طفیل ہوشیار پوری کے مشہور فلمی گیت
ان کی شاعری میں جہاں وطن پرستی تھی وہاں محبت کے شعلوں کی آنچ بھی محسوس ہوتی تھی
کسی زمانے میں فلم سازوہدایت کار انور کمال پاشا کی سپرہٹ فلم '' سرفروش'' کا ایک گیت بڑا مقبول ہوا تھا اور تقریباً ہر دوسرے تیسرے دن پاکستان کے ہر ریڈیو اسٹیشن سے نشر ہوا کرتا تھا، جس کے بول تھے:
اک چور اک لٹیرا
بس کر مری نظر میں
دل لے گیا ہے میرا
اک چور اک لٹیرا
اس فلم کے گیت طفیل ہوشیار پوری نے لکھے تھے اور اس گیت نے اپنے زمانے میں بڑی دھوم مچائی تھی۔ قتیل شفائی، تنویر نقوی کے درمیان میں طفیل ہوشیار پوری بھی فلمی گیت نگاروں کی صف میں شامل ہوگئے تھے اور پھر ایک طویل عرصے تک فلمی دنیا سے وابستہ رہے۔
اس سے پہلے کہ میں طفیل ہوشیار پوری کے فلمی گیتوں کی طرف آؤں ان کی کچھ ابتدائی زندگی ان کی ادبی جدوجہد کا بھی تذکرہ کرتا چلوں۔ طفیل ہوشیار پوری کی پیدائش تو سیالکوٹ میں ہوئی تھی مگر ان کے خاندان کا تعلق ہوشیار پور سے تھا۔
انھوں نے اپنے آباؤ اجداد کے شہرکو اپنے نام سے وابستہ رکھا اور اپنے نام ہی کو تخلص کے طور پر بھی استعمال کیا۔ ان کے والد درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ تھے اور پھر طفیل ہوشیار پوری نے بھی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس شعبے سے وابستگی اختیار کی اس دور میں لاہور شعر و ادب کا بھی گہوارا تھا۔
ادبی محفلیں اور مشاعرے بھی خوب ہوا کرتے تھے اور طفیل ہوشیار پوری نے بھی بحیثیت شاعر مشاعروں میں اپنے خوبصورت کلام سے بڑا نام پیدا کیا پھر وہ ریڈیو لاہور سے وابستہ ہوگئے اور وہ شاعر اور اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے آگے بڑھتے رہے اسی زمانے میں ان کی ملاقات استاد شاعر تاجور نجیب آبادی سے ہوگئی، جن کے لاہور میں بے شمار شاگرد تھے۔
پھر طفیل ہوشیار پوری نے بھی ان کی شاگردی اختیار کرلی اور آہستہ آہستہ ان کی شاعری میں گہرائی اور گیرائی آتی چلی گئی اور وہ اپنی محنت اور خوبصورت کلام کے ساتھ تاجور نجیب آبادی کے چہیتے شاگردوں میں شامل ہوگئے تھے ابھی ہندوستان کی تقسیم نہیں ہوئی تھی اور تحریک پاکستان بڑے زوروں پر تھی اس دور کا ہر مسلمان شاعر تحریک پاکستان سے جڑا ہوا تھا اور خاص طور پر نوجوان طبقہ سب سے زیادہ سرگرم تھا۔
طفیل ہوشیار پوری بھی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر کیے جانے والے جلسوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور اپنی پرجوش شاعری سے نوجوانوں کے دلوں کو گرماتے تھے۔
ان کی ان تمام سرگرمیوں اور شاعری کی رپورٹ ریڈیو کے اعلیٰ افسران تک پہنچائی جاتی تھی پھر ان کو وارننگ دی گئی کہ اگر ریڈیو کی ملازمت کرنی ہے تو اپنی تمام سیاسی سرگرمیوں سے علیحدگی اختیار کرلی جائے یا پھر نوکری چھوڑ دی جائے کیونکہ یہ نوکری سیاست کی اجازت نہیں دیتی ہے۔
جب ان پر ریڈیو کے اعلیٰ افسران کا دباؤ بڑھتا گیا تو انھوں نے ریڈیو کی نوکری کو قربان کرکے تحریک پاکستان سے اپنی وابستگی مزید گہری کرلی تھی اور پھر وہ مسلم لیگ کے جلسوں میں سرگرمی کے ساتھ شرکت کرتے تھے اور اپنی شاعری سے لوگوں کے دلوں میں تحریک پاکستان کے جذبے کو مزید روشنی بخشتے تھے۔
