اسموگ اور فضائی آلودگی کی وجوہات

پنجاب حکومت نے ورلڈ بینک سمیت عالمی فورمز پر بھارت میں فصلیں جلانے کا معاملہ بھی اٹھایا ہوا ہے


Editorial November 28, 2023
پنجاب حکومت نے ورلڈ بینک سمیت عالمی فورمز پر بھارت میں فصلیں جلانے کا معاملہ بھی اٹھایا ہوا ہے (فوٹو: فائل)

اس وقت لاہور دنیا کا سب سے آلودہ شہر ہے، جب کہ پنجاب کے دیگر شہر بھی اسموگ کی لپیٹ میں ہیں،کاروبار زندگی تقریبا مفلوج ہے، ماحولیاتی اور ہیلتھ ایمرجنسی کے دوران تعلیمی ادارے، سرکاری و نجی دفاتر، سینما، پارکس اور ریسٹورنٹس وقفے وقفے سے بند رکھے جا رہے ہیں، ہفتے میں دو چھٹیاں، تعلیمی اداروں اور بازاروں کی بندش سے بات آگے بڑھ کر اسمارٹ لاک ڈاؤن تک جا پہنچی ہے۔

دوسری جانب بھارتی پنجاب میں فصلوں کی باقیات جلانے کے اثرات پاکستان کے سرحدی علاقوں پر بھی پڑتے ہیں۔

پنجاب حکومت نے ورلڈ بینک سمیت عالمی فورمز پر بھارت میں فصلیں جلانے کا معاملہ بھی اٹھایا ہوا ہے، بھارت سے معاملہ اٹھانا درست اور بروقت سہی لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ ہمارے یہاں ان گنت محکموں کی موجودگی، افسران کی شاہانہ مراعات اور ملازمین کی تنخواہیں تو سرکاری خزانے سے ادا ہو رہی ہیں، لیکن ان محکموں کی کارکردگی صفر ہے۔

ایئر کوالٹی انڈیکس رپورٹ کے مطابق آلودگی کے کئی ذرایع ہیں، جیسے کارخانوں اور گاڑیوں سے خارج ہونے والا دھواں، جنگلات میں آگ لگانا، درختوں اورہریالی کا مسلسل کم ہونا، بے ہنگم تعمیرات وغیرہ ، پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ہوا کا معیار بین الاقوامی سطح پر طے شدہ قومی ماحولیاتی معیارات سے انتہائی زیادہ ہے۔ ان زہریلی گیسوں میں صنعتوں، گاڑیوں اور تعمیرات کا اہم کردار ہے۔

پاکستان کے بڑے شہرکنکریٹ کے جنگل بنتے جا رہے ہیں، شہروں کے ساتھ جڑی آبادیوں میں زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنانے کے رحجان نے درختوں اور ہریالی کا خاتمہ کر دیا ہے، حد تو یہ ہے کہ لاہور اورکراچی میں سڑکیں کشادہ کرنے کی خاطر درخت کاٹ دیے گئے ، فٹ پاتھ بھی ختم کر دیے گئے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ اینٹوں کے بھٹوں اور فصلوں کی باقیات جلانے کے عمل کا فضائی آلودگی بڑھنے میں کلیدی کردار ہوتا ہے۔ پاکستان میں کچھ سال قبل اسموگ پر قابو پانے کے لیے اسموگ کمیشن بنایا گیا تھا جس میں نجی اور سرکاری اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد کو شامل کیا گیا تھا۔اسموگ کمیشن کو بنایا گیا مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکا کیونکہ وہ بین الاقوامی قوانین پر عمل کروانے میں ناکام رہا ہے۔

ملک میں بڑی تعداد میں استعمال ہونے والا پٹرول معیار کے حساب سے بالکل بھی ماحول دوست نہیں ہے، یورو فائیو تو متعارف کروا دیا گیا ہے مگر یہ کچھ شہروں کے کچھ اسٹیشنز پر ہی دستیاب ہے۔ ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ طویل عرصے تک فضائی آلودگی سے متاثر رہنے کی صورت میں لوگوں کی ذہنی صلاحیتوں پر بھی فرق پڑ سکتا ہے۔

