آتشزدگی کے واقعات اور انتظامی بے حسی

گزشتہ چند برسوں سے کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں بلند و بالا عمارتوں میں آتشزدگی کے واقعات تیزی سے بڑھ رہے ہیں

گزشتہ چند برسوں سے کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں بلند و بالا عمارتوں میں آتشزدگی کے واقعات تیزی سے بڑھ رہے ہیں (فوٹو: اسکرین گریب)

کراچی میں راشد منہاس روڈ پر واقع شاپنگ سینٹر میں آگ لگنے سے 11 افراد جاں بحق جب کہ متعدد افراد جھلس کر زخمی ہوگئے، میڈیا رپورٹس کے مطابق تجارتی عمارت میں آگ بجھانے کا نظام اور ہنگامی اخراج کا راستہ موجود نہ ہونا، اس قدر بڑے پیمانے پر تباہی کی وجہ بنا۔

دوسری جانب نگراں وزیراعلیٰ سندھ جسٹس (ر) مقبول باقر نے صوبے بھر میں تمام کمرشل اور سرکاری دفاتر، تعلیمی اداروں اور اسپتالوں کا سکیورٹی آڈٹ کرانے کا بھی حکم دے دیا ہے، انھوں نے ہر عمارت میں آگ بجھانے کے آلات ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے بھی رپورٹ طلب کر لی ہے۔

پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں آتشزدگی کے واقعات مسلسل ہوتے رہتے ہیں لیکن گزشتہ چند برسوں سے کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں بلند و بالا عمارتوں میں آتشزدگی کے واقعات تیزی سے بڑھ رہے ہیں لیکن ان کی روک تھام کے لیے کوئی اقدامات نہیں ہو رہے، جو لمحہ فکریہ ہے۔

پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں کثیرالمنزلہ عمارتوں اور شاپنگ مالز کی بہتات ہے، اکثر عمارتوں میں حفاظتی نظام موجود نہیں ہے اور اگر موجود ہے تو وہ دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ناکارہ ہوچکا ہے، کئی عمارتوں کی پارکنگ ہی نہیں ہے۔ رہائشی مکانات کو کمرشل بنا دیا گیا ہے، قوانین بنانے اور ان پر عمل کرنے والے کسی ادارے کو اس بگڑتی صورتحال کی کوئی پروا نہیں ہے۔

اخباری اطلاعات کے مطابق اس سے قبل بھی اسی عمارت میں آتشزدگی کے دو واقعات رونما ہوچکے تھے، جس کے بعد انتظامیہ کو عمارت میں آگے بجھانے کا نظام لگانے اور ہنگامی اخراج کا راستہ بنانے کی تنبیہ کی گئی تھی مگر اسے انتظامیہ نے پس پشت ڈال دیا ۔

دوسری جانب کراچی کی نوے فی صد عمارتوں میں آگے بجھانے کا نظام موجود نہ ہونے کا بھی انکشاف ہوچکا ہے، جس سے متعلقہ حکام کی مجرمانہ غفلت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ یہ صرف کسی ایک شہر یا صوبے ہی کا مسئلہ نہیں بلکہ ملک بھر میں بلڈنگ کوڈ آف پاکستان 2016 کو سرے سے نظرانداز کردیاگیا ہے۔

ملک میں دھڑا دھڑکثیر المنزلہ عمارتیں بن رہی ہیں لیکن متعلقہ حکام ان عمارتوں میں آگ بجھانے کے نظام اور ہنگامی اخراج کے راستوں کی موجودگی یقینی نہیں بنا پا رہے۔

تجارتی و رہائشی عمارتوں اور بازاروں میں آگ لگنا تو اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے لیکن تشویش کا پہلو یہ ہے کہ ملک کے صوبائی، ضلعی انتظامی اداروں کا آتشزدگی پر بر وقت قابو نہ پا سکنا ہے۔ کراچی اور لاہور میں فائر بریگیڈ اور بلدیاتی ادارے موجود ہیں، ان اداروں کے افسروں اور دیگر اسٹاف کی تعداد ہزاروں میں ہے۔

ٹیکس پئیرز کے پیسوں سے ان افسروں اور ملازمین کو تنخواہیں، مراعات دی جا رہی ہیں لیکن بحرانی صورتحال میں ان کی کارکردگی شرمناک حد تک مایوس کن ہے۔ شہر میں سیکڑوں بڑے حادثات کے بعد بھی فائر بریگیڈ اور اسنارکلز کی تعداد پاکستان کے سب سے بڑا شہر کے لیے اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔

فیکٹریوں کے اندر فائر سیفٹی کے فول پروف انتظامات نہیں ہیں اور جہاں ہیں، وہ بھی صرف رسمی طور پر کیے گئے ہیں۔ فائر فائٹرز کی تربیت اور اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے کسی کے پاس وقت نہیں ہے۔

دوسری جانب پاکستان کے دل لاہور میں بھی بلند بالا عمارتوں میں فائر سیفٹی فائٹنگ کے اقدامات نہیں ہیں، جس کے باعث وہاں بھی بلند بالا عمارتوں میں آتشزدگی کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔ ان بلند و بالا عمارتوں میں فائر سیفٹی فائٹنگ کا شعبہ اور اخراجی راستوں سمیت عمارتوں کی چھتوں پر سپرنکلر سسٹم نہیں لگائے گئے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ بلند بالا رہائشی و کمرشل عمارتوں کی تعمیر کے موقعے پر متعلقہ سرکاری ادارے بلڈنگز لاز کی پابندی کیوں نہیں کراتے؟


گنجان آباد علاقوں میں جہاں گلیاں قدرے تنگ ہیں اور عام حالات میں ایک گاڑی ان گلیوں میں داخل نہیں ہو سکتی تو ایسے ماحول میں امدادی کارروائی قدرے مشکل عمل ہوجاتی ہے، ایسی گنجان آبادی میں حادثے کی صورت میں اس جگہ تک رسائی مشکل ہوتی ہے اور تنگ راستے ہونے کی وجہ سے ملبہ ہٹانے کے لیے بھاری مشینری کا پہنچنا ناممکن ہوجاتا ہے اور امدادی کارروائیوں میں مشکلات پیش آتی ہیں۔

کراچی انتظامی اعتبار سے سات اضلاع پر مشتمل ہے مگر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی آج بھی اسی فرسودہ انتظامی حدود سے جڑی نظر آتی ہے جو ادارہ پچھلے 9 سال میں انتظامی حدود کے اعتبار سے جدت اختیار نہیں کرسکا، اس کے لیے کراچی جیسے شہر کی تعمیرات کا انتظام سنبھالنا ناممکن ہے۔

انجینئرنگ کے مناسب نمونے، پائیدار تعمیرات اور بہتر نگرانی کے تحت وجود میں آنے والی عمارتیں مختلف آفات کا سامنا کرنے کے لحاظ سے بہتر ہوتی ہیں، لیکن ایسی محفوظ عمارتوں کا وجود انتہائی محدود ہے، جب کہ عمارتوں کی تعمیر میں غیر رسمی طریقے زیادہ عام ہیں، جن میں تکنیکی عنصر بہت کم یا نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اور اس طرح کے عمارتی ڈھانچے موت کا جال بن جاتے ہیں۔

نامناسب تعمیرات کے بڑے اسباب میں کسی عمارت میں بنیادوں کا نہ ہونا اور ناقص تعمیراتی مواد کا استعمال ہے جب کہ ہوا داری اور ہنگامی اخراج کی عدم موجودگی اور ناقص برقی کام کے سبب اکثر عمارتیں استعمال کے قابل نہیں رہتیں۔

سب سے پہلے عوامی سطح پر یہ شعور ہونا بہت ضروری ہے کہ کسی بھی نئی جگہ جائیں تو وہاں پر ایمرجنسی کی صورت میں باہر نکلنے کے راستوں سے آگہی حاصل کریں۔ بالخصوص بچوں کے ہمراہ لوگوں کو ہنگامی صورتحال میں نکلنے میں مشکل ہوتی ہے۔

کمرشل مقامات پر عمارتوں کی انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ آگ سے متعلق آلات کی گاہے بگاہے جانچ کرتے رہیں کیونکہ پانچ چھ ماہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد ان آلات پر دھول جم جاتی ہیں اور ان میں کاربن آلودگی اور تپش کی نشاندہی کرنے والے سنسرز ضرورت کے وقت کام نہیں کرتے۔

