نسل کشی کی غیر انسانی روایتیں
رواداری، ہمدردی اور تنوع کے احترام کی ثقافت کو فروغ دینے سے ان تعصبات کو ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے
دنیا میں امن کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹیں موروثیت، تعصب، ذہنی تفریق اور نسلی برتری کا احساس ہے، جس کی وجہ سے دنیا جنگ کے جہنم میں جھونک دی جاتی ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودیوں کی نسل کشی کی گئی اور نازیوں نے جو مظالم ڈھائے، وہ جو آج بھی ایک ہولناک دورکی یاد دلاتے ہیں۔ نسل کشی، ایک اصطلاح جو رافیل لیمکن نے 1944 میں ایجادکی تھی، اس سے مراد کسی قومی، نسلی یا مذہبی گروہ کا جان بوجھ کر اور منظم طریقے سے قتل عام کرنا ہے۔ یہ گھناؤنا جرم انسانیت کے سب سے تاریک پہلوکی نمایندگی کرتا ہے۔
تاریخ میں نسل کشی کی کئی مثالیں ملتی ہیں، جس میں دوسری جنگ عظیم کے دوران ہولو کاسٹ کے دوران، یہودیوں پر غیر انسانی مظالم ڈھائے گئے۔ ایڈولف ہٹلرکی نازی حکومت نے ساٹھ لاکھ یہودیوں کو نشانہ بنایا۔ یہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا، یہ ہدف بنائے گئے گروپ کی غیر انسانی طور پر استحصال کی صورت ہے، جس میں منظم طریقے سے قتل عام تک کا پروپیگنڈا اس عمل میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے، کیونکہ یہ عمل نفرت کو ہوا دیتا ہے اور جس میں ایک مخصوص گروہ کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
بین الاقوامی طور پر اس مسئلے کو قانونی طریقہ کار کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ خاص طور پر نسل کشی کے گھناؤنے جرم کی روک تھام اور سزا سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن کا انعقاد 1948 میں ہوا تھا۔ یہ کنونشن نسل کشی کو بین الاقوامی قانون کے تحت ایک جرم قرار دیتا ہے اور دستخط کرنے والے ممالک کو پابند کرتا ہے کہ اس طرح کے اعمال کی روک تھام کی جائے اور ان قوانین کی پامالی کی صورت سزا دی جائے۔
ان کوششوں کے باوجود،کنونشن کے آغاز سے ہی نسل کشی کا سلسلہ جاری رہا جیسا کہ روانڈا میں 1994 کے دوران، تقریباً 800,000 توتسیوں کو اکثریت سے ذبح کیا گیا تھا۔ بین الاقوامی برادری نسل کشی کو روکنے میں ناکام رہی۔ تاریخی تناظر میں نسل کشی کی دیگر مثالیں موجود ہیں، جن میں 1915 میں آرمینیائی باشندوں کی نسل کشی کے شواہد ملتے ہیں، یوکرین میں 1932 کے دوران اسٹالن نے لوگوں کو بھوکا رکھنے کی حکمت عملی ترتیب دی، جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ اپنی جان گنوا بیٹھے۔
کمبوڈیا میں ماؤزے تنگ کی جانب سے 1975 سے 1979 تک کمیونسٹ نظریے کے حوالے سے زرعی اصلاحات نافذ کرنے کی کوشش میں، دو ملین لوگ مارے گئے۔ نفرت، تعصب اور نسل کشی کے محرکات پر نفسیات نے کافی کام کیا ہے۔
پروفیسر جوہا نارے والہارٹ کے مطابق '' ہر نسل کشی میں غیر انسانی حیثیت مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ ہم ہولوکاسٹ، کمبوڈین نسل کشی، روانڈا کی نسل کشی اور بہت سے دوسرے واقعات سے جانتے ہیں کہ متاثرہ گروہوں پرکیڑے،کاکروچ، چوہے یا سانپ کا لیبل لگایا گیا تھا۔ تشدد کے عمل کوکم نفرت انگیز اورکم اخلاقی طور پر قابل مذمت بنانے کے لیے اس کی دلیل دی جاتی ہے۔ غیر انسانی اخلاقی طور پر انحطاط کے طریقہ کار میں سے ایک ہے، جس کے ذریعے انسان دوسروں کو نقصان پہنچانے کے باوجود اپنی یا اپنے گروپ کی مثبت شبیہ کو برقرار رکھنے کا انتظام کرتا ہے۔''
