موسمیاتی تبدیلی سے خواتین زیادہ متاثر تحفظ کیلئے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے
حکومت، ماہرین اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کا ’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال
موسمیاتی تبدیلی اور خواتین پر اس کے اثرات کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، ماہرین اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔
فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر ساجد رشید
(ڈین فیکلٹی آف جیو سائنسز، جامعہ پنجاب )
موسمیاتی تبدیلی سمیت دیگر بڑے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے حکومت، غیر سرکاری تنظیموں، اکیڈیمیا، سول سوسائٹی سمیت معاشرے کے تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے جو انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی۔ہمیں سمجھنا چاہیے کہ کوئی بھی ادارہ اکیلئے مسائل حل نہیں کر سکتا لہٰذا سب کو مل کر کام کرنا ہوگا،اپنی سوچ اور رویے بدلنا ہوں گے۔
میرے نزدیک اگر 10 فیصد افراد بھی خود کو ٹھیک کر لیں تو ملک میں انقلاب آجائے گا۔ بطور اکیڈیمیا ہم بہترین کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی، کالج آف ارتھ اینڈ انوائرمینٹل سائنسز میں پہلے 60 سے 70 فیصد طلباء اور 30 سے 40 فیصد طالبات ہوتی تھی ۔ ہم نے خواتین کو بااختیار بنانے کے مشن کے تحت کام کا آغاز کیا۔
لوگوں کو آگاہی دی جس کے بعد اب صورتحال یہ ہے کہ کالج میں 50 سے 70 فیصد طالبات جبکہ 30 سے 50 فیصد طلباء ہیں۔ اس میں ریاست کا کردار بھی اہم ہے کہ گاؤں کی سطح پر گرلز ہائی سکول بنائے گئے جہاں سے پنیری لگی اور پھر لڑکیاں کالج اور یونیورسٹی تک پہنچی، ہم ان کے اساتذہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ پہلے یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ لاہور سے کوئی خاتون سروے کیلئے راجن پور جائے مگر انفراسٹرکچر بننے اور خواتین کی حوصلہ افزائی کرنے کے بعد یہ ممکن ہوا ہے۔
ہم نے اپنے کالج میں دوران ڈگری فیلڈ ورک کو لازمی قرار دیا ہے۔ طلباء و طالبات کو اساتذہ کی زیر نگرانی الگ الگ گروپس میں ملک کے مختلف علاقوں میں فیلڈ ورک کیلئے بھیجا جاتا ہے تاکہ انہیں صحیح معنوں میں مسائل کا اندازہ ہوسکے۔
یہ تین سے پانچ دن کا دورہ ہوتا ہے۔ طالبات کو خانسپور، ایبٹ آباد، مری و دور دراز علاقوں میں بھیجا جاتا ہے تاکہ انہیں کم انفراسٹرکچر والے علاقوں میں کام کرنے کا تجربہ ہوسکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک طلبہ خود مشکل مراحل سے نہیں گزریں گے، انہیں درست اندازہ نہیں ہوگا۔ ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ آگاہی کا نہ ہونا ہے۔
لوگوں کو موسمیاتی تبدیلی، پانی، قدرتی آفات و دیگر مسائل کے بارے میںا ٓگاہی دینا ہوگی۔ سموگ سے نہ صرف خواتین بلکہ آنے والی نسل بھی متاثر ہو رہی ہے، سانس کے ذریعے باریک زہریلے ذرات خون میں شامل ہو جاتے ہیں، ٹی بی ، دمہ و دیگر امراض کی تعداد بڑھ رہی ہے، ہر دوسرے شخص کو کھانسی کی شکایت ہے لہٰذا سموگ سے بچاؤ کیلئے ہر ممکن اقدامات کرنا ہونگے۔
حمید اللہ ملک
(ڈائریکٹر پی ڈی ایم اے )