کسی بھی ایسی صورتحال میں جب آگ لگنے کی صورت میں کسی عمارت کی اوپری منزلوں میں افراد محصور ہوجائیں تواکثر لوگ بدحواس ہوکر یا نیچے کھڑے لوگوں کے کہنے پر نیچے چھلانگ لگا دیتے ہیں جس سے زیادہ نقصان ہو جاتا ہے، اگر نیچے جانے کے راستے مسدود ہوجائیں تو کوشش کرنی چاہیے کہ عمارت کی چھت کی طرف چلے جائیں۔ کھلی جگہ پر جانے سے صاف ہوا میں سانس لینا آسان ہوتا ہے اور عمارت کے آکسیجن کی کمی اور دھوئیں سے متاثر ہونے کا امکان کم ہو جاتا ہے، اگر کمرے میں محصور ہوگئے ہیں توکھڑکی کھول دیں اور اس کے قریب رہیں تاکہ سانس لینا آسان ہو۔

معمولی آگ سے گھبرا کر لوگ بھاگ جاتے ہیں اور آگ پھیل جاتی ہے ایسے میں کچھ چھوٹے چھوٹے عمل نقصان میں کمی کر سکتے ہیں۔ سب سے پہلے تو لوگ بجلی کی فراہمی کو معطل کریں کیونکہ بجلی کی تاریں جل کر مزید شارٹ سرکٹ اور کرنٹ لگنے کے واقعات کا سبب بنتی ہیں، اکثر ریسکیو اہلکار بھی اس کا شکار ہو جاتے ہیں، چونکہ ایمرجنسی ایگزٹ کے سائن بورڈ اندھیرے میں چمکنے والے مواد سے بنتے ہیں اس لیے اندھیرے کی پرواہ کیے بغیر اسے منقطع کرنا چاہیے۔

عمارتوں میں کونوں اور دیواروں پر نصب سرخ رنگ کے آگ بجھانے والے آلات روزانہ ہماری نظروں سے گزرتے ہیں لیکن ہم ان پر زیادہ توجہ نہیں دیتے، کیونکہ فی الوقت ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن کسی بھی ہنگامی صورتحال میں اگر وہ اچانک یاد آجائیں اور ہم ان تک پہنچ بھی جائیں تو ہم میں سے بیشتر لوگوں کو انھیں استعمال کرنا نہیں آتا اور ایمرجنسی میں استعمال کی کوشش الجھا سکتی ہے اور دیر ہو سکتی ہے۔

اسی لیے ان آلات کو سمجھنا نہایت ضروری ہے تاکہ وقتِ ضرورت دشواری نہ ہو۔ ہر ایگزٹ روٹ کو استعمال کرنے والے لوگوں کی تعداد کے لیے کافی بڑا ہونا چاہیے۔ باہر نکلنے کے راستوں کی گنجائش اتنی ہوکہ عمارت میں موجود تمام افراد کو ایک ساتھ نکلنے میں قدرے آسانی ہو، نا کہ ہجوم کی بنا پر نکلنا مشکل ہو اور دھکم پیل سے مزید نقصان ہو۔ خارجی راستوں کی چھت کم از کم ساڑھے سات فٹ اونچی ہونی چاہیے۔ فائر بریگیڈ کے پاس ایمرجنسی ایگزٹ سلائیڈ بیلٹ ہونی چاہیے جس کے ذریعے بالائی منزلوں پر پھنسے افراد کو بآسانی سلائیڈ بیلٹ کے ذریعے نیچے اتارا جا سکے۔

وقت آگیا ہے کہ کراچی، لاہور سمیت دیگر شہروں میں ایک شفاف شہری بلدیاتی، مقامی اور صوبائی انتظامیہ کا نظام فعال کیا جائے، جمہوری بصیرت، عمل کی طاقت اور امنگ ہی ہمیں تباہی سے بچا سکتی ہے۔ ضروری ہے کہ تمام ضلعی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹیاں، بلڈنگ کوڈ آف پاکستان کے تحت رہائشی و کمرشل عمارتوں میں فائر فائٹنگ سسٹم کی تنصیب کو یقینی بنائیں ۔موجودہ صورتحال میں کمرشل و رہائشی عمارتوں کی جانچ پڑتال کرنے اور اس سے حاصل شدہ نتائج کی روشنی میں منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

شفافیت اور عملی کارکردگی کو وجود میں لانے کے لیے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں بڑے پیمانے پر تبدیلی جب کہ دوسری جانب سیمنٹ، ریت، اسٹیل، اینٹوں جیسے تعمیراتی سامان کے معیار کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ان پے درپے واقعات کے بعد کراچی میں تعمیراتی ضوابط کے عملا اور بلا تخصیص نفاذ کے ساتھ ساتھ تعمیراتی بے قاعدگیوں میں ملوث اداروں کا کڑا احتساب ناگزیر ہے۔
Load Next Story