اس دور جدید میں جب دنیا کی اقوام انسانی حقوق کی بالادستی و یکجہتی کی بات کرتی دکھائی دیتی ہیں، نسل کشی کا موجودہ سلسلہ دنیا کے ضمیر کو آئینہ دکھانے کے مترادف ہے۔ موجودہ دور میں فلسطینیوں کی نسل کشی جاری ہے، جس میں انھیں بھوک، پیاس، تاریکی، خوف بمباری اور تشدد کے ذریعے قتل کیا جا رہا ہے۔ چودہ ہزار سے زائد اموات ہوچکی ہیں، جس میں پچاس فیصد بچے شامل ہیں۔
ایک ایسا المیہ جنم لے چکا ہے، جس نے دنیا کے امن پسند لوگوں کو سڑکوں پر آنے پر مجبورکر دیا ہے مگر اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی پر بدستور قائم ہے۔ فلسطین پر ظلم و بربریت کے حملوں نے دنیا بھر میں ردعمل دیکھا جارہا ہے۔ فلسطین میں جنگ بندی کے حوالے سے دنیا بھرکے لوگ اقوام متحدہ اور سیکیورٹی کونسل کی غیر موثرکارکردگی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
ماہرین اقوام متحدہ کے مطابق7 اکتوبر کے بعد خاص طور پر غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی جانب سے کی گئی سنگین خلاف ورزیاں نسل کشی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ انھوں نے نسل کشی کے بڑھتے ہوئے اشتعال، فلسطینی عوام کو تباہ کرنے کے واضح عزائم، غزہ اور باقی مقبوضہ فلسطینی سرزمین میں '' دوسرے نقبہ '' کے حوالے سے بلند آواز مطالبات پیش کرنے کع ساتھ طاقتور ہتھیاروں کے استعمال کے ثبوت پیش کیے، جس کے نتیجے میں کئی ہلاکتیں ہوئیں اور زندگی کو برقرار رکھنے والے بنیادی ڈھانچے کی تباہی ہوئی۔
'' ہم میں سے بہت سے لوگوں نے پہلے ہی غزہ میں نسل کشی کے خطرے کے بارے میں خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی'' ماہرین نے کہا۔ '' ہم حکومتوں کی طرف سے ہماری آواز پر عمل کرنے اور فوری جنگ بندی کے حصول میں ناکامی سے بہت پریشان ہیں۔''
غزہ کی محصور آبادی کے خلاف اسرائیل کی جنگی حکمت عملی پر حکومتوں کی حمایت اور نسل کشی کو روکنے کے لیے بین الاقوامی نظام کی ناکامی پر بھی گہری تشویش پائی جاتی ہے۔
الجزیرہ کے مطابق، فلسطینی حقوق کے گروپوں نے بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) میں ایک مقدمہ دائرکیا ہے، جس میں اس ادارے پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف '' نسل کشی'' کی تحقیقات کرے اور اسرائیلی رہنماؤں کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں الحق، المیزان اور فلسطینی سینٹر فار ہیومن رائٹس کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے میں درج ہے کہ '' غزہ کی پٹی کے اندرگنجان آبادی والے شہری علاقوں پر اسرائیلی فضائی حملوں کی مسلسل بمباری پر فوری توجہ دینے کا مطالبہ کیا گیا، جس میں غزہ کے محکمہ صحت کے حکام کے مطابق، 10,500 سے زیادہ فلسطینیوں کو ہلاک کیا گیا، جن میں سے تقریباً نصف بچے تھے۔''
بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ انھیں فلسطینی علاقوں کی صورت حال کی تحقیقات کے لیے پانچ ممالک کی طرف سے مشترکہ درخواست موصول ہوئی ہے۔ مستغیث کریم کاہن نے کہا کہ درخواست جنوبی افریقہ، بنگلہ دیش، بولیویا، کوموروس اور جبوتی سے آئی ہے۔ جنوبی افریقہ نے کہا کہ یہ درخواست '' اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کی گئی ہے کہ آئی سی سی فلسطین کی سنگین صورتحال پر فوری توجہ دے۔''
