روایتی گیتوں اور ڈھولکی سے سجے لمحے

شادیوں کے موقعے پر گھر کی یہ محفلیں اپنوں کے ساتھ مل بیٹھنے کا بہانہ ہوتی تھیں

شادیوں کے موقعے پر گھر کی یہ محفلیں اپنوں کے ساتھ مل بیٹھنے کا بہانہ ہوتی تھیں۔ فوٹو : فائل

گذشتہ دنوں ہمیں خاندان میں ایک شادی کی تقریب میں جانا ہوا۔ جیسا کہ دستور ہے کہ شادی بیاہ کی تیاریاں مہینوں چلتی رہتی ہیں اور پھر بھی آخر میں کچھ نہ کچھ رہ ہی جاتا ہے۔

ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی تھا۔ گھر کی شادی تھی اور گھر میں چلنے والی شادی کی تیاریاں تو آخری دنوں تک چلتی رہیں۔

ہم یہاں روایتی جملہ نہیں کہیں گے کہ بیٹیوں کی شادی کی تیاریاں تو مائیں بچی کی پیدائش سے ہی شروع کر دیتی ہیں اور بیٹے کے سر پر سہرا دیکھنے کی آرزو بھی اس کی پیدائش سے شروع ہو جاتی ہے، لیکن چالیس کے پیٹے تک آتے آتے اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے بچپن میں شادی کی تیاریاں ایک طرف لیکن گانوں کی تیاریاں ضرور مہینوں چلتی تھیں۔

اب ہر چیز بازار سے خرید لی جاتی ہے، اس وقت گھر کی چیزوں کو اولیت حاصل تھی۔ اس وقت، فرصت اور شوق زیادہ تھا، اب کام نبٹانے اور ذمہ داری والی فضا بن چکی ہے۔

کچھ دنوں پہلے ہم نے شائستہ سہروردی کی کتاب 'پردے سے پارلیمنٹ تک' پڑھی تھی۔ اس کتاب میں جہاں کئی دل چسپ پہلو تھے، وہیں انھوں نے اپنی شادی کا کیا ایسا نقشہ کھینچا ہے کہ لطف ہی آگیا۔ ایسی ہی پُر لطف باتوں کا احوال حمیدہ اختر حسین رائے پوری کی پہلی کتاب 'ہم سفر' میں بھی ہے۔ جہاں وہ بابائے اردو مولوی عبدالحق کی طبعیت کی ایک ایسی تصویر کھنچتی ہیں کہ مزہ ہی دوبالا ہو جاتا ہے۔

سب مانتے ہیں کہ اس کتاب کی صورت میں مولوی عبدالحق کی شخصیت کی نئی انفرادیت سامنے آتی ہے، انھوں نے اپنی کتاب میں ایک کا عنوان ہی انوکھے باراتی رکھ چھوڑا ہے۔ کہ جہاں مولوی صاحب شادی کے گیت گاتے ہوئے برات لے کر آرہے ہیں۔ یہ بارات حیدرآباد سے علی گڑھ پہنچی ہے۔ اسٹیشن پر براتی اترے ہیں اور مولوی عبدالحق اور ان کے ہم نواؤں کی زبان اور تُک بندی ملاحظہ کیجیے:

لَلو روپیہ لایا ہو... لَلا کی شادی کر دیں گے... کر دیں گے، ہاں بھائی کر دیں گے... لائق دولھا لائیں ہیں... اَن پڑھ دلہن لے لیں گے... لے لیں گے بھائی لے لیں گے!

مذکورہ بالا دونوں خواتین کا زمانہ کم و پیش ایک ہی ہے۔ یعنی یہ 1930ء کی باتیں ہیں۔ اگر جب کبھی آپ کا صدی بیش تر کسی شادی کا احوال پڑھنے کا دل چاہے، تو یہ دونوں کتابیں ضرور پڑھیے۔ اس وقت کی ایسی منظر کشی ہے کہ لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔

خیر ہم حال میں لیے چلتے ہیں، جہاں ہمارے گھر میں شادی چل رہی تھی۔ ہمارے ہاں، مایوں کے دن ڈھولکی رکھی گئی اور کوشش کی گئی کہ مشہور اور مقبول فلمی گیتوں سے ہٹ کر کچھ شادی بیاہ کے وہی پرانے روایتی گیت گائیں، کچھ پنجابی ٹپے ہوں اور کچھ وہی دلی، یوپی، سی پی، بہار اور حیدر آباد کے مدھر گیت۔۔۔ لیکن ہم نے کوشش کی، کچھ بڑے بوڑھوں کو ساتھ بٹھایا، بچوں کو بھی ساتھ لیا، لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات' کہ چند مصرعوں کے بعد سب رک رک جاتے۔ ہم سوچ سوچ کر دو بول گاتے کہ کوئی دوسرا مصرع طرح کی 'لے' اٹھا دیتا۔ اور یوں اچھی خاصی تالیوں کی مشق کرتے تو دو چار تالیاں پیٹ کر سب رک جاتے۔

