طفیل ہوشیار پوری کے مشہور فلمی گیت آخری حصہ
ان قومی گیتوں کا مجموعہ بھی ’’ سوچ مالا ‘‘ کے عنوان سے شایع کیا گیا تھا
ان کو بمبئی میں اپنی زندگی محفوظ نظر نہیں آ رہی تھی۔ ان کے بہی خواہوں اور دوستوں نے مشورہ دیا کہ وہ جتنی جلدی ہو سکے بمبئی سے نکل جائیں یہاں حالات بہت ہی خراب ہوتے جا رہے ہیں اور اس طرح طفیل چھپتے چھپاتے اور اپنی جان بچاتے ہوئے بمبئی چھوڑ کر لاہور آگئے تھے۔
لاہور کی فلم انڈسٹری جل کر راکھ ہو گئی تھی۔ پھر اس کو چند لوگوں نے نئی زندگی دی، ان میں بمبئی ہی سے آئے ہوئے اداکار و ہدایت کار نذیر اور ان کی بیگم سورن لتا بھی تھیں اور پھر 1948 میں لاہور میں پہلی پاکستانی فلم ''تیری یاد'' کے نام سے بنائی گئی۔ اس فلم کی ہیروئن آشا پوسلے اور ہیرو دلیپ کمار کے چھوٹے بھائی ناصر خان تھے۔
فلم تیری یاد میں قتیل شفائی اور طفیل ہوشیار پوری نے گیت لکھے تھے۔ فلم کے موسیقار آشا پوسلے کے والد عنایت ناتھ تھے۔
اس فلم کے بعد ہدایت کار نذیر کی فلم سچائی اور کئی پنجابی فلموں کے لیے گیت تحریر کیے جن میں لارے، شہری بابو، انوکھی داستان، صابرہ ہدایت کار لقمان کی فلم شاہدہ اور آغا جی، اے گل کی پنجابی فلم مندری بھی شامل تھی۔ 1950 کے دوران انھوں نے فلم شمی، انوکھی داستان، دو آنسو اور فلم بے قرار کے لیے گیت لکھے۔ فلم بے قرار میں ان کے گیتوں کو بڑی شہرت ملی تھی جن کی موسیقی ماسٹر غلام حیدر نے دی تھی۔ ایک گیت کے بول تھے:
او پردیسیا دل نہ لگانا
یہ گیت گلوکارہ منور سلطانہ نے گایا تھا اور دوسرا ہٹ گیت تھا:
دل کو لگا کے کہیں ٹھوکر نہ کھانا
ظالم زمانہ یہ ظالم زمانہ
یہ گیت ڈوئیٹ تھا جو منور سلطانہ اور گلوکار علی بخش ظہور کی آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس دوران کئی پنجابی فلموں کے لیے گیت لکھے جو گلوکار عنایت حسین بھٹی، گلوکارہ کوثر پروین کی آوازوں میں ریکارڈ کیے گئے تھے جنھیں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔
1957 میں مشہور ہدایت کار ڈبلیو۔زیڈ احمد نے فلم وعدہ کے نام سے بنائی تھی جس میں صبیحہ خانم اور سنتوش کمار مرکزی کرداروں میں تھے اس فلم کے موسیقار رشید عطرے تھے ان کے لکھے ہوئے جو گیت مشہور ہوئے ان کے مکھڑے تھے:
٭نین سے نین ملائے رکھنا
٭نظر نظر سے ملا لیں اگر اجازت ہو
٭شام سویرے نین بچھا کر راہ تکوں میں
٭لے چل اس منجدھار سے اے دل
ان گیتوں کو گلوکارہ زاہدہ پروین، فتح علی خان، کوثر پروین کی آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اب آتا ہوں میں نام ور فلم ساز و ہدایت کار انور کمال پاشا کی فلم سرفروش کی طرف۔ یہ اپنے دور کی بلاک بسٹر فلم تھی۔ اس کے موسیقار بھی رشید عطرے تھے۔
اس فلم کے گیت بڑے مقبول ہوئے تھے جو گلوکارہ منور سلطانہ اور زبیدہ خانم کی آوازوں میں ریکارڈ کیے گئے تھے، وہ گیت تھے:
٭اے چاند ان سے جا کے میرا سلام کہنا
٭میرا نشانہ دیکھے زمانہ
اک چور اک لٹیرا' بس کر میری نظر میں
دل لے گیا ہے میرا
یہ گیت ہندوستان سے آئی ہوئی اداکارہ میناشوری پر فلمایا گیا تھا جو بمبئی کی فلم انڈسٹری میں لارا لپا گرل کے نام سے مشہور تھی۔
فلم کے کچھ گیت اداکارہ صبیحہ خانم پر بھی فلمائے گئے تھے اور اسی فلم کے دوران صبیحہ سنتوش کمار کے رومانس کی ابتدا ہوئی تھی۔ طفیل ہوشیار پوری نے بعض فلموں میں کچھ خوبصورت غزلیں بھی لکھی تھیں جن کے بول ہیں:
٭آگ ایسی دلِ برباد تک آ پہنچی
٭ترے محلوں کی چھاؤں میں قرار اپنا لٹا بیٹھے
دردِ محبت سے بیگانے ہیں
لوگ بڑے دیوانے ہیں
٭تڑپ کر جاں لبوں پر آگئی کیا تم نہ آؤ گے
یہ غزلیں فلم لیلیٰ مجنوں، ہرجائی، محفل، رخسانہ اور فلم حاتم کے لیے ریکارڈ ہوئی تھی۔ طفیل ہوشیار پوری مشہور شاعر تھے ان کے کئی شعری مجموعے منظر عام پر آئے تھے جن میں شعلہ جام، جام مہتاب کو بڑی شہرت ملی تھی۔بے شمار قومی گیت بھی ریڈیو کے لیے لکھے تھے جو بعد میں ٹیلی وژن پر بھی آتے رہے۔
ان قومی گیتوں کا مجموعہ بھی '' سوچ مالا '' کے عنوان سے شایع کیا گیا تھا۔ ان کے علاوہ ان کی اپنی یادداشتوں پر مشتمل ایک کتاب بھی شعور سے شعور تک کے نام سے منظر عام پر آئی تھی مگر افسوس ان کو وہ مقام اور شہرت نہ مل سکی تھی جس کے وہ حق دار تھے۔ عمر کے آخری دنوں میں وہ بیمار ہوگئے تھے اور پھر بیماری ہی کی حالت میں 69 سال کی عمر میں اس دار فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔
لاہور کی فلم انڈسٹری جل کر راکھ ہو گئی تھی۔ پھر اس کو چند لوگوں نے نئی زندگی دی، ان میں بمبئی ہی سے آئے ہوئے اداکار و ہدایت کار نذیر اور ان کی بیگم سورن لتا بھی تھیں اور پھر 1948 میں لاہور میں پہلی پاکستانی فلم ''تیری یاد'' کے نام سے بنائی گئی۔ اس فلم کی ہیروئن آشا پوسلے اور ہیرو دلیپ کمار کے چھوٹے بھائی ناصر خان تھے۔
فلم تیری یاد میں قتیل شفائی اور طفیل ہوشیار پوری نے گیت لکھے تھے۔ فلم کے موسیقار آشا پوسلے کے والد عنایت ناتھ تھے۔
اس فلم کے بعد ہدایت کار نذیر کی فلم سچائی اور کئی پنجابی فلموں کے لیے گیت تحریر کیے جن میں لارے، شہری بابو، انوکھی داستان، صابرہ ہدایت کار لقمان کی فلم شاہدہ اور آغا جی، اے گل کی پنجابی فلم مندری بھی شامل تھی۔ 1950 کے دوران انھوں نے فلم شمی، انوکھی داستان، دو آنسو اور فلم بے قرار کے لیے گیت لکھے۔ فلم بے قرار میں ان کے گیتوں کو بڑی شہرت ملی تھی جن کی موسیقی ماسٹر غلام حیدر نے دی تھی۔ ایک گیت کے بول تھے:
او پردیسیا دل نہ لگانا
یہ گیت گلوکارہ منور سلطانہ نے گایا تھا اور دوسرا ہٹ گیت تھا:
دل کو لگا کے کہیں ٹھوکر نہ کھانا
