زباں فہمی نمبر196 اردو کی بہن پشتو حصہ اول
ماضی میں خاکسار نے متعدد زبانوں کے اردو سے ارتباط اور تعلق کے موضوع پر خامہ فرسائی کی
''پاکستانی ثقافت اور مِلّی نصب العین کی تکمیل کے لیے ہمیں یہ احساس پیدا کرنا چاہیے کہ ہماری مملکت کا کوئی فرد، زبان، رسم ورواج اور دستور آپس میں تضاد یا تناقض نہیں رکھتے۔
یہ تو صرف مفادپرست اور غرض مند عناصر کی تنگ نظری اور خام خیالی رہی ہے۔ بلکہ ان سب (زبانوں) کے ادغام وامتزاج سے وہ صحیح قسم کی پاکستانی ثقافت متشکل ہوگی ، جس کی تعمیر ہمارے پیش نظر ہے اور اسی کے نتیجے میں وہ ملّت وجود پائے گی جو مستقبل میں عالمی ثقافت وسیاست میں ایک اہم کردار اَدا کرے گی''۔ مولاناعبدالقادرعلیگ، ڈائریکٹر پشتو اکیڈمی (پشاور) نے یہ الفاظ آج سے کوئی تریسٹھ سال پہلے (7اپریل 1960ء کو) محترم امتیاز علی خاں عرشی حاجی خیل کی مشہور ِزمانہ کتاب ''اردومیں پشتو کا حصہ'' کے دیباچے میں تحریر کیے تھے اور آج بھی اتنے ہی معتبر، برمحل اور برحق ہیں۔
انھوں نے برملا اس حقیقت کا اظہار کیا تھا کہ ''پاکستان کا وجود، دو چیزوں پر مبنی ہے ;اول دین اسلام اور دوسری ایک ایسی ملّی زبان جسے ملک کی عظیم اکثریت بخوبی بولتی سمجھتی ہو، اور جو ہر علاقے کی کہی جاسکے اور جس پر تنہا کسی کا دعویٰ نہ ہوسکے''۔ وہ زبان اردو کے سوا کونسی ہوسکتی ہے؟ اسی لیے راقم کا نصب العین ہے: ہماری پہچان۔ اسلام، اردو، پاکستان۔
ماضی میں خاکسار نے متعدد زبانوں کے اردو سے ارتباط اور تعلق کے موضوع پر خامہ فرسائی کی، حتیٰ کہ بعض نامانوس زبانوں اور بولیوں کے اردو سے اشتراک کا باب وا کیا، مگر اَبھی اس خطے کی کئی ایسی زبانیں اور بولیاں باقی ہیں جن سے اردو کا راست تعلق ہے اور اس بابت بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے، نیز تحقیق کی اشد ضرورت ہے۔
اس فہرست میں پشتو بھی شامل ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں اہل زبان (پشتون/پختون) حضرات نے بھی اس باب میں کچھ پیش رفت کی ہے جو یقیناً مستحسن اور لائق تقلید ہے۔ بحیثیت مجموعی پاکستان میں تحقیق، وہ بھی زبان وادب کے شعبے میں، خال خال ہی ہوئی ہے اور ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں تو وہ لوگ Legend، نابغہ اور عبقری کہلاتے ہیں جن کی شاعری کا کوئی نمونہ، عالم شباب میں مشہور ومقبول ہوجائے، چند کُتبشایع ہوجائیں اور پھر ساری عمر مشاعرے پڑھتے، سیرسیاحت کرتے اور مال بناتے گزارتے ہیں۔
بحمداللہ! بندہ یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ ایسے نام نہاد Legend حضرات نے اردو کی کوئی خدمت نہیں کی، ماسوائے اس کے کہ شعری سرمائے میں کچھ اضافہ کردیا، سو وہ تو بے شمار دیگر بھی کرچکے ہیں تو پھر وہ سارے ہی Legend ہوئے اَز ولی ؔ (احمدآبادی) گجراتی/اورنگ آبادی/ دکنی تا .....ظہیرظرفؔ، میرا عزیز خُردمعاصر! (ویسے اس بابت خاکسار پوری تحقیق 'زباں فہمی' کے ایک شمارے میں پیش کرچکا ہے کہ ولیؔ کو محض قیام اورنگ آباد، دکن کے سبب دکنی قرار دینا درست نہیں!)
