ہماری شہری آبادی اور اس کے مسائل

انسانی سہولیات کی خاطر بڑے شہر آباد کرنے کا سلسلہ ہزاروں سالوں سے جاری ہے۔


فوٹو : فائل

اقوام متحدہ کی جانب سے ہر سال 31 اکتوبر کو پوری دنیا میں شہروں کا عالمی دن یعنی World Cities Day منایا جاتا ہے۔

دنیا میں آغاز ہی سے آبادی کا رجحان دیہی آبادی رہا ہے یعنی جب انسان نے دنیا میں بطور سوشل اینمل ''سماجی جانور '' اپنی مشترکہ معاشرتی سماجی زندگی کا آغاز کیا تو وہ چھوٹی اور دیہی آبادیوں میں رہتا تھا۔

ویسے تو دیہات کا واضح تصور یہی رہا ہے کہ انسانوں کے ایک قدرے مختصر گروہ کی آبادی جو کسی ایسی جگہ آباد ہو جہاں وہ کاشتکاری کرتے ہوں لیکن اُن آبادیوں کو بھی گاؤں یا دیہات ہی تصور کیا جاتا ہے جہاں قبائلی معاشرے میں لوگ ایک جگہ رہتے ہوں اور یہ ضروری نہیں کہ کاشتکاروں کے گاؤں کی طرح ان کے مکانات نزدیک نزدیک بلکہ ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں ۔

قبائلی معاشروں خصوصاً پہاڑوں، وادیوں اور گھاٹیوں میں آباد ایک ہی قبیلے کے افراد معاشرتی طور پر رہتے تو ایک ساتھ ہیں لیکن ایک گھرانے کی رہائش سے دوسرے گھرانے کی رہا ئش اکثر نصف کلومیٹر تک دور ہوتی ہے ۔

واضح رہے کہ جب سے دنیا آباد ہوئی شہری آبادی کا تناسب ہمیشہ سے دیہی آبادی کے مقابلے میں کم رہا ، دنیا میں پہلی مرتبہ یہ تناسب 2006 ء میں برابر ہوا اور ایک سال بعد 2007 ء میں دنیا میں شہری آبادی کا تناسب بڑا ہو گیا ۔ 2007 ء میں دنیا میں شہری آبادی کا تناسب 50.8% ہو گیا یعنی دیہی آبادی انسانی تاریخ میں شہری آبادی سے کم ہو گئی ۔

اب یعنی 2022 ء کے اعداد وشمار کے مطابق دنیا میں شہری آبادی کا تناسب 56.90% ہو چکا ہے اور کل شہری آبادی، 4523091429 ، یعنی چار ارب 52 کروڑ سے زیادہ ہو چکی ہے، 2018 ء کے اعداد وشمار کے مطابق دنیا کی کل آبادی 7.87 بلین یا ارب ہو چکی تھی ۔ یہ آبادی 1751 ء تک 751 ملین یعنی 75 کروڑ 10 لاکھ تھی ۔

زمانہ قدیم سے شہر کسی ملک و قوم کی تہذیبی علامت تصور کئے جاتے رہے ہیں اور آج بھی دنیا میں ایسے بہت سے قدیم شہر ہیں جو اب سیاحوں کی دلچسپی کا سبب اسی اعتبار سے ہیں ۔

اَن میں سے بہت سے شہر تو اب کھنڈرات کی بنیاد پر آثار قدیمہ کہلاتے ہیں جیسے صوبہ بلوچستان میں دنیا کی سب سے قدیم تہذیب کے آثار قدیمہ مہر گڑھ جس کے بارے میںفرانسیسی ماہرِ آثار قدیمہ ڈاکٹر جیریج نے Mother of all Civialization یعنی دنیا کی تمام تہذیبوں کی ماں قرار دیتے ہوئے بتایا کہ ساڑھے دس ہزار سال سے زیادہ اس پرانی تہذیب میں انسان نے پہلی بار جنگلی جانوروں کو پالتو بنا کر اِن گھوڑوں ، گدھوں ، اونٹوں ، گائے بیل اور بھیڑ بکریوں سے فائدے حاصل کئے یہاں مہر گڑھ کی اس تہذیب میں ہی انسان نے اناج کاشت کیا یہاں انسان نے گندم سے آٹا بنایا اور آٹے سے روٹی پکائی ۔

