شدید جلے جسم پر جِلد لگانے کا نیا طریقہ کار وضع
اس طریقہ کار کے تحت جلد کو باریک کتر کر ایک جیل کے ساتھ ملا کر زخموں پر لگایا جاتا ہے
ڈاکٹروں نے مریضوں کی جلد کے باریک ٹکڑوں سے بنے پیسٹ کو استعمال کرتے ہوئے شدید جلے جسم کے علاج کا نیا طریقہ کار وضع کر لیا۔
اس طریقہ کار میں ران سے جِلد کا چھوٹا لیکن صحت مند حصہ لیا جاتا ہے اور اس کو باریک کتر کر ایک جیل کے ساتھ ملا لیا جاتا ہے اور پیسٹ کی صورت بننے والے مرکب کو زخموں پر لگایا جاتا ہے۔
نتائج کے مطابق ہر چھوٹا ٹکڑا اپنے حقیقی سائز سے 500 گنا زیادہ بڑھ سکتا ہے جس کا مطلب ہے کہ اس طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے گرافٹنگ کے لیے انتہائی کم مقدار میں صحت مند جِلد درکار ہوگی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جِلد کا پیسٹ استعمال کرتے ہوئے مریض جسم پر رہ جانے والے مستقل نشانوں کےساتھ بڑی بڑی جِلدی گرافٹنگ کے اذیت ناک عمل سے بھی بچ سکیں گے۔
یونیورسٹی آف آکسفورڈ سے تعلق رکھنے والے پلاسٹک سرجری ماہر ڈاکٹر ریام مسٹری کا کہنا تھا کہ جِلد کا نکالا جانا مریض کےلیے انتہائی تکلیف دے ہو سکتا ہے۔
ہر سال شدید جلنے والے تقریباً 1000 برطانوی جِلد کی گرافٹنگ کرواتے ہیں اور ان میں ایک چوتھائی تعداد بچوں کی ہوتی ہے۔ اس عمل میں صحت مند جِلد کا ایک ٹکڑا لیا جاتا ہے اور جلے ہوئے حصے پر پھیلا کر ٹانکوں یا گوند سے جوڑ دیا جاتا ہے۔
جلے ہوئے بڑے حصوں کے لیے، جِلد کے بڑے ٹکڑے لیے جاتے ہیں اور ان کو حاصل کرنے کے لیے عموماً اینستھیزیا کا استعمال کیا جاتا ہے۔
اس عمل کے لیے عموماً ران کی پچھلی طرف سے جِلد لی جاتی ہے اور اس نشان ہمیشہ کے لیے رہ سکتا ہے۔
لیکن کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ اِسکن پیسٹ تکنیک اس طریقہ عمل کو ختم کر سکتی ہے۔
تجربے میں جِلد کے ٹکڑے کو ایک ملی میٹر کے ایک تہائی حصے کے برابر کترا گیا اور پانی پر مبنی جیل میں ملایا گیا تھاکہ خلیوں کو جلے ہوئے حصوں پر رکھنے سے قبل تر رکھا جاسکے۔
جن حصوں پر یہ پیسٹ لگایا گیا تھا وہ حصے عام گرافٹنگ کے دورانیے کے برابر وقت میں ہی ٹھیک ہونے لگ گئے تھے۔
اس طریقہ کار میں ران سے جِلد کا چھوٹا لیکن صحت مند حصہ لیا جاتا ہے اور اس کو باریک کتر کر ایک جیل کے ساتھ ملا لیا جاتا ہے اور پیسٹ کی صورت بننے والے مرکب کو زخموں پر لگایا جاتا ہے۔
نتائج کے مطابق ہر چھوٹا ٹکڑا اپنے حقیقی سائز سے 500 گنا زیادہ بڑھ سکتا ہے جس کا مطلب ہے کہ اس طریقہ کار کو استعمال کرتے ہوئے گرافٹنگ کے لیے انتہائی کم مقدار میں صحت مند جِلد درکار ہوگی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جِلد کا پیسٹ استعمال کرتے ہوئے مریض جسم پر رہ جانے والے مستقل نشانوں کےساتھ بڑی بڑی جِلدی گرافٹنگ کے اذیت ناک عمل سے بھی بچ سکیں گے۔
یونیورسٹی آف آکسفورڈ سے تعلق رکھنے والے پلاسٹک سرجری ماہر ڈاکٹر ریام مسٹری کا کہنا تھا کہ جِلد کا نکالا جانا مریض کےلیے انتہائی تکلیف دے ہو سکتا ہے۔
ہر سال شدید جلنے والے تقریباً 1000 برطانوی جِلد کی گرافٹنگ کرواتے ہیں اور ان میں ایک چوتھائی تعداد بچوں کی ہوتی ہے۔ اس عمل میں صحت مند جِلد کا ایک ٹکڑا لیا جاتا ہے اور جلے ہوئے حصے پر پھیلا کر ٹانکوں یا گوند سے جوڑ دیا جاتا ہے۔
جلے ہوئے بڑے حصوں کے لیے، جِلد کے بڑے ٹکڑے لیے جاتے ہیں اور ان کو حاصل کرنے کے لیے عموماً اینستھیزیا کا استعمال کیا جاتا ہے۔
اس عمل کے لیے عموماً ران کی پچھلی طرف سے جِلد لی جاتی ہے اور اس نشان ہمیشہ کے لیے رہ سکتا ہے۔
لیکن کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ اِسکن پیسٹ تکنیک اس طریقہ عمل کو ختم کر سکتی ہے۔
تجربے میں جِلد کے ٹکڑے کو ایک ملی میٹر کے ایک تہائی حصے کے برابر کترا گیا اور پانی پر مبنی جیل میں ملایا گیا تھاکہ خلیوں کو جلے ہوئے حصوں پر رکھنے سے قبل تر رکھا جاسکے۔
جن حصوں پر یہ پیسٹ لگایا گیا تھا وہ حصے عام گرافٹنگ کے دورانیے کے برابر وقت میں ہی ٹھیک ہونے لگ گئے تھے۔