کراچی پولیس شکایات عام ہیں

کراچی پولیس میں اب اعلیٰ پولیس افسروں کی سرپرستی میں بڑے ڈاکے مارے جائیں تو پولیس کارکردگی پر سوال اٹھتے ہیں

m_saeedarain@hotmail.com

پاکستان میں شاید پہلی بار یہ ہوا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر میں ایک زیر تربیت ڈی ایس پی کی متعدد سنگین جرائم میں ملوث ہونے پر گرفتاری ہوئی ہو اور اہم ضلع جنوبی کے ایس ایس پی کو اسی جرم میں عہدے سے ہٹایا گیا ہو اور پولیس نے ڈکیتی کرنے کے بعد چرایا گیا مال تقریباً سوا کروڑ روپیہ اور مسروقہ سامان خود واپس کردیا ہو اور اس سلسلے میں پولیس کے دیگر افسران بھی ملوث ہوئے ہوں۔

کراچی ملک بھر کی پولیس کے لیے عشروں سے دبئی بنا ہوا ہے ، پولیس افسروں اور اہلکاروں کی ترجیح بھی کراچی تبادلہ اور وہاں اچھی پوسٹنگ ہوا کرتی ہے کیونکہ کراچی پولیس اسٹیٹ بنا ہوا ہے جہاں کمائی کے لاتعداد مواقع ان کے منتظر رہتے ہیں اور کراچی میں پولیس افسروں ہی نہیں عام اہلکاروں کو ترقی بھی جلد مل جاتی ہے۔

میرے آبائی شہر شکارپور سے تعلق رکھنے والے ایک واقف ہیڈ کانسٹیبل جو وہاں ٹریفک پولیس میں تعینات تھا سے اچانک ملاقات ہوئی تھی جو ضلع جنوبی کے ایک تھانے کا ایس ایچ او تعینات تھا جس نے راقم کو بتایا تھا کہ وہ شکارپور میں رہتا تو ہیڈ کانسٹیبل ہی رہتا مگر کسی طرح اس نے کراچی پولیس میں تبادلہ کرا لیا جہاں وہ کچھ عرصے بعد اے ایس آئی بن گیا اور جلد ہی ترقی کرکے سب انسپکٹر بن گیا اور اسے ایس ایچ او کی پوسٹنگ بھی مل گئی۔ اس ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ میں نے شکارپور میں عشروں میں اتنا نہیں کمایا جتنا میں نے کراچی میں کمایا اور ترقی بھی حاصل کی۔

خواجہ اجمیر نگری میں سالوں پہلے میرے ہی شہر کے ایک اے ایس آئی سے ملاقات ہوئی تھی اور میں کوئی پلاٹ خریدنا چاہتا تھا جب اس خواہش کا اظہار میں نے اس سے کیا تو اس کا کہنا تھا کہ خریدنے کی کیا ضرورت ہے میں تھانے کی حدود میں کسی پلاٹ پر قبضہ کرا دیتا ہوں وہاں کسی فیملی کو بٹھا دو کچھ عرصے بعد یہی پلاٹ لاکھوں کا ہو جائے گا جسے فروخت کرکے شہر میں دوسرا پلاٹ لے لینا میں نے بھی کئی پلاٹوں پر قبضہ کرکے وہاں جھگیوں اور کچے گھروں میں غریب بسا رکھے ہیں۔

جن سے کچھ کرایہ بھی مل جاتا ہے اور قبضہ محفوظ بھی رہتا ہے یہی کام کرلو۔ میں اس مشورے پر عمل کی جرأت نہیں رکھتا تھا مگر یہ ضرور ہوا کہ کچھ عرصے بعد وہاں ڈبل روڈ بن گیا اور وہاں کے پلاٹوں کو پی پی حکومت نے لیز بھی دے دی تھی اور پلاٹ لاکھوں کے ہوگئے تھے۔

کراچی پولیس سے متعلق یہ شکایات عام ہیں کہ سرکاری اور نجی پلاٹوں پر قبضے، غیر قانونی تعمیرات، جوئے و سٹے کے اڈوں کی سرپرستی، منشیات فروشی، کباڑیوں اور دو نمبر کاروبار کرنے والوں سے ہفتہ وصولی،ریت و بجری کی فروخت، غیر قانونی واٹر ہائیڈرنٹس سمیت بے شمار معاملات ہیں جو پولیس کے بغیر چل نہیں سکتے اور یہی پولیس کی کمائی کا اہم ذریعہ بھی ہیں۔

خوامخواہ بے گناہوں کو مقدمات میں ملوث کرنے، ناحق لوگوں کو قید رکھنے، نجی عقوبت خانوں پر پولیس تشدد، رشوت وصولی کے بے شمار مواقعوں کے باوجود کرپٹ پولیس اہلکاروں کے پیٹ نہیں بھرتے اس لیے کافی عرصے سے پولیس افسران نے شارٹ ٹائم کڈنیپنگ ایجاد کی۔