آج یہاں شہروں میں زندگی کتنی تبدیل ہو چکی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ میں سے بہت سے لوگ کہیں گے کہ نہیں ہمارے ہاں آج بھی مایوں کی رسم ہو یا مہندی کے لیے دولھا والوں کے جانا کا منظر یہ پچھلے دہائیوں کی طرح سے ہی ہے یا کچھ لوگ شادیوں میں دولھا والوں کو اپنے گیتوں سے زچ کر دینے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔

یہ سب اپنی جگہ، ہم کسی حد تک روایت پسند بھی ٹھیرے، لیکن گھوم پھر کر پھر وہی چند ٹوٹے پھوٹے گیتوں اور فلمی گانوں پر آگئے۔ فلمی گیت بھی اب ایسے نہیں رہے کہ انھیں گھروں اور اپنی تقریبات میں گایا جا سکے۔ لہٰذا آج بھی 1970ء سے نوئے کی دہائی کے ہندوستانی فلمی اور چند مشہور پاکستانی گیت قابل قبول سمجھے جاتے ہیں۔

ہماری اس اتنی لمبی تمہید کا مقصد یہ تھا کہ ہم یہاں بیٹھ کر آپ کو اڑن کھٹولے پر بٹھا کر پچھلے زمانوں یعنی اپنے بچپن میں لے چلیں۔ ہمیں اپنے بچپن کی سب سے پہلی باقاعدہ دو شادیاں آج بھی اچھی طرح سے یاد ہیں۔ ایک شادی ہماری پڑوسن ''منی باجی'' کی تھی اور دوسری ہمارے ایک فرسٹ کزن کی۔

یہ کوئی زمانۂ قدیم کی تو نہیں، لیکن کم وبیش تین دہائی پرانے قصے ضرور ہیں۔ اس زمانے میں باقاعدہ شادی بیاہ کے گیتوں کی پوری ایک کاپی مرتب کی جاتی، بلکہ یہ ہی نہیں'میلاد' میں پڑھنے کے لیے بھی باقاعدہ نعتوں، درود، سلام اور روایت پڑھنے کے لیے بھی ایک کاپی تیار رہتی تھی۔

یقیناً آپ لوگوں کو بھی یاد آگیا ہو گا کہ تالیاں بجانے کے لیے الگ باجیاں ہوتیں اور ڈھول اور دَف بجانے کی الگ۔ ساتھ ہی ڈھول پر چمچا بجانے کے لیے الگ بچی بٹھائی جاتی۔ یہ بچی یا تو دلہن کی چھوٹی بہن ہوتی یا پھر ڈھول بجانے والی باجی کی، لیکن وہ ہم بچوں میں ممتاز بن جاتی، تاہم کل بھی ہمیں یہ غم رہتا تھا کہ ہم کبھی اچھا ڈھول نہیں بجا سکے کہ گانے والے گروپ میں نمایاں ہوتے اور آج بھی ڈھول بجا نہیں سکتے، لیکن ڈھول پیٹ ضرور سکتے ہیں۔ بلکہ کبھی کبھی والدہ ماجدہ ہماری آواز کو 'پھٹا ہوا ڈھول' ضرور کہہ دیتی ہیں۔

سو اُس روز بھی ہم نے پوری کوشش سے تالیاں بجانے اور بڑوں کے گیتوں میں اپنی پتلی سی آوازوں سے ساتھ دینے، کچھ ہلکی پھلکی لڈی ڈال لینے اور آخر میں ہو، ہو کے نعرے لگانے کی پوری کوشش کرتے کہ بڑی باجیاں ہمیں ڈھول پکڑنے دیں، لیکن اب 'عمر کا تقاضا' ہے اور چھوٹوں کی مجبوری کہ ہماری دھونس اور دھمکی سننا پڑے اور ہمیں مرکزی جگہ مل سکے گی۔

ہاں تو ہم اپنی ہم سائے 'منی باجی' کی شادی اور گیتوں کا احوال سنا رہے تھے۔ ایک تو ان کے گھر سے دیوار ملی ہوئی تھی اور پھر وہ اپنے گھر کی اکلوتی بیٹی تھیں۔ گھر کی پہلی اور محلے کی بیٹیوں میں آگے بڑھ کر کام کرنے کا رجحان اور روایت موجود تھی۔ پھر ماحول بھی اچھا تھا اور کچھ ہماری عمر پتھر مار مار کر جامن اور کیریاں توڑنے کی تھی۔ بچے تھے لہٰذا مغرب سے پہلے پہلے تک گھر سے باہر رہنے کی اجازت حاصل تھی۔ پھر گھر کے آس پاس کی گلیاں تو گھر کا آنگن سی تھیں۔ جہاں کہیں ڈر نہیں تھا۔ آج سوچیے بھی تو حیران ہوتے ہیں۔


'منی باجی' کی شادی کی تیاریاں تو بڑے کر رہی رہے تھے، لیکن روزانہ کی بنیاد پر ہم بچے ڈھول پیٹنے لگتے اور بڑی باجیاں بھی ہماری بے سری تانوں کو دبانے کے لیے خود چلی آتیں۔ یعنی آٹھ دس لڑکیوں کی ایک ٹولی جمع ہو جاتی، جو ڈھول اور دف لے کر بیٹھ جاتا۔ اور ہم تالیاں بجانے والے چھوٹے سے ٹولہ کا حصہ بن جاتے۔ وہ شاید ہماری گرمیوں کی چھٹیاں تھیں، اس لیے ہمیں ان کی شادی کا ہر دن یاد ہے۔ مہندی کے گیتوں سے لے کر مہندی پر دولھا والوں سے 'کھٹ پھٹ' بھی۔ اور انھیں چھیڑنے کے لیے گایا ہوا گیت بھی کہ:

کیسے کالے پیلے آئے ہیں وہ رہے بھیا... ناچ میری بلبل تجھے پیسہ ملے گا!