کسی بھی ممکنہ خطرے کے پیش نظر ہماری کوشش اور مقصد یہی ہوتا ہے کہ ہم ہر اس فرد تک پہنچیں جو اس سے متاثر ہوسکتا ہے تاکہ پیشگی اقدامات کرکے لوگوں کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔ زیادہ بارشوں، برف باری ، اربن فلڈنگ و دیگر وجوہات کی وجہ سے لوگوں کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔
کسی بھی ہنگامی صورتحال کے حوالے سے عوام کو پیشگی اطلاع دی جاتی ہے، انہیں خبردار کیا جاتا ہے کہ سیلاب کا خطرہ ہے، نقل مکانی کر جائیں مگر لوگ بیٹھے رہتے ہیں،اکثر اوقات ہمیں زبردستی علاقہ خالی کروانا پڑتا ہے۔24 کروڑ آبادی میں ہر شخص کے ساتھ کسی ایک فرد کی ڈیوٹی نہیں لگائی جاسکتی لہٰذا لوگوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
پنجاب میںلوگوں کا مزاج مختلف ہے۔ دریائے ستلج کے قریب 8 لاکھ کی آبادی متاثر ہوئی، ہم نے دونوں اطراف میں کیمپ لگائے، لوگ ان کیمپوں میں نہیں ٹہرے،وہ کیمپ میں قیام کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ جن افراد کو ریسکیو کرکے لایا گیا،وہ وہاں سے کھانا کھانے کے بعد اپنے عزیزو اقارب کی طرف چلے گئے۔ اس سب کے باوجود ہم نے ان علاقوں میں موجود افراد کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام اقدامات کر رکھے تھے۔
پی ڈی ایم اے کو جتنا عملہ درکار ہے وہ ہمارے پاس موجود ہے۔ ہمارا کام صوبائی سطح پر معاملات کو دیکھنا ہے جبکہ ضلعی سطح پرڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں 'ڈی ڈی ایم اے' موجود ہے جو ریسکیو 1122 و دیگر اداروں کے تعاون سے ہنگامی صورتحال میں کام کرتی ہے۔ ان کے ساتھ پٹواری اور نمبردار بھی لنک ہوتے ہیں جنہیں ہر علاقے کی صورتحال کا علم ہوتا ہے، اس طرح 'ڈی ڈی ایم اے' کسی بھی مشکل صورتحال میں باہمی روابط اور انفارمیشن کے ساتھ بہترین کام کرتی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں جس سے نمٹنے کیلئے زیادہ وسائل درکار ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کا نقصان سب کو ہو رہا ہے مگر خواتین اس سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔ زیر زمین پانی کی سطح کم ہونے کی وجہ سے خواتین کو دور دراز علاقوں سے پانی بھرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح جنگلات کی کمی کی وجہ سے خواتین کو لکڑیاں کاٹنے کیلئے دور جانا پڑتا ہے۔
قحط سالی ہو یا سیلاب، دونوں صورتوں میں ہی خواتین بری طرح متاثر ہوتی ہیں۔سیلاب کی وجہ سے خواتین کو آمد و رفت میں مسئلہ ہوتا ہے۔ اسی طرح بچے کی پیدائش، خاتون کی صحت، علاج معالجے کی سہولیات، خوراک و دیگر ضروریات کو پورا کرنے میں بھی انہیں بدترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم سیلاب متاثرہ علاقوں میں خواتین کی خاص ضروریات کا خصوصی خیال رکھتے ہیں،اس حوالے سے مناسب بندوبست کیا جاتا ہے۔
ہم نے دریائے سندھ، جہلم اور چناب کے اردگرد علاقوں میں سروے کیا تاکہ وہاں پر موجود خواتین، بچوں و دیگر افراد کو لاحق ممکنہ خطرات اور ان کی ضروریات کا معلوم ہوسکے۔ اس کی روشنی میں اقدامات کیے جاتے ہیں، اسی طرز پر ہم دریائے ستلج اور راوی کے علاقوں میں سروے کرنے جا رہے ہیں۔
اس سے کسی بھی ہنگامی صورتحال میں اقدامات کرنے میں مدد ملے گی۔ مری میں زلزلہ اور برفباری، دو بڑے مسائل ہیں، وہاں پر ہم نے لاکھوں افراد کا ڈیٹا اکٹھا کیا جس میں خواتین، بچے، خواجہ سراء و دیگر شامل ہیں، اس کی روشنی میں حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہیں۔ پہلے ڈاکٹرز کی کمی ہوتی تھی، اب ان کی تعداد بھی زیادہ ہے اور وہ دوردراز علاقوں میں کام کرنے کیلئے میسر بھی ہوتے ہیں۔ یہاں راجن پور اور ڈیرہ غازی خان میں سیلاب کی بات ہوئی۔