''یہ حقیقت ہے کہ پشتو زبان میں بہت سے الفاظ ایسے ملتے ہیں جو اُردو میں بھی نظر آتے ہیں، مگر میں انھیں اُس وقت تک، بالکل ایسے ہی ریختہ (یعنی اردو۔ س ا ص) میں گھل مل جانے والے خالص پشتو الفاظ سمجھنے پر مجبور ہوں، جیسے سنسکرت، عربی، فارسی، بلکہ پرتگیز اور ملیالم وغیرہ (کی مثال ہے)، تاوقتیکہ یہ ثابت نہ ہوجائے کہ ا ن سب کا کوئی واضح سراغ سنسکرت میں نہیں ملتا''۔ یہ قول ہے ایک انگریز ماہرلسانیات کرنل رے ورٹی[Col. Raverty, H. G. (Henry George)] کا جس نے پشتو لغت [A dictionary of the Puk'hto, Pus'hto, or language of the Afghans] مرتب کرکے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا۔
یہ اہم لغت 1867ء میں Williams and Norgate کے زیراہتمام لندن سے شایع ہوئی اور ایک طویل مدت کے بعد مئی 2007ء میں امریکا کے محکمہ تعلیم [U. S. Department of Education] کی سرپرستی میں تازہ کار (Update)کرکے شایع کیا گیا تو آن لائن بھی دستیاب ہوئی۔ اس لغت میں پشتو زبان کی اصلیت اور دیگر مشرقی زبانوں اور بولیوں سے اُس کے تعلق کا جائزہ بھی لیا گیا۔ (لغت کی اولین اشاعت کے وقت موصوف میجر کے منصب پر فائز تھے)۔ امتیاز علی عرشیؔ نے کرنل موصوف کا قول نقل کیا ہے جو الفاظ کی بہتری کے ساتھ یہاں نقل کیا گیا۔
اردو کی اساس میں خطہ ہند و نواح کے ہمہ اقسام کے لوگوں کی آمدورفت اور میل ملاپ شامل ہے۔ اس ضمن میں پشتو کا کردار بہت واضح ہے کہ آریہ/آریا قوم کا بظاہر اصل وطن آریانہ/آریانا یعنی افغانستان (ہمارے ہمسائے میں، ورنہ یورپ کے متعلق زیادہ کہا اور لکھا گیا) بقول محقق موصوف ہمیشہ ایرانی، تاتاری ودیگر فاتحین یا حملہ آور سپاہ کے مقابل یعنی اُن کی یلغار اور لوٹ مار سے بچانے میں، ہندوستان کے کام آیا۔
یہ الگ بات ہے کہ جتنے حملہ آور یا فاتحین یہاں آئے، وہیں سے ہوکر آئے۔ تاریخی تناظر میں یہ حقیقت مسلّم ہے کہ محض سپاہ ہی نہیں، بلکہ علمائ، صوفیہ، سیاح، تاجر اور مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے عام افراد بھی بڑے پیمانے پر یہاں کسی نہ کسی سبب آ پہنچے، خواہ مستقل قیام کیا، صدیوں یا محض عارضی برائے کسب معاش۔ {ماضی قریب میں افغانوں (یعنی اصل پشتونوں) کی پاکستان آمد کا سلسلہ متواتر جاری رہا اور پچاس لاکھ سے زائد افراد یہاں آکر مقیم ہوگئے، جن کا ایک نامعلوم حصہ آج بھی پاکستان، ریاست جموں وکشمیر و گلگت بلتستان میں ہر جگہ موجود اور مقامی وسائل پر قابض یا اُس سے بے حساب مستفیض ہورہا ہے۔
موجودہ سرکاری اقدام سے قطع نظر، یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ کم وبیش تیس لاکھ غیرقانونی طور پر مقیم، معاشی ومعاشرتی لحاظ سے مستحکم، نیز یہاں تیس چالیس سال پہلے گھر خاندان بسانے والے افغان کبھی نہ جانے کے لیے آئے ہیں۔ عرشیؔ مرحوم زندہ ہوتے تو شاید اپنی کتاب میں ترمیم واضافہ کرلیتے۔ بہرحال اس جملہ معترضہ سے قطع نظر، ہم زبانوں کے ارتباط واشتراک کی بات جاری رکھیں گے}۔
مشہور روایات کے مطابق، افغان قوم (پشتون/پختون) کا دائرہ اسلام میں داخل ہونا بھی برّعظیم کے جنوب کی طرح، عہدرسالت مآب (ﷺ) ہی کا واقعہ ہے جب حضرت قیس عبدالرشید رضی اللہ عنہ' اور اُن کے ساتھیوں نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ' کے توسط سے دربار اقدس میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا۔ ان اولین افغان یا پٹھان صحابی کی قبر پاکستان میں ہے۔