ان کی شاعری میں جہاں وطن پرستی تھی وہاں محبت کے شعلوں کی آنچ بھی محسوس ہوتی تھی اور ان کی غزلوں میں ایک نغمگی بھی ملتی تھی۔ اس بات کو محسوس کرتے ہوئے ان کے ایک اداکار دوست سلیم رضا جو ان دنوں لاہور کی بیش تر فلموں میں اداکاری کر کے اپنا ایک مقام بنا چکے تھے انھوں نے طفیل ہوشیارپوری کو مشورہ دیتے ہوئے کہا ''آپ کی شاعری میں بڑا رومانس بڑی دلکشی ہے آپ فلمی گیت نگاری کی طرف بھی دلچسپی لیں تو آپ کی شہرت کے دروازے فلمی دنیا میں بھی کھلتے چلے جائیں گے '' اور پھر اداکار سلیم رضا ہی نے طفیل ہوشیار پوری کا تعارف اس دورکے مشہور فلم ڈائریکٹر ہربنس رائے سے کرایا۔
ان کو بھی طفیل ہوشیار پوری کی شاعری کو پسند کرتے ہوئے انھیں اپنی ایک فلم ریحانہ میں پہلی بار گیت لکھنے کا موقعہ فراہم کیا۔ یہ گیت اس دور کی گلوکارہ زینت بیگم نے گایا تھا۔ فلم کے مرکزی کرداروں میں منور اور سلیم رضا شامل تھے۔
یہ فلم تقسیم ہندوستان سے پہلے لاہور میں بنائی گئی تھی، اس فلم کے بعد واقعی طفیل ہوشیار پوری کی شہرت کے دروازے کھلتے چلے گئے تھے پھر انھوں نے فلم چپکے چپکے اور فلم پرائے بس میں کے لیے گیت لکھے پھر طفیل ہوشیار پوری نے لاہور چھوڑ کر بمبئی کی فلم انڈسٹری میں ڈیرے ڈال دیے تھے۔
اس دوران ہدایت کار ہربنس رائے نے گلنار کے نام سے ایک فلم بنانے کا اعلان کیا ابھی اس فلم کی کاغذی تیاریاں ہو رہی تھیں کہ ہندوستان کا بٹوارہ ہوگیا اور ہندو مسلم فسادات نے صورت حال بہت ہی خراب کردی تھی، ہر شہر میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہو گیا تھا، طفیل ہوشیار پوری تحریک پاکستان اور مسلم لیگ کے سرگرم رکن تھے۔
(جاری ہے)
اک چور اک لٹیرا
بس کر مری نظر میں
دل لے گیا ہے میرا
اک چور اک لٹیرا
اس فلم کے گیت طفیل ہوشیار پوری نے لکھے تھے اور اس گیت نے اپنے زمانے میں بڑی دھوم مچائی تھی۔ قتیل شفائی، تنویر نقوی کے درمیان میں طفیل ہوشیار پوری بھی فلمی گیت نگاروں کی صف میں شامل ہوگئے تھے اور پھر ایک طویل عرصے تک فلمی دنیا سے وابستہ رہے۔
اس سے پہلے کہ میں طفیل ہوشیار پوری کے فلمی گیتوں کی طرف آؤں ان کی کچھ ابتدائی زندگی ان کی ادبی جدوجہد کا بھی تذکرہ کرتا چلوں۔ طفیل ہوشیار پوری کی پیدائش تو سیالکوٹ میں ہوئی تھی مگر ان کے خاندان کا تعلق ہوشیار پور سے تھا۔
انھوں نے اپنے آباؤ اجداد کے شہرکو اپنے نام سے وابستہ رکھا اور اپنے نام ہی کو تخلص کے طور پر بھی استعمال کیا۔ ان کے والد درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ تھے اور پھر طفیل ہوشیار پوری نے بھی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس شعبے سے وابستگی اختیار کی اس دور میں لاہور شعر و ادب کا بھی گہوارا تھا۔
ادبی محفلیں اور مشاعرے بھی خوب ہوا کرتے تھے اور طفیل ہوشیار پوری نے بھی بحیثیت شاعر مشاعروں میں اپنے خوبصورت کلام سے بڑا نام پیدا کیا پھر وہ ریڈیو لاہور سے وابستہ ہوگئے اور وہ شاعر اور اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے آگے بڑھتے رہے اسی زمانے میں ان کی ملاقات استاد شاعر تاجور نجیب آبادی سے ہوگئی، جن کے لاہور میں بے شمار شاگرد تھے۔
