یخ بستہ گاؤں اور پریشان کسان
حال اور مستقبل کے حکمرانوں کو خبر ہو کہ پہاڑوں اور جنگلوں میں بسنے والے کسان بھی ان سے بہت ناراض ہیں
جب کبھی لاہور کی ہنگامہ خیز زندگی سے اکتاہٹ محسوس ہوتی ہے تو چند روز کے لیے گاؤں کا چکر لگا لیتا ہوں، آج کل لاہورمیں درختوں کے پتے گرد آلود ہو چکے ہیں اور فضاء سموگ کے باعث گدلی سے سیاہی مائل ہوکر ناقابل برداشت ہو چکی ہے تو گاؤں کے چند روز نعمت محسوس ہوتے ہیں جہاں کی صاف آب و ہوا میں سانس بحال ہو جاتی ہے۔
گاؤں کی مانوس گلیاں، کھیت اور سر سبز پہاڑ اس دیہاتی کی زندگی کا واحد سرمایہ ہیں لہٰذا جب بھی موقع ملتا ہے گاؤں کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ آج کل وادی سون میں جاڑے کا موسم زور پکڑ رہا ہے۔ شدید سردی اپنی آمد کا اعلان کر رہی ہے۔ وادی سون کے چاروں طرف پہاڑ ہیں، جنھیں دیکھ کر ہی جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے ۔
سورج ڈھلتے ہی سردی زور پکڑ لیتی ہے اور گاؤں کے باسی گھروں کے اندر گھس جاتے ہیں ۔ گاؤں میں سردی کا مقابلہ کرنے کا واحد ذریعہ آگ ہے جب کہ کپڑے بس عام سے ہوتے ہیں لیکن کسی بھی پہاڑی گاؤں کے باشندے سردی کا مقابلہ کرنے کی پہلے سے ہی تیاری کر رکھتے ہیں، سوکھی لکڑیوں کا ذخیرہ جمع کر لیا جاتا ہے جو سردی کا موسم تمام ہونے تک کافی ہو۔
آگ جلانے کے لیے گھر میں ایک مخصوص کمرہ ہوتا ہے جہاں پر چولہے کے ارد گرد بیٹھ کر سردی کا مقابلہ کیا جاتا ہے، اسی چولہے پر گھر کی خواتین ہانڈی روٹی کرتی ہیں، یہیں پر طعام کا بندو بست ہوتا ہے اور گھر والوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اسی گرم کمرے میں سویا بھی جائے لیکن یہ عیاشی بزرگوں کے حصے میں آتی ہے کہ انھیں سردی کی شدت سے بچانا زیادہ ضروری ہوتا ہے۔
گھر کے دوسرے کمروں میں چولہے سے کوئلے نکال کرانگیٹھی گرم کر لی جاتی ہے اور یوں کسی دوسرے کمرے میں سردی کی شدت کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ایسی ہی سردیوں کے ایک موسم میں ایک میراثی گاؤں کے چوہدری صاحب سے ملنے گیا،چوہدری صاحب نے اس کے اہل و عیال کی خیریت دریافت کی تو میراثی نے کہا، چوہدری جی! ویسے تو خیریت ہے لیکن آگ مکئی اور باجرے کی خشک ٹہنیوں کی ہے، جب جلتی ہے تو بھانبھڑ مچ جاتا ہے، شعلوں کی لپک اور تپش بہت تیز ہوتی ہے، اس سے بچنے کے لیے دور بیٹھنا پڑتا، جب یہ دھیمی ہوتی ہے تو آگے چلے آتے ہیں لیکن تھوڑی ہی دیر میں آگ ٹھنڈی پڑ جاتی ہے، ساری رات آگے پیچھے ہونے میں گذار دیتے ہیں ۔
سردیوں میں '' پھلائی ''کی لکڑی سب سے زیادہ کام آتی ہے، اس کی آگ اور تپش دیرپا ہوتی ہے جو اب زیادہ میسر نہیں ہوتی ۔ سردیوں میں لکڑیوں کی آگ سے کمرے میں ہلکا سا دھواں بھر جاتا ہے اور یہ دھواں دھار ماحول بڑا رومان پرور لگتا ہے۔
