روسی تیل کی فراہمی کے سلسلے میں روسی وفد آج پاکستان پہنچے گا
پاکستانی حکومت نے اکتوبر میں 60 ڈالر فی بیرل کی سطح پر روس سے طویل المیعاد معاہدہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا
روس سے خام تیل کی درآمد کے معاہدے میں ڈیڈ لاک دور کرنے کیلیے روسی وفد آج پاکستان پہنچے گا۔
پاکستان ریفائنری لمیٹڈ کے حکام نے اکتوبر میں رشین انرجی فورم کی سائیڈ لائن پر روسی حکام سے باہمی انڈر اسٹینڈنگ سے تیل کی فراہمی کے طویل المدتی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
تاہم، مذاکرات کے دوران روسی حکام پرائس کیپ کی حد میں طویل المدتی معاہدہ کرنے پر تیار نہیں تھے، جس سے مذاکرات میں تعطل آگیا تھا اور اسی تعطل کو دور کرنے کیلیے روسی وفد آج پاکستان پہنچے گا۔
واضح رہے کہ یورپی یونین اور امریکا نے یوکرائن جنگ کے تناظر میں روسی تیل پر 60 ڈالر فی بیرل کا پرائس کیپ مقرر کیا تھا، واشنگٹن نے پرائس کیپ کی حد میں رہتے ہوئے روسی تیل خریدنے کیلیے پاکستان کی حمایت کی تھی جبکہ روس نے پرائس کیپ کو مسترد کردیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور روس کے درمیان تیل کی خریداری کا طویل المدتی معاہدہ طے پاگیا
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کسی ایسے معاہدے کا حصہ نہیں بنے گا، جس سے پرائس کیپ کی خلاف ورزی ہوتی ہو اور جو امریکی پابندیوں کا باعث بن سکتا ہو، پچھلی بار کارگو کے فریٹ چاجز بھی روس نے ادا کیے تھے، اگر روس فریٹ چارجز کی ادائیگی سے انکار کرتا ہے تو بھی معاہدہ ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
پاکستانی حکومت نے اکتوبر میں 60 ڈالر فی بیرل کی سطح پر روس سے طویل المیعاد معاہدہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، پاکستان چاہتا ہے کہ تیل کی سپلائی پر آنے والے فریٹ چارجز بھی روس ادا کرے، تاہم پاکستان نے حکومت ٹو حکومت معاہدہ کرنے کی بجائے کمرشل بنیادوں پر تجارتی کمپنی پاکستان ریفائنری لمیٹڈ ( پی آر ایل) کو معاہدہ کرنے کی اجازت دی، جس کے بعد پی آر ایل نے رواں برس دسمبر میں کارگو لانے کیلیے ایک طویل المدتی معاہدہ کی۔
پی آر ایل کو دونوں ممالک نے ایک معاہدے کے تحت پروکیورنگ ایجنسی کے طور پر نامزد کیا تھا، پی آر ایل روس سے تجارتی بنیادوں پر اس طرح تیل کی خریداری کرے گی کہ پاکستان کے عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی بھی نہ ہو، ریفائنری قبل ازیں کامیابی کے ساتھ ایک لاکھ ٹن روسی تیل درآمد کرچکی ہے، جس پر اسے منافع بھی حاصل ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: یکم دسمبر سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑی کمی متوقع
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان روس سے مسلسل تیل درآمد کرے تو پھر فائدہ ہوسکتا ہے، پچھلی بار کارگو آزمائشی بنیادوں پر منگوایا گیا تھا، جو دیگر کے مقابلے میں 7 ڈالر فی بیرل سستا تھا، روسی تیل سے 32 فیصد ہائی اسپیڈ ڈیزل اور 50 فیصد فرنس آئل پیدا ہوا تھا، جبکہ عربی تیل سے 45 فیصد ہائی اسپیڈ ڈیزل اور 25 فیصد فرنس آئل تیار ہوتا ہے۔
ابتدائی طور پر پی آر ایل نے 50 فیصد روسی تیل کو اتنی ہی مقدار میں عربی تیل سے ملایا، لیکن پھر 35 فیصد روسی تیل اور 65 فیصد عربی تیل کو ملایا گیا تو نتائج بہتر رہے اور فرنس آئل کی پیداوار کم ہوگئی۔
واضح رہے کہ ابھی تک پاکستان کا عربی تیل پر انحصار ہے، لیکن روس کی شکل میں پاکستان کو ایک اور موقع ہاتھ آیا ہے، جبکہ پی آر ایل نے اپنی پیداواری صلاحیت کو 50 ہزار بیرل یومیہ سے بڑھا کر ایک لاکھ بیرل یومیہ کرنے کیلیے کام شروع کر دیا ہے اور اس مقصد کیلیے تعمیراتی کام کرانے کیلیے ایک کمپنی کو ٹھیکہ بھی دے دیا ہے۔