وہاں کا کلچر مختلف ہے۔ ادھر سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں، وہاں کسی ایک بھی بچے کی گمشدگی کا واقعہ پیش نہیں آیا۔ سیلاب متاثرہ علاقوں میں امدادی کاموں کے حوالے سے 'ڈی ڈی ایم اے' نے سب کو آن بورڈ لیا، وہاں این جی اوز کو بھی لنک کیا اور انہیں بتایا کہ کس علاقے میں ضرورت ہے تاکہ کسی ایک علاقے میں بلا ضرورت بار بار امدادی سامان نہ جائے اور کسی دوسرے علاقے میں لوگ محروم نہ رہ جائیں۔
آفات میں جتنی بھی تیاری کر لیں کم ہوتی ہے۔ یہ تو ترقی یافتہ ممالک میں بھی بڑا مسئلہ ہے تاہم بیرون ممالک سے آنے والے ماہرین ہمیں یہ کہتے ہیں کہ انتہائی محدود وسائل کے ساتھ آپ کا رسپانس بہت اچھا ہے۔ سموگ ہمارے ہاں ایک سنگین صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔
کاربن کی آلودگی پیدا کرنے میں پاکستان کا حصہ 1 فیصد سے بھی کم ہے مگر ہمارا شمار اس سے متاثر ہونے والے پہلے 10 ممالک میں ہوتا ہے۔ اس کی روک تھام میں حکومت کے ساتھ ساتھ شہریوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، زیادہ دھواں چھوڑتی گاڑیوں، فیکٹروں کے حوالے سے متعلقہ اداروں کو شکایت کریں، اس سے فائدہ ہوگا۔ ٹڈی دل کے حملے میں ہمیں مقامی لوگ اطلاع کر دیتے تھے۔
25 ہزار گاؤں سے ہمیں روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ ملتی تھی، جو مقامی لوگ دیتے تھے، اس طرح کروڑوں روپے کا خرچ بچا۔ یہ خوش آئند ہے کہ معاشرے نے اپنی ذمہ داریوں کو قبول کرنا شروع کر دیا ہے، ماضی کی نسبت اب صورتحال بہتر ہے، حکومت، سول سوسائٹی اور معاشرے کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
اسماء عامر
(نمائندہ سول سوسائٹی )
زمین کو ہم'مدر ارتھ' کہتے ہیں۔ ماں سب کی ضروریات کا خیال رکھتی ہے۔ سب اس کے دل کے قریب ہوتے ہیں اور وہ بھی سب کو عزیز ہوتی ہے لہٰذا ہمیں 'مدر ارتھ'کو موسمیاتی تبدیلی و دیگر مسائل سے بچانا ہے اور اس کا خیال رکھنا ہے۔
اس وقت موسمیاتی تبدیلی ایک بہت بڑا چیلنج ہے لیکن اس پر ہمارے ہاں اتنی بات نہیں ہوتی جتنی ہونی چاہیے۔ بات ہوگی تو لوگوں کو اس کی سنجیدگی کا علم ہوگا اور پھر اس پر کام ہوگا۔ اس وقت سموگ کی صورت میں ایک اور چیلنج کا سامنا ہے جس کا تعلق ہمارے رہن سہن، بے احتیاطی ، پالیسیوں اور ان پر عملدرآمد نہ ہونے سے ہے۔ ہر سال سموگ ہوتی ہے جس سے شہریوں کی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے خصوصاََ خواتین کی مشکلات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ان کی خوراک اچھی نہیں ہے۔
ان کی قوت مدافعت کم ہے جس سے ان کی صحت متاثر ہو رہی ہے۔ ہر سال 'کلائمیٹ جسٹس' کی بات ہوتی ہے لیکن پھر سال بعد سموگ کے دوران سمارٹ لاک ڈاؤن لگا دیا جاتا ہے، اب بھی سمارٹ لاک ڈاؤن کی وجہ سے خواتین کیلئے مسائل پیدا ہوگئے ہیں، گھریلو جھگڑے و دیگر چیلنجز ان کیلئے پریشانی کا باعث ہیں۔ سوال یہ ہے کہ فصلوں کی باقیات کوجلانے والوں کو کیوں نہیں روکا جاتا۔ بھٹوں، فیکٹریوں اور گاڑیوں کا دھواں کیوں نہیں کنٹرول کیا جاتا؟ میرے نزدیک موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر خواتین ہوتی ہیں لیکن اس طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔
گزشتہ برس سیلاب آیا تو ہم نے پنجاب کے ضلع راجن پور کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں کام کیا۔ وہاں کی 6 تحصیلوں کے 300 گھرانوں کی مدد کی۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ سیلاب کی وجہ سے خواتین کو بدترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔سب سے پہلا مسئلہ تو یہ تھا کہ ان کے سر سے چھت چلی گئی، وہ بے گھر ہوگئی جس کی وجہ سے ان کیلئے خطرات بڑھ گئے۔ وسائل تک ان کی رسائی نہ رہی، انہیں آمد و رفت کا مسئلہ، ماں کیلئے اپنی بچیوں کو اکیلا چھوڑ کر جانے کا مسئلہ، اس طرح کے بیشتر مسائل ان کی مشکلات میں اضافہ کرتے رہے۔
بدقسمتی سے سیلاب متاثرہ علاقوں میں خواتین، لڑکیوں اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز رونما ہوئے، خواتین کو ہراساں کیا گیا اور کم عمری کی شادیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔جیندڑ بیسڈ وائلنس کے حوالے سے قانون موجود ہے مگر عملدرآمد میں مسئلہ ہے۔ سیلاب متاثرہ علاقوں میں خواتین کیلئے خصوصی ٹائلٹ، حاملہ خواتین کیلئے خصوصی سہولیات کا بھی فقدان تھا، ان کی صحت بھی بری طرح متاثر تھی، ہمیں کسی بھی ہنگامی صورتحال میں اقدامات کرتے ہوئے تمام پہلوؤں اور ضرورتوں کا خیال رکھنا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کیلئے ہم خواتین اپنی مدد آپ کے تحت شجرکاری کر رہی ہیں۔ ہم نے لاہور، شیخوپورہ اور ننکانہ صاحب کے سکولوں، صحت مراکز و دیگر مقامات پر پودے لگائے ہیں، ان کی دیکھ بھال بھی کی جا رہی ہے۔سول سوسائٹی، اکیڈیمیا، حکومت، اداروں سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر مسائل حل کرنا ہونگے۔ خواتین اور بچوں کو مزید استحصال اور مشکلات سے بچانے کیلئے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنا ہوگا۔
فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر ساجد رشید
(ڈین فیکلٹی آف جیو سائنسز، جامعہ پنجاب )
موسمیاتی تبدیلی سمیت دیگر بڑے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے حکومت، غیر سرکاری تنظیموں، اکیڈیمیا، سول سوسائٹی سمیت معاشرے کے تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے جو انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی۔ہمیں سمجھنا چاہیے کہ کوئی بھی ادارہ اکیلئے مسائل حل نہیں کر سکتا لہٰذا سب کو مل کر کام کرنا ہوگا،اپنی سوچ اور رویے بدلنا ہوں گے۔
میرے نزدیک اگر 10 فیصد افراد بھی خود کو ٹھیک کر لیں تو ملک میں انقلاب آجائے گا۔ بطور اکیڈیمیا ہم بہترین کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی، کالج آف ارتھ اینڈ انوائرمینٹل سائنسز میں پہلے 60 سے 70 فیصد طلباء اور 30 سے 40 فیصد طالبات ہوتی تھی ۔ ہم نے خواتین کو بااختیار بنانے کے مشن کے تحت کام کا آغاز کیا۔
لوگوں کو آگاہی دی جس کے بعد اب صورتحال یہ ہے کہ کالج میں 50 سے 70 فیصد طالبات جبکہ 30 سے 50 فیصد طلباء ہیں۔ اس میں ریاست کا کردار بھی اہم ہے کہ گاؤں کی سطح پر گرلز ہائی سکول بنائے گئے جہاں سے پنیری لگی اور پھر لڑکیاں کالج اور یونیورسٹی تک پہنچی، ہم ان کے اساتذہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ پہلے یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ لاہور سے کوئی خاتون سروے کیلئے راجن پور جائے مگر انفراسٹرکچر بننے اور خواتین کی حوصلہ افزائی کرنے کے بعد یہ ممکن ہوا ہے۔
