سیاست الزامات اور خدشات کے سائے

روائتی اور فرسودہ خیالات و نظریات اور ادارہ جاتی نظام نہیں چل سکے گا

salmanabidpk@gmail.com

قومی سیاست اپنے حقیقی کردار کے بجائے الزامات، کردار کشی، غیر ضروری، غیر سنجیدہ معاملات پر بیان بازی کے بیانیہ پر کھڑی ہے۔

بظاہر ایسے لگتا ہے ہم مسائل کا حل نہیں بلکہ شعوری یا لاشعوری طور پر بگاڑ پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔اس بات کا کسی فریق کو احساس نہیں۔ ان حالات میں سنجیدہ اور فہم فراست پر مبنی سیاست کیسے غالب ہوگی؟ جب غیر ذمے دارانہ سیاست کا غلبہ ہوگا تو نتیجہ بھی انتشار کی صورت میں سامنے آئے گا۔

اس وقت انتخابی سیاست کا غلبہ ہے ۔تما م سیاسی جماعتیں انتخابی میدان میں ایک دوسرے کے مقابلے کے لیے لنگوٹ کس کر میدان میں کود پڑی ہیں ۔ انتخابی سیاست کا ایک المیہ الزامات او رکردار کشی پر مبنی سیاست سے جڑا ہوتا ہے۔

پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، جے یو آئی، ایم کیو ایم ،اے این پی ،پی ٹی آئی کی قیادت نے سیاسی مخالفین کے خلاف منشور کو بنیاد بنانے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف اخلاقیات سے گرے ہوئے بیانیہ کو بنیاد بنا لیا ہے ۔بالخصوص ذاتیات اور نجی زندگی کے معاملات جن میں عورتیں بھی شامل ہیں کو بنیاد بنا کر سیاسی ماحول خرا ب کیا جارہا ہے ۔

اگرچہ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے سیاست او رانتخابی مہم میں الزام تراشیاں روایتی کلچر ہے ،ایسا ہمارے انتخابات کے ماحول میں ہوتا ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ہمیں سیاسی جماعتوں کے درمیان الزامات کی سیاست کو محض انتخابی ہتھیار کے طو رپر ہی دیکھنا چاہیے ۔ جو کچھ ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے، وہ کوئی نیا عمل نہیں بلکہ ماضی کی انتخابی سیاست میں بھی یہ ہی کچھ ہوتا رہا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا الزامات اورکردار کشی کی یہ مہم صرف انتخابات تک ہی محدود رہتی ہے تو اس کا جواب نفی میں ہوگا۔ اس لیے ہمیں محض ان الزامات پر مبنی سیاست کو انتخابی سیاسی کشمکش تک محدود ہوکر دیکھنے کے بجائے عملا ایک بڑے سیاسی فریم ورک میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔کیونکہ یہ جو کچھ سیاست میں منفی بنیادوں پر ہورہا ہے وہ ہمارا اجتماعی یا مجموعی سیاسی کلچر بنتا جارہا ہے جو ہر صورت تبدیل ہونا چاہیے ۔

اگرچہ سیاست دان اور سیاسی جماعتیں اپنے لفظی اور دانشورانہ یا منشور پر مبنی بیانیہ میں انتقام کی سیاست کے خلاف او رمنفی طرز کی سیاست کے بجائے امن، روداری ، برداشت، باہمی ہم آہنگی اور اتفاق رائے کے ساتھ آگے بڑھنے، ایک دوسرے کے سیاسی وجود کو تسلیم کرنے او ر ہر سیاسی جماعت کے عوامی مینڈیٹ کو قبول کرنے اور سیاسی سازشوں کے برعکس جمہوری سیاست پر چلنے کا اظہار کرتے ہیں۔

لیکن عملی طور پر سیاست ان اصولوں، سوچ , فکر اور تدبر سے خالی نظر آتی ہے ۔ جو جماعتیں اقتدار کا حصہ بنتی ہیں، وہ اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے ، دیوار سے لگانے ، سیاسی انتقام اور بدلہ لینے کی حکمت عملی کو بالادستی دیتی ہیں جو پورے سیاسی نظام کو عدم استحکام سے دوچار کرتی ہے ۔