پھر طفیل ہوشیار پوری نے بھی ان کی شاگردی اختیار کرلی اور آہستہ آہستہ ان کی شاعری میں گہرائی اور گیرائی آتی چلی گئی اور وہ اپنی محنت اور خوبصورت کلام کے ساتھ تاجور نجیب آبادی کے چہیتے شاگردوں میں شامل ہوگئے تھے ابھی ہندوستان کی تقسیم نہیں ہوئی تھی اور تحریک پاکستان بڑے زوروں پر تھی اس دور کا ہر مسلمان شاعر تحریک پاکستان سے جڑا ہوا تھا اور خاص طور پر نوجوان طبقہ سب سے زیادہ سرگرم تھا۔
طفیل ہوشیار پوری بھی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر کیے جانے والے جلسوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور اپنی پرجوش شاعری سے نوجوانوں کے دلوں کو گرماتے تھے۔
ان کی ان تمام سرگرمیوں اور شاعری کی رپورٹ ریڈیو کے اعلیٰ افسران تک پہنچائی جاتی تھی پھر ان کو وارننگ دی گئی کہ اگر ریڈیو کی ملازمت کرنی ہے تو اپنی تمام سیاسی سرگرمیوں سے علیحدگی اختیار کرلی جائے یا پھر نوکری چھوڑ دی جائے کیونکہ یہ نوکری سیاست کی اجازت نہیں دیتی ہے۔
جب ان پر ریڈیو کے اعلیٰ افسران کا دباؤ بڑھتا گیا تو انھوں نے ریڈیو کی نوکری کو قربان کرکے تحریک پاکستان سے اپنی وابستگی مزید گہری کرلی تھی اور پھر وہ مسلم لیگ کے جلسوں میں سرگرمی کے ساتھ شرکت کرتے تھے اور اپنی شاعری سے لوگوں کے دلوں میں تحریک پاکستان کے جذبے کو مزید روشنی بخشتے تھے۔
ان کی شاعری میں جہاں وطن پرستی تھی وہاں محبت کے شعلوں کی آنچ بھی محسوس ہوتی تھی اور ان کی غزلوں میں ایک نغمگی بھی ملتی تھی۔ اس بات کو محسوس کرتے ہوئے ان کے ایک اداکار دوست سلیم رضا جو ان دنوں لاہور کی بیش تر فلموں میں اداکاری کر کے اپنا ایک مقام بنا چکے تھے انھوں نے طفیل ہوشیارپوری کو مشورہ دیتے ہوئے کہا ''آپ کی شاعری میں بڑا رومانس بڑی دلکشی ہے آپ فلمی گیت نگاری کی طرف بھی دلچسپی لیں تو آپ کی شہرت کے دروازے فلمی دنیا میں بھی کھلتے چلے جائیں گے '' اور پھر اداکار سلیم رضا ہی نے طفیل ہوشیار پوری کا تعارف اس دورکے مشہور فلم ڈائریکٹر ہربنس رائے سے کرایا۔
ان کو بھی طفیل ہوشیار پوری کی شاعری کو پسند کرتے ہوئے انھیں اپنی ایک فلم ریحانہ میں پہلی بار گیت لکھنے کا موقعہ فراہم کیا۔ یہ گیت اس دور کی گلوکارہ زینت بیگم نے گایا تھا۔ فلم کے مرکزی کرداروں میں منور اور سلیم رضا شامل تھے۔
یہ فلم تقسیم ہندوستان سے پہلے لاہور میں بنائی گئی تھی، اس فلم کے بعد واقعی طفیل ہوشیار پوری کی شہرت کے دروازے کھلتے چلے گئے تھے پھر انھوں نے فلم چپکے چپکے اور فلم پرائے بس میں کے لیے گیت لکھے پھر طفیل ہوشیار پوری نے لاہور چھوڑ کر بمبئی کی فلم انڈسٹری میں ڈیرے ڈال دیے تھے۔
اس دوران ہدایت کار ہربنس رائے نے گلنار کے نام سے ایک فلم بنانے کا اعلان کیا ابھی اس فلم کی کاغذی تیاریاں ہو رہی تھیں کہ ہندوستان کا بٹوارہ ہوگیا اور ہندو مسلم فسادات نے صورت حال بہت ہی خراب کردی تھی، ہر شہر میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہو گیا تھا، طفیل ہوشیار پوری تحریک پاکستان اور مسلم لیگ کے سرگرم رکن تھے۔
(جاری ہے)