سندھ بورڈ گیارہویں جماعت کی ’’اسلامیات‘‘ ایک جائزہ

کتاب میں طلبا کےلیے موضوعات کو احسن انداز میں بیان کیا گیا ہے


اسلامیات کی کتاب کا سلیبس قومی نصاب برائے 2006 سے ماخوذ ہے۔ (فوٹو: فائل)

سندھ بورڈ نے حال ہی میں اسلامیات کی کتاب برائے جماعت گیارہویں، شائع کی، جس پر ابھی 'آزمائشی اشاعت' لکھا ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔ سابقہ اسلامیات کی کتاب (2002 کے قومی نصاب کے مطابق) کے برعکس 'نئی کتاب' میں موضوعات کو تفصیل کے ساتھ سمیٹا گیا ہے۔ سابقہ کتاب اتنی 'مختصر' تھی کہ جس کو پڑھا کر کچھ نہ کچھ 'تشنگی' باقی رہ جاتی تھی۔ طلبا کے چہروں پر بھی سوالات رہ جاتے تھے، تاہم! ایک استاد کی طلبا کو 'علم' دینے کے ساتھ ساتھ وقت پر 'سلیبس پورا کرنا بھی' اصل ذمے داری ہوتی ہے۔ اس نئی کتاب میں موضوعات کہاں سے لیے گئے ہیں؟ آئیے! اس پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہیں۔


نئی کتاب کے تمام موضوعات اصل میں قومی نصاب برائے 2006 سے ماخوذ ہیں۔ چند الفاظ کے ردوبدل کے ساتھ تمام موضوعات قومی نصاب برائے 2006 سے لیے گئے ہیں۔ اس نصاب میں کل چار موضوعات تھے، جن میں؛ قرآن، حدیث، موضوعاتی مطالعہ اور ہدایت کے سرچشمے/ مشاہیرِ اسلام شامل تھے۔ ان موضوعات کی تفصیلات کچھ اس طرح سے ہیں:


باب اول ،قرآنِ مجید: قرآنِ مجید کو دیکھا جائے تو اس کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا؛ ایک، تعارف جس میں مفہومِ وحی اور اس کے نزول کی صورتیں، جمع و تدوینِِ قرآنِ مجید۔ دوسرا، ترجمہ و تشریح جس میں سورۃ البقرۃ (آیات 1 تا 39) اور سورۃ الانفال (مکمل) ہے۔


باب دوم، حدیث: حدیث کو دیکھا جائے تو اس کو بھی دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، ایک، حدیث کی حفاظت، تدوینِ حدیث اور حجتِ حدیث
دوسرا، منتخب احادیث (20 منتخب احادیث دی گئی ہیں)


باب سوم، موضوعاتی مطالعہ: موضوعاتی مطالعہ کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے، الف: ایمانیات [توحید: تعارف و وجودِ باری تعالیٰ اور توحید کے دلائل (قرآن و سنت کی روشنی میں)، عقیدۂ توحید کے انسانی زندگی پر اثرات۔ عقیدۂ رسالت: تعارف، منصبِ رسالت کے اوصاف (بشریت، وہبیت، عصمت، نزولِ وحی)، رسالتِ محمدیؐ کی خصوصیات (جامعیت، ابدیت، عملیت، عالمگیریت، ختمِ نبوت)، ایمان بالرسالت کے تقاضے (محبت و اطاعت و اتباعِ رسولؐ)، فرشتوں پر ایمان: ملائکہ پر جامع نوٹ، چار فرشتوں کا تعارف اور ذمے داریاں (حضرت جبرائیل، حضرت میکائیل، حضرت اسرافیل، حضرت عزرائیل علہیم السلام، عقیدۂ آخرت: تعارف، تصورِ آخرت (قیامت، بعث بعد الموت، جزا و سزا)، عقیدۂ آخرت کے دلائل اور انسانی زندگی پر اثرات، الہامی کتابوں پر ایمان: تعارف (الہامی کتابیں)، قرآنِ مجید کی خصوصیات (آخری کتاب، حفاظتِ قرآن، اعجازِ قرآن، کامل ضابطۂ حیات)]
ب: عبادات، نماز: قرآن و سنت میں اس کی اہمیت و فضیلت، زکوٰۃ: تعارف، قرآن و سنت میں اس کی اہمیت و فضیلت، نصاب اور مصارف۔
روزہ: تعارف، قرآن و سنت میں اس کی اہمیت و فضیلت، رمضان المبارک کے فضائل اور شبِ قدر۔ حج: تعارف، قرآن و سنت میں اس کی اہمیت و فضیلت، مناسکِ حج اور زیارتِ مدینہ منورہ اور عمرہ۔
ج: سیرتِ طیبہ/ اسوۂ حسنہ: حضرت محمدؐ بحیثیتِ رحمت اللعالمین (بچوں، عورتوں، غلاموں، یتیموں، مسکینوں، بوڑھوں، عام انسانوں اور حیوانات کےلیے رحمت)، حضرت محمدؐ بحیثیتِ معلم، منتظم، سپاہ سالار اور منصف۔
د: اخلاق و آداب، 1۔ اخلاق و آداب میں؛ صبرو استقلال، عفوو درگزر، عدل و انصاف، اخوتِ اسلامی، حقوق العباد (غیر مسلموں کے حقوق)، حقوقِ نسواں۔
باب چہارم، ہدایت کے سرچشمے/ مشاہیرِ اسلام۔ اس باب میں پانچ شخصیات کا احاطہ کیا گیا ہے جن میں؛ امام جعفر صادقؒ، امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ شامل ہیں۔