سوال یہ ہے کہ کیا ہماری سیاست کا چل چلن ایسے ہی چلے گا ؟ کیا ہم اس نظام کو تبدیل کرسکیں گے ؟ نئی سوچ، فکر دیکھی جاسکیں گی ؟ کیونکہ موجودہ انداز سیاست ہمیں کسی بھی صورت میں مثبت مقام پر نہیں لے کر جاسکے گا۔ یہ جو اوپر سے لے کر نیچے تک یعنی سیاسی جماعتوں او ران کی قیادت یا ان کے سیاسی کارکنوں تک اور سیاسی کارکنوں سے لے کر عوام تک ہمیں سیاسی ہیجانی کیفیت اور منفی سیاست کے طور طریقے دیکھنے کو مل رہے ہیں کیا یہ ہی ہمارا مستقبل ہے؟

ہرگز نہیں، ہرگز نہیں ، اگر یہ مستقبل ہوگا تو ہمیں اندھیرا ہی نظر آتا ہے ۔سیاسی اختلافات کا پیدا ہونا فطری بھی ہے اور جمہوری ہے ۔ لیکن اگر ہم سیاسی اختلافات کو دشمنی یا انتقام کی شکل دیں گے تو پھر جمہوریت کو تو ہم بھول ہی جائیں ۔کیونکہ ایسی صورتحال میں جمہوریت مذاق کے سوا کچھ نہیں ہوگی۔

سیاسی مخالفین کے بارے میں چور، ڈاکو، غدار، ملک دشمن،لادین ، مذہب دشمن، بھارت و امریکا کا ایجنٹ اور بدکردار جیسے بدبودار نعرے غالب ہیں ۔ کسی کے پاس بھی قومی مسائل کا حل نہیں ہے ۔ ہماری سیاسی قیادتیں خو داحتسابی کے اصول پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ سیاسی لیڈرز اپنی ناکامی کا بوجھ اپنے سیاسی مخالفین یا پس پردہ قوتوں پر ڈال کر خود کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہمیں منطق یہ دی جاتی ہے کہ سیاسی جماعتیں اور قیادتیں ماضی کے تجربات یا تجربوں سے سیکھ کر بہتر طور پر آگے بڑھتی ہیں ۔لیکن ہماری صورتحال یہ ہے کہ پرانی مقبول سیاسی جماعتیں جو تواتر کے ساتھ اقتدار کا حصہ رہی ہیں، وہ بھی وہی کچھ کررہی ہیں جو ماضی میں ان کی سیاست کا خاصہ تھا۔

عام انتخابات میں اگر سیاسی جماعتوں کا یہ ہی منفی طرز عمل غالب رہتا ہے تو یہ خدشہ بدستور موجود رہے گا کہ مستقبل کی سیاست میں بھی کسی قسم کی بہتری کا امکان موجود نہیں۔ انتخابات کے بعد جو بھی حکومت بنے گی، اسے اپنے سیاسی مخالفین یا پارلیمنٹ میں موجود اپوزیشن سے یہ کچھ دیکھنا پڑے گا جو ہم آج دیکھ رہے ہیں۔

ہمارے سیاسی عزائم میں جمہوریت اور شفافیت سمیت سب کو ساتھ لے کر چلنے یا ایک دوسرے کی سیاسی قبولیت کا پہلو کمزور ہے ۔اس سارے کھیل میں سب سے بڑا نقصان ریاست اور عوام کے مفادات کا ہوگا ۔

عوام کے باشعور طبقے کو سیاست کو قبضہ گروپ لیڈروں سے آزاد کرانا ہے ، طاقت ور طبقات یا اداروں کی طرف دیکھنے کے بجائے عوام کو ہی آگے بڑھنا ہوگا، قومی سیاست میں نئے خون اور نئے نظریات کو آگے آنا ہوگا۔

روائتی اور فرسودہ خیالات و نظریات اور ادارہ جاتی نظام نہیں چل سکے گا۔ اس لیے ہمیں ایک بڑا سیاسی دباؤ پیدا کرنا ہے جو سیاسی قیادتوں کو مجبور کرے کہ وہ اپنی جمہوری اصولوں اور عوامی مفادات کے تحفظ کو اپنی ترجیحات میں پہلے نمبر پر رکھیں۔ ایسا کرنے میں ہی ہماری بقا ہے وگرنہ جو سیاست چل رہی ہے، اس کا انجام اچھا نہیں ہوگا۔
Load Next Story