پرائیویٹ سیکٹر برآمدات بڑھانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے
مالیاتی مارکیٹوں تک عدم رسائی، غیر تربیت یافتہ لیبر اور بیوروکریسی بڑی رکاوٹیں ہیں
پرائیویٹ سیکٹر برآمدات کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے، اس مقصد کے حصول کیلیے پرائیویٹ سیکٹر کو پیداواری شعبے میں تبدیل کرنا ضروری ہے، لیکن مالیاتی مارکیٹوں تک عدم رسائی، غیر تربیت یافتہ لیبر اور بیوروکریسی کی رکاوٹیں اس راستے کی بڑی رکاوٹیں ہیں۔
برآمدات کے فروغ کیلیے تجارتی عمل اور طریقہ کار کو ڈیجیٹیلائز کرنا ضروری ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ فرمیں عالمی تجارت میں حصہ لے سکیں، چھوٹی فرموں کیلیے سب سے بڑا چیلنج مطلوبہ مارکیٹوں اور تجارتی طریقہ کار کے متعلق معلومات کا فقدان ہے، تاہم اس مشکل کو حل کرنے کیلیے پاکستان سنگل ونڈو سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
اسی طرح پرائیویٹ سیکٹر کی دو طرفہ تجارت کیلیے بھی حوصلہ افزائی کرنا ضروری ہے اور اس مقصد کے حصول کیلیے حکومت کو درآمدات پر پابندیاں نرم کرنا ہوں گی، تاکہ تاجر کم قیمتوں پر بہتر مصنوعات تیار کرسکیں۔
یہ بھی پڑھیں: برآمدات میں اضافہ اور دستاویزی معیشت معاشی بحران کا حل، محمد علی
واضح رہے کہ پاکستان کی گلوبل ویلیو چین میں شراکت بھی بہت کم ہے جبکہ تھائی لینڈ، ویت نام اور بھارت گلوبل ویلیو چین میں اپنا حصہ نمایاں طور پر بڑھا چکے ہیں، حکومت کو مصنوعات پر ریگولیٹری بوجھ کم کرنا چاہیے تاکہ تاجر مقامی مارکیٹوں کی بجائے عالمی منڈیوں کا رخ کرنے کو ترجیح دیں۔
مقامی کمپنیوں کومصنوعات کی تیاری میں اعلیٰ معیار کو ترجیح دینے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، یاد رہے کہ ایس ایم ایز پرائیویٹ سیکٹر کا ایک بڑا حصہ ہیں۔
مسابقی کمیشن پاکستان کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایس ایم ایز کی تعداد 5 ملین سے زیاد ہے، جو کہ پرائیویٹ سیکٹر کا 90 فیصد بنتی ہیں، ان کا جی ڈی پی میں حصہ 40 فیصد، ایکسپورٹ میں حصہ 35 فیصد اور ملازمتوں میں 80 فیصد حصہ ہے، لیکن ان کا برآمدی سیکٹر میں حصہ حجم سے بہت کم ہے، جس کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔
برآمدات کے فروغ کیلیے تجارتی عمل اور طریقہ کار کو ڈیجیٹیلائز کرنا ضروری ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ فرمیں عالمی تجارت میں حصہ لے سکیں، چھوٹی فرموں کیلیے سب سے بڑا چیلنج مطلوبہ مارکیٹوں اور تجارتی طریقہ کار کے متعلق معلومات کا فقدان ہے، تاہم اس مشکل کو حل کرنے کیلیے پاکستان سنگل ونڈو سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
اسی طرح پرائیویٹ سیکٹر کی دو طرفہ تجارت کیلیے بھی حوصلہ افزائی کرنا ضروری ہے اور اس مقصد کے حصول کیلیے حکومت کو درآمدات پر پابندیاں نرم کرنا ہوں گی، تاکہ تاجر کم قیمتوں پر بہتر مصنوعات تیار کرسکیں۔
یہ بھی پڑھیں: برآمدات میں اضافہ اور دستاویزی معیشت معاشی بحران کا حل، محمد علی
واضح رہے کہ پاکستان کی گلوبل ویلیو چین میں شراکت بھی بہت کم ہے جبکہ تھائی لینڈ، ویت نام اور بھارت گلوبل ویلیو چین میں اپنا حصہ نمایاں طور پر بڑھا چکے ہیں، حکومت کو مصنوعات پر ریگولیٹری بوجھ کم کرنا چاہیے تاکہ تاجر مقامی مارکیٹوں کی بجائے عالمی منڈیوں کا رخ کرنے کو ترجیح دیں۔
مقامی کمپنیوں کومصنوعات کی تیاری میں اعلیٰ معیار کو ترجیح دینے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، یاد رہے کہ ایس ایم ایز پرائیویٹ سیکٹر کا ایک بڑا حصہ ہیں۔
مسابقی کمیشن پاکستان کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایس ایم ایز کی تعداد 5 ملین سے زیاد ہے، جو کہ پرائیویٹ سیکٹر کا 90 فیصد بنتی ہیں، ان کا جی ڈی پی میں حصہ 40 فیصد، ایکسپورٹ میں حصہ 35 فیصد اور ملازمتوں میں 80 فیصد حصہ ہے، لیکن ان کا برآمدی سیکٹر میں حصہ حجم سے بہت کم ہے، جس کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