اسی طرح پاکستان کی مشہور قدیم تہذیبوںمیں پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کے شہری آثار قدیمہ لاڑکانہ کے نزدیک موہنجوداڑو اور ساہیوال کے قریب ہڑپہ کے آثار قدیمہ ہیں ، جب کہ ڈھائی ہزار سال قدیم آثار قدیمہ ٹیکسلا کے قریب بدھ مت اور اشوک اعظم کے زمانے کے شہروں کے آثار ہیں ۔ عراق، میں بابل نینوا،کے آثار قدیمہ اور مصر میں اہرام مصر کے علاوہ دنیا کے بہت سے مقامات پر ہزاروں سال قدیم پرانی انسانی تہذیبوں کے آثار ہیں ۔

یوں یہ بات طے ہے کہ دنیا میں شہری آبادی کے واضح ثبوت اِ ن کھنڈرات کی صورت میں ہمیں تقریباً دس ہزار سال پرانے ملتے ہیں ۔

واضح رہے کہ ہمیں تحریری صورت میں انسانی تاریخ تقریباً ساڑھے تین ہزار سال کی ملتی ہے یہی وجہ ہے کہ مہر گڑھ ، موہنجو داڑو اور ہڑپہ کی تاریخ کے بارے میں ہم یقین سے کچھ نہیں جانتے ، البتہ ٹیکسلا کے علاقے میں بدھ مت گندھارا تہذیب کے جو آثار قدیمہ ہیں اِن کی پوری تاریخ تحریری صورت میں ہمارے سامنے مو جود ہے ۔

اگرچہ شہر زندگی کی بنیاد پر انسانی تہذیب کا آغاز ایشیا اور افریقہ سے قبل از تاریخ سے ہوا اور نینوا اور بابل جہاں خصوصاً بخت نصر نے جو طرز تعمیر اپنایا وہ آج بھی اِن کے آثار قدیمہ کے کھنڈرات کی بنیاد پر منہ بولتا ثبوت ہے ، تقریباً 600 قبل مسیح بابل میں بخت نصر نے معلق باغات لگائے تھے جس نے بلند و بالا عمارات تعمیر کروائیں ، وہاں اُس زمانے میں شاہراہیں اور سڑکیں سیدھی اور ایک دوسری سڑک کو قطع کرتی تھیں ، یہ ٹاؤن پلاننگ آج سیاحوں کو حیرت زدہ کرتی ہے اور معلق باغات دنیا کے سات عجائبات میں شامل ہیں ۔

بابل و نینوا کے شہر نہ صرف طرز تعمیر کی بنیاد پر مثالی تھے بلکہ یہ علم ، تحقیق ، ادب اور دیگر فنون ِ لطیفہ کا گہوارہ تھے ۔ کچھ ایسی ہی صورت ہمارے ٹیکسلا کی تھی جہاں370 قبل مسیح نہ صرف جدید اور طویل رقبے اور لاکھوں کی آبادی پر مشتمل شہر آباد تھے ، جہاں کی یونیورسٹی اور تعلیمی ادارے اُس وقت دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے ۔

اسی طرح دنیا کے دیگر شہروں میں سب سے عمر رسید ہ یعنی مسلسل آباد شہر جو تقریباً ڈھائی ہزار سال سے آباد ہے وہ شام کا شہر دمشق ہے ۔

333 قبل مسیح میں سکندر اعظم نے اس شہر کو تسخیر کیا تھا اور اُس وقت بھی یہ ایک قدیم اور آباد شہر تھا ۔ 62 قبل مسیح میں یہ رومیوں کی سلطنت کا صوبائی مرکز تھا یعنی پورے علاقے کا سب سے اہم اور بڑا شہر تھا ۔ اگرچہ تاریخی طور پر اس کی قدامت 333 قبل مسیح یعنی ڈھائی ہزار سال مستند ہے لیکن ماہرین دمشق کو مسلسل آباد شہرکی بنیاد پر کم ازکم تین ہزار سال قدیم شہر تسلیم کر تے ہیں ۔