رَدِتحقیق میں اس روایت سے انکار بھی کیا گیا ہے۔ ظہورِاسلام سے قبل، افغانستان یعنی مرکز پشتون قوم میں کبھی بُدھ مت تو کبھی ہندومت اور قدرے دیگر مذاہب کی عمل داری رہی اور یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ زبانوں کی تشکیل و ترقی میں کسی بھی مذہب کے کرتا دھرتا، علمائ، پنڈت پُجاری، پروہت، وغیرہ بہت فعال رہتے ہیں اور یہی سلسلہ اُن کے معتقدین کے ذریعے آگے بڑھتا ہے۔ یہ سارا عمل تاریخ کے دھارے کے ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے اور ضروری نہیں کہ اسے منضبط یعنی Record کیا جائے کتابی شکل میں۔ دوسرے عوامل میں فاتحین اور شاہان کی آمدورفت، قبضہ و حکمرانی شامل ہیں۔ خطہ ہند پر اوّل اوّل حملہ آور ہونے والے عظیم فاتح کا نام سبکتگین تھا۔ اُن کے عہد میں بڑے پیمانے پر سپاہ اور عوام کی نقل وحرکت کا سلسلہ شروع ہوا۔ اُن کے بعد اُن سے بڑے فاتح یعنی اُن کے اپنے جلیل القدر فرزند سلطان محمود غزنوی کی آمد ہوئی اور تاریخ کا منظرنامہ یکسر بدل گیا۔
خطہ ہند محمود کے تسلط سے افغانستان کا حصہ بن گیا، سلطان محمود غزنوی خود متعدد دینی ودنیوی علوم وفنون پر حاوی اور اہل ہنروفن کے قدرداں تھے۔ ان کے دربار کے وابستگان نے دنیائے علم وادب میں دھوم مچائی۔ اُن کی وفات 1030]ئ[ کے بعد بھی غزنوی اقتدار باقی رہا، مگر کمزور اور بقول کسے، ایرانی اثر سے مغلوب ہوکر، جب انھوں نے اپنا دارالسلطنت غزنین (غزنی) سے لاہور منتقل کیا تو افغان عناصر کی یہاں مقامی طور پر نمود بڑھ گئی۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ اُس دور میں لاہور، محمودپور ہوا کرتا تھا جس کا حاکم، یگانہ روزگار، ملِک ایاز (مدفون لاہور) تھا۔ سلطان محمود غزنوی کے بعد اُن کے جانشین اُن کی طرح لائق فائق تو نہ تھے، مگر بہرحال علمی شخصیات کی سرپرستی جاری رہی۔
غزنوی حکمرانوں کے دور میں ہونے والی سب سے بڑی علمی ولسانی پیش رفت یہ تھی کہ ایک ترقی پذیر زبان ہندوی (یعنی قدیم اردو) میں پورا پورا دیوان مرتب کرنے والا شاعر، مسعودسعدسلمان ( 1046 تا 1121ئ) لسانی افق پر جلوہ فگن ہوا جس کی وجہ شہرت فارسی شعرگوئی تھی۔ مسعود کے دو دیوان اس کے علاوہ فارسی اور عربی میں تھے، جن میں فارسی دیوان محفوظ ہے، جبکہ ہندوی دیوان کا محض ذکر ہی ملتا ہے۔
وہ چھے غزنوی سلاطین بشمول فرخ زاد، ابراہیم، مسعودبن ابراہیم، شیرزاد، ارسلان شاہ اور بہرام شاہ کے درباری شاعر وکتاب دار یعنی نگراں کتب خانہ [Librarian] تھے۔ انھیں قصیدہ گوئی میں کمال حاصل تھا، قطعہ، غزل اور رباعی سمیت تمام اصناف میں رواں تھے۔
غزنوی اقتدار کا سورج ڈوبا تو غوری سلاطین نے خطہ ہند پر قدرت حاصل کرتے ہوئے اُن سے بھی زیادہ توسیع کرتے ہوئے یہاں اپنا مستقل شاہی انتظام اس طرح کیا کہ دِلّی سمیت پورے ہند کے طول وعرض میں اُن کا سکّہ جاری ہوگیا۔ سلطان معزالدین محمد بن سام (المعروف شِہاب الدین غوری) بقول صاحبِ 'کتاب التواریخ' (خان بہادرمولوی سید احمد علی خاں سیمابؔ، مطبوعہ آرہ، بِہار، ہند:1917ئ) اولین پشتون تاجدار تھے۔
سلطان شہاب نے اپنے چہیتے غلام اور انتہائی باصلاحیت تُرک جرنیل قطب الدین ایبک کو ہندوستان میں اپنا نائب مقرر کیا جس نے مابعد خاندان غلاماں کی بنیاد رکھی۔ ایبک اور اُس کے جانشین ایک طویل عہد کے وارث ہوئے۔ غوری اور پھر غلاماں خاندان کی سلطنت اور مابعد آنے والے لودھی (صحیح لفظ لودی) اور سُوری حکمرانوں کے عہداِقتدار میں، افغان/پشتون اور ترک و ایرانی سپاہ وعوام بشمول علمائ، صوفیہ و تُجّار (تاجر کی جمع) دکن، مالوہ، خاندیس، گجرات، اَوَدھ، بِہار، بنگال اور گردونواح میں پھیل گئے ۔ ان تمام علاقوں میں اردو کی پرداخت اور مقامی زبانوں اور بولیوں کی نشونَما بہ یک وقت پشتو، ترکی اور فارسی کے اختلاط سے جاری رہی۔ یہاں یہ نکتہ پیش نظر رہے کہ جب اردو پروان چڑھ رہی تھی تو محض عربی، فارسی اور مقامی ہندوستانی زبانیں ہی اس کی معاون نہ تھیں، بلکہ پشتو بھی بدرجہ اتم اس کی تشکیل میں حصہ لے رہی تھی اور جب ہم فارسی کے عمل دخل کی بات کرتے ہیں تو یاد رکھنا چاہیے کہ پشتو نے فارسی سے بہت زیادہ اکتساب کیا ہے۔