جنگل سے لکڑی اونٹوں پر لاد کر گاؤں لائی جاتی ہے لیکن اب انھوں نے لکڑی کے داموں میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ جنگلات کم ہورہے ہیں، لکڑی کی کمی ہمارے پہاڑی گاؤں میں بھی محسوس کی جارہی ہے ۔ سردیوں کی یخ بستہ راتوں میں یہ آگ ایک مجلسی رونق بن جاتی ہے عموماً لوگ گھروں اور داروں (بیٹھک یا ڈیرہ )میں اکٹھے ہو جاتے ہیں اور چائے پر رات گئے تک محفل جمی رہتی ہے۔سردیوں کے موسم میں گاؤں کے ''دارے'' کے اندر کمرے میں آگ کی حدت اور باہر سخت سردی، کمال کا ماحول بن جاتا ہے۔
نئی نسل تو اب بزرگوں کے ساتھ اس دھوئیں دھار ماحول میں بیٹھنے سے انکاری ہوتی جارہی ہے ،ان کی دلچسپی کے سامان اور ہوچکے ہیں، انٹر نیٹ نے گاؤں میں بھی انقلاب برپا کر رکھا ہے جس نے نوجوانوں کو علم سے زیادہ پروپیگنڈہ کا شکار کر رکھا ہے، چونکہ معلومات تک رسائی کا یہ سب سے آسان ذریعہ بن چکا ہے، اس لیے اب داروں یا ڈیروں اور بیٹھکوں میں داستان گوئی نہیں بلکہ کسی وی لاگ پر بحث ہوتی ہے جو کسی مخصوص سیاسی سوچ کی عکاس ہوتی ہے۔
گاؤں میں میرے چند دوست بھی رات دیر گئے تک عرفان کی دکان میں محفل سجائے بیٹھے رہتے ہیں جہاں پر خشک میوہ جات سے دوستوں کی تواضح کی جاتی ہے جن میں مونگ پھلی اور گڑ شامل ہے۔ مختلف سیاسی سوچ رکھنے والے دوستوں کی محفل میں خوب بحث و مباحثہ جاری رہتا ہے اور محفل کے اختتام پر مزید گفتگو کو کل پر اٹھا رکھا جاتا ہے۔
اس دفعہ چند بزرگوں سے ملاقات میں جو بات خاص طور پر محسوس ہوئی کہ لاہور اور اسلام آباد سے کوسوں دور پہاڑوں کی آغوش میں بسنے والے جفا کش کسان نہ صرف ملک کے موجودہ حالات سے پریشان ہیں بلکہ ان میں یہ فکر اور پریشانی بڑھتی جارہی ہے کہ آنیوالے حکمران اگر ہندوستان سے تازہ سبزیاں اور زرعی اجناس منگوانا شروع کر دیں تو ان مقامی کسانوں کا کیا ہو گا؟ کیونکہ وہ ماضی سے خوفزدہ ہیں کہ جب اجناس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے مقامی کسانوں کا معاشی استحصال کیا گیا تھا اور ہم نے لاہور کی مال روڈ پر کسانوں کی جانب احتجاجاً الٹائے گئے آلوؤں کے ڈھیرپڑے دیکھے تھے۔
حال اور مستقبل کے حکمرانوں کو خبر ہو کہ پہاڑوں اور جنگلوں میں بسنے والے کسان بھی ان سے بہت ناراض ہیں اور الیکشن کے منتظر ہیں ۔زرعی ملک میں کسان دوست پالیسیوں کی اشد ضرورت ہے اور کسان جو پہلے ہی ڈیزل، بجلی، کھادوں، بیجوں اور زرعی ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سے پریشان ہے۔
اس کی پریشانیوں کا مداوا حکومت کی جناب سے سولر سسٹم اور کسان کو فصل کی کاشت کے لیے مطلوبہ اجزاء کی ارزاں نرخوں پر فراہمی ضروری ہے تا کہ منڈیوں میں آڑھتی کسان کاجو استحصال کرتا ہے اس کا کسی حد تک مداوا ہو سکے ۔ان پریشان حال بزرگ کسانوں کی گفتگو کا لب لباب یہی تھا کہ گزشتہ دور حکومت میں ان کی اجناس کی نہایت ہی مناسب قیمت مل رہی تھی بجلی سستی تھی اور منڈی میں جنس کی قیمت بھی مناسب تھی جب کہ آج کی صورتحال اس کے برعکس ہے ۔