پولیس کی اپنی ڈکیتیاں شروع ہوئیں جن میں پولیس کے ایس پی لیول کے افسران معطل اور گرفتار ہوئے مگر عدالتوں سے بعض وجوہات کے باعث بری ہو کر ملازمتوں پر بحال ہوئے اپنے تمام واجبات وصول کیے اور ریٹائرڈہو کر اپنی کمائی کے کروڑوں روپوں سے اب مختلف کاروبار کر رہے ہیں۔

سالوں پہلے ضلع خیرپور کے اچھے خاندان کا نوجوان گڑھی یاسین میں اسسٹنٹ کمشنر تعینات ہوا تھا جو بعد میں اپنے ضلع کی قومی شاہراہ پر سرکاری گاڑی میں بیٹھ کر پولیس اہلکاروں اور اپنے لوگوں کے ذریعے ڈکیتیاں کرانے کے الزام میں گرفتار ہوا تھا جو جرم ثابت ہونے پر برطرف ہوگیا تھا اور اب سالوں بعد کراچی میں ایک زیر تربیت نوجوان ڈی ایس پی گرفتار ہوا ہے ۔


خبر کے مطابق ڈی ایس پی کی مزید دو وارداتوں کے شواہد سامنے آگئے ہیں جس میں گرفتار زیر تربیت یہ ڈی ایس پی سرکاری موبائل میں سپاہیوں اور نجی گاڑی میں اپنے لوگوں کے ہمراہ دکان و گھروں کا سامان بھی لوٹ چکا ہے۔

اس نے اورنگی ٹاؤن میں ڈھائی کروڑ کی ڈکیتی کے علاوہ گلشن اقبال اسکیم33 و گلزار ہجری میں بھی ڈکیتیوں کی وارداتیں کیں جس کا ریمانڈ لے کر تحقیقاتی کمیٹی اس کے مطابق تحقیقات شروع کرچکی ہے جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ڈی ایس پی زیر تربیت ہے اس کے پاس پولیس نفری نہیں ہے۔

ایس ایس پی جنوبی نے اور ایس ایس پی ضلع غربی نے نفری اس کے ساتھ بھیجی۔ ڈی آئی جی پولیس نے اورنگی ڈکیتی کی تفتیش کے لیے 6 رکنی کمیٹی بنا دی ہے جس میں تفتیشی افسران شامل ہیں جو ڈکیتی کی واردات، اغوا، حبس بے جا کے الزامات کی تحقیقات کرے گی۔

اس معاملے میں جب ایس ایس پی ساؤتھ کو بھی عہدے سے ہٹایا گیا ہے مگر تحقیقاتی کمیٹی کا سربراہ ایس ایس پی غربی کو بنایا گیا ہے جب کہ کراچی پولیس کے چیف اچھی شہرت کے حامل ایک اعلیٰ افسر ہیں۔

جن کی سربراہی میں تفتیش کے لیے کمیٹی بنائی جانی چاہیے تھی کیونکہ یہ بہت اہم کیس ہے جس میں ایس ایس پی جنوبی کو عہدے سے ہٹایا گیا ہے اور ایک ایس ایس پی کو ڈی آئی جی غربی نے تحقیقات کی اہم ذمے داری سونپی ہے۔

یوں تو ملک بھر میں محکمہ پولیس میں ہی نہیں ہر سرکاری محکمے میں کرپشن کی ہوش ربا داستانیں موجود ہیں۔

کرپشن، کمیشن وصولی اور اختیارات کے غلط استعمال کرکے دولت جمع کرنے اور ملک سے باہر دولت محفوظ، جائیدادیں خریدنے اور غیر ملکی شہریتیں لینے میں ہر قسم کے حکمران، وزیر، اعلیٰ سرکاری افسران، اعلیٰ عدالتوں کے ججز بھی ملوث ہوں وہاں صرف پولیس کو ہی مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا مگر جن کا کام چوری ڈاکے روکنا ہو اور وہی پولیس وردی اور وسائل کا استعمال کرکے دو ڈھائی کروڑ کی ڈکیتیاں کریں تو یہ واقعی باعث تشویش ہے۔

پولیس میں کالی بھیڑیں ہر جگہ ہیں مگر کراچی پولیس میں اب اعلیٰ پولیس افسروں کی سرپرستی میں بڑے ڈاکے مارے جائیں تو پولیس کارکردگی پر سوال اٹھتے ہیں اور محکمہ بھی بدنام ہوتا ہے۔ مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ ایک ڈی ایس پی جو ابھی زیر تربیت ہے وہ اہم عہدے پر تعینات ہو کر کیا نہیں کرے گا جس نے زیر تربیت ہو کر یہ کچھ کر دکھایا ہے۔

اس کا دوسروں پر کیا اثر پڑے گا کہ اس کی یہی تربیت ہوئی ہے یا ناتجربہ کاری میں دوسرے اعلیٰ افسروں کے ہاتھوں استعمال ہو گیا مگر یہ کیس بہت اہم ہے۔

ایسے مقدمات میں ملزم عدالتوں سے بہت ہی کم سزا پا سکے ہیں اس لیے نگراں وزیر اعلیٰ کو مکمل غیر جانبداری سے اس کی منصفانہ تحقیقات کرا کر ملزموں کو کڑی سزا دلوانی چاہیے۔
Load Next Story