ترقی پذیر ممالک میں ناکافی قانون سازی اور مناسب پالیسیوں کی عدم دستیابی کے نتیجے میں فضائی آلودگی کی اونچی سطح کی وجہ سے بیماریوں کے واقعات ہوتے ہیں جو معاشرے پر بلا شبہ ایک بھاری مالی بوجھ بھی ہیں۔

ابھی بھی ہم سے اکثر لوگوں کو علم نہیں ہے کہ ہوا کی کم رفتار نمی پلوشن کے ساتھ ملکر سموگ کو جنم دیتی ہے۔ ماہرین کے مطابق لاہور میں63 فیصد سموگ موٹر سائیکل اور چنگ چی رکشے کی وجہ سے ہے، موٹر کار اور جیپ وغیرہ کی وجہ سے 11فیصد سموگ ہوتی ہے۔ لاہور میں گزشتہ دہائی میں موٹر سائیکل اور رکشے کی فروخت میں 460 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

کسانوںکی اکثریت کو دفعہ 144 کے نفاذ کا یا تو پتہ ہی نہیں ہوتا یا وہ اسے خاطر میں نہیں لاتے، ایک اسسٹنٹ کمشنرکے لیے پوری تحصیل پر نظر رکھنا بہت مشکل کام ہے۔

محکمہ تحفظ ماحول پنجاب کی طرف سے آلودگی پھیلانے والے سیکڑوں صنعتی یونٹس کے خلاف کارروائی بھی کی گئی۔

اتنی بڑی تعداد میں کارخانے بند کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ فیکٹریاں تاحیات بند رہیں گی بلکہ فضائی آلودگی میں کمی لانے والے آلات کی تنصیب اور جرمانے کے بعد انھیں کھول دیا جاتا ہے۔

فیکٹریوں کے علاوہ اسموگ پھیلنے کی سب سے بڑی وجہ گاڑیوں کا دھواں ہے ۔ اس وقت ماحولیاتی آلودگی کے عوامل میں 43 فیصد کا تعلق ٹرانسپورٹ، 25فیصد کا انڈسٹری،12فیصد کا پاور اور 20فیصد کا زراعت کے شعبے سے ہے۔

دوسری جانب 18ویں ترمیم کے بعد جنگلات کے اختیارات صوبوں کو منتقل ہوئے تو محکمہ، انسپکٹر جنرل جنگلات اور ان کے معاونین کا عہدہ نمائشی بن کر رہ گیا ہے کیونکہ جب وسائل ہی نہیں ہوں گے تو کام کیا ہوگا۔ اس وقت ٹمبر مافیا مقامی عملے کے ساتھ مل کر پورے ملک سے درختوں کا بہت تیزی سے صفایا کر رہا ہے۔

صوبہ خیبرپختونخوا میں جنگل کے جنگل کٹ چکے ہیں۔ صرف کوہستان کے علاقے سے 10 فیصد درخت ڈیم اور ترقی کے نام پر کاٹے جاچکے ہیں۔ خیبر پختون خوا میں ایک منظم مافیا ہے جو بڑی تکنیک اور مہارت سے درخت کاٹتا ہے۔

انسانوں کی طرح جانوروں اور مویشیوں کو بھی اسموگ سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ صوبائی محکمہ لائیواسٹاک کی ایک رپورٹ کے مطابق اسموگ کی وجہ سے جانور، مویشی اور مرغیاں ہلاک ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے مرغبانی اور ڈیری فارم سے وابستہ افراد کے کاروبار کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

مویشی پالنے والے زیادہ تر مالکان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ اپنے مویشیوں کو سموگ سے بچانے کے لیے بند کمرے یا ہال تعمیر کروا سکیں اسی لیے بڑی تعداد میں مویشی اسموگ زدہ ماحول میںبندھے ہوئے ہیں اور دم گھٹنے کی وجہ سے ایک ایک کرکے ہلاک ہوتے جا رہے ہیں۔