ہمارے پاکستان میں بیلہ ، روہڑی ، ملتان اور لاہور قدیم شہر تسلیم کئے جاتے ہیں جو تاریخی اعتبار سے ڈیڑھ ہزار سال سے کچھ زیادہ پرانے ہیں۔ تعریف کی بات یہ ہے کہ آج روہڑی ، ملتان اور لاہور بڑے شہر ہیں ، خصوصاً لاہور تو آبادی اور رقبے کے لحاظ سے ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے لیکن یہ شہر بھی دوسرے قدیم یا پرانے شہروں کی طرح نئے اور بڑے شہروں سے یوں مختلف ہیں کہ یہاں ابھی ادب ، تہذیب اورثقافت میں ہماری روایات کی خاص خوشبو ملتی ہے ، جب کہ انگریزوں کے عہد میں تعمیر اور آباد ہو نے والے شہر اگرچہ تھوڑے عرصے میں آبادی اور رقبے کے اعتبار سے بہت بڑھ گئے مگر اِن میں لاہور ، روہڑی یا ملتان جیسی صورت محلوں اور گلیوں میں نہیں ملتی ۔

پھر جہاں تک بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے شہر بیلہ کا تعلق ہے تو ہمارے بعض ماہرین اس چھوٹے سے شہر کو بھی دمشق کی طرح قدیم ترین شہر قرار دیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں چونکہ یہ ابھی تک چند ہزار آبادی کا ایک قصبہ یا ٹاؤن ہے اس لیے دنیا کی توجہ اس کی جانب نہیں ،یہ درست ہے کہ یہاں محمد بن قاسم کی آمد کے واضح نشانات ہیں جن میں سے اُس کے ایک جنرل کی قبر بھی اس شہر میں ہے ۔

قبل از اسلام یہ علاقہ ہنگلاج ماتا دیوی کے قدیم ترین مندر کی قربت کی وجہ سے دوہزار سال پرانا معلوم ہوتا ہے لیکن ضلع لسبیلہ میں صنعتی زون اوتھل ، وندر اور حب کے بن جانے سے یہ ٹاؤن ہی رہا اور اس کی اہمیت یہی رہ گئی ہے کہ بیلہ جام آف لسبیلہ کا دارالحکو مت رہا ہے اور آج بھی اس خاندان کی آبائی رہائش گاہ یہیں ہے ۔

برصغیر میں انگریزوں سے قبل جتنے بھی شہر بسائے اور تعمیر کئے گئے وہ اکثر دریاؤں کے ساتھ تھے لیکن انگریز جو راس امیدکا چکر کاٹ کر ہندوستان کا نیا بحری راستہ دریا فت کر کے یہاں آئے تھے وہ تجارتی مقاصد رکھتے تھے ۔

یوں ایسٹ انڈیا کمپنی نے جو شہر تعمیر اور آباد کئے وہ زیادہ تر ساحل پر اور بندرگاہوں کی بنیاد پر بنائے اور اِن شہروں میں سے تین شہر ممبئی ، کولکتہ اور کراچی دنیا کے ٹاپ ٹن گنجان آباد اور بڑے شہروں میں شامل ہیں ۔ کلکتہ یا کول کتہ بھارت کے مغربی بنگال کا دارالحکو مت ہے ، یہ شہر ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1620 ء میں تجارتی کوٹھیوں کی بنیاد پر تعمیر کیا ۔

1757 ء میں انگریزوں نے نواب سراج الدولہ کو اُس کے وزیر میرجعفر کی غداری کی وجہ سے شکست دی تو اس کے بعد اس شہر نے تیزی سے ترقی کی اور 1773 ء سے 1912 ء تک یہ برطانوی ہند کا دارالحکو مت رہا جب انگریزوں نے اسے آباد کیا تو یہاں تین گاؤں کالی کٹ، سوتانی اور گوند پور تھے، یہ شہر شیوا کی بیوی کالی سے منسوب ہے یہ بندرگاہ بھی ہے اور یہاں دریائے ہیگلی بھی بہتا ہے ۔

