ایک ایک شیلف کی سخت چیکنگ کی جا رہی ہے، گویا بھارت میں مسلمانوں کے لیے حلال اشیا کی فروخت کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے۔