(فی الحال یہ میرا موضوع نہیں کہ موجودہ پشتو یا کلاسیکی پشتو میں کتنے فیصد فارسیت ہے، مگر اہل زبان پشتون/پختون (افغان) اس بارے میں بہتر بتاسکتے ہیں)۔ پٹھانوں نے اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے وادی گنگ وجمن میں ڈیرا ڈالا تو مرہٹوں، سکھوں، لودیوں (لودھیوں) اور مغلوں سے مقابلہ کرکے متعدد چھوٹی بڑی ریاستیں بشمول نجیب آباد، فرخ آباد قایم کیں اور بھوپال، ٹونک (راجستھان)، جاورہ، رامپور اور جھانسی میں اپنے قدم جمائے۔
دیگر تفصیل سے قطع نظر، ''تواریخ ِ حافظ رحمت خانی'' (پشتو، مؤلفہ پیر معظم شاہ، زیرسرپرستی نواب حافظ رحمت خان روہیلہ، مترجمہ اردو; پیر معظم شاہ، مرتبہ خان روشن خان روشنؔ ، ناشر پشتو اکیڈمی) کے بیان کو سچ مانا جائے تو ہمارے نہایت محترم خواجہ (سیدمحمدبختیارالحُسینی) قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ (1173ء تا 1235ئ) بھی پشتون تھے، حالانکہ وہ اوش [Osh]، قرہ خطائی میں پیدا ہوئے تھے جو اَب قرغیزستان کا حصہ ہے، لہٰذا یہ بیان غلوکے زُمرے میں آتا ہے۔
آریہ لسانی گروہ کی رکنیت کے علاوہ، اردو اور پشتو میں قواعد کا مماثل ہونا، ذخیرہ الفاظ اور رسم الخط کا تقریباً یکساں ومشترک ہونا اور صوتی نظام کا ہم آہنگ ہونا ایسی خصوصیات ہیں جن کی بِناء پر ہم ان دونوں زبانوں کو ہم رشتہ قرار دے سکتے ہیں۔
یہی نہیں، بلکہ ادبی اشتراک کا پہلو بھی ان کے بیچ بنیادی تعلق کا نمایاں ثبوت ہے یعنی یہ کہ پشتون/پختون شعراء و اُدَباء نے اردو میں بھی طبع آزمائی کی، تراجم کا سلسلہ ہردو زبانوں میں عموماً اہل زبان نے اور کبھی کبھی دیگر نے کیا، موضوعات کا ایسا کوئی فرق یا بُعدالمشرقین نہیں کہ انھیں جُدا جُدا قرار دیا جائے۔
بقول ڈاکٹر عبدالستارجوہرؔ پراچہ ''یہ صحیح ہے کہ ان دونوں زبانوں کا رشتہ ماں بیٹی کا نہیں، لیکن پھر بھی یہ خالہ زاد بہنیں کہلا سکتی ہیں''۔ (اردو اور پشتو کے لسانی روابط۔ تحقیق برائے پی ایچ ڈی، پشاور)۔ انتہائی دل چسپ انکشاف یہ ہے کہ پشتو، شِنا، کھوار اور غالیچہ دردی زبانوں میں بھی شامل ہیں اور اُردو کی ہم رشتہ بھی۔ (اس بابت محقق موصوف نے کچھ الفاظ کی نشان دہی بھی کی ہے، مگر آن لائن دستیاب کتاب، پرانی نسخ ٹائپ پر شایع ہوئی اور پھر اَپ لوڈ، اس لیے بعض حروف کی بناوٹ قابل فہم نہیں)۔ یہاں ہمیں مشہور ماہرِلسانیات ڈاکٹر چٹرجی کے اس قیاس سے اتفاق کرنا پڑے گا کہ نسلی اختلاف سے قطع نظر، برّعظیم میں آنے والے دراوَڑ، آریہ، منگول، یونانی، کشان ودیگر اقوام کا آپس میں اختلاط بھی یقیناً ہوا ہوگا جس سے لسانی اشتراک و یگانگی کا سلسلہ فطری طور پر جاری رہتا ہے۔
ڈاکٹر عبدالستارجوہرؔ پراچہ نے اس بنیاد پر اُردو اور پشتو دونوں کو بہ یک وقت تین بڑی تہذیبوں (ہندی، اسلامی اور فرنگی) کے اثرات کا ماحصل قرار دیا ہے۔ اُن کے خیال میں اس بنیاد پر غور کیا جائے تو پشتو اور اُردو، انگریزی زبان پر فائق ہیں اور یہ اِس خطے کے عظیم مخلوط تہذیبی ورثے کی امین ہیں۔ اردو کی طرح اس کے ذخیرۂ الفاظ کا بڑا حصہ عربی وفارسی سے مملُو ہے۔
یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ پاکستان کے طول وعرض میں مقیم پٹھانوں کے طفیل، نہ صرف پشتو کا پھیلاؤ ہوا ہے، بلکہ ان کی کثیر تعداد عوامی رابطے کے موقع پر اور بعض اپنے گھروں میں بھی اردو بولتے ہیں۔ یہ مشاہدہ عام ہے کہ اَن پڑھ موچی، مزدور، نان بائی وغیرہ اکثر دوسروں کے سامنے آپس میں بھی خواہ مادری زبان ہی بولیں، مگر اُن کے ہونٹوں پر اُردو گنتی خوب چڑھی ہوئی ہے اور حسبِ ضرورت، انگریزی گنتی کا استعمال بھی جانتے ہیں۔ یہ عوامی سطح پر اِن دونوں زبانوں کا اشتراک ہے، جبکہ درسی، کتابی وادبی میدان میں یہ اشتراک بہت بڑے پیمانے پر ایک طویل مدت سے جاری ہے۔