بمبئی جو اب ممبئی کہلاتا ہے یہ شہر کولی ماہی گیروں کی ایک چھوٹی سی بستی تھی ۔ 1534 ء میں اس پر پرتگیزوں نے قبضہ کر لیا پھر 1661 ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی اس پر قابض ہو گئی اور 1668 ء میں یہاں انگریزوں نے شہر کی تعمیر کی ۔

جب انگریز یہاں آئے تو یہ ممبا دیوی کے نام سے منسوب تھا اس لیے انگریزوں نے بھی اسے بمبئی کہا اور چند برس قبل بھارتی حکومت نے اس کا نام ممبئی کر دیا ۔ 17 فروری 1803 ء میں یہ پورا شہر جل کر خاکستر ہو گیا اور اس کے بعد انگریروں نے ممبئی کو دوبارہ جدید انداز میں تعمیر کیا۔ کراچی کے علاقے پر انگریز پہلی اینگلو افغان جنگ 1839 ء ہی میں آگئے تھے لیکن جس طرح انگریزوں نے پنجاب پر 1846 ء میں قبضہ کیا اسی طرح سندھ پر جنرل نیپر نے 17 جنوری 1843 ء میں میانی کے میدان میں تالپور حکمرانوں کو شکست دی، پھر کراچی شہر کو آباد اور تعمیر کیا ۔

اس کی اہم عمارتوں کی تعمیر یوں ہے کہ فیرئیر ہال 1865 ء میں تعمیر ہوا، میری ویدرٹاور کی تعمیر 1884 ء میں مکمل ہوئی ، ایمپریس مارکیٹ 1889 ء میں تعمیر ہوئی۔ 14 اگست1947 ء سے پہلے کراچی کی آبادی صرف چار لاکھ تھی ، انگریزوں نے کراچی کے علاوہ اور بھی بہت سے چھوٹے بڑے شہر آج کے پاکستان میں تعمیر اور آباد کئے جن میں آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا تیسرا بڑا شہر فیصل آباد ہے ۔

1860 ء تک فیصل آباد شیشم کے درختوں کا ایک گھنا جنگل تھا جسے کاٹ کر یہاں لائل پور یعنی اُس وقت کے انگریز حکمران لارڈ لائل کے نام سے شہر تعمیر کیا گیا، سنگ بنیاد کیپٹن پوپہم نے رکھا ، یہ برطانیہ کے پرچم یونین جیک کے نقشہ پر تعمیر ہوا اور آٹھ سڑکوں کے مرکز یعنی بالکل درمیان میں گھنٹہ گھر تعمیر کیا گیا ۔

افغا ن سرحد کے قریب پشاور جو کابل ، جلال آباد اور قندھار کی طرح ماضی میں افغانستان کا شہر تھا اس کے نزیک راولپنڈی یعنی راول کا گاؤں ایک چھوٹا سا قصبہ تھا ، اس کو بھی ایک اہم چھاؤنی اور شہر کے طور پر انگریزوں نے 1846 ء کے بعد ہی تعمیر کیا ۔ بلوچستان میںانگریز پہلی اینگلو افغان جنگ 1839 ء میں کابل کی فتح سے واپسی پر داخل ہوا تھا مگر اِسے 38 سال تک مزاحمت کا سامنا رہا اور پھر خان آف قلات کو اندورونی معاملات میں مکمل خود مختا ری دیتے ہوئے 1877 ء میںانگریز سرکار نے بلوچستان میں اپنے قدم مضبوط کئے اور 1878ء میں دوسری اینگلو افغان جنگ کے موقع پر کوئٹہ شہر اور ایک زبردست چھاؤنی تعمیر کی ۔

