سیاستدان کی کوئی نجی زندگی نہیں ہوتی
سیاست دان، ایک حکمران کی کوئی نجی زندگی نہیں ہوتی، یہ عوام کی ملکیت ہیں
مشہورلوگوں کے خواتین کے ساتھ اسکینڈلز منظر عام پر آتے رہتے ہیں، فلم ایکٹرز، پروڈیوسرز اور کھلاڑیوں کا کوئی نہ کوئی اسکینڈل سامنے آتا رہتا، عوام کی سطح پر کوئی نوٹس بھی لیتا لیکن سیاستدان کا معاملہ مختلف ہوتا ہے، خصوصاً کسی پاپولر پارٹی کے قائد، وزیراعظم یا صدر کے بارے میں کسی خاتون کے حوالے سے اسکینڈل منظر عام پر آنا، عوام کے لیے خاصا اہم ہوتا ہے کیونکہ سیاست کے اصول و قواعد کھیل اور شوبز سے بالکل الگ اورمختلف ہوتے ہیں۔
چیئرمین تحریک انصا ف کے نجی اسکینڈلز بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وہ ایک انٹرنیشنل کرکٹر تھے، اس دوران ان کے کئی خواتین کے ساتھ اسکینڈلز سامنے آتے رہے۔ یہ اسکینڈل ان کے پلے بوائے امیج کا حصہ تھے۔
ان کی خواتین میں مقبولیت بھی ان کے اس امیج کا حصہ تھی، اس لیے پاکستان کے عوام اور سیاستدانوں نے کبھی اس پر سوال اٹھایا نہ کوئی الزام تراشی کی۔ لیکن جب وہ سیاست میں آگئے تومعاملات کچھ اور ہوگئے۔میں ان کی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہوں اور اسی تناظر میں بات کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ان کی زندگی ایک حصہ وہ ہے جب وہ کرکٹر تھے ، دوسرا حصہ بطور سیاستدان ہے۔
جب وہ کرکٹر تھے تو پلے بوائے کا امیج قائم رکھے ہوئے تھے ، اس دوران وہ ایک الٹرا ماڈرن اور ریشنل ازم کا امیج رکھتے رہے۔ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد اور سیاست میں آنے سے پہلے انھوں نے اخبارات میں مضامین لکھنے شروع کیے،ان مضامین میں وہ دائیں بازو کے نظریات کے حامل نظر آئے ، وہ اپنے مضامین میں اسلامی تاریخ کے حوالے دیتے اور اسلام کی فضیلت بیان کرتے تھے۔ انھوں نے عوام کو بتایا کہ وہ اب بدل گئے ہیں۔
جب تحریک انصاف قائم کرکے وہ عملی سیاست میں آئے انھوں نے سیاست میں مذہبی کارڈ بھر پور طریقے سے استعمال کیا۔ انھوں نے ریاست مدینہ بنانے کا اعلان کیا۔ وہ امر بالمعروف کی اصطلاح استعمال کرنے لگے ، احتساب کے لیے اسلامی نظام انصاف کی بات کرتے رہے۔ وہ خلفاء راشدین کے دور کی مثالیں دیتے تھے۔ تسبیح ان کے ہاتھ میں رہنے لگی۔ نماز پڑھنے کی تصاویر وائرل ہونے لگیں ، مقصد یہ تاثر پیدا کرنا تھا کہ اب وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار ہے ہیں۔
سیاسی مخالفین نے سیتا وائٹ اور ٹیریان کے بارے میں سوالات پوچھنے شروع کردیے، چیئرمین تحریک انصاف کی جگہ کوئی بھی سیاسی کھلاڑی ہوتا، یہ سوال تو پوچھا جانا ہی تھا ، کیونکہ سیاست میں کسی کاکوئی ذاتی معاملہ نہیں ہے ہوتا ۔
بہرحال اس معاملے میں یہ طے کرنا بھی ضروری ہے کہ کیا سیتا وائٹ ان کی زندگی میں تب آئیں جب وہ کرکٹر تھے یا وہ سیاست میں آچکے تھے؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس حوالے سے عوام کو حقائق بتانے چاہیے تھے، اس پر خاموشی کوئی درست سیاسی حکمت عملی نہیں ہے۔
پھر ریحام خان سے شادی، طلاق اور ریحام کی کتاب کا معاملہ سیاست کا موضوع بن گیا، ریحام خان کی کتاب میں جو الزامات عائد کیے گئے، وہ کسی کرکٹر کے بارے میں نہیں ہیں بلکہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ،پاپولر لیڈر اور سابق وزیراعظم کے بارے میں ہیں، ووٹرزکسی سیاستدان کے اس پہلو کوکیسے نظر انداز کر سکتے ہیں، اس پر باتیں تو ہوں گی۔
پی ٹی آئی کے حامی جتنا مرضی کہہ لیں کہ شادی کرنا کوئی جرم نہیں ہے، شادی کے بعد گھر کی باتیں باہر نہیں کرنی چاہیے۔ میاں بیوی کو ایک دوسرے کا پردہ رکھنا چاہیے لیکن عوام اور سیاسی مخالفین یہ دلیل نہیں مانیں گے۔ عائشہ گلا لئی کے الزامات کوکس پیمانہ پر دیکھا جانا چاہیے تھا۔
یہ ایشو تو تب سامنے آیا تھا جب پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا دعویٰ کیا جا رہا تھا۔ ان الزامات کی تفتیش صرف اس لیے نہیں ہوئی کہ پی ٹی آئی اقتدار میں تھی۔ اب ایک ماڈل و اداکارہ حاجرہ پانیزئی کی کتاب بھی سامنے آئی ہے اس میں بھی بہت کچھ کہا گیاہے۔یہ کوئی سازش ہے، منصوبہ ہے لیکن اب بھی ذاتی معاملہ نہیں رہا ہے۔
کاش !چیئرمین پی ٹی آئی سیاست میں مذہبی کارڈ استعمال نہ کرتے ، اپنے سیاسی مخالفین کومذہب کے پیمانے پر تولنے کا مشورہ دے کر نااہل نہ کراتے تو شاید خواتین کے یہ معاملات کم ازکم ان کے سیاسی مخالفین اسے سیاسی ایشو بنانے سے گریز کرتے لیکن جب دوسروں کے نجی معاملات پر جلسوں میں باتیں کی جائیں گی، سوشل میڈیا ونگز پروپیگنڈا کرایں گے تو باری آنے پر دوسرے بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ یاد رکھیں ایک سیاست دان، ایک حکمران کی کوئی نجی زندگی نہیں ہوتی، یہ عوام کی ملکیت ہیں۔
کبھی آڈیوز کا شور اوراب خاور مانیکا کے الزامات کا شور اٹھا ہے۔ ہماری تہذیب، روایات، اقدار اور اسلام کی تعلیمات ان امور پرکیا کہتی ہیں، اس کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ یورپ میں خواتین کے اسکینڈلز نے کئی سیاستدانوں اور سیلبریٹیز کا کیریئر ختم کردیا۔ حکمران اور سیاستدان کی کوئی نجی زندگی نہیں ہوتی، وہ عوام کو اپنے اعمال کا جوابدہ ہوتا ہے، سیاسی مخالفین اور لکھنے والوں کو بھی سوال کرنے سے نہیں روکا جاسکتا۔ اس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں۔
چیئرمین تحریک انصا ف کے نجی اسکینڈلز بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وہ ایک انٹرنیشنل کرکٹر تھے، اس دوران ان کے کئی خواتین کے ساتھ اسکینڈلز سامنے آتے رہے۔ یہ اسکینڈل ان کے پلے بوائے امیج کا حصہ تھے۔
ان کی خواتین میں مقبولیت بھی ان کے اس امیج کا حصہ تھی، اس لیے پاکستان کے عوام اور سیاستدانوں نے کبھی اس پر سوال اٹھایا نہ کوئی الزام تراشی کی۔ لیکن جب وہ سیاست میں آگئے تومعاملات کچھ اور ہوگئے۔میں ان کی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہوں اور اسی تناظر میں بات کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ان کی زندگی ایک حصہ وہ ہے جب وہ کرکٹر تھے ، دوسرا حصہ بطور سیاستدان ہے۔
جب وہ کرکٹر تھے تو پلے بوائے کا امیج قائم رکھے ہوئے تھے ، اس دوران وہ ایک الٹرا ماڈرن اور ریشنل ازم کا امیج رکھتے رہے۔ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد اور سیاست میں آنے سے پہلے انھوں نے اخبارات میں مضامین لکھنے شروع کیے،ان مضامین میں وہ دائیں بازو کے نظریات کے حامل نظر آئے ، وہ اپنے مضامین میں اسلامی تاریخ کے حوالے دیتے اور اسلام کی فضیلت بیان کرتے تھے۔ انھوں نے عوام کو بتایا کہ وہ اب بدل گئے ہیں۔
جب تحریک انصاف قائم کرکے وہ عملی سیاست میں آئے انھوں نے سیاست میں مذہبی کارڈ بھر پور طریقے سے استعمال کیا۔ انھوں نے ریاست مدینہ بنانے کا اعلان کیا۔ وہ امر بالمعروف کی اصطلاح استعمال کرنے لگے ، احتساب کے لیے اسلامی نظام انصاف کی بات کرتے رہے۔ وہ خلفاء راشدین کے دور کی مثالیں دیتے تھے۔ تسبیح ان کے ہاتھ میں رہنے لگی۔ نماز پڑھنے کی تصاویر وائرل ہونے لگیں ، مقصد یہ تاثر پیدا کرنا تھا کہ اب وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار ہے ہیں۔
سیاسی مخالفین نے سیتا وائٹ اور ٹیریان کے بارے میں سوالات پوچھنے شروع کردیے، چیئرمین تحریک انصاف کی جگہ کوئی بھی سیاسی کھلاڑی ہوتا، یہ سوال تو پوچھا جانا ہی تھا ، کیونکہ سیاست میں کسی کاکوئی ذاتی معاملہ نہیں ہے ہوتا ۔
بہرحال اس معاملے میں یہ طے کرنا بھی ضروری ہے کہ کیا سیتا وائٹ ان کی زندگی میں تب آئیں جب وہ کرکٹر تھے یا وہ سیاست میں آچکے تھے؟ میں سمجھتا ہوں کہ اس حوالے سے عوام کو حقائق بتانے چاہیے تھے، اس پر خاموشی کوئی درست سیاسی حکمت عملی نہیں ہے۔
پھر ریحام خان سے شادی، طلاق اور ریحام کی کتاب کا معاملہ سیاست کا موضوع بن گیا، ریحام خان کی کتاب میں جو الزامات عائد کیے گئے، وہ کسی کرکٹر کے بارے میں نہیں ہیں بلکہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ ،پاپولر لیڈر اور سابق وزیراعظم کے بارے میں ہیں، ووٹرزکسی سیاستدان کے اس پہلو کوکیسے نظر انداز کر سکتے ہیں، اس پر باتیں تو ہوں گی۔
پی ٹی آئی کے حامی جتنا مرضی کہہ لیں کہ شادی کرنا کوئی جرم نہیں ہے، شادی کے بعد گھر کی باتیں باہر نہیں کرنی چاہیے۔ میاں بیوی کو ایک دوسرے کا پردہ رکھنا چاہیے لیکن عوام اور سیاسی مخالفین یہ دلیل نہیں مانیں گے۔ عائشہ گلا لئی کے الزامات کوکس پیمانہ پر دیکھا جانا چاہیے تھا۔
یہ ایشو تو تب سامنے آیا تھا جب پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا دعویٰ کیا جا رہا تھا۔ ان الزامات کی تفتیش صرف اس لیے نہیں ہوئی کہ پی ٹی آئی اقتدار میں تھی۔ اب ایک ماڈل و اداکارہ حاجرہ پانیزئی کی کتاب بھی سامنے آئی ہے اس میں بھی بہت کچھ کہا گیاہے۔یہ کوئی سازش ہے، منصوبہ ہے لیکن اب بھی ذاتی معاملہ نہیں رہا ہے۔
کاش !چیئرمین پی ٹی آئی سیاست میں مذہبی کارڈ استعمال نہ کرتے ، اپنے سیاسی مخالفین کومذہب کے پیمانے پر تولنے کا مشورہ دے کر نااہل نہ کراتے تو شاید خواتین کے یہ معاملات کم ازکم ان کے سیاسی مخالفین اسے سیاسی ایشو بنانے سے گریز کرتے لیکن جب دوسروں کے نجی معاملات پر جلسوں میں باتیں کی جائیں گی، سوشل میڈیا ونگز پروپیگنڈا کرایں گے تو باری آنے پر دوسرے بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ یاد رکھیں ایک سیاست دان، ایک حکمران کی کوئی نجی زندگی نہیں ہوتی، یہ عوام کی ملکیت ہیں۔
کبھی آڈیوز کا شور اوراب خاور مانیکا کے الزامات کا شور اٹھا ہے۔ ہماری تہذیب، روایات، اقدار اور اسلام کی تعلیمات ان امور پرکیا کہتی ہیں، اس کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ یورپ میں خواتین کے اسکینڈلز نے کئی سیاستدانوں اور سیلبریٹیز کا کیریئر ختم کردیا۔ حکمران اور سیاستدان کی کوئی نجی زندگی نہیں ہوتی، وہ عوام کو اپنے اعمال کا جوابدہ ہوتا ہے، سیاسی مخالفین اور لکھنے والوں کو بھی سوال کرنے سے نہیں روکا جاسکتا۔ اس طرح تو ہوتا ہے، اس طرح کے کاموں میں۔