ہم نے اپنے کالج میں دوران ڈگری فیلڈ ورک کو لازمی قرار دیا ہے۔ طلباء و طالبات کو اساتذہ کی زیر نگرانی الگ الگ گروپس میں ملک کے مختلف علاقوں میں فیلڈ ورک کیلئے بھیجا جاتا ہے تاکہ انہیں صحیح معنوں میں مسائل کا اندازہ ہوسکے۔
یہ تین سے پانچ دن کا دورہ ہوتا ہے۔ طالبات کو خانسپور، ایبٹ آباد، مری و دور دراز علاقوں میں بھیجا جاتا ہے تاکہ انہیں کم انفراسٹرکچر والے علاقوں میں کام کرنے کا تجربہ ہوسکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک طلبہ خود مشکل مراحل سے نہیں گزریں گے، انہیں درست اندازہ نہیں ہوگا۔ ہمارے ہاں ایک بڑا مسئلہ آگاہی کا نہ ہونا ہے۔
لوگوں کو موسمیاتی تبدیلی، پانی، قدرتی آفات و دیگر مسائل کے بارے میںا ٓگاہی دینا ہوگی۔ سموگ سے نہ صرف خواتین بلکہ آنے والی نسل بھی متاثر ہو رہی ہے، سانس کے ذریعے باریک زہریلے ذرات خون میں شامل ہو جاتے ہیں، ٹی بی ، دمہ و دیگر امراض کی تعداد بڑھ رہی ہے، ہر دوسرے شخص کو کھانسی کی شکایت ہے لہٰذا سموگ سے بچاؤ کیلئے ہر ممکن اقدامات کرنا ہونگے۔
حمید اللہ ملک
(ڈائریکٹر پی ڈی ایم اے )
کسی بھی ممکنہ خطرے کے پیش نظر ہماری کوشش اور مقصد یہی ہوتا ہے کہ ہم ہر اس فرد تک پہنچیں جو اس سے متاثر ہوسکتا ہے تاکہ پیشگی اقدامات کرکے لوگوں کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔ زیادہ بارشوں، برف باری ، اربن فلڈنگ و دیگر وجوہات کی وجہ سے لوگوں کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔
کسی بھی ہنگامی صورتحال کے حوالے سے عوام کو پیشگی اطلاع دی جاتی ہے، انہیں خبردار کیا جاتا ہے کہ سیلاب کا خطرہ ہے، نقل مکانی کر جائیں مگر لوگ بیٹھے رہتے ہیں،اکثر اوقات ہمیں زبردستی علاقہ خالی کروانا پڑتا ہے۔24 کروڑ آبادی میں ہر شخص کے ساتھ کسی ایک فرد کی ڈیوٹی نہیں لگائی جاسکتی لہٰذا لوگوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
پنجاب میںلوگوں کا مزاج مختلف ہے۔ دریائے ستلج کے قریب 8 لاکھ کی آبادی متاثر ہوئی، ہم نے دونوں اطراف میں کیمپ لگائے، لوگ ان کیمپوں میں نہیں ٹہرے،وہ کیمپ میں قیام کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں۔ جن افراد کو ریسکیو کرکے لایا گیا،وہ وہاں سے کھانا کھانے کے بعد اپنے عزیزو اقارب کی طرف چلے گئے۔ اس سب کے باوجود ہم نے ان علاقوں میں موجود افراد کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے تمام اقدامات کر رکھے تھے۔
پی ڈی ایم اے کو جتنا عملہ درکار ہے وہ ہمارے پاس موجود ہے۔ ہمارا کام صوبائی سطح پر معاملات کو دیکھنا ہے جبکہ ضلعی سطح پرڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں 'ڈی ڈی ایم اے' موجود ہے جو ریسکیو 1122 و دیگر اداروں کے تعاون سے ہنگامی صورتحال میں کام کرتی ہے۔ ان کے ساتھ پٹواری اور نمبردار بھی لنک ہوتے ہیں جنہیں ہر علاقے کی صورتحال کا علم ہوتا ہے، اس طرح 'ڈی ڈی ایم اے' کسی بھی مشکل صورتحال میں باہمی روابط اور انفارمیشن کے ساتھ بہترین کام کرتی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں جس سے نمٹنے کیلئے زیادہ وسائل درکار ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کا نقصان سب کو ہو رہا ہے مگر خواتین اس سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔ زیر زمین پانی کی سطح کم ہونے کی وجہ سے خواتین کو دور دراز علاقوں سے پانی بھرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح جنگلات کی کمی کی وجہ سے خواتین کو لکڑیاں کاٹنے کیلئے دور جانا پڑتا ہے۔