ہمیں اردو میں طبع آزمائی کرنے والے پشتون اہل قلم کی کثیر تعداد کے ساتھ ساتھ، روشنؔ نگینوی جیسے اردو گو شعراء بھی نظر آتے ہیں جنھوں نے بہ یک وقت اردو اور پشتو میدان سخن میں رنگ جمایا۔ وہ نگینہ گاؤں، بجنور (ہندوستان) سے ہجرت کرکے یہاں آئے اور برطانوی ہند فضائیہ میں خدمات انجام دینے کے بعد، پاک فضائیہ سے منسلک ہوئے۔
جاوید اختر کا گایا ہوا اُن کا کلام دونوں ہی زبانوں میں زباں زدِ عام ہے۔ اُن کے مشہور نغمات میں ''تجھ کوقسم ہے مِری نہ آنا ہاتھ خالی''، ''پشاورسے میری خاطر دنداسہ لانا'' اور اس کا پشتو رُوپ ''لاڑشہ پِخاور دے'' ، غزل '' کتنی مخمور ہیں تمھاری آنکھیں'دل کا سُرور ہیں تمھاری آنکھیں''۔ حیرت ہے کہ جدید اردو شعراء کی فہرست مرتب کرتے ہوئے اُن جیسے شاعر کو یکسر نظراَنداز کردیا جاتا ہے جنھوں نے کبھی کہا تھا:
کمال فن میں فن کا ایک پہلو یہ بھی ہے روشنؔ
کہ بن جاتے ہیں عیب اکثر ہُنر آہستہ آہستہ
(جاری)
یہ تو صرف مفادپرست اور غرض مند عناصر کی تنگ نظری اور خام خیالی رہی ہے۔ بلکہ ان سب (زبانوں) کے ادغام وامتزاج سے وہ صحیح قسم کی پاکستانی ثقافت متشکل ہوگی ، جس کی تعمیر ہمارے پیش نظر ہے اور اسی کے نتیجے میں وہ ملّت وجود پائے گی جو مستقبل میں عالمی ثقافت وسیاست میں ایک اہم کردار اَدا کرے گی''۔ مولاناعبدالقادرعلیگ، ڈائریکٹر پشتو اکیڈمی (پشاور) نے یہ الفاظ آج سے کوئی تریسٹھ سال پہلے (7اپریل 1960ء کو) محترم امتیاز علی خاں عرشی حاجی خیل کی مشہور ِزمانہ کتاب ''اردومیں پشتو کا حصہ'' کے دیباچے میں تحریر کیے تھے اور آج بھی اتنے ہی معتبر، برمحل اور برحق ہیں۔
انھوں نے برملا اس حقیقت کا اظہار کیا تھا کہ ''پاکستان کا وجود، دو چیزوں پر مبنی ہے ;اول دین اسلام اور دوسری ایک ایسی ملّی زبان جسے ملک کی عظیم اکثریت بخوبی بولتی سمجھتی ہو، اور جو ہر علاقے کی کہی جاسکے اور جس پر تنہا کسی کا دعویٰ نہ ہوسکے''۔ وہ زبان اردو کے سوا کونسی ہوسکتی ہے؟ اسی لیے راقم کا نصب العین ہے: ہماری پہچان۔ اسلام، اردو، پاکستان۔
ماضی میں خاکسار نے متعدد زبانوں کے اردو سے ارتباط اور تعلق کے موضوع پر خامہ فرسائی کی، حتیٰ کہ بعض نامانوس زبانوں اور بولیوں کے اردو سے اشتراک کا باب وا کیا، مگر اَبھی اس خطے کی کئی ایسی زبانیں اور بولیاں باقی ہیں جن سے اردو کا راست تعلق ہے اور اس بابت بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے، نیز تحقیق کی اشد ضرورت ہے۔
اس فہرست میں پشتو بھی شامل ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں اہل زبان (پشتون/پختون) حضرات نے بھی اس باب میں کچھ پیش رفت کی ہے جو یقیناً مستحسن اور لائق تقلید ہے۔ بحیثیت مجموعی پاکستان میں تحقیق، وہ بھی زبان وادب کے شعبے میں، خال خال ہی ہوئی ہے اور ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں تو وہ لوگ Legend، نابغہ اور عبقری کہلاتے ہیں جن کی شاعری کا کوئی نمونہ، عالم شباب میں مشہور ومقبول ہوجائے، چند کُتبشایع ہوجائیں اور پھر ساری عمر مشاعرے پڑھتے، سیرسیاحت کرتے اور مال بناتے گزارتے ہیں۔
بحمداللہ! بندہ یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہے کہ ایسے نام نہاد Legend حضرات نے اردو کی کوئی خدمت نہیں کی، ماسوائے اس کے کہ شعری سرمائے میں کچھ اضافہ کردیا، سو وہ تو بے شمار دیگر بھی کرچکے ہیں تو پھر وہ سارے ہی Legend ہوئے اَز ولی ؔ (احمدآبادی) گجراتی/اورنگ آبادی/ دکنی تا .....ظہیرظرفؔ، میرا عزیز خُردمعاصر! (ویسے اس بابت خاکسار پوری تحقیق 'زباں فہمی' کے ایک شمارے میں پیش کرچکا ہے کہ ولیؔ کو محض قیام اورنگ آباد، دکن کے سبب دکنی قرار دینا درست نہیں!)