بہر حال کسی پہاڑی گاؤں کی سردی الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی، محسوس کی جا سکتی ہے لیکن اس کو برداشت کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے اور یہ سردی صرف وہی لوگ برداشت کر سکتے ہیں جو اس موسم میں پلے بڑھے ہوں اور ان کے جسم و جاں اس سردی سے مانوس ہوں۔
گاؤں کی مانوس گلیاں، کھیت اور سر سبز پہاڑ اس دیہاتی کی زندگی کا واحد سرمایہ ہیں لہٰذا جب بھی موقع ملتا ہے گاؤں کا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ آج کل وادی سون میں جاڑے کا موسم زور پکڑ رہا ہے۔ شدید سردی اپنی آمد کا اعلان کر رہی ہے۔ وادی سون کے چاروں طرف پہاڑ ہیں، جنھیں دیکھ کر ہی جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے ۔
سورج ڈھلتے ہی سردی زور پکڑ لیتی ہے اور گاؤں کے باسی گھروں کے اندر گھس جاتے ہیں ۔ گاؤں میں سردی کا مقابلہ کرنے کا واحد ذریعہ آگ ہے جب کہ کپڑے بس عام سے ہوتے ہیں لیکن کسی بھی پہاڑی گاؤں کے باشندے سردی کا مقابلہ کرنے کی پہلے سے ہی تیاری کر رکھتے ہیں، سوکھی لکڑیوں کا ذخیرہ جمع کر لیا جاتا ہے جو سردی کا موسم تمام ہونے تک کافی ہو۔
آگ جلانے کے لیے گھر میں ایک مخصوص کمرہ ہوتا ہے جہاں پر چولہے کے ارد گرد بیٹھ کر سردی کا مقابلہ کیا جاتا ہے، اسی چولہے پر گھر کی خواتین ہانڈی روٹی کرتی ہیں، یہیں پر طعام کا بندو بست ہوتا ہے اور گھر والوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اسی گرم کمرے میں سویا بھی جائے لیکن یہ عیاشی بزرگوں کے حصے میں آتی ہے کہ انھیں سردی کی شدت سے بچانا زیادہ ضروری ہوتا ہے۔
گھر کے دوسرے کمروں میں چولہے سے کوئلے نکال کرانگیٹھی گرم کر لی جاتی ہے اور یوں کسی دوسرے کمرے میں سردی کی شدت کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ایسی ہی سردیوں کے ایک موسم میں ایک میراثی گاؤں کے چوہدری صاحب سے ملنے گیا،چوہدری صاحب نے اس کے اہل و عیال کی خیریت دریافت کی تو میراثی نے کہا، چوہدری جی! ویسے تو خیریت ہے لیکن آگ مکئی اور باجرے کی خشک ٹہنیوں کی ہے، جب جلتی ہے تو بھانبھڑ مچ جاتا ہے، شعلوں کی لپک اور تپش بہت تیز ہوتی ہے، اس سے بچنے کے لیے دور بیٹھنا پڑتا، جب یہ دھیمی ہوتی ہے تو آگے چلے آتے ہیں لیکن تھوڑی ہی دیر میں آگ ٹھنڈی پڑ جاتی ہے، ساری رات آگے پیچھے ہونے میں گذار دیتے ہیں ۔
سردیوں میں '' پھلائی ''کی لکڑی سب سے زیادہ کام آتی ہے، اس کی آگ اور تپش دیرپا ہوتی ہے جو اب زیادہ میسر نہیں ہوتی ۔ سردیوں میں لکڑیوں کی آگ سے کمرے میں ہلکا سا دھواں بھر جاتا ہے اور یہ دھواں دھار ماحول بڑا رومان پرور لگتا ہے۔
جنگل سے لکڑی اونٹوں پر لاد کر گاؤں لائی جاتی ہے لیکن اب انھوں نے لکڑی کے داموں میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ جنگلات کم ہورہے ہیں، لکڑی کی کمی ہمارے پہاڑی گاؤں میں بھی محسوس کی جارہی ہے ۔ سردیوں کی یخ بستہ راتوں میں یہ آگ ایک مجلسی رونق بن جاتی ہے عموماً لوگ گھروں اور داروں (بیٹھک یا ڈیرہ )میں اکٹھے ہو جاتے ہیں اور چائے پر رات گئے تک محفل جمی رہتی ہے۔سردیوں کے موسم میں گاؤں کے ''دارے'' کے اندر کمرے میں آگ کی حدت اور باہر سخت سردی، کمال کا ماحول بن جاتا ہے۔
