انتخابات سے قبل روایتی جوڑ توڑ
الیکشن کمیشن نے فروری میں انتخابات کے حوالے سے اپنی تیاریاں بھی شروع کردی ہیں
فروری 2024 میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں، سپریم کورٹ کی ہدایت پر الیکشن کمیشن اور صدر مملکت عارف علوی متفقہ طور پر انتخابات کی تاریخ دے چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے فروری میں انتخابات کے حوالے سے اپنی تیاریاں بھی شروع کردی ہیں۔
پی ٹی آئی چیئرمین جیل میں ہیں اورکئی مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ لگ یہی رہا ہے کہ انتخابات سے قبل انھیں کسی مقدمے میں سزا سنا دی جائے گی۔ جن سیاسی شخصیات نے تحریک انصاف سے علیحدگی اختیارکی اور استحکام پاکستان پارٹی بنائی، ابھی تک وہ عوام میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
استحکام پاکستان کے امیدواروں کے لیے مشکل یہ بھی ہے انھیں ایک جانب اپنی پرانی جماعت کے ناراض ووٹرکا سامنا کرنا ہوگا تو دوسری طرف مسلم لیگ ن کے امیدوار مد مقابل ہوں گے۔ شاید اس صورتحال میں استحکام پاکستان پنجاب میں بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکے گی، اگر انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی کے چیئرمین پر پابندی نہیں لگائی گئی تو پھر پنجاب میں اس بار بھی مقابلہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان ہی ہوگا۔
یہ کیسا حسن اتفاق ہے کہ 2018 میں چیئرمین پی ٹی آئی کو وزیر اعظم بنانے کے لیے گیم پلان بنائے جا رہے تھے۔ مسلم لیگ کو شکست دینے کے لیے سر توڑکوششیں کی جا رہی تھی، انتخابی نتائج تبدیل کیے جارہے تھے۔ آج مسلم لیگ کو کامیاب کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ نواز شریف کے مقدمات کو ختم کرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ وہ ہی نواز شریف ہیں جنھیں سزا دلانے کے لیے کھیل کھیلا گیا تھا۔
پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن پر الزام لگا رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو ہٹانے میں مدد کر رہی ہے۔ نواز شریف کو مقدمات میں ریلف مل رہا ہے۔ بلاول بھٹو نے الزام لگایا ہے کہ '' اپنی جماعت پر بھروسہ کرو،اپنی جماعت کے ذریعے سیاست کرو، کسی دوسرے ادارے کو نہ کہیں کہ آپ میرے لیے سیاست کریں، آپ میرے لیے جگہ بنائیں۔
بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) اگرکل بری تھی تو آج بھی بری ہوگی۔'' پیپلز پارٹی کو اس بات کا اندازہ ہوگیا ہے کہ پنجاب کے بعد اب بلوچستان بھی اس کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ نواز شریف کے دورہ بلوچستان کے موقع پر جس طرح بلوچستان کی بڑی جماعتوں کے رہنماؤں نے نواز شریف کی قیادت پر بھروسہ کرتے ہوئے مسلم لیگ میں شمولیت اختیارکی ہے یا ان کی شمولیت کرائی گئی ہے۔
شمولیت کا یہ سلسلہ سندھ اور خیبر پختون خوا تک پھیل گیا ہے۔ اس صورتحال کے بعد پیپلز پارٹی کو اپنے مستقبل کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں مل کر انتخابات لڑنے کی حکمت عملی بنا رہی ہیں جب کہ پیپلز پارٹی انفرادی طور پر انتخابات میں حصہ لینے پر مجبور ہوگی، اس کے مقابلے میں پی ڈی ایم کے متفقہ امیدوار ہوں گے۔
پیپلز پارٹی کے بیانات سے لگ یہ رہا ہے کہ انھوں نے پنجاب اور بلوچستان میں انتخابات سے قبل ہی شکست قبول کرلی ہے۔ اب وہ اپنے سیاسی گڑھ کو بچانے کی کوششیں کر رہی ہیں جہا ں وہ بلا شرکت غیرے پندرہ سال سے حکمران رہے ہیں اور آج بھی سندھ میں ان ہی کا سیٹ اپ موجود ہے۔ چاہے وہ ڈپٹی کمشنر ہوں، بیوروکریسی ہو یا سندھ حکومت کے محکمے۔ اس ہی سیٹ اپ کی بنیاد پر وہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔
2016 سے پہلے سندھ کے بڑے شہروں میں متحدہ قومی موومنٹ کا راج ہوا کرتا تھا۔ ایم کیو ایم کراچی اور حیدرآباد کے قومی اور صوبائی کے انتخابات میں متواترکامیابی حاصل کر رہی تھی، کوئی دوسری جماعت اس کے مد مقابل بھی نہیں آتی تھی، مگر اب وہ ایم کیو ایم نہیں رہی۔ اپنے قائد، اپنے نظریہ اور اپنے تنظیمی ڈھانچے میں تبدیلی کے بعد یہ ایک نئی ایم کیو ایم ہے۔
2018 کے انتخابات میں ایم کیو ایم اور پاک سر زمین پارٹی نے الگ الگ حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ اس الیکشن میں ایم کیو ایم بامشکل قومی اسمبلی کی 6 نشستیں حاصل کرسکی تھی۔ اُس وقت پی ٹی آئی کو جتوانے کے لیے کراچی کی سیٹیں ان کی گود میں ڈال دی گئی تھی اور آج پی ٹی آئی کو شکست دینے کے لیے یہ سیٹیں ایم کیو ایم کو دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
ایم کیو ایم کا دعویٰ ہے کہ 2024 کے انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کی کم از کم 15 اور صوبائی اسمبلی کی35 نشستیں حاصل کر لے گی۔ ایم کیو ایم نے اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے پی ڈی ایم کی جماعتوں سے اتحاد کیا ہے۔ اس حوالے سے ایم کیو ایم نے لاہور میں نواز شریف سے ملاقات بھی کی ہے۔ باخبر ذرایع کہتے ہیں کہ انتخابات سے قبل ایم کیو ایم اور پی ایم ایل ن کا ملاپ بھی کسی کی خواہش پر ہی ہوا ہے۔
اندرون سندھ میں آج بھی پیپلز پارٹی کی گرفت کافی مضبوط ہے۔ کراچی اور حیدرآباد میں اپنے میئر لانے کے بعد پیپلز پارٹی یہ دعویٰ کررہی ہے کہ کراچی سے بھی بڑی کامیابی حاصل کر لے گی۔
کراچی سے قومی و صوبائی اسمبلی میں کامیابی کے لیے پیپلزپارٹی نے گڈاپ، کیماڑی، بن قاسم، ملیر اور لیاری کی حلقہ بندیوں میں تبدیلیاں کرکے یہاں سے اپنی کامیابی کو یقینی بنا لیا ہے، جب کہ پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر عاصم اور مسرور احسن ڈسٹرکٹ سینٹرل میں کافی عرصے سے قدم جمائے ہوئے ہیں لیکن حال ہی میں ایم کیو ایم کے چند اہم رہنماؤں نے ایم کیو ایم کو خیرآباد کہتے ہوئے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیارکی ہے۔ جس کے بعد ڈسٹرکٹ سینٹرل میں صورت حال کافی دل چسپ ہوگئی ہے۔
خواجہ سہیل اور مزمل قریشی، ممبر قومی اسمبلی رہے ہیں جب کہ وسیم قریشی تین بار صوبائی اسمبلی کے رکن بنے۔ بڑی تعداد میں ایم کیو ایم کے کارکنوں اور ذمے داروں نے بھی پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے۔ ایم کیو ایم نے اپنے ممبر اسمبلی اور کارکنوں کی پیپلز پارٹی میں شمولیت پر جہاں انھیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ وہاں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مقامی لوگوں نے پارٹی چھوڑنے والوں کے گھروں پر لوٹے لٹکا دیے ہیں۔
جواب میں سعید غنی کی سربراہی میں ایک پریس کانفرنس بھی ہوئی ہے جس میں پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے ایم کیو ایم کے سابقہ عہدے داران اور ممبر قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹر بھی شامل تھے۔ لگ یہ رہا ہے کہ جیسے جیسے انتخابات قریب آئیں گے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان لفظی جنگ میں مزید اضافہ ہوگا۔
ایم کیو ایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کے دھڑوں کے انضمام کے بعد پہلی بار عام انتخابات میں حصہ لے گی۔ ان انتخابات میں کتنی کامیابی حاصل کرتی ہے اس کا دارومدار موجودہ ایم کیو ایم کے '' تین بڑوں'' کے فیصلوں پر ہوگا کہ وہ پارٹی ٹکٹ کس اصول، معیار اور کارکردگی کی بنیاد پر تقسیم کرتے ہیں۔
کلفٹن، صدر، جمشید ٹاؤن، پی ای ایس ایچ سوسائٹی،گلشن اقبال اور گلستان جوہر کی نشستوں پرکانٹے کا مقابل ہوگا لہٰذا ایم کیو ایم کا ٹکٹ حاصل کرنیوالوں کی خواہش ہے کہ انھیں لیاقت آباد، کورنگی، لانڈھی، شاہ فیصل، اورنگی ٹاؤن کا ٹکٹ مل جائے۔