''یہ حقیقت ہے کہ پشتو زبان میں بہت سے الفاظ ایسے ملتے ہیں جو اُردو میں بھی نظر آتے ہیں، مگر میں انھیں اُس وقت تک، بالکل ایسے ہی ریختہ (یعنی اردو۔ س ا ص) میں گھل مل جانے والے خالص پشتو الفاظ سمجھنے پر مجبور ہوں، جیسے سنسکرت، عربی، فارسی، بلکہ پرتگیز اور ملیالم وغیرہ (کی مثال ہے)، تاوقتیکہ یہ ثابت نہ ہوجائے کہ ا ن سب کا کوئی واضح سراغ سنسکرت میں نہیں ملتا''۔ یہ قول ہے ایک انگریز ماہرلسانیات کرنل رے ورٹی[Col. Raverty, H. G. (Henry George)] کا جس نے پشتو لغت [A dictionary of the Puk'hto, Pus'hto, or language of the Afghans] مرتب کرکے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا۔
یہ اہم لغت 1867ء میں Williams and Norgate کے زیراہتمام لندن سے شایع ہوئی اور ایک طویل مدت کے بعد مئی 2007ء میں امریکا کے محکمہ تعلیم [U. S. Department of Education] کی سرپرستی میں تازہ کار (Update)کرکے شایع کیا گیا تو آن لائن بھی دستیاب ہوئی۔ اس لغت میں پشتو زبان کی اصلیت اور دیگر مشرقی زبانوں اور بولیوں سے اُس کے تعلق کا جائزہ بھی لیا گیا۔ (لغت کی اولین اشاعت کے وقت موصوف میجر کے منصب پر فائز تھے)۔ امتیاز علی عرشیؔ نے کرنل موصوف کا قول نقل کیا ہے جو الفاظ کی بہتری کے ساتھ یہاں نقل کیا گیا۔
اردو کی اساس میں خطہ ہند و نواح کے ہمہ اقسام کے لوگوں کی آمدورفت اور میل ملاپ شامل ہے۔ اس ضمن میں پشتو کا کردار بہت واضح ہے کہ آریہ/آریا قوم کا بظاہر اصل وطن آریانہ/آریانا یعنی افغانستان (ہمارے ہمسائے میں، ورنہ یورپ کے متعلق زیادہ کہا اور لکھا گیا) بقول محقق موصوف ہمیشہ ایرانی، تاتاری ودیگر فاتحین یا حملہ آور سپاہ کے مقابل یعنی اُن کی یلغار اور لوٹ مار سے بچانے میں، ہندوستان کے کام آیا۔
یہ الگ بات ہے کہ جتنے حملہ آور یا فاتحین یہاں آئے، وہیں سے ہوکر آئے۔ تاریخی تناظر میں یہ حقیقت مسلّم ہے کہ محض سپاہ ہی نہیں، بلکہ علمائ، صوفیہ، سیاح، تاجر اور مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے عام افراد بھی بڑے پیمانے پر یہاں کسی نہ کسی سبب آ پہنچے، خواہ مستقل قیام کیا، صدیوں یا محض عارضی برائے کسب معاش۔ {ماضی قریب میں افغانوں (یعنی اصل پشتونوں) کی پاکستان آمد کا سلسلہ متواتر جاری رہا اور پچاس لاکھ سے زائد افراد یہاں آکر مقیم ہوگئے، جن کا ایک نامعلوم حصہ آج بھی پاکستان، ریاست جموں وکشمیر و گلگت بلتستان میں ہر جگہ موجود اور مقامی وسائل پر قابض یا اُس سے بے حساب مستفیض ہورہا ہے۔
موجودہ سرکاری اقدام سے قطع نظر، یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ کم وبیش تیس لاکھ غیرقانونی طور پر مقیم، معاشی ومعاشرتی لحاظ سے مستحکم، نیز یہاں تیس چالیس سال پہلے گھر خاندان بسانے والے افغان کبھی نہ جانے کے لیے آئے ہیں۔ عرشیؔ مرحوم زندہ ہوتے تو شاید اپنی کتاب میں ترمیم واضافہ کرلیتے۔ بہرحال اس جملہ معترضہ سے قطع نظر، ہم زبانوں کے ارتباط واشتراک کی بات جاری رکھیں گے}۔
مشہور روایات کے مطابق، افغان قوم (پشتون/پختون) کا دائرہ اسلام میں داخل ہونا بھی برّعظیم کے جنوب کی طرح، عہدرسالت مآب (ﷺ) ہی کا واقعہ ہے جب حضرت قیس عبدالرشید رضی اللہ عنہ' اور اُن کے ساتھیوں نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ' کے توسط سے دربار اقدس میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا۔ ان اولین افغان یا پٹھان صحابی کی قبر پاکستان میں ہے۔
رَدِتحقیق میں اس روایت سے انکار بھی کیا گیا ہے۔ ظہورِاسلام سے قبل، افغانستان یعنی مرکز پشتون قوم میں کبھی بُدھ مت تو کبھی ہندومت اور قدرے دیگر مذاہب کی عمل داری رہی اور یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ زبانوں کی تشکیل و ترقی میں کسی بھی مذہب کے کرتا دھرتا، علمائ، پنڈت پُجاری، پروہت، وغیرہ بہت فعال رہتے ہیں اور یہی سلسلہ اُن کے معتقدین کے ذریعے آگے بڑھتا ہے۔ یہ سارا عمل تاریخ کے دھارے کے ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے اور ضروری نہیں کہ اسے منضبط یعنی Record کیا جائے کتابی شکل میں۔ دوسرے عوامل میں فاتحین اور شاہان کی آمدورفت، قبضہ و حکمرانی شامل ہیں۔ خطہ ہند پر اوّل اوّل حملہ آور ہونے والے عظیم فاتح کا نام سبکتگین تھا۔ اُن کے عہد میں بڑے پیمانے پر سپاہ اور عوام کی نقل وحرکت کا سلسلہ شروع ہوا۔ اُن کے بعد اُن سے بڑے فاتح یعنی اُن کے اپنے جلیل القدر فرزند سلطان محمود غزنوی کی آمد ہوئی اور تاریخ کا منظرنامہ یکسر بدل گیا۔