دیکھا جائے تو قومی نصاب برائے 2006 میں توازن نظر آتا ہے، لیکن اس کے باوجود جب یہ نصاب آیا تو کچھ ہی وقت کے بعد اسے واپس لے لیا گیا اور دوبارہ 2002 کو نافذ کردیا گیا۔ اس وقت دوسرے صوبوں میں قومی نصاب برائے 2022 نافذالعمل ہے۔ تاہم! اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبائی خودمختاری کے تحت سندھ بورڈ نے 2006 کے نصاب برائے اسلامیات میں معمولی تبدیلی کے ساتھ اسے اپنے سلیبس میں شامل کرلیا ہے۔


سندھ بورڈ نے جو تبدیلیاں اپنی کتاب کی تالیف کے پیشِ نظر رکھیں، اُن میں 'منتخب احادیث' پندرہ سے بڑھا کر بیس کردی گئیں۔ اسی طرح موضوعاتی مطالعہ میں شامل حصہ 'د' میں موجود موضوعات میں سے چند موضوعات کے ناموں میں معمولی سا ردو بدل کیا گیا ہے، جیسے کہ 'صبرو استقلال' کی جگہ 'صبرو استقامت' اور 'حقوقِ نسواں' کی جگہ 'عورتوں کے حقوق' اور 'اخوتِ اسلامی' کی جگہ 'مسلمانوں کے باہمی حقوق' کا نام دیا گیا ہے۔


بحیثیتِ مجموعی سندھ بورڈ نے کافی عرصے بعد اسلامیات کے حوالے سے طلبا کےلیے کتاب شائع کرکے ایک عمدہ کاوش کی ہے، جس پر بورڈ کو مبارک باد دینے کے ساتھ اس کام کو سراہنا بھی چاہیے۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اگر عام قاری دین کے بنیادی مقدمات کو سمجھتا چاہتا ہے تو اس کتاب کو پڑھ کر کافی حد تک یہ سمجھ لیتا ہے کہ اصل میں دین ہے کیا؟ مثال کے طور پر تعارفِ قرآن میں، قرآنِ مجید کے صفاتی ناموں کو مختصراً مختصراً بیان کردیا گیا ہے (صفحہ نمبر 2)۔ اسی طرح قرآنِ مجید سے متعلق لکھا ہے کہ


''قرآنِ مجید انسانوں کی مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ قرآنِ مجید کے مطابق زندگی گزارنے سے فرد اور سماج پر درج ذیل طریقوں سے قرآنی تعلیمات اپنے اثرات مرتب کرتی ہیں: مضبوط عقیدہ رکھنا، لین دین میں حلال اور حرام، جائز اور ناجائز کا دھیان رکھنا، سماجی تعلقات کی مضبوطی، بری باتوں سے بچنا اور اچھائیوں کو اختیار کرنے، قرآنِ مجید کی بہت سی آیات میں سائنسی حقائق نہایت جامع اور واضح انداز میں بیان ہوئے ہیں، مرج البحرین والا معجزہ، کائنات پھیلتی ہے، انگلیوں کے پوروں کے نشانات...'' (ص، 3-4)۔


سابقہ اسلامیات کی کتاب میں قرآنِ مجید کے سائنسی معجزات کے حوالے سے کچھ بھی نہیں لکھا گیا تھا، جو کہ یقیناً سائنس اور جدید ٹیکنالوجی کے دور میں طلبا کےلیے استفادے کا باعث بنے گا۔ اور دین اور قرآنِ مجید کی حقیقت واضح ہوگی۔


اسی طرح وحی کے باب میں 'وحی' کی تفصیلات طلبا کے اذہان کے مطابق دی گئی ہیں، جیسے 'وحی خفی' اور 'وحی جلی' وغیرہ۔


سورتوں کے حوالے سے 'سورۃ البقرہ کی ابتدائی 39 آیات اور سورۃ الانفال مکمل (مختصراً) تفسیر کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ ہر باب کے اختتام پر 'کثیر الانتخابی سوالات' بھی دیے گئے ہیں تاکہ طلبا کی امتحانات کے حوالےسے تیاری بھی ہوسکے۔ ایک اچھی بات یہ ہے ہر سبق کے ساتھ 'ہدایت برائے اساتذہ' جلی حروف میں لکھا گیا ہے جس میں واضح کردیا گیا ہے کہ موضوع کے حوالے سے طلبا سے کس طرح کام کروانا ہے۔ مثال کے طور پر سورۃ الانفال کی آیات 15 اور 16، جن میں دورانِ جنگ پیٹھ نہیں دکھانے کا حکم دیا گیا ہے، ساتھ ہی استثنائی حالات بھی بیان کردیے گئے ہیں جیسے کہ 'حکمتِ عملی کے پیشِ نظر' دشمن کو دکھانے کت لیے پیچھے ہٹا جاسکتا ہے۔ صفحہ نمبر 39 پر ہدایت برائے اساتذہ میں لکھا ہے کہ 'جنگ کے دوران پیچھے ہٹنے کی جو صورتیں مجاہد کےلیے درست ہیں ان کے بارے میں مباحثے کے بعد تحریر کیجیے۔' اس مشق کا فائدہ طلبا کو تو ہوگا ہی، ساتھ ہی اساتذہ کی علمی استعداد بھی بڑھے گی۔


تاہم! سورۃ البقرۃ کی تفسیر کو مزید کھولنا چاہیے تھا اور مختلف تفاسیر کی روشنی میں بطورِ خاص جدید تفاسیر سے استفادہ کرتے ہوئے اہم نکات کتاب میں سپردِ قرطاس کرنے چاہیے تھے، جیسے کہ، تخلیقِ کائنات، عرش، قصۂ تخلیقِ آدم، آدم کو نام سکھانا، وغیرہ وغیرہ۔ سچ تو یہ ہے کہ کتاب میں موجود تفسیر میں طلبا کےلیے کوئی جاذبیت نہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ جدید سائنٹیفک انداز اور روایات کی روشنی میں ٹیکسٹ بک میں تفسیر قلم بند کی جاتی جو اساتذہ اور طلبا، دونوں کےلیے معاون ثابت ہوتی۔


باب دوم جو کہ حدیث پر مشتمل ہے، اس میں حدیث کی اہمیت، حجتِ حدیث اور ساتھ ہی تدوینِ حدیث، جس میں تینوں کے ادوار کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی حدیث کے حوالے سے اس کتاب میں اہم بات 'اقسامِ حدیث' ہے۔ اس میں حدیث کی مشہور اقسام جیسے کہ 'حدیثِ متواترہ'، 'مشہور'، عزیز، 'غریب'، 'حدیثِ صحیح'، 'حدیثِ حسن'، 'حدیثِ مرسل'، 'حدیثِ ضعیف' اور 'حدیثِ موضوع' شامل ہیں۔ طلبا کو اس سطح پر یہ جاننا ضروری تھا کہ 'صحیح حدیث' اور 'ضعیف حدیث' وغیرہ کیا ہوتی ہیں۔ اس کتاب میں طلبا کےلیے آسانی کردی گئی ہے۔


باب سوم میں موضوعاتی مطالعہ جس میں عقائد کو وضاحت کے ساتھ بیا ن کیا گیا ہے، جیسے کہ توحید کے باب میں 'توحید کے عقلی دلائل قرآن ہی سے بیان کیے ہیں (ملاحظہ ہو، ص، 91) عقیدۂ رسالت میں، رسالت کا مفہوم، انبیائے کرام کی خصوصیات، رسالتِ محمدی کی خصوصیات میں تمام خصوصیات بشمول بطورِ خاص 'ختمِ نبوت' کو شامل کیا گیا ہے تاکہ طلبا جان سکیں کہ 'نبوت رسالت مآبؐ پر ختم ہوگئی۔' اہم بات یہ ہے کہ ختمِ نبوت سے متعلق نہ صرف مختصراً سوال موجود ہے بلکہ کثیرالانتخابی سوال بھی موجود ہیں تاکہ طلبا کے اذہان 'ختمِ نبوت' کے حوالے سے بالکل واضح رہیں۔