کوئٹہ شہر 1935 ء زلزلے میں صفحہ ہستی سے مٹ گیا تو اس کی دوبارہ تعمیر 1942 ء مکمل کی گئی ، انگریزوں نے کوئٹہ کا شہر دفاعی حکمت عملی کے پیش نظر تعمیر کیا تھا ۔ واضح رہے کہ 1935ء ہی میں دریا کا رخ تبدیل ہونے کی وجہ سے ڈیرہ غازی خان کا شہر بھی دریا برد ہو گیا تھا ۔ انگر یز نے ڈیرہ غازی خان کو بھی دوبارہ پرانے شہر کے مقام سے ہٹ کر ڈیزائن کیا اور بلاک کی بنیاد پر جدید طرز پر تعمیر کیا تھا ۔

پاکستان آبادی کے اعتبار سے دنیا کا پانچواں ملک ہے آج اِس کی آبادی 25 کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے واضح رہے کہ1951 ء میں ملک کی پہلی مردم شماری کے مطابق آج کے پا کستان کی کل آبادی 3 کروڑ 37 لاکھ تھی ،آج کے پاکستان کا رقبہ 796095 مربع کلو میٹر ہے اور آبادی کی گنجانیت 287 افراد فی مربع کلومیٹر ہے ، ملک میں آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ پنجاب ہے جس کی آبادی2017 کی مردم شماری کے مطابق 11 کروڑ 10 لاکھ تھی جو آج 12 کروڑسے تجاوز کر چکی ہے ۔

پنجاب کا رقبہ 205344 مربع کلومیٹر ہے ۔ یہاں آبادی کی گنجانیت 536 افراد فی مربع کلومیٹر ہے ۔ اس کے مقابلے میں پاکستان میں رقبے کے لحاظ سے بڑا صوبہ بلوچستان ہے جس کا رقبہ 347190 مربع کلومیٹر ہے۔ آبادی تقریباً ایک کروڑ 25 لاکھ ہے یہاں آبادی کی گنجانیت 35 افراد فی مربع کلومیٹر ہے ۔

پاکستان میں آبادی کے بڑھنے کی رفتار کافی تیز ہے ، اس کا اندازہ اس سے لگا سکتے ہیں کہ جب ہماری آبادی 3 کروڑ 37 لاکھ تھی تو اُس وقت برطانیہ (جس نے برصغیر پر سو برس سے زیادہ حکومت کی تھی ) اُس کی آبادی 5 کروڑ 40 لاکھ کے قریب تھی آج برطانیہ کی آبادی 6 کر وڑ سے کچھ زیادہ ہے ، 1963 ء میں دنیا میں شہری آبادی ایک ارب 11کروڑ 40 لاکھ تھی جو دنیا کی کل آبادی کا 34.90 فیصد تھی ۔

2022 ء میں دنیا کی شہری آبادی 4523091429 ہو گئی جو دنیا کی کل آبادی کا 56.90 فیصد ہو گئی ہے ،1951 ء میں پاکستان کی آبادی 3 کروڑ 37 لاکھ تھی اور شہری آبادی کا تناسب صرف 22% تھا پاکستان میں کل شہری آبادی 68 لاکھ تھی اور دیہی آبادی 2 کروڑ 72 لاکھ تھی اگر 1951 ء سے 2023 ء تک شہری آبادی کے تناسب کے اعتبار سے دیکھیں تو اقوام متحدہ کی حالیہ شائع شدہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 240485658 بتائی گئی ہے دنیا کی کل آبادی کا 2.99% پاکستان میں آباد ہے اور آبادی کی گنجانیت 808 افراد فی مربع کلومیٹر ہے اور یہاں شہری آبادی کا تناسب 34.7% بتایا گیا ہے جب کہ بعض آزاد ذرائع شہری آبادی کا تناسب 37.73 ظاہر کر رہے ہیں ۔