خطہ ہند محمود کے تسلط سے افغانستان کا حصہ بن گیا، سلطان محمود غزنوی خود متعدد دینی ودنیوی علوم وفنون پر حاوی اور اہل ہنروفن کے قدرداں تھے۔ ان کے دربار کے وابستگان نے دنیائے علم وادب میں دھوم مچائی۔ اُن کی وفات 1030]ئ[ کے بعد بھی غزنوی اقتدار باقی رہا، مگر کمزور اور بقول کسے، ایرانی اثر سے مغلوب ہوکر، جب انھوں نے اپنا دارالسلطنت غزنین (غزنی) سے لاہور منتقل کیا تو افغان عناصر کی یہاں مقامی طور پر نمود بڑھ گئی۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ اُس دور میں لاہور، محمودپور ہوا کرتا تھا جس کا حاکم، یگانہ روزگار، ملِک ایاز (مدفون لاہور) تھا۔ سلطان محمود غزنوی کے بعد اُن کے جانشین اُن کی طرح لائق فائق تو نہ تھے، مگر بہرحال علمی شخصیات کی سرپرستی جاری رہی۔
غزنوی حکمرانوں کے دور میں ہونے والی سب سے بڑی علمی ولسانی پیش رفت یہ تھی کہ ایک ترقی پذیر زبان ہندوی (یعنی قدیم اردو) میں پورا پورا دیوان مرتب کرنے والا شاعر، مسعودسعدسلمان ( 1046 تا 1121ئ) لسانی افق پر جلوہ فگن ہوا جس کی وجہ شہرت فارسی شعرگوئی تھی۔ مسعود کے دو دیوان اس کے علاوہ فارسی اور عربی میں تھے، جن میں فارسی دیوان محفوظ ہے، جبکہ ہندوی دیوان کا محض ذکر ہی ملتا ہے۔
وہ چھے غزنوی سلاطین بشمول فرخ زاد، ابراہیم، مسعودبن ابراہیم، شیرزاد، ارسلان شاہ اور بہرام شاہ کے درباری شاعر وکتاب دار یعنی نگراں کتب خانہ [Librarian] تھے۔ انھیں قصیدہ گوئی میں کمال حاصل تھا، قطعہ، غزل اور رباعی سمیت تمام اصناف میں رواں تھے۔
غزنوی اقتدار کا سورج ڈوبا تو غوری سلاطین نے خطہ ہند پر قدرت حاصل کرتے ہوئے اُن سے بھی زیادہ توسیع کرتے ہوئے یہاں اپنا مستقل شاہی انتظام اس طرح کیا کہ دِلّی سمیت پورے ہند کے طول وعرض میں اُن کا سکّہ جاری ہوگیا۔ سلطان معزالدین محمد بن سام (المعروف شِہاب الدین غوری) بقول صاحبِ 'کتاب التواریخ' (خان بہادرمولوی سید احمد علی خاں سیمابؔ، مطبوعہ آرہ، بِہار، ہند:1917ئ) اولین پشتون تاجدار تھے۔
سلطان شہاب نے اپنے چہیتے غلام اور انتہائی باصلاحیت تُرک جرنیل قطب الدین ایبک کو ہندوستان میں اپنا نائب مقرر کیا جس نے مابعد خاندان غلاماں کی بنیاد رکھی۔ ایبک اور اُس کے جانشین ایک طویل عہد کے وارث ہوئے۔ غوری اور پھر غلاماں خاندان کی سلطنت اور مابعد آنے والے لودھی (صحیح لفظ لودی) اور سُوری حکمرانوں کے عہداِقتدار میں، افغان/پشتون اور ترک و ایرانی سپاہ وعوام بشمول علمائ، صوفیہ و تُجّار (تاجر کی جمع) دکن، مالوہ، خاندیس، گجرات، اَوَدھ، بِہار، بنگال اور گردونواح میں پھیل گئے ۔ ان تمام علاقوں میں اردو کی پرداخت اور مقامی زبانوں اور بولیوں کی نشونَما بہ یک وقت پشتو، ترکی اور فارسی کے اختلاط سے جاری رہی۔ یہاں یہ نکتہ پیش نظر رہے کہ جب اردو پروان چڑھ رہی تھی تو محض عربی، فارسی اور مقامی ہندوستانی زبانیں ہی اس کی معاون نہ تھیں، بلکہ پشتو بھی بدرجہ اتم اس کی تشکیل میں حصہ لے رہی تھی اور جب ہم فارسی کے عمل دخل کی بات کرتے ہیں تو یاد رکھنا چاہیے کہ پشتو نے فارسی سے بہت زیادہ اکتساب کیا ہے۔
(فی الحال یہ میرا موضوع نہیں کہ موجودہ پشتو یا کلاسیکی پشتو میں کتنے فیصد فارسیت ہے، مگر اہل زبان پشتون/پختون (افغان) اس بارے میں بہتر بتاسکتے ہیں)۔ پٹھانوں نے اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے وادی گنگ وجمن میں ڈیرا ڈالا تو مرہٹوں، سکھوں، لودیوں (لودھیوں) اور مغلوں سے مقابلہ کرکے متعدد چھوٹی بڑی ریاستیں بشمول نجیب آباد، فرخ آباد قایم کیں اور بھوپال، ٹونک (راجستھان)، جاورہ، رامپور اور جھانسی میں اپنے قدم جمائے۔