ہاں تو ذکر ہے، منی باجی کی شادی کا، ہمیں چھٹی کے دن ان کے گھر میں جوڑا کٹائی کی رسم تک یاد ہے اور یہ بھی بڑے بوڑھوں نے چند گیت بھی گائے تھے اور ہمیں مٹھائی بھی ملی تھی۔ یہ بھی ہماری یادوں کا حصہ ہے، ہماری ایک کزن کا گروپ شادی بیاہ کے گانوں کا بڑا ماہر تھا۔ ایک بہن ڈھول پکڑ لیتی اور باقی بہنیں اونچی 'لے' میں گیت گاتیں۔ ان کی تالیاں بھی ہمیشہ ایک جیسی ہی ہوتیں۔ ہم بس ان کا ساتھ دینے کی اپنی سی کوشش کرتے۔ ان کی ایک بہن ہماری سہیلی تھی، لہٰذا گانوں کی وہ کاپی کبھی کبھی ہمارے ہاتھ میں بھی آجاتی۔

آج بھی اگر ہماری یہ والی کزن کسی تقریب میں موجود ہوں، تو ڈھول انھیں ہی ملتا ہے۔ اور ہم آج بھی تالیاں ہی ٹھیک اور چند گانے گاتے اوردوسرے گیت کا ٹکڑا بتاتے پائے جاتے ہیں۔ اب ہمیں بھی پورے پورے گیت تو نہیں، چند ایک بول ہی یاد رہ گئے ہیں۔ جیسا کہ:

پیتل کے دو چار گھنگرو، نین سے نین بجا دوں گی !

جامن کے پیڑ تلے کھویا میرا بٹوا

میں تو پھلوا پہنانے آئی آج رے۔

میرے نہر سے آج مجھے آیا یہ پیلا چوڑا، یہ ہری ہری چوڑیاں

بلاؤ درزی، کٹاؤ جوڑا، دولھا کی اماں سے کہہ دینا۔۔۔ مبارک ہو، مبارک ہو۔

بنّو تیرے باوا کی اونچی حویلی بو میں۔۔۔۔

ہاتھ میں سرخ گلاب بنی کا بنڑا۔۔۔

مہندی سے لکھ دو ری، ہاتھوں میں سَکھیوں میرے سانوریا کا نام

آڑھا پاجامہ، ریشم کا کمر بند، سَیاں کہاں گئے تھے؟

یقیناً آپ میں سے بہت سے لوگوں کو مایوں لگانا، یا جیسے ابٹن کھیلنا کہتے تھے، لیکن یہ سب ہمیں کم یاد ہے، کیوں کہ یہ بڑی باجیوں کے شوق تھے۔ ہاں ہمیں مہندی کے تھال سجانا اور دولھا والوں کے ہاں انھیں پکڑ کے لے جانا خوب یاد ہے۔ آپ یقین نہ کیجیے، لیکن اس زمانے میں مہندی اپنی اپنی بساط کے مطابق خوب سجائی جاتی تھی، بلکہ دونوں طرف گیتوں اور گانوں کے مقابلوں کے ساتھ مہندی سجانے کا بھی مقابلہ ہوتا تھا۔

ساتھ ہی گھر بھر کے لوگ، چھوٹے بڑے، بالخصوص خواتین، بچیاں اور لڑکیاں بالیاں، گانوں گانوں میں ہی زندگی بھر کے لیے ایسی یادیں رقم کر جاتی تھیں، ایسے موقعوں پر بن بیاہی بچیوں کی لَجاجت اور شرم وحیا کی بات الگ ہوتی تھی اور سہاگنوں کے اعتماد اور انداز کچھ اور ہی ہوتے تھے، ایک طرف ہنسی مذاق اور قہقہوں کی گونج ہوتی تھی، تو دوسری طرف ایک دوسرے کے لیے سچے جذبات بھی ادا کیے جاتے۔

اب سوچیے تو کیسا وقت تھا کہ ہمارے دل بھی ایک دوسرے سے کبھی اتنے میلے نہیں ہوتے تھے اور ایسی بے تکلفانہ محفلوں میں اور اجلے ہوئے جاتے تھے۔ الغرض کتنا لکھیے، کہ یہ تو ایک لمبی کہانی ہے۔ بچپن شاید نہیں یقیناً ہر ایک ہی کا سہانا ہوتا ہے۔ امید ہے کہ آپ کو ہماری یہ بھولی بسری یادیں پسند آئی ہوں گی۔
Load Next Story