قحط سالی ہو یا سیلاب، دونوں صورتوں میں ہی خواتین بری طرح متاثر ہوتی ہیں۔سیلاب کی وجہ سے خواتین کو آمد و رفت میں مسئلہ ہوتا ہے۔ اسی طرح بچے کی پیدائش، خاتون کی صحت، علاج معالجے کی سہولیات، خوراک و دیگر ضروریات کو پورا کرنے میں بھی انہیں بدترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم سیلاب متاثرہ علاقوں میں خواتین کی خاص ضروریات کا خصوصی خیال رکھتے ہیں،اس حوالے سے مناسب بندوبست کیا جاتا ہے۔
ہم نے دریائے سندھ، جہلم اور چناب کے اردگرد علاقوں میں سروے کیا تاکہ وہاں پر موجود خواتین، بچوں و دیگر افراد کو لاحق ممکنہ خطرات اور ان کی ضروریات کا معلوم ہوسکے۔ اس کی روشنی میں اقدامات کیے جاتے ہیں، اسی طرز پر ہم دریائے ستلج اور راوی کے علاقوں میں سروے کرنے جا رہے ہیں۔
اس سے کسی بھی ہنگامی صورتحال میں اقدامات کرنے میں مدد ملے گی۔ مری میں زلزلہ اور برفباری، دو بڑے مسائل ہیں، وہاں پر ہم نے لاکھوں افراد کا ڈیٹا اکٹھا کیا جس میں خواتین، بچے، خواجہ سراء و دیگر شامل ہیں، اس کی روشنی میں حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہیں۔ پہلے ڈاکٹرز کی کمی ہوتی تھی، اب ان کی تعداد بھی زیادہ ہے اور وہ دوردراز علاقوں میں کام کرنے کیلئے میسر بھی ہوتے ہیں۔ یہاں راجن پور اور ڈیرہ غازی خان میں سیلاب کی بات ہوئی۔
وہاں کا کلچر مختلف ہے۔ ادھر سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں، وہاں کسی ایک بھی بچے کی گمشدگی کا واقعہ پیش نہیں آیا۔ سیلاب متاثرہ علاقوں میں امدادی کاموں کے حوالے سے 'ڈی ڈی ایم اے' نے سب کو آن بورڈ لیا، وہاں این جی اوز کو بھی لنک کیا اور انہیں بتایا کہ کس علاقے میں ضرورت ہے تاکہ کسی ایک علاقے میں بلا ضرورت بار بار امدادی سامان نہ جائے اور کسی دوسرے علاقے میں لوگ محروم نہ رہ جائیں۔
آفات میں جتنی بھی تیاری کر لیں کم ہوتی ہے۔ یہ تو ترقی یافتہ ممالک میں بھی بڑا مسئلہ ہے تاہم بیرون ممالک سے آنے والے ماہرین ہمیں یہ کہتے ہیں کہ انتہائی محدود وسائل کے ساتھ آپ کا رسپانس بہت اچھا ہے۔ سموگ ہمارے ہاں ایک سنگین صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔
کاربن کی آلودگی پیدا کرنے میں پاکستان کا حصہ 1 فیصد سے بھی کم ہے مگر ہمارا شمار اس سے متاثر ہونے والے پہلے 10 ممالک میں ہوتا ہے۔ اس کی روک تھام میں حکومت کے ساتھ ساتھ شہریوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، زیادہ دھواں چھوڑتی گاڑیوں، فیکٹروں کے حوالے سے متعلقہ اداروں کو شکایت کریں، اس سے فائدہ ہوگا۔ ٹڈی دل کے حملے میں ہمیں مقامی لوگ اطلاع کر دیتے تھے۔
25 ہزار گاؤں سے ہمیں روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ ملتی تھی، جو مقامی لوگ دیتے تھے، اس طرح کروڑوں روپے کا خرچ بچا۔ یہ خوش آئند ہے کہ معاشرے نے اپنی ذمہ داریوں کو قبول کرنا شروع کر دیا ہے، ماضی کی نسبت اب صورتحال بہتر ہے، حکومت، سول سوسائٹی اور معاشرے کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
اسماء عامر
(نمائندہ سول سوسائٹی )