اگر ہم پاکستان میں شہر ی آبادی کا تناسب 35% مان لیں تو 25 کروڑ آبادی میں سے کل شہری آبادی8 کروڑ75 لاکھ ہے اور 65% دیہی آبادی کی بنیاد پر ہماری دیہی آبادی 16 کروڑ25 لاکھ ہے یہ وہ صورتحال ہے جس کو ہم ریکارڈکے مطابق درست تسلیم کرتے ہیں اور نادرا کے ریکارڈ سے بھی چیک کر سکتے ہیں ۔ پاکستان کی رجسٹرڈ شہری آبادی 8 کروڑ 75 لاکھ ہی ہے مگر یہاںبعض حقائق ایسے ہیں جو رجسٹرڈ یا ڈاکومنٹڈ یا انداج شدہ حقائق سے مختلف ہیں مثلاً کر اچی کی آبادی جو گزشتہ پچاس برس میں ہونے والی ہر مردم شماری میں کراچی کے لوگوں میں متنازعہ رہی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کراچی کی خانہ شماری کا موازنہ مردم شماری سے کریں تو یہ پاکستانی شہری آبادی، آبادی کی رہائش کی بنیاد پر مختلف رہی ہے یا گنجانیت کے لحاظ سے مختلف ہے ، یہاں یہ بنیادی غلطی ہے یعنی کراچی میں مستقل رہائشی آبادی جو کم ازکم تیس لاکھ ہے اُس نے اپنے رہائشی اندراج اندرون سندھ اور ملک کے دوسرے شہروں میں کر وایا ہوا ہے ۔

سندھ میں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ چاہے سندھی ہوں یا اردو بولنے والے اگر وہ اندرون سندھ رہتے رہے ہوں وہ اپنے ڈومیسائل کا انداراج اندورن سندھ کا کرواتے ہیں کیونکہ سندھ میں سرکاری ملازمتوں کا کوٹہ دیہی اور شہری آبادی کی بنیاد پر تقسیم ہے اور شہری علاقوں میںیہ کو ٹہ کم ہے اور یہاں سرکاری ملازمتوں پر سندھ کے شہری ڈومیسائل کے حامل افراد کو شدید مقابلے کا سامنے ہے اس لیے اندرون سندھ کی آبادی کے پاس اگر دیہی علاقوں کا ڈومیسائل ہے تو وہ رہائش کے اعتبار سے کراچی میں بھی رہتے ہیں اور مکانات اور فلیٹ خرید رکھے ہیں اور معیاری تعلیم اور صحت کی سہولتیں بھی حاصل کرتے ہیں اور پھر اندرون سندھ میں اپنا ووٹ بھی کاسٹ کرتے ہیں ۔

یہی صورت بلوچستان کی ہے یہاں سے تعلق رکھنے والے تین چار لاکھ افراد بھی اسی طرح کراچی میں اپنے ذاتی مکانات اور فلیٹ رکھتے ہیں مگر اِن کی رہائش کا اندارج بلوچستان میں ہے ، ایسی ہی صورتحال پنجاب اور کے پی کے رہنے والے لاکھوں لوگوں کی ہے ،لاہور اور فیصل آباد میں ایسی صورتحال ہے مگر کوئٹہ جو اب آبادی کے اعتبار سے ملک کا نواں یا دسواں بڑا شہر ہے یہاں بھی کوئٹہ شہر جس کی آبادی اب 25 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے یہاں بلوچستان کے 32 اضلاع سے لوگ آکر مستقل آباد ہوئے ہیں اور اِن کا تناسب کوئٹہ کی کل آبادی کا تقریباً 50% ہے جن کے ڈومیسائل اور لوکل سرٹیفکیٹ اور ووٹوں کا انداراج اِن کے آبائی اضلاع میں ہے ۔

بلوچستان میں صوبائی سطح کی ملازمتوں کی تقسیم کوٹہ کی بنیادوں پر بلوچستان کے33 اضلاع میں تقسیم ہوتی ہے اس لیے کوئٹہ کی آبادی 2017 ء کی مردم شماری کے مطابق 10 لاکھ بتائی گئی تھی ، مگر بلدیاتی سطح پر یہ کہا جا رہا تھا کہ شہر کی آبادی 22 لاکھ تھی اس کی بنیادی وجہ یہی ہے ۔