پاکستان ریفائنری لمیٹڈ کے حکام نے اکتوبر میں رشین انرجی فورم کی سائیڈ لائن پر روسی حکام سے باہمی انڈر اسٹینڈنگ سے تیل کی فراہمی کے طویل المدتی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
تاہم، مذاکرات کے دوران روسی حکام پرائس کیپ کی حد میں طویل المدتی معاہدہ کرنے پر تیار نہیں تھے، جس سے مذاکرات میں تعطل آگیا تھا اور اسی تعطل کو دور کرنے کیلیے روسی وفد آج پاکستان پہنچے گا۔
واضح رہے کہ یورپی یونین اور امریکا نے یوکرائن جنگ کے تناظر میں روسی تیل پر 60 ڈالر فی بیرل کا پرائس کیپ مقرر کیا تھا، واشنگٹن نے پرائس کیپ کی حد میں رہتے ہوئے روسی تیل خریدنے کیلیے پاکستان کی حمایت کی تھی جبکہ روس نے پرائس کیپ کو مسترد کردیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور روس کے درمیان تیل کی خریداری کا طویل المدتی معاہدہ طے پاگیا
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کسی ایسے معاہدے کا حصہ نہیں بنے گا، جس سے پرائس کیپ کی خلاف ورزی ہوتی ہو اور جو امریکی پابندیوں کا باعث بن سکتا ہو، پچھلی بار کارگو کے فریٹ چاجز بھی روس نے ادا کیے تھے، اگر روس فریٹ چارجز کی ادائیگی سے انکار کرتا ہے تو بھی معاہدہ ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
پاکستانی حکومت نے اکتوبر میں 60 ڈالر فی بیرل کی سطح پر روس سے طویل المیعاد معاہدہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، پاکستان چاہتا ہے کہ تیل کی سپلائی پر آنے والے فریٹ چارجز بھی روس ادا کرے، تاہم پاکستان نے حکومت ٹو حکومت معاہدہ کرنے کی بجائے کمرشل بنیادوں پر تجارتی کمپنی پاکستان ریفائنری لمیٹڈ ( پی آر ایل) کو معاہدہ کرنے کی اجازت دی، جس کے بعد پی آر ایل نے رواں برس دسمبر میں کارگو لانے کیلیے ایک طویل المدتی معاہدہ کی۔
پی آر ایل کو دونوں ممالک نے ایک معاہدے کے تحت پروکیورنگ ایجنسی کے طور پر نامزد کیا تھا، پی آر ایل روس سے تجارتی بنیادوں پر اس طرح تیل کی خریداری کرے گی کہ پاکستان کے عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی بھی نہ ہو، ریفائنری قبل ازیں کامیابی کے ساتھ ایک لاکھ ٹن روسی تیل درآمد کرچکی ہے، جس پر اسے منافع بھی حاصل ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: یکم دسمبر سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بڑی کمی متوقع
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان روس سے مسلسل تیل درآمد کرے تو پھر فائدہ ہوسکتا ہے، پچھلی بار کارگو آزمائشی بنیادوں پر منگوایا گیا تھا، جو دیگر کے مقابلے میں 7 ڈالر فی بیرل سستا تھا، روسی تیل سے 32 فیصد ہائی اسپیڈ ڈیزل اور 50 فیصد فرنس آئل پیدا ہوا تھا، جبکہ عربی تیل سے 45 فیصد ہائی اسپیڈ ڈیزل اور 25 فیصد فرنس آئل تیار ہوتا ہے۔
ابتدائی طور پر پی آر ایل نے 50 فیصد روسی تیل کو اتنی ہی مقدار میں عربی تیل سے ملایا، لیکن پھر 35 فیصد روسی تیل اور 65 فیصد عربی تیل کو ملایا گیا تو نتائج بہتر رہے اور فرنس آئل کی پیداوار کم ہوگئی۔
واضح رہے کہ ابھی تک پاکستان کا عربی تیل پر انحصار ہے، لیکن روس کی شکل میں پاکستان کو ایک اور موقع ہاتھ آیا ہے، جبکہ پی آر ایل نے اپنی پیداواری صلاحیت کو 50 ہزار بیرل یومیہ سے بڑھا کر ایک لاکھ بیرل یومیہ کرنے کیلیے کام شروع کر دیا ہے اور اس مقصد کیلیے تعمیراتی کام کرانے کیلیے ایک کمپنی کو ٹھیکہ بھی دے دیا ہے۔