زمین کو ہم'مدر ارتھ' کہتے ہیں۔ ماں سب کی ضروریات کا خیال رکھتی ہے۔ سب اس کے دل کے قریب ہوتے ہیں اور وہ بھی سب کو عزیز ہوتی ہے لہٰذا ہمیں 'مدر ارتھ'کو موسمیاتی تبدیلی و دیگر مسائل سے بچانا ہے اور اس کا خیال رکھنا ہے۔
اس وقت موسمیاتی تبدیلی ایک بہت بڑا چیلنج ہے لیکن اس پر ہمارے ہاں اتنی بات نہیں ہوتی جتنی ہونی چاہیے۔ بات ہوگی تو لوگوں کو اس کی سنجیدگی کا علم ہوگا اور پھر اس پر کام ہوگا۔ اس وقت سموگ کی صورت میں ایک اور چیلنج کا سامنا ہے جس کا تعلق ہمارے رہن سہن، بے احتیاطی ، پالیسیوں اور ان پر عملدرآمد نہ ہونے سے ہے۔ ہر سال سموگ ہوتی ہے جس سے شہریوں کی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے خصوصاََ خواتین کی مشکلات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ان کی خوراک اچھی نہیں ہے۔
ان کی قوت مدافعت کم ہے جس سے ان کی صحت متاثر ہو رہی ہے۔ ہر سال 'کلائمیٹ جسٹس' کی بات ہوتی ہے لیکن پھر سال بعد سموگ کے دوران سمارٹ لاک ڈاؤن لگا دیا جاتا ہے، اب بھی سمارٹ لاک ڈاؤن کی وجہ سے خواتین کیلئے مسائل پیدا ہوگئے ہیں، گھریلو جھگڑے و دیگر چیلنجز ان کیلئے پریشانی کا باعث ہیں۔ سوال یہ ہے کہ فصلوں کی باقیات کوجلانے والوں کو کیوں نہیں روکا جاتا۔ بھٹوں، فیکٹریوں اور گاڑیوں کا دھواں کیوں نہیں کنٹرول کیا جاتا؟ میرے نزدیک موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر خواتین ہوتی ہیں لیکن اس طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔
گزشتہ برس سیلاب آیا تو ہم نے پنجاب کے ضلع راجن پور کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں کام کیا۔ وہاں کی 6 تحصیلوں کے 300 گھرانوں کی مدد کی۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ سیلاب کی وجہ سے خواتین کو بدترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔سب سے پہلا مسئلہ تو یہ تھا کہ ان کے سر سے چھت چلی گئی، وہ بے گھر ہوگئی جس کی وجہ سے ان کیلئے خطرات بڑھ گئے۔ وسائل تک ان کی رسائی نہ رہی، انہیں آمد و رفت کا مسئلہ، ماں کیلئے اپنی بچیوں کو اکیلا چھوڑ کر جانے کا مسئلہ، اس طرح کے بیشتر مسائل ان کی مشکلات میں اضافہ کرتے رہے۔
بدقسمتی سے سیلاب متاثرہ علاقوں میں خواتین، لڑکیوں اور بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز رونما ہوئے، خواتین کو ہراساں کیا گیا اور کم عمری کی شادیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔جیندڑ بیسڈ وائلنس کے حوالے سے قانون موجود ہے مگر عملدرآمد میں مسئلہ ہے۔ سیلاب متاثرہ علاقوں میں خواتین کیلئے خصوصی ٹائلٹ، حاملہ خواتین کیلئے خصوصی سہولیات کا بھی فقدان تھا، ان کی صحت بھی بری طرح متاثر تھی، ہمیں کسی بھی ہنگامی صورتحال میں اقدامات کرتے ہوئے تمام پہلوؤں اور ضرورتوں کا خیال رکھنا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کیلئے ہم خواتین اپنی مدد آپ کے تحت شجرکاری کر رہی ہیں۔ ہم نے لاہور، شیخوپورہ اور ننکانہ صاحب کے سکولوں، صحت مراکز و دیگر مقامات پر پودے لگائے ہیں، ان کی دیکھ بھال بھی کی جا رہی ہے۔سول سوسائٹی، اکیڈیمیا، حکومت، اداروں سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر مسائل حل کرنا ہونگے۔ خواتین اور بچوں کو مزید استحصال اور مشکلات سے بچانے کیلئے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنا ہوگا۔