1960 ء سے 1980 ء تک اگرچہ پاکستان کی شہری آبادی میں شہری بنیادوں پر رہائشی منصوبہ بندی مختلف تھی اور زیادہ تر بڑی ہاوسنگ اسکیمیں سرکاری یا بلدیاتی سرپرستی میں تھیں لیکن اس کے بعد پرائیویٹ شعبے کی رہائشی سکیموں کو ملک کی اقتصادیات میں معاشی اعتبار سے بڑا حصہ مل گیا اور ہر آنے والی حکومت نے بے روزگاری اور غربت میں کمی کرنے کے لیے اس شعبے کی حوصلہ افزائی کی، لیکن بدقسمتی سے معیاری ٹاؤن پلانگ کو ترک کر دیا گیا جس کی وجہ سے کر اچی ، حیدر آباد ، سکھر ، روہڑی، لاڑکانہ ، جیکب آباد، ٹھٹھہ میں نکاسی آب خصوصاً بارشوں اور سیلابوں میں بہت ہی خطرناک صورتحال ہو جاتی یہاں فراہمی آب کے مسائل بھی بہت بڑھ گئے ہیں ۔

اسی طرح کراچی میں 1985 ء سے لسانی بنیادوں پر شہر کی آبادی شہر کے مختلف حصوں میں بٹ چکی ہے جو سیاسی اور انتظامی لحاظ سے ایک خطرناک صورت ہے ، ایسی ہی صورت کوئٹہ میں بھی ہے ، کوئٹہ میں زیر زمین پانی پینے کے لیے استعما ل ہوتا ہے ، 1970 ء کی دہائی تک کوئٹہ میں زیر زمین پانی کی سطح 50 فٹ کی گہرائی تک تھی جو اب ایک ہزار فٹ سے بارہ سو فٹ گہرائی تک پہنچ گئی ہے ۔ پنجاب میں لاہور ، فیصل آباد ، راولپنڈی ،گجرات ، گوجرانوالہ، شیخو پورہ میں بھی نکاسی آب اور فراہمی آب کے مسائل گھمبیر ہو جاتے جا رہے ہیں ۔

یہاں ایک خطرناک صورت فضائی آلودگی کی بھی ہے ۔ لاہور سمیت پنجاب کے بہت سے شہروں میں راتوں کو گھروں میں کچی آبادیوں میں پلاسٹک کی مصنوعات غیرقانونی طور تیار کی جاتی ہیں ، ایسی بہت سی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے فضائی آلود گی اور آبی آلودگی میں اتنا اٖضافہ ہوا ہے کہ اب لاہور فضائی آلودگی کے اعتبار سے دنیا کا بدترین شہر بن چکا ہے جو پہلے کبھی باغوں کا شہر بھی کہلاتا تھا ۔

اسی طرح صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور ، کو ہاٹ ، بنوں ، چاسدہ وغیرہ کے مسائل میں بھی نکاسی آب ، فضائی اور آبی آلودگی کے مسائل بہت بڑھ چکے ہیں ۔ اسی طرح تمام بڑے شہروں میں جرائم کی شرح بہت بڑھ چکی ہے، چوری ، ڈکیتی اور قتل کی وارداتیں معمول بن چکی ہیں ۔ بے تحاشا اور بے ہنگم ٹریفک کی وجہ سے حادثات میں خوفناک اضافہ ہوا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ فضائی آلودگی کی ایک وجہ ٹریفک میں اضافہ بھی ہے ۔

یوں اگر حقیقت پسندنہ انداز سے پاکستان کی شہری آبادی اور اِن کے مسائل کا جائزہ لیا جائے تو سب سے پہلے تو ہمیں یہ تسلیم کر نا پڑے گا کہ حقیقت میں ہماری شہری آبادی کا تناسب 50% سے زیادہ ہو رہا ہے اور ہمیں اس اہم مسئلے پر فوری توجہ دیتے ہو ئے منصوبہ بندی کرنی ہے اور اس کے لیے بہترین حکمتِ عملی اختیار کرنی چاہیے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں