گرفتار ملزمان کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق لاہور ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ
صرف تفتیشی افسر کے بیان پر جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جاسکتا، عدالت کا مطمئن ہونا ضروری ہے، فیصلہ
گرفتار ملزمان کے جسمانی ریمانڈ کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ نے بڑا فیصلہ جاری کردیا، جس میں ملزمان کا جسمانی ریمانڈ دینے کے لیے نئے اصول وضع کیے گئے ہیں۔
عدالت نے ملزم منشا بم کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا کہ جسمانی ریمانڈ کے لیے ملزم کا کمرہ عدالت میں موجود ہونا ضروری ہے ۔ پیشی کے بغیر جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جاسکتا ۔ پولیس افسر کسی ملزم کو 24 گھنٹے کے اندر عدالت میں پیش کیے بغیر اپنے پاس نہیں رکھ سکتا ۔
عدالت نے قرار دیا کہ صرف تفتیشی افسر کے بیان کو بنیاد بنا کر کسی ملزم کا جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جاسکتا ۔ تفتیشی افسر کی جانب سے جب بھی ریمانڈ کی درخواست آئے تو مجسٹریٹ تمام حقائق کو مدنظر رکھ کر اپنے جوڈیشل مائنڈ کا استعمال کریں گے۔مجسٹریٹ جسمانی ریمانڈ کا فیصلہ کرتے وقت اپنی آبزرویشن کو عدالتی فیصلے کا حصہ بنائیں ۔
لاہور ہائی کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ مجسٹریٹ جسمانی ریمانڈ کا فیصلہ کرتے وقت کیس ڈائری اور متعلقہ دستاویزات کا مشاہدہ کریں ۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ملزم کا جرم سے تعلق بنتا ہے اور مزید تفتیش درکار ہے ۔ تفتیشی افسر جسمانی ریمانڈ میں توسیع مانگیں تو دیکھا جائے گزشتہ ریمانڈ پر کیا تفتیش ہوئی ۔ ملزم کو جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کا بھرپور موقع دیا جائے اور بیان ریکارڈ پر لایا جائے ۔
فیصلے میں عدالت نے مزید کہا کہ ملزم کے جسمانی ریمانڈ کے لیے عدالت کا مطمئن ہونا ضروری ہے۔ مجسٹریٹ کے فیصلے سے ملزم کی آزادی جڑی ہوتی ہے ۔ شہریوں کے حقوق کا تحفظ عدالتوں کا بنیادی فرض ہے ۔ ملک کی اعلیٰ عدالتوں نے بھی مجسٹریٹ کی جانب سے بغیر تحقیق ریمانڈ دینے کو نا پسند کیا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 9 شہریوں کی آزاد زندگی کے تحفظ کا ضامن ہے۔
عدالت عالیہ نے قرار دیا کہ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل کے مطابق دہشت گردی عدالت کے جج کو ریمانڈ کے لیے وجوہات بتانا ضروری نہیں۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر کا یہ بیان انتہائی غیر مناسب ہے اور قانون کی غلط تشریح ہے ۔ جسمانی ریمانڈ دیتے وقت ایڈمنسٹریٹو جج مجسٹریٹ کی طرح ایکٹ کریں گے ۔ ایڈمنسٹریٹریو جج کو ریمانڈ دیتے وقت مناسب وجوہات بتانا ہوں گی ۔
لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ موجودہ کیس میں ملزم کو 27 ستمبر کو جسمانی ریمانڈ کےلیے انسداد دہشت گردی کی عدالت پیش کیا گیا ۔ پولیس ڈائری میں ملزم کی 4 روز حوالگی سے متعلق کچھ درج نہیں ۔ موجودہ کیس میں ملزم کے خلاف ریکارڈ میں کچھ بھی نہیں ۔
جسٹس علی ضیا باجوہ اور جسٹس شہرام سرور پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے منشا بم کے جسمانی ریمانڈ کے خلاف تحریری فیصلے میں مزید کہا کہ اے ٹی سی جج نے بغیر حقائق جانے 4 مرتبہ جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی ۔ بظاہر یہ لگتا ہےکہ اے ٹی سی جج نے بغیر کیس ڈائری دیکھے لاپروائی میں جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی ۔ ملزم منشا بم کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے ۔
عدالت نے ملزم منشا بم کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا کہ جسمانی ریمانڈ کے لیے ملزم کا کمرہ عدالت میں موجود ہونا ضروری ہے ۔ پیشی کے بغیر جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جاسکتا ۔ پولیس افسر کسی ملزم کو 24 گھنٹے کے اندر عدالت میں پیش کیے بغیر اپنے پاس نہیں رکھ سکتا ۔
عدالت نے قرار دیا کہ صرف تفتیشی افسر کے بیان کو بنیاد بنا کر کسی ملزم کا جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جاسکتا ۔ تفتیشی افسر کی جانب سے جب بھی ریمانڈ کی درخواست آئے تو مجسٹریٹ تمام حقائق کو مدنظر رکھ کر اپنے جوڈیشل مائنڈ کا استعمال کریں گے۔مجسٹریٹ جسمانی ریمانڈ کا فیصلہ کرتے وقت اپنی آبزرویشن کو عدالتی فیصلے کا حصہ بنائیں ۔
لاہور ہائی کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ مجسٹریٹ جسمانی ریمانڈ کا فیصلہ کرتے وقت کیس ڈائری اور متعلقہ دستاویزات کا مشاہدہ کریں ۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ملزم کا جرم سے تعلق بنتا ہے اور مزید تفتیش درکار ہے ۔ تفتیشی افسر جسمانی ریمانڈ میں توسیع مانگیں تو دیکھا جائے گزشتہ ریمانڈ پر کیا تفتیش ہوئی ۔ ملزم کو جسمانی ریمانڈ کی مخالفت کا بھرپور موقع دیا جائے اور بیان ریکارڈ پر لایا جائے ۔
فیصلے میں عدالت نے مزید کہا کہ ملزم کے جسمانی ریمانڈ کے لیے عدالت کا مطمئن ہونا ضروری ہے۔ مجسٹریٹ کے فیصلے سے ملزم کی آزادی جڑی ہوتی ہے ۔ شہریوں کے حقوق کا تحفظ عدالتوں کا بنیادی فرض ہے ۔ ملک کی اعلیٰ عدالتوں نے بھی مجسٹریٹ کی جانب سے بغیر تحقیق ریمانڈ دینے کو نا پسند کیا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 9 شہریوں کی آزاد زندگی کے تحفظ کا ضامن ہے۔
عدالت عالیہ نے قرار دیا کہ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل کے مطابق دہشت گردی عدالت کے جج کو ریمانڈ کے لیے وجوہات بتانا ضروری نہیں۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر کا یہ بیان انتہائی غیر مناسب ہے اور قانون کی غلط تشریح ہے ۔ جسمانی ریمانڈ دیتے وقت ایڈمنسٹریٹو جج مجسٹریٹ کی طرح ایکٹ کریں گے ۔ ایڈمنسٹریٹریو جج کو ریمانڈ دیتے وقت مناسب وجوہات بتانا ہوں گی ۔
لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ موجودہ کیس میں ملزم کو 27 ستمبر کو جسمانی ریمانڈ کےلیے انسداد دہشت گردی کی عدالت پیش کیا گیا ۔ پولیس ڈائری میں ملزم کی 4 روز حوالگی سے متعلق کچھ درج نہیں ۔ موجودہ کیس میں ملزم کے خلاف ریکارڈ میں کچھ بھی نہیں ۔
جسٹس علی ضیا باجوہ اور جسٹس شہرام سرور پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے منشا بم کے جسمانی ریمانڈ کے خلاف تحریری فیصلے میں مزید کہا کہ اے ٹی سی جج نے بغیر حقائق جانے 4 مرتبہ جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی ۔ بظاہر یہ لگتا ہےکہ اے ٹی سی جج نے بغیر کیس ڈائری دیکھے لاپروائی میں جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی ۔ ملزم منشا بم کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے ۔