دیگر تفصیل سے قطع نظر، ''تواریخ ِ حافظ رحمت خانی'' (پشتو، مؤلفہ پیر معظم شاہ، زیرسرپرستی نواب حافظ رحمت خان روہیلہ، مترجمہ اردو; پیر معظم شاہ، مرتبہ خان روشن خان روشنؔ ، ناشر پشتو اکیڈمی) کے بیان کو سچ مانا جائے تو ہمارے نہایت محترم خواجہ (سیدمحمدبختیارالحُسینی) قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ (1173ء تا 1235ئ) بھی پشتون تھے، حالانکہ وہ اوش [Osh]، قرہ خطائی میں پیدا ہوئے تھے جو اَب قرغیزستان کا حصہ ہے، لہٰذا یہ بیان غلوکے زُمرے میں آتا ہے۔
آریہ لسانی گروہ کی رکنیت کے علاوہ، اردو اور پشتو میں قواعد کا مماثل ہونا، ذخیرہ الفاظ اور رسم الخط کا تقریباً یکساں ومشترک ہونا اور صوتی نظام کا ہم آہنگ ہونا ایسی خصوصیات ہیں جن کی بِناء پر ہم ان دونوں زبانوں کو ہم رشتہ قرار دے سکتے ہیں۔
یہی نہیں، بلکہ ادبی اشتراک کا پہلو بھی ان کے بیچ بنیادی تعلق کا نمایاں ثبوت ہے یعنی یہ کہ پشتون/پختون شعراء و اُدَباء نے اردو میں بھی طبع آزمائی کی، تراجم کا سلسلہ ہردو زبانوں میں عموماً اہل زبان نے اور کبھی کبھی دیگر نے کیا، موضوعات کا ایسا کوئی فرق یا بُعدالمشرقین نہیں کہ انھیں جُدا جُدا قرار دیا جائے۔
بقول ڈاکٹر عبدالستارجوہرؔ پراچہ ''یہ صحیح ہے کہ ان دونوں زبانوں کا رشتہ ماں بیٹی کا نہیں، لیکن پھر بھی یہ خالہ زاد بہنیں کہلا سکتی ہیں''۔ (اردو اور پشتو کے لسانی روابط۔ تحقیق برائے پی ایچ ڈی، پشاور)۔ انتہائی دل چسپ انکشاف یہ ہے کہ پشتو، شِنا، کھوار اور غالیچہ دردی زبانوں میں بھی شامل ہیں اور اُردو کی ہم رشتہ بھی۔ (اس بابت محقق موصوف نے کچھ الفاظ کی نشان دہی بھی کی ہے، مگر آن لائن دستیاب کتاب، پرانی نسخ ٹائپ پر شایع ہوئی اور پھر اَپ لوڈ، اس لیے بعض حروف کی بناوٹ قابل فہم نہیں)۔ یہاں ہمیں مشہور ماہرِلسانیات ڈاکٹر چٹرجی کے اس قیاس سے اتفاق کرنا پڑے گا کہ نسلی اختلاف سے قطع نظر، برّعظیم میں آنے والے دراوَڑ، آریہ، منگول، یونانی، کشان ودیگر اقوام کا آپس میں اختلاط بھی یقیناً ہوا ہوگا جس سے لسانی اشتراک و یگانگی کا سلسلہ فطری طور پر جاری رہتا ہے۔
ڈاکٹر عبدالستارجوہرؔ پراچہ نے اس بنیاد پر اُردو اور پشتو دونوں کو بہ یک وقت تین بڑی تہذیبوں (ہندی، اسلامی اور فرنگی) کے اثرات کا ماحصل قرار دیا ہے۔ اُن کے خیال میں اس بنیاد پر غور کیا جائے تو پشتو اور اُردو، انگریزی زبان پر فائق ہیں اور یہ اِس خطے کے عظیم مخلوط تہذیبی ورثے کی امین ہیں۔ اردو کی طرح اس کے ذخیرۂ الفاظ کا بڑا حصہ عربی وفارسی سے مملُو ہے۔
یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ پاکستان کے طول وعرض میں مقیم پٹھانوں کے طفیل، نہ صرف پشتو کا پھیلاؤ ہوا ہے، بلکہ ان کی کثیر تعداد عوامی رابطے کے موقع پر اور بعض اپنے گھروں میں بھی اردو بولتے ہیں۔ یہ مشاہدہ عام ہے کہ اَن پڑھ موچی، مزدور، نان بائی وغیرہ اکثر دوسروں کے سامنے آپس میں بھی خواہ مادری زبان ہی بولیں، مگر اُن کے ہونٹوں پر اُردو گنتی خوب چڑھی ہوئی ہے اور حسبِ ضرورت، انگریزی گنتی کا استعمال بھی جانتے ہیں۔ یہ عوامی سطح پر اِن دونوں زبانوں کا اشتراک ہے، جبکہ درسی، کتابی وادبی میدان میں یہ اشتراک بہت بڑے پیمانے پر ایک طویل مدت سے جاری ہے۔
ہمیں اردو میں طبع آزمائی کرنے والے پشتون اہل قلم کی کثیر تعداد کے ساتھ ساتھ، روشنؔ نگینوی جیسے اردو گو شعراء بھی نظر آتے ہیں جنھوں نے بہ یک وقت اردو اور پشتو میدان سخن میں رنگ جمایا۔ وہ نگینہ گاؤں، بجنور (ہندوستان) سے ہجرت کرکے یہاں آئے اور برطانوی ہند فضائیہ میں خدمات انجام دینے کے بعد، پاک فضائیہ سے منسلک ہوئے۔
جاوید اختر کا گایا ہوا اُن کا کلام دونوں ہی زبانوں میں زباں زدِ عام ہے۔ اُن کے مشہور نغمات میں ''تجھ کوقسم ہے مِری نہ آنا ہاتھ خالی''، ''پشاورسے میری خاطر دنداسہ لانا'' اور اس کا پشتو رُوپ ''لاڑشہ پِخاور دے'' ، غزل '' کتنی مخمور ہیں تمھاری آنکھیں'دل کا سُرور ہیں تمھاری آنکھیں''۔ حیرت ہے کہ جدید اردو شعراء کی فہرست مرتب کرتے ہوئے اُن جیسے شاعر کو یکسر نظراَنداز کردیا جاتا ہے جنھوں نے کبھی کہا تھا:
کمال فن میں فن کا ایک پہلو یہ بھی ہے روشنؔ
کہ بن جاتے ہیں عیب اکثر ہُنر آہستہ آہستہ
(جاری)