نسل کشی سے نمٹنے میں تعلیم بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ رواداری، ہمدردی اور تنوع کے احترام کی ثقافت کو فروغ دینے سے ان تعصبات کو ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے جو اس طرح کے مظالم کو ہوا دیتے ہیں۔ ماضی کی نسل کشی کے سبق پڑھانے سے، معاشرے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کر سکتے ہیں کہ تاریخ کی ہولناکیوں کو دہرایا نہ جائے۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران یہودیوں کی نسل کشی کی گئی اور نازیوں نے جو مظالم ڈھائے، وہ جو آج بھی ایک ہولناک دورکی یاد دلاتے ہیں۔ نسل کشی، ایک اصطلاح جو رافیل لیمکن نے 1944 میں ایجادکی تھی، اس سے مراد کسی قومی، نسلی یا مذہبی گروہ کا جان بوجھ کر اور منظم طریقے سے قتل عام کرنا ہے۔ یہ گھناؤنا جرم انسانیت کے سب سے تاریک پہلوکی نمایندگی کرتا ہے۔
تاریخ میں نسل کشی کی کئی مثالیں ملتی ہیں، جس میں دوسری جنگ عظیم کے دوران ہولو کاسٹ کے دوران، یہودیوں پر غیر انسانی مظالم ڈھائے گئے۔ ایڈولف ہٹلرکی نازی حکومت نے ساٹھ لاکھ یہودیوں کو نشانہ بنایا۔ یہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا، یہ ہدف بنائے گئے گروپ کی غیر انسانی طور پر استحصال کی صورت ہے، جس میں منظم طریقے سے قتل عام تک کا پروپیگنڈا اس عمل میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے، کیونکہ یہ عمل نفرت کو ہوا دیتا ہے اور جس میں ایک مخصوص گروہ کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
بین الاقوامی طور پر اس مسئلے کو قانونی طریقہ کار کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ خاص طور پر نسل کشی کے گھناؤنے جرم کی روک تھام اور سزا سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن کا انعقاد 1948 میں ہوا تھا۔ یہ کنونشن نسل کشی کو بین الاقوامی قانون کے تحت ایک جرم قرار دیتا ہے اور دستخط کرنے والے ممالک کو پابند کرتا ہے کہ اس طرح کے اعمال کی روک تھام کی جائے اور ان قوانین کی پامالی کی صورت سزا دی جائے۔
ان کوششوں کے باوجود،کنونشن کے آغاز سے ہی نسل کشی کا سلسلہ جاری رہا جیسا کہ روانڈا میں 1994 کے دوران، تقریباً 800,000 توتسیوں کو اکثریت سے ذبح کیا گیا تھا۔ بین الاقوامی برادری نسل کشی کو روکنے میں ناکام رہی۔ تاریخی تناظر میں نسل کشی کی دیگر مثالیں موجود ہیں، جن میں 1915 میں آرمینیائی باشندوں کی نسل کشی کے شواہد ملتے ہیں، یوکرین میں 1932 کے دوران اسٹالن نے لوگوں کو بھوکا رکھنے کی حکمت عملی ترتیب دی، جس کی وجہ سے لاکھوں لوگ اپنی جان گنوا بیٹھے۔
کمبوڈیا میں ماؤزے تنگ کی جانب سے 1975 سے 1979 تک کمیونسٹ نظریے کے حوالے سے زرعی اصلاحات نافذ کرنے کی کوشش میں، دو ملین لوگ مارے گئے۔ نفرت، تعصب اور نسل کشی کے محرکات پر نفسیات نے کافی کام کیا ہے۔
پروفیسر جوہا نارے والہارٹ کے مطابق '' ہر نسل کشی میں غیر انسانی حیثیت مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ ہم ہولوکاسٹ، کمبوڈین نسل کشی، روانڈا کی نسل کشی اور بہت سے دوسرے واقعات سے جانتے ہیں کہ متاثرہ گروہوں پرکیڑے،کاکروچ، چوہے یا سانپ کا لیبل لگایا گیا تھا۔ تشدد کے عمل کوکم نفرت انگیز اورکم اخلاقی طور پر قابل مذمت بنانے کے لیے اس کی دلیل دی جاتی ہے۔ غیر انسانی اخلاقی طور پر انحطاط کے طریقہ کار میں سے ایک ہے، جس کے ذریعے انسان دوسروں کو نقصان پہنچانے کے باوجود اپنی یا اپنے گروپ کی مثبت شبیہ کو برقرار رکھنے کا انتظام کرتا ہے۔''
اس دور جدید میں جب دنیا کی اقوام انسانی حقوق کی بالادستی و یکجہتی کی بات کرتی دکھائی دیتی ہیں، نسل کشی کا موجودہ سلسلہ دنیا کے ضمیر کو آئینہ دکھانے کے مترادف ہے۔ موجودہ دور میں فلسطینیوں کی نسل کشی جاری ہے، جس میں انھیں بھوک، پیاس، تاریکی، خوف بمباری اور تشدد کے ذریعے قتل کیا جا رہا ہے۔ چودہ ہزار سے زائد اموات ہوچکی ہیں، جس میں پچاس فیصد بچے شامل ہیں۔
ایک ایسا المیہ جنم لے چکا ہے، جس نے دنیا کے امن پسند لوگوں کو سڑکوں پر آنے پر مجبورکر دیا ہے مگر اسرائیل اپنی ہٹ دھرمی پر بدستور قائم ہے۔ فلسطین پر ظلم و بربریت کے حملوں نے دنیا بھر میں ردعمل دیکھا جارہا ہے۔ فلسطین میں جنگ بندی کے حوالے سے دنیا بھرکے لوگ اقوام متحدہ اور سیکیورٹی کونسل کی غیر موثرکارکردگی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
ماہرین اقوام متحدہ کے مطابق7 اکتوبر کے بعد خاص طور پر غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی جانب سے کی گئی سنگین خلاف ورزیاں نسل کشی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ انھوں نے نسل کشی کے بڑھتے ہوئے اشتعال، فلسطینی عوام کو تباہ کرنے کے واضح عزائم، غزہ اور باقی مقبوضہ فلسطینی سرزمین میں '' دوسرے نقبہ '' کے حوالے سے بلند آواز مطالبات پیش کرنے کع ساتھ طاقتور ہتھیاروں کے استعمال کے ثبوت پیش کیے، جس کے نتیجے میں کئی ہلاکتیں ہوئیں اور زندگی کو برقرار رکھنے والے بنیادی ڈھانچے کی تباہی ہوئی۔
'' ہم میں سے بہت سے لوگوں نے پہلے ہی غزہ میں نسل کشی کے خطرے کے بارے میں خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی'' ماہرین نے کہا۔ '' ہم حکومتوں کی طرف سے ہماری آواز پر عمل کرنے اور فوری جنگ بندی کے حصول میں ناکامی سے بہت پریشان ہیں۔''
غزہ کی محصور آبادی کے خلاف اسرائیل کی جنگی حکمت عملی پر حکومتوں کی حمایت اور نسل کشی کو روکنے کے لیے بین الاقوامی نظام کی ناکامی پر بھی گہری تشویش پائی جاتی ہے۔
الجزیرہ کے مطابق، فلسطینی حقوق کے گروپوں نے بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) میں ایک مقدمہ دائرکیا ہے، جس میں اس ادارے پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف '' نسل کشی'' کی تحقیقات کرے اور اسرائیلی رہنماؤں کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں الحق، المیزان اور فلسطینی سینٹر فار ہیومن رائٹس کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے میں درج ہے کہ '' غزہ کی پٹی کے اندرگنجان آبادی والے شہری علاقوں پر اسرائیلی فضائی حملوں کی مسلسل بمباری پر فوری توجہ دینے کا مطالبہ کیا گیا، جس میں غزہ کے محکمہ صحت کے حکام کے مطابق، 10,500 سے زیادہ فلسطینیوں کو ہلاک کیا گیا، جن میں سے تقریباً نصف بچے تھے۔''
بین الاقوامی فوجداری عدالت کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ انھیں فلسطینی علاقوں کی صورت حال کی تحقیقات کے لیے پانچ ممالک کی طرف سے مشترکہ درخواست موصول ہوئی ہے۔ مستغیث کریم کاہن نے کہا کہ درخواست جنوبی افریقہ، بنگلہ دیش، بولیویا، کوموروس اور جبوتی سے آئی ہے۔ جنوبی افریقہ نے کہا کہ یہ درخواست '' اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کی گئی ہے کہ آئی سی سی فلسطین کی سنگین صورتحال پر فوری توجہ دے۔''
نسل کشی سے نمٹنے میں تعلیم بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ رواداری، ہمدردی اور تنوع کے احترام کی ثقافت کو فروغ دینے سے ان تعصبات کو ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے جو اس طرح کے مظالم کو ہوا دیتے ہیں۔ ماضی کی نسل کشی کے سبق پڑھانے سے، معاشرے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کر سکتے ہیں کہ تاریخ کی ہولناکیوں کو دہرایا نہ جائے۔