ظالم زمانہ یہ ظالم زمانہ
یہ گیت ڈوئیٹ تھا جو منور سلطانہ اور گلوکار علی بخش ظہور کی آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس دوران کئی پنجابی فلموں کے لیے گیت لکھے جو گلوکار عنایت حسین بھٹی، گلوکارہ کوثر پروین کی آوازوں میں ریکارڈ کیے گئے تھے جنھیں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔
1957 میں مشہور ہدایت کار ڈبلیو۔زیڈ احمد نے فلم وعدہ کے نام سے بنائی تھی جس میں صبیحہ خانم اور سنتوش کمار مرکزی کرداروں میں تھے اس فلم کے موسیقار رشید عطرے تھے ان کے لکھے ہوئے جو گیت مشہور ہوئے ان کے مکھڑے تھے:
٭نین سے نین ملائے رکھنا
٭نظر نظر سے ملا لیں اگر اجازت ہو
٭شام سویرے نین بچھا کر راہ تکوں میں
٭لے چل اس منجدھار سے اے دل
ان گیتوں کو گلوکارہ زاہدہ پروین، فتح علی خان، کوثر پروین کی آوازوں میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اب آتا ہوں میں نام ور فلم ساز و ہدایت کار انور کمال پاشا کی فلم سرفروش کی طرف۔ یہ اپنے دور کی بلاک بسٹر فلم تھی۔ اس کے موسیقار بھی رشید عطرے تھے۔
اس فلم کے گیت بڑے مقبول ہوئے تھے جو گلوکارہ منور سلطانہ اور زبیدہ خانم کی آوازوں میں ریکارڈ کیے گئے تھے، وہ گیت تھے:
٭اے چاند ان سے جا کے میرا سلام کہنا
٭میرا نشانہ دیکھے زمانہ
اک چور اک لٹیرا' بس کر میری نظر میں
دل لے گیا ہے میرا
یہ گیت ہندوستان سے آئی ہوئی اداکارہ میناشوری پر فلمایا گیا تھا جو بمبئی کی فلم انڈسٹری میں لارا لپا گرل کے نام سے مشہور تھی۔
فلم کے کچھ گیت اداکارہ صبیحہ خانم پر بھی فلمائے گئے تھے اور اسی فلم کے دوران صبیحہ سنتوش کمار کے رومانس کی ابتدا ہوئی تھی۔ طفیل ہوشیار پوری نے بعض فلموں میں کچھ خوبصورت غزلیں بھی لکھی تھیں جن کے بول ہیں:
٭آگ ایسی دلِ برباد تک آ پہنچی
٭ترے محلوں کی چھاؤں میں قرار اپنا لٹا بیٹھے
دردِ محبت سے بیگانے ہیں
لوگ بڑے دیوانے ہیں
٭تڑپ کر جاں لبوں پر آگئی کیا تم نہ آؤ گے
یہ غزلیں فلم لیلیٰ مجنوں، ہرجائی، محفل، رخسانہ اور فلم حاتم کے لیے ریکارڈ ہوئی تھی۔ طفیل ہوشیار پوری مشہور شاعر تھے ان کے کئی شعری مجموعے منظر عام پر آئے تھے جن میں شعلہ جام، جام مہتاب کو بڑی شہرت ملی تھی۔بے شمار قومی گیت بھی ریڈیو کے لیے لکھے تھے جو بعد میں ٹیلی وژن پر بھی آتے رہے۔
ان قومی گیتوں کا مجموعہ بھی '' سوچ مالا '' کے عنوان سے شایع کیا گیا تھا۔ ان کے علاوہ ان کی اپنی یادداشتوں پر مشتمل ایک کتاب بھی شعور سے شعور تک کے نام سے منظر عام پر آئی تھی مگر افسوس ان کو وہ مقام اور شہرت نہ مل سکی تھی جس کے وہ حق دار تھے۔ عمر کے آخری دنوں میں وہ بیمار ہوگئے تھے اور پھر بیماری ہی کی حالت میں 69 سال کی عمر میں اس دار فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