نئی نسل تو اب بزرگوں کے ساتھ اس دھوئیں دھار ماحول میں بیٹھنے سے انکاری ہوتی جارہی ہے ،ان کی دلچسپی کے سامان اور ہوچکے ہیں، انٹر نیٹ نے گاؤں میں بھی انقلاب برپا کر رکھا ہے جس نے نوجوانوں کو علم سے زیادہ پروپیگنڈہ کا شکار کر رکھا ہے، چونکہ معلومات تک رسائی کا یہ سب سے آسان ذریعہ بن چکا ہے، اس لیے اب داروں یا ڈیروں اور بیٹھکوں میں داستان گوئی نہیں بلکہ کسی وی لاگ پر بحث ہوتی ہے جو کسی مخصوص سیاسی سوچ کی عکاس ہوتی ہے۔
گاؤں میں میرے چند دوست بھی رات دیر گئے تک عرفان کی دکان میں محفل سجائے بیٹھے رہتے ہیں جہاں پر خشک میوہ جات سے دوستوں کی تواضح کی جاتی ہے جن میں مونگ پھلی اور گڑ شامل ہے۔ مختلف سیاسی سوچ رکھنے والے دوستوں کی محفل میں خوب بحث و مباحثہ جاری رہتا ہے اور محفل کے اختتام پر مزید گفتگو کو کل پر اٹھا رکھا جاتا ہے۔
اس دفعہ چند بزرگوں سے ملاقات میں جو بات خاص طور پر محسوس ہوئی کہ لاہور اور اسلام آباد سے کوسوں دور پہاڑوں کی آغوش میں بسنے والے جفا کش کسان نہ صرف ملک کے موجودہ حالات سے پریشان ہیں بلکہ ان میں یہ فکر اور پریشانی بڑھتی جارہی ہے کہ آنیوالے حکمران اگر ہندوستان سے تازہ سبزیاں اور زرعی اجناس منگوانا شروع کر دیں تو ان مقامی کسانوں کا کیا ہو گا؟ کیونکہ وہ ماضی سے خوفزدہ ہیں کہ جب اجناس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے مقامی کسانوں کا معاشی استحصال کیا گیا تھا اور ہم نے لاہور کی مال روڈ پر کسانوں کی جانب احتجاجاً الٹائے گئے آلوؤں کے ڈھیرپڑے دیکھے تھے۔
حال اور مستقبل کے حکمرانوں کو خبر ہو کہ پہاڑوں اور جنگلوں میں بسنے والے کسان بھی ان سے بہت ناراض ہیں اور الیکشن کے منتظر ہیں ۔زرعی ملک میں کسان دوست پالیسیوں کی اشد ضرورت ہے اور کسان جو پہلے ہی ڈیزل، بجلی، کھادوں، بیجوں اور زرعی ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سے پریشان ہے۔
اس کی پریشانیوں کا مداوا حکومت کی جناب سے سولر سسٹم اور کسان کو فصل کی کاشت کے لیے مطلوبہ اجزاء کی ارزاں نرخوں پر فراہمی ضروری ہے تا کہ منڈیوں میں آڑھتی کسان کاجو استحصال کرتا ہے اس کا کسی حد تک مداوا ہو سکے ۔ان پریشان حال بزرگ کسانوں کی گفتگو کا لب لباب یہی تھا کہ گزشتہ دور حکومت میں ان کی اجناس کی نہایت ہی مناسب قیمت مل رہی تھی بجلی سستی تھی اور منڈی میں جنس کی قیمت بھی مناسب تھی جب کہ آج کی صورتحال اس کے برعکس ہے ۔
بہر حال کسی پہاڑی گاؤں کی سردی الفاظ میں بیان نہیں کی جا سکتی، محسوس کی جا سکتی ہے لیکن اس کو برداشت کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے اور یہ سردی صرف وہی لوگ برداشت کر سکتے ہیں جو اس موسم میں پلے بڑھے ہوں اور ان کے جسم و جاں اس سردی سے مانوس ہوں۔