لاہور تا گجرات جی ٹی روڈ کے دونوں جانب کی گنجان صنعتی پٹی پر شاید ہی کوئی قطعہِ زمین خالی نظر آئے۔

لگتا ہے پاکستان کی سب سے بڑی صنعتی پٹی پر 122 کلو میٹر تک ایک ہی شہر دوڑے چلا جا رہا ہے جب کہ دوسری صنعتی پٹی شیخوپورہ تا فیصل آباد تک چل رہی ہے، اگر صرف اسی صنعتی پٹی کے کارخانوں کی چمنیاں بدل دی جائیں؟

سڑکوں پر رواں ماحول دوست دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے جعلی فٹنس سرٹیفکیٹس کے معاملے میں قانون پر عملدرآمد کرایا جائے تو سموگ میں آدھی کمی آ سکتی ہے؟ اس کے ساتھ ساتھ عالمی ادارہ صحت کی ایک چشم کشا رپورٹ بھی سامنے آچکی ہے کہ فضائی آلودگی سے ہر سال 15سال سے کم عمر کے تقریباً 6 لاکھ بچے مر جاتے ہیں۔

نزلہ، کھانسی، گلا خراب، سانس کی تکلیف اور آنکھوں میں جلن وہ ظاہری علامات ہیں جو سموگ کے باعث ہر عمرکے شخص کو بری طرح متاثر کرتی ہیں، جب کہ سموگ انسانی صحت کو ایسے نقصانات بھی پہنچاتی ہے جو بظاہر فوری طور پر نظر تو نہیں آتے لیکن وہ کسی بھی شخص کو موذی مرض میں مبتلا کر سکتے ہیں، جیسا کہ پھیپھڑوں کا خراب ہونا یا کینسر۔

ماحول کی ہلاکت خیزی کا ذمے دار کوئی اور نہیں ہمارے وہ سابق حکمران ہیں جنھوں نے ماحول کو صاف کرنے کے لیے درخت نہیں لگائے، انتظامات نہیں کیے اور جن تھرمل بجلی گھروں سے دنیا چھٹکارا حاصل کر رہی ہے وہی پاکستان میں لگا کر ماحول کو آلودہ کیا جارہا ہے۔

صنعتی انقلاب اور جدید ٹیکنالوجی نے جہاں انسان کو سہولیات اور آسانیاں فراہم کی ہیں، وہیں ماحول کو شدید نقصان بھی پہنچایا ہے۔

فضائی آلودگی انسانی صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکی ہے، جس کو کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے ہوں گے، جن پر عمل کر کے لاکھوں زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔ شہروں میں دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کی تعداد کم سے کم کرنا ہو گی، جگہ جگہ کچرا پھینکنے اور اسے جلانے سے گریز کرنا ہو گا۔

فیکٹریوں سے خارج ہونے والے زہریلے دھوئیں کے اثرات کم کرنے کے لیے فلٹرز کے استعمال کو یقینی بنایا جائے۔ اس کے علاوہ فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے شجر کاری مہم شروع کرنی ہو گی اور پہلے سے موجود جنگلات کا تحفظ کرنا ہو گا۔ ساحلی جنگلات کی تعداد میں اضافہ کرکے بھی فضا میں موجود کاربن ختم کرنے کی صلاحیت کو دگنا کیا جاسکتا ہے۔

یہ ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ گرین ہاؤس گیس ایمیشن جو کرہ ار ض پہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ بن رہی ہے، اس میں وطنِ عزیز کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، تاہم افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس کی قیمت پاکستان کو چکانا پڑ رہی ہے۔

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بدلتے ہوئے موسم سے موافقت اختیار نہ کی تو پاکستان پانی اور غذائی قلت کا شکار بھی ہوسکتا ہے، سد باب کے لیے پالیسی لیول پر اقدامات ناگزیر ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں