لاڈلوں میں انوکھا لاڈلا
آصف زرداری بھی لاڈلے بن گئے تھے اور اقتدار حاصل کرلیا لیکن اب وہ میاں محمد نواز شریف کو انوکھا لاڈلا کہہ رہے ہیں
پاکستان کی تاریخ میں وفاقی حکومت ختم ہونے یا ختم کیے جانے کے بعد عام انتخابات کے نتیجے میں دوبارہ کوئی پارٹی اقتدار میں نہیں آئی۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے وفاق میں تین تین باریاں ضرور لیں مگر ہٹائے جانے کے بعد فوری طور کوئی پارٹی دوبارہ اقتدار میں کبھی نہیں آسکی تھی، البتہ سندھ میں پیپلز پارٹی مسلسل تین بار، پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور کے پی میں پی ٹی آئی دو دو بار حکومتیں بنانے میں کامیاب رہی تھیں اور تینوں پارٹیاں پندرہ سال اور دس سال تک اقتدار میں ضرور آئیں اور چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنی غیر سیاسی و غیر دانش مندانہ ضد سے پنجاب اور کے پی اسمبلیاں قبل از وقت تڑوا کر اپنی پارٹی کا اقتدار اس لیے ختم کرایا تھا کہ وہ خود اقتدار سے محروم تھے اور دو صوبوں کا کنٹرول اپنے پاس ہونے کے باوجود مطمئن اس لیے نہیں تھے کہ وہ ذاتی طور پر اقتدار میں نہیں تھے حالانکہ دونوں صوبوں کی حکومتیں اور ان کے تمام سرکاری وسائل اور خصوصاً صوبوں کے ہیلی کاپٹر وہ استعمال کرتے رہے مگر خود اقتدار میں ہونے کا مزہ ہی الگ ہے اسی لیے خان صاحب مطمئن نہیں تھے۔
پی ڈی ایم حکومت کی مدت مکمل ہونے کے بعد جب موجودہ نگراں حکومتیں قائم ہوئی تھیں تو یہ سمجھا جا رہا تھا کہ پی ٹی آئی کے سوا تمام پارٹیاں نگران حکومتوں میں لاڈلی ہوں گی مگر جب میاں نواز شریف کی وطن واپسی یقینی ہوئی اور برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر نے میاں صاحب کے گھر جا کر ان سے ملاقات کی تو پیپلز پارٹی کو لگا کہ ہمیں نظرانداز کر کے میاں نواز شریف کو لاڈلا بنایا جا چکا ہے اور ہمیں ان جیسی مراعات اور سرکاری سہولیات نہیں ملیں گی اور پی پی سے ہاتھ ہو گیا ہے جس کے بعد پی پی نے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کا واویلا شروع کردیا جس کی تقلید پی ٹی آئی اور بعض دیگر چھوٹی جماعتوں نے بھی کی۔
میاں نواز شریف کو لاڈلا ہونے کی دلیل یہ دی جارہی ہے کہ وہ اپنا پرانا سیاسی بیانیہ اختیار نہیں کر رہے بلکہ اپنے بیانیے کا ذکر کرنا ہی چھوڑ چکے ہیں، ان کی تقاریر کے بارے میں یہی کہا جارہا ہے کہ وہ مزاحمتی بیانیہ ترک کرچکے ہیں۔ یہ تاثر عام ہے کہ صرف مسلم لیگ (ن) کو لیول پلیئنگ فیلڈ حاصل ہے اور اب صرف میاں نواز شریف لاڈلے ہیں۔
پی ٹی آئی کے سوا ملک بھر میں (ن) لیگ کے لاہور جلسے اور 8 فروری کو الیکشن کے عدالتی فیصلے کے بعد بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن ملک میں اور ایم کیو ایم کراچی میں جلسے کر رہی ہے جب کہ پی ٹی آئی جلسے نہ کرنے دینے کے الزامات بھی لگا رہی ہے اور اس کے چھوٹے جلسے منعقد بھی ہو رہے ہیں جس کا حالیہ ثبوت پی ٹی آئی کے وکیل شیر افضل مروت ہیں جنھوں نے پی ٹی آئی کے جلسے میں پی ٹی آئی کا جھنڈا چھیننے والوں کا ہاتھ توڑ دینے کی کھلی دھمکی ہے جو ثبوت ہے کہ پی ٹی آئی اپنی تشدد انگیز پالیسی پر قائم ہے۔
پاکستان میں 1958 کے جنرل ایوب کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو لاڈلے بنے ، پھر میاں نواز شریف اور چیئرمین پی ٹی آئی لاڈلے بنے۔ ہر لاڈلا بالاتروں کی گود میں پروان چڑھ کر سیاست میں آیا۔ اقتدار حاصل کیا اور پھر انھیں ہی آنکھیں دکھانے لگا جن کی بدولت وہ سیاست اور پھر اقتدار میں آیا یا لایا گیا۔
2007 میں جنرل پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو اور ان کی پارٹی کو چوہدریوں اور ق لیگ پر ترجیح دی تھی اور یو اے ای جا کر ان سے مذاکرات کیے تھے مگر بے نظیر بھٹو جلدی میں جنرل پرویزمشرف کی مرضی کے خلاف وطن آگئی تھیں حالانکہ اس دور میں نواز شریف کو ایئرپورٹ سے لاہور میں داخل نہیں ہونے دیا تھا اور واپس بھجوا دیا تھا اور بعد میں بے نظیر بھٹو کے واپس آنے کے بعد انھیں وطن واپس آنے کی اجازت ملی تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب کے وزیر تھے اور بعد میں معاہدہ تاشقند کے اختلاف سے وہ حکومت سے باہر آئے اور پیپلز پارٹی قائم کی۔ ضیاء الحق کے دور میں نواز شریف پنجاب میں پہلے صوبائی وزیر اور پھر وزیر اعلیٰ بنائے گئے۔ محمد خان جونیجو حکومت کی برطرفی کے بعد وہ نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب بنائے گئے اور بعد میں (ن) لیگ بنوا کر انھیں اس کی صدارت دلائی گئی جس کے اب وہ پارٹی سربراہ بن گئے۔ انھیں بالاتروں نے ہی 1998 میں وزیر اعظم بنوایا۔
وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو 1988 میں بالاتر اقتدار میں لائے جنھیں خوش کرنے کے لیے پہلی بارکسی سول حکومت نے جنرل اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت دیا تھا۔یہ اس لیے ملا تھا کہ انھی کی مرضی سے محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنائی گئیں مگر وہ اور ان کی حکومت بالاتروں کو مطمئن نہ کر سکنے پر برطرف ہوئیں۔ نواز شریف جنرل ضیا الحق کے بہت قریب تھے مگر انھوں نے وزیر اعظم بن کر صدر غلام اسحاق اور بالاتروں سے اختلاف کیا۔ ڈکٹیشن نہ ماننے کا اعلان کر کے برطرف ہوئے۔
بے نظیر کے بعد پھر دوبارہ وزیر اعظم لاڈلا بن کر ہی بنے تھے مگر جنرل پرویز کو برطرف کرنے کی کوشش میں خود برطرف ہوگئے تھے۔پی پی اور (ن) لیگ کو دو دو بار اور (ق) لیگ کے ایک بار کے اقتدار کے بعد بالاتروں نے 2011 میں ایک نئے لاڈلے کا انتخاب کیا تھا جسے وہ 2018 میں اقتدار میں لائے مگر اس نے وزیر اعظم کے بجائے خود کو بادشاہ سمجھ لیا تھا۔
پی پی اور (ن) لیگ نے پہلی بار اپنی مدت پوری کر لی تھی اور بالاتر انھیں نہ ہٹا سکے تھے مگر ضدی لاڈلے سے بالاتروں کا دست شفقت ہٹا تو وہ اپنی مدت پوری ہونے سے قبل آئینی طور ہٹایا گیا حالانکہ اس کی خاطر نواز شریف کو ناحق نااہل کیا گیا اور جرم نہ ہونے کے باوجود ہٹا کر سزا بھی دلائی گئی تھی جس کا سب کو پتا ہے۔
اگر اس غلطی کے بعد میاں نواز شریف انوکھے لاڈلے قرار دیے جا رہے ہیں۔ آصف زرداری بھی لاڈلے بن گئے تھے اور اقتدار حاصل کرلیا لیکن اب وہ میاں محمد نواز شریف کو انوکھا لاڈلا کہہ رہے ہیں۔
ممکن ہے کہ بالاتروں نے تمام لاڈلوں کو آزما لینے کے بعد سب کا موازنہ کیا ہو کہ ان میں سے کون بہتر تھا ،کس کے دور میں ملک کم لٹا اور ترقی ہوئی۔ لوڈ شیڈنگ ختم ہوئی، معاشی صورت حال بہتر رہی ہے تو پھر اسے آزمانے کا فیصلہ ہوا ہوگا کیونکہ اب ملک کو لاڈلوں سے زیادہ ملک میں بہتری لانے والے کی ضرورت ہے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے وفاق میں تین تین باریاں ضرور لیں مگر ہٹائے جانے کے بعد فوری طور کوئی پارٹی دوبارہ اقتدار میں کبھی نہیں آسکی تھی، البتہ سندھ میں پیپلز پارٹی مسلسل تین بار، پنجاب میں مسلم لیگ (ن) اور کے پی میں پی ٹی آئی دو دو بار حکومتیں بنانے میں کامیاب رہی تھیں اور تینوں پارٹیاں پندرہ سال اور دس سال تک اقتدار میں ضرور آئیں اور چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنی غیر سیاسی و غیر دانش مندانہ ضد سے پنجاب اور کے پی اسمبلیاں قبل از وقت تڑوا کر اپنی پارٹی کا اقتدار اس لیے ختم کرایا تھا کہ وہ خود اقتدار سے محروم تھے اور دو صوبوں کا کنٹرول اپنے پاس ہونے کے باوجود مطمئن اس لیے نہیں تھے کہ وہ ذاتی طور پر اقتدار میں نہیں تھے حالانکہ دونوں صوبوں کی حکومتیں اور ان کے تمام سرکاری وسائل اور خصوصاً صوبوں کے ہیلی کاپٹر وہ استعمال کرتے رہے مگر خود اقتدار میں ہونے کا مزہ ہی الگ ہے اسی لیے خان صاحب مطمئن نہیں تھے۔
پی ڈی ایم حکومت کی مدت مکمل ہونے کے بعد جب موجودہ نگراں حکومتیں قائم ہوئی تھیں تو یہ سمجھا جا رہا تھا کہ پی ٹی آئی کے سوا تمام پارٹیاں نگران حکومتوں میں لاڈلی ہوں گی مگر جب میاں نواز شریف کی وطن واپسی یقینی ہوئی اور برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر نے میاں صاحب کے گھر جا کر ان سے ملاقات کی تو پیپلز پارٹی کو لگا کہ ہمیں نظرانداز کر کے میاں نواز شریف کو لاڈلا بنایا جا چکا ہے اور ہمیں ان جیسی مراعات اور سرکاری سہولیات نہیں ملیں گی اور پی پی سے ہاتھ ہو گیا ہے جس کے بعد پی پی نے لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے کا واویلا شروع کردیا جس کی تقلید پی ٹی آئی اور بعض دیگر چھوٹی جماعتوں نے بھی کی۔
میاں نواز شریف کو لاڈلا ہونے کی دلیل یہ دی جارہی ہے کہ وہ اپنا پرانا سیاسی بیانیہ اختیار نہیں کر رہے بلکہ اپنے بیانیے کا ذکر کرنا ہی چھوڑ چکے ہیں، ان کی تقاریر کے بارے میں یہی کہا جارہا ہے کہ وہ مزاحمتی بیانیہ ترک کرچکے ہیں۔ یہ تاثر عام ہے کہ صرف مسلم لیگ (ن) کو لیول پلیئنگ فیلڈ حاصل ہے اور اب صرف میاں نواز شریف لاڈلے ہیں۔
پی ٹی آئی کے سوا ملک بھر میں (ن) لیگ کے لاہور جلسے اور 8 فروری کو الیکشن کے عدالتی فیصلے کے بعد بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن ملک میں اور ایم کیو ایم کراچی میں جلسے کر رہی ہے جب کہ پی ٹی آئی جلسے نہ کرنے دینے کے الزامات بھی لگا رہی ہے اور اس کے چھوٹے جلسے منعقد بھی ہو رہے ہیں جس کا حالیہ ثبوت پی ٹی آئی کے وکیل شیر افضل مروت ہیں جنھوں نے پی ٹی آئی کے جلسے میں پی ٹی آئی کا جھنڈا چھیننے والوں کا ہاتھ توڑ دینے کی کھلی دھمکی ہے جو ثبوت ہے کہ پی ٹی آئی اپنی تشدد انگیز پالیسی پر قائم ہے۔
پاکستان میں 1958 کے جنرل ایوب کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو لاڈلے بنے ، پھر میاں نواز شریف اور چیئرمین پی ٹی آئی لاڈلے بنے۔ ہر لاڈلا بالاتروں کی گود میں پروان چڑھ کر سیاست میں آیا۔ اقتدار حاصل کیا اور پھر انھیں ہی آنکھیں دکھانے لگا جن کی بدولت وہ سیاست اور پھر اقتدار میں آیا یا لایا گیا۔
2007 میں جنرل پرویز مشرف نے بے نظیر بھٹو اور ان کی پارٹی کو چوہدریوں اور ق لیگ پر ترجیح دی تھی اور یو اے ای جا کر ان سے مذاکرات کیے تھے مگر بے نظیر بھٹو جلدی میں جنرل پرویزمشرف کی مرضی کے خلاف وطن آگئی تھیں حالانکہ اس دور میں نواز شریف کو ایئرپورٹ سے لاہور میں داخل نہیں ہونے دیا تھا اور واپس بھجوا دیا تھا اور بعد میں بے نظیر بھٹو کے واپس آنے کے بعد انھیں وطن واپس آنے کی اجازت ملی تھی۔
ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب کے وزیر تھے اور بعد میں معاہدہ تاشقند کے اختلاف سے وہ حکومت سے باہر آئے اور پیپلز پارٹی قائم کی۔ ضیاء الحق کے دور میں نواز شریف پنجاب میں پہلے صوبائی وزیر اور پھر وزیر اعلیٰ بنائے گئے۔ محمد خان جونیجو حکومت کی برطرفی کے بعد وہ نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب بنائے گئے اور بعد میں (ن) لیگ بنوا کر انھیں اس کی صدارت دلائی گئی جس کے اب وہ پارٹی سربراہ بن گئے۔ انھیں بالاتروں نے ہی 1998 میں وزیر اعظم بنوایا۔
وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کو 1988 میں بالاتر اقتدار میں لائے جنھیں خوش کرنے کے لیے پہلی بارکسی سول حکومت نے جنرل اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت دیا تھا۔یہ اس لیے ملا تھا کہ انھی کی مرضی سے محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بنائی گئیں مگر وہ اور ان کی حکومت بالاتروں کو مطمئن نہ کر سکنے پر برطرف ہوئیں۔ نواز شریف جنرل ضیا الحق کے بہت قریب تھے مگر انھوں نے وزیر اعظم بن کر صدر غلام اسحاق اور بالاتروں سے اختلاف کیا۔ ڈکٹیشن نہ ماننے کا اعلان کر کے برطرف ہوئے۔
بے نظیر کے بعد پھر دوبارہ وزیر اعظم لاڈلا بن کر ہی بنے تھے مگر جنرل پرویز کو برطرف کرنے کی کوشش میں خود برطرف ہوگئے تھے۔پی پی اور (ن) لیگ کو دو دو بار اور (ق) لیگ کے ایک بار کے اقتدار کے بعد بالاتروں نے 2011 میں ایک نئے لاڈلے کا انتخاب کیا تھا جسے وہ 2018 میں اقتدار میں لائے مگر اس نے وزیر اعظم کے بجائے خود کو بادشاہ سمجھ لیا تھا۔
پی پی اور (ن) لیگ نے پہلی بار اپنی مدت پوری کر لی تھی اور بالاتر انھیں نہ ہٹا سکے تھے مگر ضدی لاڈلے سے بالاتروں کا دست شفقت ہٹا تو وہ اپنی مدت پوری ہونے سے قبل آئینی طور ہٹایا گیا حالانکہ اس کی خاطر نواز شریف کو ناحق نااہل کیا گیا اور جرم نہ ہونے کے باوجود ہٹا کر سزا بھی دلائی گئی تھی جس کا سب کو پتا ہے۔
اگر اس غلطی کے بعد میاں نواز شریف انوکھے لاڈلے قرار دیے جا رہے ہیں۔ آصف زرداری بھی لاڈلے بن گئے تھے اور اقتدار حاصل کرلیا لیکن اب وہ میاں محمد نواز شریف کو انوکھا لاڈلا کہہ رہے ہیں۔
ممکن ہے کہ بالاتروں نے تمام لاڈلوں کو آزما لینے کے بعد سب کا موازنہ کیا ہو کہ ان میں سے کون بہتر تھا ،کس کے دور میں ملک کم لٹا اور ترقی ہوئی۔ لوڈ شیڈنگ ختم ہوئی، معاشی صورت حال بہتر رہی ہے تو پھر اسے آزمانے کا فیصلہ ہوا ہوگا کیونکہ اب ملک کو لاڈلوں سے زیادہ ملک میں بہتری لانے والے کی ضرورت ہے۔