فرشتوں پر ایمان کے حوالے سے چار مشہور فرشتوں (حضرت جبرائیل، حضرت میکائیل، حضرت عزرائیل اور حضرت اسرافیل علیہم السلام) کے بارے میں تفصیلاً بیان کردیا گیا ہے۔ اسی طرح عقیدۂ آخرت کی اہمیت کو کتاب میں قرآن وحدیث کی روشنی میں مدلل انداز میں بیان کردیا گیا ہے (ملاحظہ ہو ص، 103 اور 104)۔ الہامی کتب پر ایمان کے باب میں بطورِ خاص قرآنِ مجید کی خصوصیات دلائل کے ساتھ لکھے گئے ہیں۔ عبادات میں 'نماز'، 'روزہ'، 'زکوٰۃ' اور 'حج' کے بارے میں قرآن و حدیث سے اس کی اہمیت و اثرات وغیرہ لکھ گئے ہیں۔


اسوۂ حسنہ میں سیرت کے لغوی و اصطلاحی معنی بیان کیے گئے ہیں۔ اکثر لوگ سیرتِ طیبہ بولتے تو رہتے ہیں، لیکن اگر پوچھا جائے کہ سیرت کے معنی کیا ہوتے ہیں؟ وہ نہیں بتا پاتے۔ کتاب میں سیرت کے لغوی و اصطلاحی معنی لکھ کر احسن اقدام کیا گیا ہے۔ اسی باب میں حضورؐ بحیثیتِ رحمت اللعالمین، بحیثیتِ معلم، مربی، منتظم، سپہ سالار اور منصف بیان کیا گیا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ اس کتاب میں جہاں حوالہ کی ضرورت پڑی، وہاں حوالہ دے دیا گیا۔ سیرت کے باب میں بھی جگہ جگہ حوالہ جات ملیں گے۔ بعض علمی حلقوں میں یہ بحث چل پڑی کہ سیرت کا باب بہت مختصر ہے، اس میں مزید اضافہ ہونا چاہیے تھا۔ اس بات پر غور کیجیے کہ 'اسلامیات' بطورِ لازمی مضمون پڑھایا جاتا ہے، جس میں تمام موضوعات کو سمیٹ کر مختصر، مدلل اور جامع انداز میں کتاب تالیف کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک اور بات ذہن میں رہے قومی نصاب میں ابتدائی جماعتوں سے لے کر بارہویں تک 'سیرت النبیؐ' کا کچھ نہ کچھ حصہ ہر جماعت میں شامل کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر نویں اور دسویں جماعتوں کےلیے موجودہ سندھ ٹیکسٹ بورڈ کی اسلامیات میں سیرت النبیؐ کا جو حصہ ڈالا گیا ہے، اس میں؛ 1۔ بعثتِ نبوی، 2۔ دعوت و تبلیغ، 3۔ ہجرتِ مدینہ اور غزوات، 4۔ خصائل و شمائل نبویؐ۔ شامل ہیں۔ تاہم! جو موضوعات دیے گئے ہیں اگر استاد انھیں صحیح طریقے سے پڑھائیں اور دورانِ لیکچر سیرت کی کتابوں کے حوالے بھی دیتے جائیں تو طلبا سیرت کے باب سے نہ صرف استفادہ کرسکتے ہیں بلکہ اُن کا مطالعۂ ذوقِ سیرت میں بھی اضافہ ہوگا۔


اخلاق و آداب کے باب میں تمام موضوعات (صبر و استقامت، عفوو درگرز، عدل اور انصاف، اسلامی اخوت، حقوق العباد، عورتوں کے حقوق اور مسلمانوں کا باہمی اتحاد) کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر عورتوں کے حقوق کے بارے میں کتاب میں لکھا ہے کہ


''مناسب تعلیم اور تربیت ہر مسلمان کا حق ہے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ ذاتی زندگی کے بہتر معیار اور گھر بچوں کی دیکھ بھال اور تعلیم کےلیے دینی تعلیم مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کا بھی حق ہے۔ تاہم ہر علاقے اور محلے کی معاشرتی ضروریات کے مطابق، خواتین کو دعوت و تبلیغ، علاج و معالج، مالیاتی، معاشرتی بہتری، ترقی کےلیے تعلیم و تربیت کےلیے تیار کرنا شریعت کے خلاف نہیں اور ان تمام شعبو ں میں عملی طور پر خواتین اپنی خدمات، تقریر، تحریر، تدریس اور تحقیق کی صورت میں کرسکتی ہیں'' (ص، 158)


باب چہارم جس کا نام ہدایت کے سرچشمے/ مشاہیرِ اسلام ہے، اس میں پانچ شخصیات کو شامل کیا گیا ہے جن میں؛ حضرت امام جعفر صادق، حضرت امام ابو حنیفہ، حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ شامل ہیں۔


ان شخصیات کو شامل کرنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ طلبا کو سب پہلے یہ معلوم ہوگا کہ فقہی مکاتب کے بانیان کون تھے؟ ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوگا کہ ان شخصیات کے حالاتِ زندگی کیا تھے، ان کی زندگی سے ہم کس طرح سبق سیکھ سکتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ مثلاً، حضرت امام جعفر کے زہد و تقویٰ کے حوالے سے کتاب میں لکھا ہے کہ


''حضرت مالک بن انسؒ فرماتے ہیں کہ میں نے ہمیشہ حضرت جعفر صادقؒ کو تین حالتوں میں دیکھا؛ یا تو وہ روزے میں ہوتے یا نفل اور قیام میں یا کثرت سے ذکر میں'' (ص،164)


املا: کتاب میں کچھ جگہوں پر املا اور پروف کی اغلاط پائی گئی ہیں، جیسے کہ صفحہ نمبر 4 میں انگلیوں کے پوروں کے نشانات (فنگر پرنٹ) لکھا ہے اصل میں (فنگر پرنٹس) ہونا چاہیے تھا، وغیرہ۔


اوپر بیان کی گئی تمام تفصیلات کا ملخص کچھ یوں ہے:




  • قومی نصاب برائے 2006 گورنمنٹ سے تصدیق کے بعد کچھ ہی وقت بعد واپس لے لیا گیا اور دوبارہ 2002 کو نافذ کردیا گیا۔

  • سندھ بورڈ کی جانب سے شائع کردہ اسلامیات کی کتاب کا سلیبس قومی نصاب برائے 2006 سے ماخوذ ہے۔

  • سندھ بورڈ نے اپنے سلیبس میں معمولی سی تبدیلی کرکے کتاب شائع کی ہے۔

  • اس کتاب میں طلبا کےلیے موضوعات کو احسن انداز میں بیان کیا گیا ہے۔

  • سورۃ البقرۃ کی تفسیر کو جدید سائنٹیفک انداز سے تحریر کرنا چاہیے تھا۔

  • جہاں ضرورت پڑی وہاں حوالہ جات بھی دے دیے گئے تاکہ اس کی تصدیق بھی کی جاسکے۔

  • قرآنِ مجید کے حوالے سے اس کے معجزات کو بھی بیان کردیا گیا ہے تاکہ سائنس کے اس جدید دور میں طلبا قرآن اور سائنس سے ہم آہنگ رہیں۔

  • حدیث کے حوالے سے حدیث کی اہم اقسام کو بھی کتاب میں شامل کرلیا گیا تاکہ طلبا یہ سمجھ سکیں کہ 'ضعیف' سے مراد کیا ہے؟ وغیرہ۔

  • سابقہ کتاب کے برعکس اس کتاب میں موضوعات کو تفصیل سے لکھا گیا ہے۔

  • شخصیات کو شامل کرکے واضح کردیا گیا کہ طلبا فقہی مکاتب کو سمجھ سکیں۔


بحیثیتِ مجموعی یہ کتاب طلبا کےلیے دینِ اسلام کو سمجھنے اور سیکھنے کے حوالے سے کافی مفید ثابت ہوگی۔ بہتری کی گنجائش ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک بات اور ذہن میں رہے کہ ہر چیز ہماری خواہش کے مطابق نہیں ہوتی۔ نصاب جب بنتا ہے تو اس کے بعد جو بھی کتاب کی تالیف کرتا ہے، وہ نصاب کا پابند ہوتا ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ کتاب آنے والے وقتوں میں طلبا کے دینی فہم میں اضافے، لگاؤ، محبت اور عمل میں اضافہ کرے گی۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